بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

چاراحمد اور دیوبند

چاراحمد اور دیوبند

دین اسلام‘ آخری آسمانی دین ہے، اس کی حفاظت کا ذمہ حق تعالیٰ شانہٗ نے خود اُٹھا رکھا ہے۔ اس حفاظت کے اللہ تعالیٰ کے ہاں مختلف طریقے ہیں، وہ حفاظت ِ دین کے لیے اپنی مخلوق میں سے کسی سے بھی کام لے لیتا ہے، بالخصوص اہل اسلام میں سے رنگ، نسل اور علاقہ وخطہ کی قید سے ماوراء جسے چاہے اپنے دین کی حفاظت کے لیے قبول فرمالیتا ہے۔ حضور a کی پیشین گوئی کے مطابق دین اسلام کا یہ حفاظتی دستہ ہردور میں لگاتار پیدا ہوتا رہے گا، جو دین میں غلو کرنے والے محرفین کی تحریفات اور باطل پرستوں کی غیر اسلامی، لادین چیرہ دستیوں سے دین اسلام کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بلاتعصب یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہند میں اس فریضۂ ایزدی کا مظہر تین طبقے ٹھہرے ہیں : ۱:… حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیv (متوفی:۱۰۷۹ھ- ۱۶۲۴ئ) اور ان کے خلفاء گرامی، جنہوں نے دین اکبری کی تحریفات سے دین اسلام کو محفوظ رکھنے میں اپنے مادی وروحانی سارے وسائل بروئے کارلائے۔ ۲:… حضرت شاہ ولی اللہ احمد دہلوی v(متوفی:۱۱۷۶ھ- ۱۷۶۲ئ) اور آپ کا خانوادۂ طیبہ جنہوں نے دین اسلام میں بے جا غلو، تشدد اور تعمق کرنے والے اہل اسلام کی اصلاح کی کوشش فرمائی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اور آپ کے خانوادے نے اپنے کسبی ووہبی علوم کے ذریعہ دین اسلام کی حقیقی تصویر پیش فرمائی اور دین کے نام پر غلو کرتے ہوئے بے دینی کی سرحدوں تک پہنچے ہوئے لوگوں کو واپس لانے کی سعی فرمائی۔ ۳:… تیسرا طبقہ علماء دیوبند کی صورت میں میدانِ عمل میں آیا، جو دفاعِ دین اور اشاعت ِ دین کے لیے دو ’’احمدوں‘‘ کے طریق کا جامع بن کر حضور a کی پیشین گوئی’’لاتزال طائفۃ من أمتی‘‘ کی صداقت ثابت ہوا۔ علماء دیوبند جن کا نظریاتی وجود تو ’’ماأنا علیہ وأصحابیؓ‘‘ کا تسلسل ہی ہے، مگر رسمی وشہودی وجود ۱۸۶۷ء مطابق ۱۲۸۳ھ میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کی صورت میں نمودار ہوا، جو سِرِّ تکوین کے تحت ’’لاتزال طائفۃ من أمتی‘‘ کے مصداق کے طور پر تاقیامت دین اسلام کے حفاظتی دستے کا کام دیتا رہے گا، ان کی دینی پیش قدمی کو کسی جابر کا جبر، کاذب کا کذب، بدخواہ کی بدخواہی اور انہیں تنہا کرنے والے کی کوشش ہرگز نہیں روک سکے گی، ان شاء اللہ! ہرچند علماء دیوبند کا ماضی اور حال شاہد ہے کہ وہ کسی جابر کے جبر سے مجبور ہوکر اپنے فریضہ سے کبھی لاتعلق نہیں رہے، بلکہ ہر محاذ پر جبابرہ کا مقابلہ اپنی قوتِ ایمانی اور تدبیر عمل سے کرتے رہے اور شیخ احمد سرہندیؒ کے پرچم کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ اور ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ میں اس سنہرے کردار کی جھلکیاں پڑھی جاسکتی ہیں اور یہی حال ان کے حال کا بھی ہے، اسی وجہ سے علماء دیوبند اور ان کے جانشین کبھی بھی بے دین حکمرانوں کے منظور نظر نہیں بن سکے، بلکہ ان کے جوروستم کے نشانہ پر رہے ہیں اور مختلف سازشوں اور پروپیگنڈوں کی زَد میں رہے ہیں۔ دوسری طرف علماء دیوبند نے دین اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنے والے گروہ کی اصلاح وفہمائش کا فریضہ بھی خوب انجام دیا۔ ہند میںیہ گروہ دو انتہاؤں پر منقسم تھا، ایک انتہاء یہ تھی کہ دین اسلام ہماری مذہبی شناخت کے لیے ناگزیر سہی، مگر اس کے پیش نظر چونکہ ۱۴؍ صدیاں پیشتر معاشرے کی اصلاح تھی، اس دور اور آج کے دور کے تقاضے مختلف ہیں اور آج کے دور کے تقاضے، ضرورتیں اور مسائل کیا ہیں؟ اس کی صحیح تشخیص مغربی فکر وفلسفہ کرسکتا ہے، آج کے دور کا معیار مغربی تہذیب وتمدن کے طورطریقے ہیں، لہٰذا دین اسلام کی ایسی تعبیر، تشریح اور تفہیم کی ضرورت ہے جو مغربی تمدن سے ہم آہنگ ہو، جس کا حاصل یہ بنتا ہے کہ قرآن وسنت کے الفاظ عربی رہیں اور معنی ومفہوم مغربی ہوں۔ اس خدمت کی انجام دہی کا سہرا اس شخص کے سر جاتا ہے جو نام میں حضرت مجدد کا ہم نام اور کام میں استشراق واعتزال کی سرحدوں سے دوچار گام آگے تھا، جسے دنیا سرسید احمد خان کے نام سے جانتی ہے۔ علماء دیوبند نے خان صاحب کا الحادی وتحریفی راستہ روکنے کی بھرپور کوشش فرمائی اور الحمد للہ! اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے، مگر اس فکری تصادم کے فطری نتیجے کے طور پر ملا اور مسٹر کی ایسی تفریق نے جنم لیا جو ہر میدان میں حریف بن کر آمنے سامنے ہوتے رہے اور علماء دیوبند کو اتہام، الزام اور بہتان طرازی کے ذریعہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا رہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہندی گروہ بندی کی دوسری انتہاء جو دین میں غلوّ، تشدد اور بے جاتعمق سے عبارت تھی، اس انتہاء پسندی کا اندازِ غلو‘ نصاریٰ کی غالیانہ رَوش کی عکاسی تک پہنچ رہا تھا۔ اس طبقے نے ذواتِ خاصہ میں ایزدی صفاتِ خاصہ ثابت کرنے کو عشقِ خاصان قراردیا تھا۔ بعض دیسی رسوم کو اولاً بدعت حسنہ قرار دے کر اپنایا، پھر دینی شعار وشوکت بتاکر عام کرنے کے درپے ہوگئے اور دین اسلام کے منہلِ صافی کو بدعات، رسومات اور قسما قسم خرافات سے مکدر کرنے کی بے شعور کوشش کی، اس گروہ کے سرخیل بھی شیخ احمد سرہندی اور شیخ احمد دہلوی کے ہم نام ہیں، مگر ان کا لاحقہ سرسید احمد خان کے لاحقے سے ملتا ہے، یہ شخص بریلی کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضان خان کہلاتے ہیں، جن کی بعض آراء وافکار سے اختلاف دینی اقتضاء تھا، علماء دیوبند نے ان کی بعض آراء پر علمی نقد کیا اور ان کے غلو اور تشدد کو دینی مضرت ہونے کی بناپر جب ناگوار وناروا قرار دیا تو خان صاحب موصوف فطری ضد وہٹ دھرمی سے دوچار ہوگئے اور انہوںنے علماء دیوبند کو نیچا دکھانے کے لیے ہر قسم کے وسائل استعمال کیے اور اپنا سارا علمی ترکش ان کے خلاف خالی کرنے کے لیے دن رات وار کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے ترکش کے آخری تیر تکفیر بن کر برسنے لگے اور انہوں نے ۱۹۰۶ء میں سفر حرمین کے دوران اس تکفیری آلودگی میں حرمین شریفین کے ایسے قابل احترام علماء کو بھی شامل کرنے کی کوشش فرمائی جو اردو نہیں جانتے تھے۔ ان کے سامنے بعض اکابر دیوبند کی مختلف اردو عبارتوں کو یکجا عبارت بناکر پیش کیااور بعض عبارتوں کو سیاق وسباق سے کاٹ کر خود ہی اس کی عربی بنائی اور علماء عرب کو اکابر دیوبند کے خلاف اپنا شریک نفرت اور سہیم تکفیر بنانے کی کوشش کی، اور علماء دیوبند کے خلاف ’’حسام الحرمین علٰی منحر الکفر والمین‘‘ کے نام سے ایک مفصل تکفیری فتویٰ مرتب کیا گیا، مگر طائفہ منصورہ ‘علماء حق کے خلاف جس طرح خان صاحب مرحوم کے انفرادی فتوے کارگر ثابت نہیں ہوسکے تھے، اسی طرح یہ اجتماعی فتویٰ بھی نہ صرف یہ کہ لایعنی ثابت ہوا، بلکہ ہندی نادانی‘ علماء حرمین کے لیے سبکی کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ حجازِ مقدس کی علمی دنیا میں رتبۂ مشیخت پر فائز تھے، آپ نے علماء حرمین کو خان صاحب موصوف کے مذکورہ کارِ خیر کی حقیقت بتائی، تو علماء حرمین نے علماء دیوبند سے براہِ راست استفسار کرنے کو علمی دیانت کا لازمی تقاضا سمجھا اور ان سے متعلق جو جو غلط، من گھڑت اور جھوٹے عقائد وافکار منسوب کیے گئے تھے ان کی وضاحت چاہی، بالخصوص ان عقائد کے بارے میں تحقیق احوال کی کوشش کی گئی جو نجدی علماء کے مخصوص عقائد تھے اور علماء دیوبند کی طرف منسوب کیے گئے تھے، جن کی کچھ تفصیل اگلے صفحات پر آرہی ہے۔ علماء دیوبند اور اس زمانے کے نجدی علماء کے درمیان اعتقادی وفکری ہم آہنگی ثابت کرنے کو تاریخ ساز اتہام قراردینا چاہیے، کیونکہ نجدی علماء کی سعودی عربی تحریک میں شمولیت اور اس تحریک کے حوالے سے علماء دیوبند کا موقف دوٹوک تھا۔ علماء دیوبند کے اس وقت کے سرخیل حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہٗ کی سیاسی تحریک میں خلافتِ عثمانیہ کا استحکام اولین ترجیح تھی، اسی ترجیح کی بنیاد پر تو آپ ۱۹۱۷ء میں حرمین شریفین کے مقدس سفر کے دوران گرفتار ہوکر مالٹا میں مقید ہوئے تھے، اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ نجدی تحریک کے معتوب لوگوں کو نجدی وہابی افکار کا حامل قراردینا چودہویں صدی کا کتنا بڑا سچ ہے؟ اس سچ کی سچائی کا رتبۂ بلند جاننے اور سمجھنے کے لیے اِک اور سچ کو اس کے ساتھ ملاکر سوچا جائے تو ان سچائیوں کی سچائیاں مزید نکھر کر سامنے آتی ہیں، وہ یہ کہ ہندوستان کے ہندؤوں اور سکھوں سے لے کر مغرب کے کافروں اور انگریزوں تک سب کو معلوم ہے اور یہ تاریخ کے ہر صفحہ پر ثبت ہے کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے محرک ومجاہد علماء دیوبند اور ان کے مشائخ ہی تھے، انگریزی دور کے باغی ومجرم یہی لوگ تھے، قیدوبند کی صعوبتیں انہوں نے ہی جھیلی، تختۂ دار اور پھانسی کے پھندے انہی کے لیے بنے تھے، توپوں کے دَھانوں پر باندھ کر انہی کے جسم چیتھڑے بنے تھے، خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے یہی لوگ دریابردہوئے تھے، شاملی سے لے کر بالاکوٹ تک اسی سلسلے کے شہداء آسودۂ خاک ہیں، اس کے باوجود اس ولی اللّٰہی جماعت کو انگریزوں کا ایجنٹ قراردیا جاتا ہے۔ عقل وخرد کی نعمت کا معمولی حصہ پانے والا انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دین اسلام کے تحفظ وبقاء کے لیے ہر قسم کے مصائب وآلام سے دوچار ہونے والے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے بھلا انگریز کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں؟ یا ان کے معاندین ومخالفین اور ان کو بدنام کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرنے والے تکفیری حضرات اس اعزاز کے زیادہ حق دار ٹھہرتے ہیں؟ سچ ہے کہ تاریخی حقائق زیادہ دیر دروغ گوئی کے دبیز پردوں میں چھپے نہیں رہ سکتے، جان نثاروں اور غداروں کا امتیاز بالآخر ہوکر رہتا ہے۔ الحمد للہ! ایسا ہی کچھ علماء دیوبند کے ساتھ بھی ہوا کہ ان کے علمی، عملی، تبلیغی، تصنیفی وتحقیقی کارنامے چاردانگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے معاندین چند رسوم اور اوہام لیے اپنی دنیا سنوارنے کی محنت شاقہ فرمارہے ہیں، اس سے فرصت مل جائے تو کسی کو گستاخ، کسی کو کافر بنانے کا دینی فریضہ بھی انجام دیتے رہتے ہیں، فترکہم فی ظلمٰت لایبصرون۔ ہرچند علماء دیوبند کے تحریکی وعملی کردار کو مسخ کرنے کے لیے ۱۹۰۶ء میں علماء حرمین کے ذریعہ جو سازش کی گئی تھی الحمد للہ! وہ بہت جلد ناکام ہوگئی۔ علماء حرمین نے علماء دیوبند اور علماء نجد کے فکری واعتقادی منہج کے درمیان امتیاز کے لیے ۲۶؍ سوالات کیے تھے جن کا جواب حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری قدس سرہٗ نے ’’المہند علی المفند‘‘ کی صورت میں لکھا تھا، جس پر اس دور کے چوبیس کبار علماء دیوبند نے دستخط فرمائے تھے اور اس مجموعہ کو علماء دیوبند اور علماء نجد کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر اور شام کے تقریباً تمام نامی گرامی اہل علم نے اس تحریر وتحقیق پر تائیدی دستخط ثبت فرمائے تھے، جس کی بناپر اس مجموعہ کے مندرجات علماء دیوبند کے عقائد کے عکاس ہی نہیں، بلکہ ترجمان ونشان کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ’’المہند علی المفند‘‘ (سٹھیائے ہوئے جھوٹے انسان پر ہندی تلوار) تو صرف علماء حرمین کے ۲۶؍ سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔ باقی خان صاحب مرحوم نے اکابر دیوبند کی جن عبارات کی بنیاد پر ’’حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین‘‘ میں دجل وفریب فرمایا تھا، اس کا مستقل جواب بھی کئی اکابر نے دیا ہے، بالخصوص شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی v نے ’’الشہاب الثاقب علی المفتری الکاذب‘‘ اور حضرت شیخ الاسلام کے ایک نامور شاگرد حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر v نے ’’عباراتِ اکابر‘‘ کے نام سے مفصل، مدلل، شستہ اور شائستہ جواب دیا ہے۔ ان دو ہستیوں کے علاوہ دیگر اکابر نے بھی ’’کفر ومین‘‘ کے سامنے قرآن وسنت کی شہادتوں کے ساتھ بند باندھنے کی کوشش فرمائی ہے۔ مگر ’’کفرومین‘‘ کے مقابلے میں ’’الشہاب الثاقب علی المفتری الکاذب‘‘ اور ’’عباراتِ اکابر‘‘ کا حوالہ دینے سے ہماری غرض یہ ہے کہ دونوں طرف کی کتابوں کے صرف ناموں پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کے کفر وایمان کا فیصلہ کرتے ہوئے بے احتیاطی کہاں پائی جارہی ہے اور احتیاط کے شرعی اصول کہاں ملحوظ رکھے گئے ہیں؟!۔  کسی بھی کلمہ گو کے کفر وایمان کا فیصلہ کرتے ہوئے علماء دیوبند نے ہمیشہ شرعی آداب اور علمی دیانت کو ملحوظ رکھا، موقع کا تقاضا اور جذبات کی مجبوری کے تحت اکابر دیوبند ترکی بہ ترکی، کفر کے جواب میں کفر کا فتویٰ دے سکتے تھے اور اس کے لیے فریق مخالف کی کتابوں سے شواہد کے انبار بھی لگائے جاسکتے تھے، مگر انہوں نے خان صاحب مرحوم اور ان کے کلمہ گو پیروکاروں پر کفر کا فتویٰ لگانے کی بجائے خود خان صاحب کے لیے ان کے فتوے ہی کو کافی سمجھا۔ تکفیر مسلم کی بابت یہی وہ اصول ہے جو اکابر دیوبند اپنے پیروکاروں کے لیے مقرر فرماکر گئے ہیں اور اس وقت سے تاحال اکابر دیوبند کے سنجیدہ اہل علم، پیروکار‘ اس اصول پر کاربند ہیں، اور اسی اصول پر کاربند رہنا دیوبندیت کی امتیازی علامت ہے۔نیز مجادلہ اور ممانعہ کے لیے علم ودیانت کا ہر حال میں پاس رکھنا دیوبندیت کا شعار ہے۔ ’’الشہاب الثاقب‘‘ کا تردیدی انداز اور ’’المہند ‘‘ کا وضاحتی اسلوب دیوبندی شناخت وشعار کا بہترین نمونہ ہیں۔ بنابریں ’’الشہاب الثاقب ‘‘ کے بعد ’’المہند ‘‘ کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ: ’’المہند علی المفند‘‘ دیوبندیت کی آسمانی دلیل تو نہیں، لیکن ارضی علامت ضرور ہے۔ یہ علامت، شناخت اور شعار‘ فکری واعتقادی زندگی کے دو محاذوں پر آپ کو دیوبندی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے:  ایک اس وقت جب علماء دیوبند اور علماء نجد کے درمیان اعتقادی امتیاز کا سوال اُٹھتا ہے۔ دوسرا اس وقت جب کسی مخالف، معاند اور ضنین کی طرف سے علماء دیوبند کے عقائد اور کردار پر وار ہورہا ہوتو علماء دیوبند کے پیروکاروں کا ردِ عمل کے لیے انداز کا تعین کرنے کی ضرورت پڑے، کیونکہ ظلم وتعدی کا جواب‘ ظلم وتعدی سے، گالی کا جواب گالی سے، جہالت کا جواب جہالت اور تکفیر کا جواب تکفیر سے دینا علماء دیوبند کا طریقہ ہرگز نہیں ہے۔  اشتعال انگیزی کا شکار بن کر فتنہ برپا کرنا اکابر دیوبند کا طرزِ عمل نہیں۔ علماء دیوبند کے اس طرزِ عمل کو سامنے رکھنا اس وقت اکابر دیوبند کے پیروکاروں کے لیے چیلنج بن چکا ہے، اس لیے کہ اس وقت دین کے کئی چور‘ دین کے کوتوالوں (علماء دیوبند) کو بڑی ڈھٹائی سے جذباتیت، تشدد پسندی اور تکفیریت جیسے اپنے اوصاف کے ذریعہ مطعون کررہے ہیں۔ مقام حیرت یہ ہے کہ جس طبقے نے اپنے علاوہ کسی کلمہ گو کو مسلمان نہ سمجھا تھا، آج وہ بھی علماء دیوبند کے پیروکاروں کو تکفیری سے موسوم کرتا نظر آتا ہے اور ان سے چارگام آگے وہ طبقہ زبان طعن دراز کرنے لگا ہے، جس نے نجوم ہدایت کی ایمانی کرنوں پر تکفیرگردی کو اپنا شعار بنارکھا تھا۔ اس نازک صورتِ حال میں علماء دیوبند کا وہ ردِ عمل ہمارے لیے معیارِ حق، معیارِ دین، معیارِ دیانت اور معیارِ شرافت کہلائے گا، جو انہوں نے خان صاحب مرحوم کی ’’حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین‘‘ کے جواب میں ظاہر فرمایا تھا، وہ ردِ عمل ’’المہند علی المفند‘‘ اور ’’الشہاب الثاقب‘‘ کی صورت میں موجود ہے، یہ کتابیں مخالفین کے ساتھ جوابی رویے اور اپنی وضاحت کے لیے معیارِ دیوبندیت ہیں۔ دوسری طرف سطورِ بالا میں وضاحت آچکی ہے کہ المہند کے سوالات وجوابات کی بنیاد علماء نجد اور علماء دیوبند کے درمیان اعتقادی قرب وبعد کے تعیّن وغیرہ پر رکھی گئی ہے۔اگر علماء دیوبند کی طرف منسوب کچھ حضرات ’’المہند علی المفند‘‘ کے مندرجات سے اتفاق نہ کرسکتے ہوں تو اس کا دوسرا مفہوم یہی بنتا ہے کہ وہ ان مندرجات کے حوالے سے علماء نجد سے متفق ہیں اور دیوبند کی نسبت کا دم بھرتے ہوئے علماء نجد سے اتفاق کا لازمی منطقی نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ بزعم خویش مولانا احمد رضا خان صاحب نے اکابر دیوبند پر جو اتہامات لگائے تھے، وہ صحیح تھے، اور علماء دیوبند کی وضاحت بے معنی تھی، اور یوں کہنا پڑے گا کہ علماء دیوبند گویا نجدی تحریک کے ہم نوا یا اس سے متأثر ضرور تھے، جبکہ ماضی اور حال شاہد ہے کہ دیوبندیت نجد اور بریلی کے درمیان اعتدال ووسطیت کا نام ہے۔نیز دیوبندیت دو احمدوں کی پیروی اور دو احمدوں کے طرزِ فکر وعمل سے دوری کا نام ہے۔ بہرکیف ہمارے وہ حضرات جو علماء دیوبند کے فکری اعتدال کی کڑیاں روایتی نجدی تشدّد کے ساتھ جوڑنے میں مصروف ہیں اور اپنی دیوبندیت پر اصرار بھی کرتے ہیں، ان کا رویہ ہی ایسا ہے جیسے جس شاخ پر بیٹھے ہوں اسے خود ہی کاٹ رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر دشمن کی دشمنی اور دوست کی نادانی سے بچائے، آمین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین