بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان کے خلاف اپنوں اور غیروں کے عزائم!

پاکستان کے خلاف اپنوں اور غیروں کے عزائم!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

۹؍ ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۰؍ جنوری بروز بدھ صبح کے وقت دھند اور تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کرکے ایک پروفیسر، ایک گارڈ سمیت ۲۵؍ افراد کو شہید اور چالیس سے زائد افراد کو زخمی کردیا۔ اس سانحہ پر پورا ملک سوگوار اور غم زدہ ہے۔ تمام دینی، مذہبی، سیاسی، سماجی اور عام افراد نے اس سانحہ کی مذمت کی اور اس سانحہ میں شہید ہونے والے طلبہ اور طالبات کے لواحقین کے غم کو اپنا غم سمجھا۔ یہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ کے ٹھیک ایک سال ایک ماہ اور چار دن بعد برپا کیا گیا۔ سانحہ پشاور کے بعد ایک ایکشن پلان بنایا گیا، جسے وضع اور ساخت کے دن سے ہی اگرچہ متنازعہ رکھا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اُسے قبول کیا، جس سے توقع ہوگئی تھی کہ شاید اس طرح دہشت گردی رُک جائے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے، لیکن ’’اے بساآرزو کہ خاک شدہ‘‘ کا مصداق ابھی تک پاکستان میں نہ دہشت گردی رُکی ہے اور نہ ہی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کوئی کمی آئی ہے۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی رکھنے والے حضرات وخواتین جانتے ہیں کہ سانحہ چارسدہ سے چند دن پہلے بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر نے بھارتی علاقہ پٹھان کوٹ کے واقعہ کے بعد کہا تھا کہ: ’’وہ اس حملے کا بدلہ پاکستان سے اس طرح لیں گے کہ اس کو دکھ پہنچے اور اس سال پاکستان کو سمجھ آجائے گا کہ بھارت دہشت گردی میں کہاں تک جاتا ہے۔‘‘ ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے اسٹیٹ یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’پاکستان وافغانستان کئی عشروں تک عدم استحکام کاشکار رہیں گے۔‘‘ ایک وقت تھا کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی: ایک بلاک سوویت یونین کا تھا، جس کی باگ ڈور روس کے ہاتھ میں تھی اور وہ کئی ممالک کو اپنے شکنجے میں لیتے ہوئے افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور دوسرا امریکی بلاک تھا، جس کی پیشوائی امریکہ کررہا تھا۔ روس کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان نے افغانستان میں برپا رُوسی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا اور ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا، جس سے روس کو عبرتناک شکست ہوئی۔ دو بلاکوں کی تقسیم ختم ہونے اور امریکہ کے فاتح وسپر پاور بننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ ہو یا افغانستان ہر دو ملک پاکستان کے احسان مند ہوتے، اس کے معاشی اور اقتصادی نقصانات کے ازالہ کی کوشش کرتے اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے ہر ممکن تعاون مہیا کرتے، لیکن اس کے برعکس آج افغانستان کی سرزمین پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہورہی ہے اور امریکہ بہادر بجائے اس دہشت گردی کی مذمت کرنے اور اس کے کرداروں پر قدغن لگانے کے اُلٹا یہ دھمکی دے رہا ہے کہ پاکستان کئی عشروں تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔بقول ایک صحافی بھائی کے کہ : سچ تو یہ ہے کہ وہ (امریکی صدر) کوئی پیشن گوئی نہیں کررہے، بلکہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ پاکستان ہو یا افغانستان، ترکی ہو یا شام، سعودی عرب ہو یا ایران، ہر جگہ فتنہ وفساد، قتل وغارت اور ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز بیانات یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے؟ اور کہاں سے ہورہا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے روزنامہ جنگ کے مشہور کالم نگار محترم جناب نصرت مرزا صاحب کے کالم بنام ’’پاکستان حملوں کی زَد میں ‘‘ کے چند اقتباسات کا پڑھنا ضروری ہے، موصوف لکھتے ہیں: ’’یہاں بھارت اور امریکہ کے علاوہ افغانستان کے کچھ عناصر سمیت کئی دوسرے ملکوں کا پاکستان کے خلاف مورچہ بنانے کا پروگرام ہے، اس لیے پاکستان‘ پاک چین اقتصادی راہداری بنارہا ہے، جس سے اس کی معاشی حالت بدل جائے گی، وہ اسٹرٹیجک خودمختاری اور اسٹرٹیجک کمپاس بناڈالے گا کہ اپنی مرضی سے کس سے دوستی کرے اور کس کو سزا دے۔ اس کے مقابلے میں بھارت خود کو سپر طاقت سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کو کھلے عام اور اعلان کرکے نقصان پہنچانے کی بات کررہا ہے۔ بھارت نے پاکستان اور افغانستان میں پنجے گاڑلیے ہیں اور اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک منظم کرلیا ہے۔ بھارت کے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈول یہ کہتے سنے گئے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نہیں بننے دیں گے، چاہے اس کے لیے انہیں داعش سے مدد ہی کیوں نہ لینا پڑے، وہ مدد شاید انہوں نے حاصل کرلی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کرانے کی مہم شروع کررکھی ہے جس سے امریکہ، بھارت اور دنیا کے کئی ممالک ناراض ہیں۔ ترکی نے ایسا کرنے کا کہا ہی تھا کہ اس کے ملک میں خودکش حملہ ہوگیا، انڈونیشا نے بھی ابھی یہ بات کہی ہی تھی کہ وہ مصالحتی کردار ادا کرنے کو تیار ہے تو اس کے ملک میں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملہ ہوگیا، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پھیلانا اور ان کو حالت جنگ میں لانا امریکی ومغربی منصوبہ ہے۔ اس لیے جو کوئی بھی اس میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کے ہاتھ جلادیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم اپنے ہمراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو لے کر اس مشن پر نکل پڑے اور تابڑ توڑ حملے شروع ہوگئے۔ یہ اس لیے نہیں ہوئے ہیں کہ ضرب عضب کام نہیں کررہا، بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ دشمنوں نے اپنی کارروائیاں بڑھادی ہیں، وہ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پاکستان کی کمزور جگہوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اسکولوں، یونیورسٹی پر حملہ کرنا شرمناک ہے اور یہ دہشت گرد یہ سب اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔ اچھا ہے کہ اب علمائے کرام نے کھل کر ان کی مخالفت شروع کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں میں تیزی کیا اس وجہ سے آئی ہے کہ بھارت پٹھان کوٹ کا بدلہ لے یا پھر چین پاکستان اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنا ہے یا پھر مصالحت کرانے کی کوشش کا شاخسانہ یا وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے درپے ہیں۔ ہمارے خیال سے یہ ساری باتیں یکجا ہوگئی ہیں ۔‘‘                                (روزنامہ جنگ، کراچی، ۲۵؍ جنوری ۲۰۱۶ئ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہشت گردوں کی ان بزدلانہ کارروائیوں کی بنا پر انتظامیہ نے ملک بھر کے تمام عصری و تعلیمی اداروں میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے اساتذہ کو مسلح ہونے، اسلحہ چلانے اور طلبہ کو دہشت گردوں سے بچنے کا طریقہ سکھلانے کے نام پر خوف وہراس پھیلادیا ہے، جس سے طلبہ خوف زدہ اور ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان اور ماؤف نظر آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک استاذ یا ایک طالب علم ذہنی طور پر پریشان ہوگا یا اس پر کوئی خوف طاری ہوگا تو وہ کس طرح پڑھا پائے گا یا پڑھ پائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے ان بچوں اور طلبہ کو تسلی دیتے، ان کو حوصلہ دیتے کہ دشمن کمزور ہورہا ہے، وہ اپنی جنگ ہارچکا ہے، جس کی بناپر وہ جاتے جاتے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو آزمارہا ہے، اس لیے آپ سب کو بہادر بننے کی ضرورت ہے، ہم اور آپ ملک کر ان دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ وزیرداخلہ محترم جناب چوہدری نثار علی خان نے درست فرمایا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے خلاف بندوق کی جنگ تو سیکورٹی اداروں کی کاوشوں سے جیت رہے ہیں، لیکن نفسیاتی طور پر ہاررہے ہیں۔ پنجاب میں اسکول بند کرکے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ خیبرپختون خوا نے اسکول بند نہ کرکے اچھی مثال قائم کی۔‘‘                                           (روزنامہ جنگ کراچی، ۲۹؍جنوری۲۰۱۶ئ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملکی اخبارات اور سوشل میڈیا میں یہ خبر آئی ہے کہ پنجاب حکومت نے تبلیغی جماعت کی دعوت وتبلیغ پر تعلیمی اداروں میں پابندی لگادی ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ دہشت گرد تبلیغی جماعت کے روپ میں ان اداروں میں گھس کر کارروائی کرسکتے ہیں۔ زمانہ اس قدر قائل ہوا ہے فیض جھوٹوں کا جو سچ کہتے ہیں ان کی ایک بھی مانی نہیں جاتی تبلیغی جماعت کوئی ایسی جماعت نہیں جس کی کارکردگی مخفی ہو یا ان کے ایسے عزائم ہوں جو کسی کو معلوم نہ ہوں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ پرامن جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتی ہے اور پوری دنیا کے انسانوں کے لیے وہ فکر کرتی ہے، وہ تو لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم سب کی دنیا اور آخرت کی پوری کی پوری کامیابی اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے اور رسول اللہ a کے طریقوں کو اپنانے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ a کے طریقے ہماری زندگی میں کس طرح آئیں گے؟ اس کے لیے ایک محنت کی ضرورت ہے۔اور مزید یہ کہ ان کی دعوت وتبلیغ کے نام پر محنت چھ نمبروں میں دائر رہتی ہے: ۱:۔۔۔۔۔کلمہ طیبہ، ۲:۔۔۔۔۔ علم، ۳:۔۔۔۔۔نماز، ۴:۔۔۔۔۔ذکر، ۵:۔۔۔۔۔اکرام مسلم، ۶:۔۔۔۔۔دعوت وتبلیغ۔ پھر ہر ایک کے فضائل بتائے اور سنائے جاتے ہیں، جس سے آدمی برضا ورغبت اپنی خوشی سے اس محنت کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ راہِ راست سے دور کتنا لوگ ان کی دعوت سے راہِ راست پر آگئے، بے نمازی‘ نمازی بن گئے، لٹیرے‘ امانت دار بن گئے، راہزن‘ راہبر بن گئے، جن کی مثالیں دینا شروع کریںتو کئی دفتر اور رجسٹر بھر جائیں گے۔ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ میں کسی کافر سے کافر ملک نے بھی تبلیغی جماعت پر یہ الزام نہیں لگایا کہ یہ منافرت پھیلاتے ہیں اور پاکستان بھر میں بھی کسی عقیدہ اور مسلک والے نے آج تک علانیہ تبلیغی جماعت کے بارہ میں یہ نہیں کہا کہ یہ فرقہ واریت پھیلاتے ہیں، مسلکی منافرت پھیلاتے ہیں یا ہمارے عقیدہ پر یہ تنقید کرتے ہیں۔ تبلیغی احباب تو حتیٰ الوسع دینی مسائل تک بتانے سے احتراز کرتے ہیں کہ اس سے دعوت والے کام میں فرق آتا ہے، لیکن آج مسلم لیگ کی پنجاب حکومت یہ کارنامہ سرانجام دے رہی ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی لگارہی ہے۔ ہر باشعور اور دانشمند آدمی سمجھتا ہے کہ یہ لبرل پاکستان بنانے کی بھونڈی کوشش ہے، جسے ایک عرصہ سے دھیرے دھیرے آگے بڑھایا جارہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ بیوروکریسی اور نوکر شاہی میں ایسے بے دین، بدعقیدہ، قادیانی اور ملحد لوگ ’’حکومتی شریفوں‘‘ پر حاوی ہوچکے ہیں جو انہیں دین کے خلاف، دینی جماعتوں کے خلاف، مسجد اور مدرسہ میں دینی تعلیم وتعلم میں مصروف طلبہ، علماء اور محب دین عوام کے خلاف بھڑکا اور اُبھاررہے ہیں۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دین کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، اس لیے کہ یہ دین تو اللہ تعالیٰ کا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ اس نے فرعون کے خلاف حضرت موسیٰ m کو کھڑا کیا۔ نمرود کے مقابلہ میں ایک مچھر سے کام لیا۔ بیت اللہ کی حفاظت ابابیلوں سے کرائی۔ دور کیوں جائیے! محترم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حمایت کرنے والے قادیانیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے بھٹو مرحوم سے ہی کام لیااور ان کو پاکستانی دستور میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا، لیکن دین کے خلاف کام کرنے والے ضرور عبرت کا نشان بنتے رہے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ یوں لگ رہا ہے کہ جس طرح بیرونی ہاتھ اور ان کے آلۂ کار پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اس کی سرحدوں کو غیر محفوظ کرنے کی کوششوں میں ہیں، اسی طرح یہ غیرمرئی اندرونی ہاتھ بھی پاکستان کو خلفشار اور ہیجان کی کیفیت میںمبتلا کرنے اور اس کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ صرف ہماری رائے نہیں، بلکہ ہر سنجیدہ اور باشعور آدمی ان حکومتی اقدامات سے یہی تأثر لے رہا ہے، چنانچہ جمعیت علمائے اسلام کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب حفظہٗ اللہ نے حالات کی صحیح عکاسی اور حکومتی عزائم سے پردہ اُٹھاتے ہوئے درست فرمایا ہے کہ حکومتی ادارے یہ چاہتے ہیں کہ مولوی جذباتی ہوکر کوئی ایسا اقدام کریں کہ وہ قانون کے شکنجے میں آجائیں، اس بیان کی مزید وضاحت درج ذیل خبر میں ملاحظہ فرمائیں: ’’اسلام آباد(ایجنسیاں) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایران سعودی عرب تنازع میں پاکستان کا کردار غیر جانبدارانہ ہے، ہم کسی بھی صورت اس جنگ کے حق میں نہیں ہیں، مگر حرمین شریفین کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، مگر کسی نے کان نہیں دھرے، ملک میں امن کے لیے ایکشن پلان کی حمایت کی، مسلمان ملکوں میں جان بوجھ کر حالات خراب کیے جارہے ہیں۔ مساجد اور مدارس پر چھاپے مارکر کس کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ صاف صاف بتادیا جائے کہ ہمیں مدارس نہیں چاہئیں۔ دہشت گردی کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے فلسفے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ جامعہ حفصہ کو مسئلہ بناکر مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ہم جہاد والا اسلام نہیں مانگ رہے، ہمیں جمہوریت والا اسلام چاہیے۔ ادارے چاہتے ہیں کہ مولوی جذباتی ہوجائیں اور قانون کے شکنجے میں آجائیں۔ تبلیغی جماعت پر پابندی مضحکہ خیز ہے، ایسا تو مارشل لاء میں بھی نہیں ہوا، کچھ قوتیں ملکی حالات خراب کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاملات کو اگر تدبر کے ساتھ سلجھایا جائے تو بہتر ہے، جنگ مسائل کا حل نہیںہے، پوری دنیا میں مسلمانوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ طاغوتی طاقتیں اسلام سے خائف ہیں۔ سعودی عرب ایران جنگ کے مخالف ہیں اور پاکستان کے ثالثی کے کردار کو سراہتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی لوگوں کو لڑایا جارہا ہے، محرم اور ربیع الاول کے جلوسوں کے حوالے سے نئی قانون سازی ضروری ہے، مگر بعض ایسی قوتیں جو درپردہ بیرونی آلۂ کار ہیں وہ کسی صورت پاکستان میں مذہبی رواداری کے حق میں نہیں ہیں، جس میں بعض ہمارے اپنے لوگ بھی شامل ہیں جو فرقہ واریت کو پروان چڑھاکر ایک مذہبی طبقے کو دوسرے مذہبی طبقے کے سامنے کھڑا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے مفاداتی نظام کی ترجیحات بدل گئی ہیں، ۹۰ء کی دہائی کے بعد سیاسی مخالفوں کو پکڑ کر ان پر مالی بدعنوانی کا الزام لگادیا جاتا تھا، اسی لیے نائن الیون کے بعد جس کو بھی پکڑا گیا اس پر دہشت گردی کا لیبل لگادیا گیا، جس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا، مدارس، مساجد اور علماء کو نشانہ بنایا گیا اور اب پھر مساجد اور علماء کو نشانہ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ کچھ قوتیں ملک کے حالات خراب کررہی ہیں، جامعہ حفصہ جیسے مسائل دینی مدارس کو پیچھے دھکیلنے کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں، ملک میں مسلح جماعتیں موجود ہیں، لیکن امن کے نام پر مدارس کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔                                 (روزنامہ جنگ کراچی، پیر، یکم فروری ۲۰۱۶ئ) خلاصہ یہ کہ پاکستان غیروں اور اپنوں کے نشانے پر ہے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن ان شاء اللہ! دینی طبقہ اور پاکستانی عوام بھی متحد ہوکر اپنی افواج کے شانہ بشانہ اپنے وطن کے ایک ایک چپہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسلامی تشخص کی بھی حفاظت کریں گے اور کسی پاکستان دشمن اور دین دشمن کو ان ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین