بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان کو سیکولر ریاست باوَر کرانے کی کوششیں!

پاکستان کو سیکولر ریاست باوَر کرانے کی کوششیں!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور اسلامی روح سے الرجک، سیکولر لابیوں اور این جی اوز کی غذا سے پروردہ افراد اور گروہوں کی مسلسل یہ کوشش اور کاوش ہے کہ اس ملک سے اسلام، دین، مذہب، شریعت، ان کے حاملین ومحبین کے ساتھ ساتھ محافظین پاکستان، جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے مستحکم پاکستان کے نظریہ سے متصف ملک اور قوم سے محبت رکھنے والوں کو دیس نکالا دیا جائے یا کم از کم اُنہیں اتنا کمزور اور بے وقعت کردیا جائے کہ ان کی آواز اور شناخت دَب کر رہ جائے۔ لگتا یوں ہے کہ اب ہماری حکومتیں بھی ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور ان کی من گھڑت کہانیوں اور اسٹوریوں سے اتنا مرعوب، متأثر اور خوف زدہ ہوچکی ہیں کہ صحیح حقائق اور مستند تاریخی واقعات کی پرواہ کیے بغیر اُن کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کے خفیہ عزائم اور ناپاک ارادوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ جہت کوشاں اور سرگرداں ہیں۔ آج دنیا جانتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایٹمی ملک ہے اور اسباب کے درجہ میں اس ملک کو یہ اعزاز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اَنتھک محنت اور جدوجہد نے دلایا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ طبیعات کی تمام تر علمی وعملی ترقی ڈاکٹر ریاض الدین کی چالیس سالہ شبانہ روز کی محنت اور جہد مسلسل کی مرہونِ منت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلام آباد یونیورسٹی کے اس شعبہ کو ان محسنین پاکستان کے نام سے منسوب کیا جاتا، لیکن پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سینٹر فار فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے اور ان کے نام کی اسکالر شپ دینے کا اعلان کرڈالا ہے۔ خبر کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں قائم قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر فارفزکس کا نام ’’ڈاکٹر عبدالسلام سینٹر آف فزکس‘‘ رکھنے کی اصولی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم نے وفاقی وزارتِ تعلیم کو حکم دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدہ سمری تیار کرے اور صدرِ مملکت کی منظوری کے لیے پیش کرے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم نے پاکستانی طلبہ کے لیے سالانہ پانچ وظیفوں (اسکالر شپ) کا اعلان بھی کیا ہے جو طبیعات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے جائیں گے۔ اس پروگرام کو بھی ’’پروفیسر عبدالسلام فیلوشپس‘‘ کا نام دیا جائے گا۔ اور کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم نے یہ قدم پاکستان کے نامور ماہر طبیعات ڈاکٹر عبدالسلام کی اپنے شعبے میں عظیم خدمات کے اعتراف کے طور پر اُٹھایا ہے۔ اخبارات کے مطابق وزیراعظم سے اس شعبہ کا نام ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام موسوم کرنے کا مطالبہ ڈاکٹر پرویز ہود نے کیا تھااور ڈاکٹر پرویز ہود وہی شخص ہے جو اول روز سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کی مہم چلارہا ہے، اس نے ہی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور ایٹمی دھماکوں پر ان کی قبر بھی بنائی تھی۔ وزیراعظم کے اس فیصلے کے خلاف تمام دینی ومذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر حفظہٗ اللہ اور مرکزی قائدین کے حکم پر کراچی دفتر میں آل پاکستان کانفرنس بلائی گئی تھی، تمام جماعتوں کے نمائندوں کی طرف سے وزیر اعظم کے اس اقدام کی پرزور مذمت اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں شریک مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے وفاقی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو عبدالسلام قادیانی کے نام سے منسوب کیا گیا تو حکومت کے خلاف بھرپور ملک گیر تحریک چلائی جائے گی، جبکہ سندھ اسمبلی میں متنازعہ بل کے خلاف آج (جمعہ کو) یوم احتجاج منایا جائے گا۔ اسلام کی اشاعت کو روکنے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔  جمعرات کوعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں راقم الحروف کی زیرصدارت آل پارٹیز کانفرنس میں جے یوآئی کے نائب امیر قاری محمد عثمان،جماعۃ الدعوۃ کراچی کے مسؤول انجینئرمزمل اقبال ہاشمی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ناظم مولانا سعید اسکندر، جمعیت غرباء اہل حدیث کے نائب امیر محمداحمد سلفی، نظام مصطفی پارٹی کے صوبائی صدر الحاج محمد رفیع، جے یو آئی (س) کے رہنما مولانا مشتاق احمد، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے محمد اشرف قریشی ، جے یوپی نورانی کے صوبائی صدر عقیل انجم قادری، قاضی احمد نورانی، جے یوپی کے مفتی غوث قادری، مستقیم نورانی، شیعہ عالم دین سیدکرار نقوی، اشرف المدارس کے محمد ارشاد، دارالعلوم کراچی کے مولانا محمد حنیف خالد اور دیگر نے شرکت کی۔ اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے قاری محمد عثمان نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک شعبے کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔ عبدالسلام کی ملک وقوم کے لیے ذرہ بھر کوئی خدمات نہیں، سائنسی مشیر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کے حصول میں رکاوٹ ڈالی، بلکہ ایٹمی راز پاکستان مخالف قوتوں تک پہنچائے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد عبدالسلام بیرون ملک چلے گئے اور بیان دیا کہ مسٹر بھٹو اور فیصلہ کے ذمہ دار تمام کا بیڑا غرق ہو۔ قاری محمد عثمان نے کہا کہ ایسا شخص جو ملک اور اسلام کا دشمن تھا، اس کے نام سے بانی پاکستان کے نام سے منسوب جامعہ کے ایک شعبے کو منسوب کرنا انتہائی شرمناک فیصلہ ہے۔ مذکورہ شعبے کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ اعلامیے میں سندھ اسمبلی کے منظور کردہ متنازعہ بل کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم اقلیتوں کے حقوق کے حامی ہیں۔ اسلام میں جبری مذہب تبدیلی کا تصور نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے اقلیتوں کے تحفظ کی آڑ میں اسلام کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کی ہے جس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اور آج جمعہ یوم احتجاج کے طور پر منائیں گے اور جمعے کے خطبات میں بل کی متنازعہ شقوں کے حوالے سے عوام کو آگاہ کریں گے۔ راقم الحروف نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام سے منسوب کرنا انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ ملک میں علمائے کرام، سائنس دانوں اور قابل ذکر خدمات انجام دینے والی مسلمان شخصیات کی کمی نہیں ہے۔ ملک دشمن کو اعزاز سے نوازنا ملکی آئین سے انحراف ہے۔ دیگر مقررین نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکمران اسلام دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ سیکولرازم کو ہوا دی جارہی ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں اور علمائے کرام اپنے اتحاد سے ان سازشوں کو ناکام بنائیں۔‘‘   (روزنامہ امت، جمعہ ، ۹؍ربیع الاول،۱۴۳۸ھ مطابق ۹؍ دسمبر  ۲۰۱۶ئ) اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ: سندھ میں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ان کے معاشی مسائل، پینے کا صاف پانی، خوراک اور علاج معالجہ کی تمام سہولتیں انہیں دی جائیں۔  ۲:۔۔۔۔۔۔ اسلام میں شراب ممنوع ہے۔ آج اقلیتیں شراب پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہیں اور سندھ گورنمنٹ اس کی اجازت دے رہی ہے۔ یہ اجتماع شراب پر مکمل طور پر پابندی کا مطالبہ کرتا ہے۔  ۳:۔۔۔۔۔۔آئے روز مدارس وجامعات کو نئے نئے قوانین اور پابندیوں میں جکڑنے کی باتیںکی جاتی ہیں، یہ سلسلہ ختم کیا جائے۔ حکومت اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے نمائندوں کے مابین جو معاہدات ہوئے ہیں، ان پر عمل در آمد کیا جائے۔ ۴:۔۔۔۔۔۔گزشتہ روز جو پی آئی اے کا حادثہ ہوا ہے، یہ اجتماع اس میں موجود مسلمان شہداء کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعہ کی فی الفور تحقیقات کرائی جائیں اور اس میں کوتاہی برتنے والے افراد کو کڑی سزا دی جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرویز ہود جو وزیر اعظم کو آج مشورے دے رہا ہے، خود اُس کی نظر میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کیا تھا؟ اس کو معلوم کرنے کے لیے اس کے انٹرویو کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’فزکس کے علاوہ ان کی پہلی وفاداری تحریک احمدیہ کے ساتھ تھی اور ان کی ثانوی وفاداری پاکستان کے ساتھ تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی یہ تینوں وفاداریاں اچھی نہیں رہیں، وہ شراب بھی پیتے تھے اور عورتوں کے بھی شیدائی تھے۔ شروع شروع میں ڈاکٹر عبدالسلام بالکل لبرل آدمی تھے، لیکن پھر وہ تحریک احمدیت کے ایک انتہائی دقیانوسی قسم کے سپاہی بن گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام بہت زیادہ پیچیدہ انسان تھے۔ وہ غیرجانبدار نہیں تھے، کیونکہ وہ احمدیوں کی حمایت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ احمدی طاقت میں آجائیں۔‘‘                                         (http:||ibcurdu.com|news|27492)  ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، سرظفر اللہ خان قادیانی کا پروردہ تھا، یہ صدر ایوب خان کا سائنسی مشیر رہا، پھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی سائنسی مشیر رہا، ہر دور میں ایٹمی قوت کے حصول میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہا، ایک بار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان کانفرنس میں ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ڈاکٹر عبدالسلام نے نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت کی، بلکہ ناراض ہوکر لندن چلا گیا۔ معروف دانشور ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں: ’’مشہور قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی پاکستان دشمنی میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے راز حکومت امریکہ کو پہنچائے، جس پر جنرل ضیاء نے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ:’’اس کو کبھی میرے سامنے نہ لانا، یہ امریکہ ، برطانیہ اور یہودیوں کا گماشتہ ہے اور اسی لیے اُسے نوبل انعام دیاگیا۔‘‘                         (روزنامہ امت، کراچی، ۸؍جنوری ۱۹۹۸ئ)  ۲:…پاکستان کے مشہور صحافی جناب حامد میر صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’آج منیر احمد خان ٹیلیوژن پر آکر ایٹم بم کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے۔اس شخص نے ہمیشہ ایٹمی قوت بننے کے خلاف سازشیں کیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام ایک ثقہ قادیانی تھے اور جنہیں صرف اس لیے نوبل انعام سے نوازا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ناکام بنانے والے لوگوں کو اٹامک انرجی کمیشن میں بھرتی کیا۔ یہ منیر احمد خان انہیں کے لائے ہوئے سائنسدان تھے جن کی پوری کوشش یہ رہی کہ پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہ بن سکے۔‘‘  (ہفت روزہ زندگی لاہور، ۲۸؍جون تا ۱۴ جولائی۱۹۹۸ئ) کچھ لوگوں نے ان کو نوبل انعام ملنے پر بڑا ہی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اس کو پاکستان کے لیے ایک اعزاز بتلایا ہے، کیا یہ لوگ بتلاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے اس کو پاکستان کا اعزاز کہا ہے؟ اگر ان کا کوئی بیان اس طرح کا ہے تو آپ اُسے ریکارڈ پر لائیں، حالانکہ یہ انعام ڈاکٹر عبدالسلام کو کوئی انقلابی تھیوری پیش کرنے پر نہیں دیا گیا، بلکہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی خدمات انجام دینے کے صلہ میں ملا ہے۔ باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں قادیانی امت کے غیر مسلم اقلیت قرار پانے سے ملت اسلامیہ میں ان کی نقب لگانے کی پوزیشن بری طرح متأثر ہوچکی تھی اور وہ کسی بھی اسلامی ملک میں امریکی مفادات کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے تھے، کیونکہ انہیں ہر جگہ سامراجی گماشتہ اور جاسوس کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر امریکہ ‘تاجِ برطانیہ کے پرانے وفاداروں کو اس طرح چھوڑنا پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے پہلے یہودی اثرورسوخ سے چلنے والے ممتاز سائنسی اخبارات وجرائد میں ڈاکٹر عبدالسلام کے حق میں مہم چلائی اور بالآخر نوبل پرائز کا تمغہ ان کے سینے پر سجادیا۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اسٹیون وائنبرگ نے ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملنے پر شدید حتجاج کیا تھا اور اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ:’’ڈاکٹر عبدالسلام نے کوئی اہم سائنسی پیش رفت نہیں کی کہ انہیں اس اہم انعام کا مستحق ٹھہرایا جائے، بلکہ انہیں ایک خاص اور اَن دیکھے منصوبے کے تحت ہمارے ساتھ نتھی کیا گیا ہے جو سخت بددیانتی کے زمرہ میں آتا ہے۔‘‘                   (غدارِ پاکستان، ص:۱۰۰) ۳:…ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہا: ’’ڈاکٹر عبدالسلام کو ملنے والا نوبل انعام نظریات کی بنیاد پر دیا گیا ہے، وہ ۱۹۷۵ء سے اس کوشش میں تھے کہ اُنہیں نوبل انعام ملے اور آخر آئن اسٹائن کی صد سالہ وفات پر اس کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصہ سے کام کررہا ہے، یہودی چاہتے تھے کہ آئن اسٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے، سو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بھی اس انعام سے نوازا گیا۔ ‘‘                                  (انٹرویو ڈاکٹر عبدالقدیر ہفت روزہ چٹان لاہور ۶؍ فروری ۱۹۸۴ئ) اس لیے ڈاکٹر عبدالسلام نے ہمیشہ اپنے مذہب قادیانیت کا دفاع کرتے ہوئے اسلام اور  پاکستان کی مخالفت کی۔ ۱۹۷۹ء میں اسٹاک ہوم میں نوبل انعام وصول کرتے وقت اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ:’’میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کا غلام ہوں، پھر مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی۔‘‘                         (ہفت روزہ زندگی لاہور، ۱۴؍ جون ۱۹۹۰ئ) قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے پیشواؤں کو سننے کے بعد اتفاق رائے سے جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو ڈاکٹر عبدالسلام نے اس تاریخی فیصلہ پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا: ’’جو سلوک مسٹربھٹو نے قادیانیوں سے کیا ہے، اس پر میں یہی دعا کروں گا کہ نہ صرف مسٹربھٹو بلکہ ان تمام کا بھی بیڑا غرق ہو جو اس فیصلے کے ذمہ دار ہیں۔‘‘   (ہفت روزہ بادیان لاہور، ج:۷، شمارہ:۵، ۱۸؍مئی ۱۹۷۹ئ) ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی واقعی پاکستانی ہے، لیکن اس کی نظر میں خود پاکستان کی کیا عزت و حرمت ہے؟ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے۔ ’’مسٹر بھٹو کے دور میں ایک سائنسی کانفرنس ہو رہی تھی، کانفرنس میں شرکت کے لیے ڈاکٹر سلام کو دعوت نامہ بھیجا گیا۔ یہ دعوت نامہ جب ڈاکٹر سلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے مندرجہ ذیل ریمارکس کے ساتھ اُسے وزیراعظم سیکریٹریٹ کو بھیج دیا: ترجمہ:۔۔۔ ’’میں اس لعنتی ملک پر قدم نہیں رکھنا چاہتا، جب تک آئین میں کی گئی ترمیم واپس نہ لی جائے۔‘‘                               (ہفت روزہ چٹان، لاہور، شمارہ:۲۲، جون ۱۹۸۶ئ) ذرا سوچئے! انہیں پاکستان سے محبت تھی یا اپنے قادیانی گروہ سے اور یہ کہ وہ پاکستان کے لیے کام کررہے تھے یا اپنے عقیدہ کی پرورش اور آقاؤں کی فرمانبرداری کے لیے؟  حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب کے بقول:قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ طبیعات کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام منسوب کرنے کے علاوہ حکومت کے کئی ایسے اقدام ہیں جن سے بہت زیادہ خدشات اور اندیشے جنم لے رہے ہیں، مثلاً: ۱:…جناب ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے ملک بھر کے اداروں کی طرح قادیانی تعلیمی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے لیا تھا، اب صوبائی محکمہ تعلیم نے ان اداروں کو واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے، جو نامناسب عمل ہے۔ ۲:…گزشتہ دنوں چناب نگر میں سی ٹی ڈی نے چھاپا مارکر قابل اعتراض وخلافِ قانون قادیانی لٹریچر تحویل میں لیا اور چند ملزمان کو گرفتار کیا۔ اس پر دی نیشن کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے احتجاج کیا۔ ملک بھر کے مدارس اور مراکز پر چھاپے پڑے، کسی پر امریکی حکومت نے احتجاج نہیں کیا، مگر قادیانیوں کے مسئلے پر امریکی میدان میں آگئے۔ ۳:… چکوال میں قادیانیوں نے ۱۲؍ ربیع الاول کے جلوس پر فائرنگ کرکے جلوس میں اشتعال پھیلایا۔ اپنے کارندے بھیج کر جلوس کو مشتعل کیا۔ ایک مسلمان کو قادیانی اٹھاکر لے گئے اور پھر اس کو قتل کرکے لاش پھینک دی۔  ۴:…اسی طرح عامر الرحمن قادیانی ایڈوکیٹ کو پہلے جج بنایا جارہا تھا، وکلاء نے احتجاج کیا تو اُسے ڈپٹی اٹارنی جنرل بنادیا گیا ہے۔  ۵:…ڈاکٹر وسیم کوثر قادیانی کو سینئر ایڈوائزر وفاقی محتسب بنادیا گیا ہے۔ ۶:…محکمہ تعلیم پنجاب نے اسلامیات کی سیٹیں پر کرنے کے لیے درخواستیں طلب کیں، اس میں قادیانیوں پر قدغن نہ لگائی کہ وہ درخواستیں نہ دیں، کیونکہ وہ غیر مسلم ہیں اور اسلامیات نہیں پڑھاسکتے۔ جب پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رہنما جناب وسیم اختر صاحب نے پوائنٹ اٹھایا تو قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی جناب محمود الرشید صاحب نے تائید کی اور پھر احتجاج کیا تو پنجاب کے مشیر تعلیم نے پنجاب اسمبلی میں اعلان کیا کہ قادیانی اسلامیات نہیں پڑھاسکتے۔ ہم نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔ وعدہ اور وہ بھی اسمبلی میں کرنے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ یہ سب بلاوجہ نہیں، پاکستان کو بدامنی کی راہ پر ڈالا جارہا ہے۔ راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کی صفوں میں گھسے ہوئے قادیانی بیوروکریٹ ایک خطرناک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ :۱:…قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کو عبدالسلام سے منسوب کرنے کا آرڈر واپس لیا جائے۔ ۲:… قادیانیوں کو تعلیمی ادارے سپرد نہ کیے جائیں۔ ۳:… امریکی حکومت کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔ ۴:… قادیانیوں کی قانون سے بغاوت کا نوٹس لے کر ان کو آئین پاکستان کا پابند بنایا جائے۔ حکومت سندھ نے اسلام قبول کرنے کے لیے عمر کی پابندی کا خلافِ اسلام بل اسمبلی میں منظور کرکے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں جیسے اسلام کو دیس نکالا دیا جارہا ہو۔ مرکزی حکومت پنجاب و سندھ حکومتوں کے یہ اسلام مخالف اقدامات بلاوجہ نہیں، بلکہ کئی بڑے طوفان و امتحان کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرمائے، شریروں کے شر، حاسدین کے حسد اور فتنہ پروروں کے فتنوں سے ہمارے پیارے ملک، اس کے اداروں اور قوم کو محفوظ فرمائے اور ملک وقوم کے غداروں سے اس ملک کو پاک فرمائے، آمین بجاہِ سید الانبیاء والمرسلین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین