بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پگڑی کے متبادل طریقہ میں چند ترمیمات!

پگڑی کے متبادل طریقہ میں چند ترمیمات!

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:  تمام علماء اور فقہاء کے نزدیک پگڑی کے طور پر بیع وفروخت کا موجودہ طریقۂ کار حرام ہے، اس لیے کہ اس میں سود کا عنصر پایاجاتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ اگر اس طریقۂ کار کو تبدیل کرکے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کیا جائے تو کیا یہ شرعاً حلال ہے یا حرام؟مثلاً: اگر کوئی دکان پارٹنرشپ کی بنیاد پر کسی شخص کو بیچی جائے، ۷۵%( فیصد) خریدار کا اور ۲۵% (فیصد) مالک مکان کا ہو، شرائط یہ ہوںکہ: خریدار اس دکان کاقبضہ رکھے گا اور اس میں کاروبار کرے گا۔ اس کاروبار سے مالک مکان کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا اور وہ صرف اپنے ۲۵% (فیصد) حصہ کا کرایہ وصول کرے گا جوکہ عام طور پر کرائے کا ۲۵%( فیصد) ہوگا، یعنی اگر دکان کا کرایہ مارکیٹ میں ۰۰۰،۱۰ (دس ہزار روپے)ہے تو مالک مکان کو ۲۵۰۰ (پچیس سو روپے)ملیںگے۔ دکان کے کاروبار میں جو بھی نفع یا نقصان ہوگا، وہ خریدار کا ہوگا ۔  دکان بکنے کی صورت میں جو بھی نفع یا نقصان ہوگا، وہ اسی تناسب سے تقسیم ہوگا یعنی۲۵% (فیصد) اور ۷۵% (فیصد) مالک مکان اورخریدار کا بالترتیب۔  دکان کی فروخت میں جو رقم بھی آئے گی، اس میں سے خریدار کی رقم پہلے منہا کرکے اس کو واپس کردی جائے گی اور مالک مکان کاحصہ اس دکان میں منجمد رہے گا، اور جو بھی اگلا خریدار آئے گا‘ انہیں شرائط پر قائم رہے گا، یعنی۲۵% (فیصد) اور ۷۵% (فیصد) کی ترتیب پر۔  اگر کسی صورت میں دکان نقصان میں فروخت ہوتی ہے تومالک مکان اور خریدار اس نقصان کو ۲۵% (فیصد) اور ۷۵% (فیصد) کی بنیاد پر بالترتیب آپس میں تقسیم کریںگے۔ دکان کے کاغذات مالک مکان کے نام پر رہیںگے اور خریدار کو قبضہ تمام حقوق کے ساتھ دیا جائے گا۔                                                        مستفتی:محمد یعقوب میمن، کراچی الجواب باسمہٖ تعالٰی سوال میں مذکورہ صورت مندرجہ ذیل ترمیمات کے ساتھ جائز ہے: ۱:…خریدار کو اس بات کا پابند نہ بنایا جائے کہ وہ اس میں کاروبار کرے گا، بلکہ خریدار کو اپنی ۷۵% (فیصد) ملکیت میں ہرقسم کے جائز تصرفات کا حق ہوگا، مثلاً: اسے حق ہوگا کہ وہ کرائے پر آگے دے دے،یا اپنا حصہ اپنے پارٹنر یا کسی اور کو فروخت کرنا چاہے تو اسے یہ اختیار حاصل رہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: ’’(فیصح) البیع (بشرط یقتضیہ العقد… أولا یقتضیہ ولانفع فیہ لأحد) (کشرط أن لایبیع الدابۃ المبیعۃ) فإنہا لیست بأہل للنفع ۔‘‘                                  (رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،ج:۵،ص:۸۶،ط:سعید) ۲:…۷۵% (فیصد) دکان کا مالک صرف اپنے حصے کو بیچے، جس کے نفع ونقصان میں دوسرا فریق شریک نہیں ہوگا یا پوری دکان کو نفع ونقصان میں شرکت کے اعتبار سے بیچنے کے بعد اگر دوسرا خریدار اس بات پر راضی ہو کہ۲۵% (فیصد) میں پہلا مالک شریک ہوجائے تو ایسا کرناجائز ہے۔ اسی شرط پر پوری دکان بیچنا کہ بعد میں۲۵% (فیصد)  حصہ اصل مالک کا ہوگا، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جب پورا مکان/دکان فروخت کردی تو۲۵% (فیصد) والے کے لیے اپنا حصہ اپنے پاس رکھنے کا اختیار نہیں ہوگا، اس لیے یہ کہا جائے کہ۷۵% (فیصد) والا اپنا حصہ فروخت کردے، چاہے وہ ۲۵% (فیصد) والا لے لے یا کوئی تیسرا آدمی لے لے۔ فتاویٰ شامی میں ہے: ’’(و) لا (بیع بشرط… یقتضیہ العقد ولایلائمہ وفیہ نفع لأحدہما…‘‘                     (رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،ج:۵،ص:۸۵،۸۴،ط:قدیمی) ۳:…دکان کے کاغذات میں اس بات کی تصریح کرنی ہوگی کہ دکان میں دونوں فریقوں کی ملکیت ۷۵% (فیصد) اور ۲۵% (فیصد) ہے۔ یہ صحیح نہیں کہ کاغذات ابتدائی مالک کے نام ہوں اور خریدار کو صرف چند حقوق دیئے جائیں۔ بصورتِ دیگر اختیار کردہ طریقہ پگڑی سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس لیے ۷۵% (فیصد) خریدنے والا اگر دکان اپنے نام پر کرنا چاہے تو اس کو یہ اختیار ہوگا، ۲۵% (فیصد) والے کے لیے اس میں رُکاوٹ بننا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔ فقط اللہ اعلم            الجواب صحیح               الجواب صحیح                            کتبہ       محمد عبد المجید دین پوری         محمد انعام الحق                       محمد عمران ممتاز                                                               دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ                                                                 علامہ بنوری ٹاؤن کراچی  ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین