بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

وہ ہاشمی و مُطَّلِبی (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء واجداد کا تذکرہ)

 

وہ ہاشمی و مُطَّلِبی!

 

(حضور a کے آباء واجداد کا تذکرہ)

 

 

حضور a کی مبارک زندگی کو پڑھا اور سنا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انسانی عظمت کی جہاں انتہا ہوتی ہے، وہاں سے حضور k کی عظمتوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ k کا معیارِ زندگی اتنا اعلیٰ واطہر تھا کہ آپ نے اپنی زندگانی کی خواہشات کو رضائے الٰہی پہ قربان کیا ہوا تھا۔ آپa کی گفتگو رضائے باری تعالیٰ کا مظہر تھی، بندگی وعبودیت کو آپa پر ناز تھا، آپa کے چلن پر زمین رشک کرتی تھی ، پتھر موم بن جاتے تھے۔ اولاد کے حق میں آپa کا پدری جذبہ ہر والدین کے لیے نصابِ فوز وفلاح ہے، انسانوں پر آپa کا جذبۂ ترحم وشفقت بے مثال تھا ، دشمنوں پر عفو ودرگزر آپa کا کمال تھا۔ آپa جس بستی میں پیدا ہوئے وہ تاحشر انسانیت کے لیے مرکزِ خیر بن گئی اور آپa جن پشتوں کے واسطے سے آئے ان کی طہارت ونظافت ، پاکیزگی وشرافت اورحسن وجمال بے مثال حقیقتِ لازوال بن گئی۔ آپa کا حسب ونسب آسمان کی طرح کھلی کتاب اورسفید بادلوں کی طرح صاف وشفاف ہے۔

حضور a کی سیرتِ مبارک کو جتنے سیرت نگاروں نے زینتِ اَوراق بناکر کتابی صورتوں میں پیش کیا تو اکثر سیرت نگاروں نے ابتدا آپ k کے حسب ونسب سے کی۔ خود حضور k کی اپنے حسب ونسب پر گفتگو کو حضرت انسq روایت کرتے ہیں کہ: آپ k نے قرآن پاک کی آیت: ’’لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ‘‘ کو بفتح الفاء ’’أَنْفَسِکُمْ‘‘پڑھا، جس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ بے شک آئے تمہارے پاس اللہ کے رسول تمہارے اشرف اور افضل اور سب سے زیادہ نفیس خاندان سے۔ اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ k نے ارشاد فرمایا: 

’’أنا أنفسکم نسبًا وصہرًا لیس فی آبائی من لدن آدم سفاح، کلنا نکاح۔‘‘ 

’’میں باعتبارِ حسب ونسب افضل اور بہتر ہوں، میرے آباء و اجداد میں حضرت آدم k سے لے کر اب تک کہیں زنا نہیں، سب نکاح ہے۔‘‘         (رواہ ابن مردویہ، بحوالہ سیرۃ المصطفی)

حضرت آدم k سے لے کر آپ k کے والد ماجد اور والدہ ماجدہ تک جس قدر آباء واجداد اور اُمہات وجدات سلسلۂ نسب میں واقع ہیں، وہ سب کے سب محصنین اور محصنات یعنی سب عفیف اور پاکدامن تھے، کوئی فرد اُن میں زنا کے ساتھ کبھی ملوث نہیں ہوا ۔ ایسے نیک بندے کہ جن کو حق جل شانہٗ نے اپنی نبوت ورسالت کے لیے منتخب فرمایا ہو تو ان کا سلسلۂ نسب ایسا ہی پاک اور مطہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اصلابِ طیبین سے ارحامِ طاہرات کی طرف پاک وصاف منتقل فرماتا ہے۔ حق جل وعلا نے جس کو اپنا مصطفی اور مجتبیٰ بنایا تو اس کے مصطفی بنانے سے پہلے اس کے نسب کو ضرور مصطفی اور مجتبیٰ، مہذب اور مصفی بنایا۔قیصر روم نے جب حضرت ابوسفیانq سے نبی اکرم a کے نسب کے متعلق سوال کیا کہ: ’’کیف نسبہ فیکم؟ ‘‘ ان کا نسب کیسا ہے؟ تو ابوسفیانq نے جواب دیا :

’’ہو فی حسب ما لایفضل علیہ أحد، قال: ہذہٖ آیۃ۔‘‘ 

’’حسب (ونسب اور خاندانی شرافت) میں کوئی ان سے بڑھ کر نہیں، تو قیصر روم نے کہا: یہ بھی ایک علامت ہے۔‘‘

یعنی نبی ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ m کا خاندان اعلیٰ اور اشرف ہے۔

حضرت محمد a کا سلسلۂ نسب جو عالم کے تمام سلاسلِ انساب سے اعلیٰ اور برتر اور سب سے افضل وبہتر ہے ، وہ سلسلۃ الذہب اور شجرۃ النسب یہ ہے:

 ’’سیدنا ومولانا محمد a  بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن إلیاس بن مُضر بن نزار بن معدّ بن عدنان۔‘‘

                                        (بخاری شریف، باب مبعث النبی a بحوالہ سیرۃ المصطفی)

حضرت عبد اللہ بن عباسr سے مروی ہے کہ نبی اکرم a جب نسب شریف کو بیان فرماتے تو عدنان سے تجاوز نہ فرماتے، عدنان تک پہنچ کر رُک جاتے۔

حضور a کے آباء وجداد کا مختصر تذکرہ وتعارف 

عدنان:… آپ حضرت اسماعیل m کی اولاد سے تھے اور ملتِ ابراہیمی پر تھے۔

 معدّ:… اس قبیلہ کے لوگ بڑے بہادر اور جنگ جو تھے، ساری عمر بنی اسرائیل سے جنگ اور مقابلہ میں گزری اور ہر لڑائی میں مظفر ومنصور رہے۔

حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویv امام طبری ؒ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ معد بن عدنان، بخت نصر کے زمانے میں بارہ سال کے تھے تو اس زمانے کے پیغمبر ارمیاء بن حلقیائm پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ بخت نصر کو اطلاع دو کہ ہم نے اس کو عرب پر مسلط کیا اور آپ معدّ بن عدنان کو اپنے براق پر سوار کرلیں، تاکہ معدّ کو کوئی صدمہ نہ پہنچے کہ :

’’فإنی مستخرج من صلبہٖ نبیاً کریماً أختم بہ الرسلَ‘‘ 

’’اس لیے کہ میں معدّ کی صلب سے ایک محترم نبی پیدا کرنے والا ہوں، جس سے پیغمبروں کا سلسلہ ختم کردوںگا۔‘‘ 

تو حضرت ارمیائm معدّ بن عدنان کو اپنے ہمراہ براق پر سوار کرکے ملکِ شام لے گئے۔

نزار: … نزار کے معنی قلیل کے ہیں، ابو الفرج اصبہانی فرماتے ہیں کہ: ’’نزار چونکہ اپنے زمانہ کے یکتا تھے، یعنی ان کی مثال کم تھی، اس لیے نزار ان کا نام پڑگیا۔‘‘ علامہ شبلیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’جب نزار پیدا ہوئے تو ان کی پیشانی نورِ محمدی l سے چمک رہی تھی، باپ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی میں دعوت کی اور یہ کہا:

 ’’ہذا کلہٗ نَزَرٌ لحق ہذا المولود، فسمی لذلک۔‘‘ 

’’یہ سب کچھ اس مولود کے حق کے مقابلے میں بہت قلیل ہے، اس لیے نزار نام رکھا گیا۔‘‘

مضر:… آپ کا اصل نام عمرو تھا، مضر لقب تھا، نہایت خوش الحان تھے، اونٹوں پر حدی پڑھنا انہی کی ایجاد ہے۔ بڑے حکیم ودانا تھے۔ آپ کے کلمات ِحکمت میں سے ہے کہ :

’’من یزرع شراً یحصد ندامۃً وخیر الخیر أعجلہٗ۔‘‘

’’ جو شر کو بوئے گا وہ شرمندگی کاٹے گا اور بہترین خیر وہ ہے جو جلد ہو۔‘‘

الیاس:… حضرت الیاس m کے ہم نام تھے، بیت اللہ کی طرف ہدی بھیجنے کی سنت سب سے پہلے الیاس بن مضر نے ہی جاری کی۔ کہا جاتا ہے کہ الیاس بن مضر اپنی صلب (پشت) سے نبی اکرمa کا تلبیۂ حج سناکرتے تھے۔ 

مدرکہ:… عمرو نام تھا، مدرکہ لقب تھا جوکہ ادراک سے مشتق ہے، چونکہ آپ نے ہرقسم کی عزت ورفعت کو پایا، اسی لیے مدرکہ لقب پڑگیا۔

خزیمہ:… آپ کے متعلق حضرت ابن عباسr کی روایت ہے، فرماتے ہیں:’’ خزیمہ ملتِ ابراہیمی پر تھے اور اسی پر انتقال ہوا۔‘‘

کنانۃ:… عرب میں بڑے جلیل القدر سمجھے جاتے تھے، آپ کے علم وفضل کی وجہ سے دور دراز سے لوگ مستقل آپ کی زیارت کو آتے تھے۔

نضر:… نضارۃ سے مشتق ہے، جس کے معنی رونق وتروتازگی کے ہیں۔ حسن وجمال کی وجہ سے آپ کو نضر کہنے لگے، اصل نام قیس تھا۔

مالک:… مالک نام تھا اور ابو الحارث کنیت تھی، عرب کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔

فہر:… ان کا لقب قریش ہے اور انہی کی اولاد کو قریشی کہتے ہیں۔

کعب: سب سے پہلے جمعہ کے دن جمع ہونے کا طریقہ کعب بن لوی نے جاری کیا۔ آپ جمعہ کے روز لوگوں کو جمع کرکے خطبہ پڑھتے تھے، اول خدا کی حمد وثنا بیان کرتے، پھر پندونصائح کرتے، پھر یہ فرماتے کہ: ’’میری اولاد میں ایک نبی ہونے والے ہیں، اگر تم ان کا زمانہ پاؤ تو ضرور ان کا اتباع کرنا‘‘ اور یہ شعر پڑھتے:

یا لیتنی شاہد فحواء دعوتہٖ

إذا قریش تبتغی الحق خذلانا

’’کاش! میں بھی ان کے اعلانِ دعوت کے وقت حاضر ہوتا، جس وقت قریش ان کی اعانت سے دست کش ہوںگے۔‘‘

مُرَّۃ:… جو شخص شجاع اور بہادر ہوتا تو عرب اسے مُرہ کہتے کہ یہ شخص اپنے دشمنوں کے لیے بہت تلخ ہے۔

کلاب:… ابو الرقیش اعرابی سے کسی نے دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اپنی اولاد کے لیے کلب، ذئب قسم کے برے نام اور اپنے غلاموں کے لیے مرزوق، رباح جیسے عمدہ نام تجویز کرتے ہو؟ ابو الرقیش اعرابی نے جواب دیا: بیٹوں کے نام دشمنوں کے لیے اور اپنے غلاموں کے نام اپنے لیے رکھتے ہیں۔ آپ شکار کے شائق تھے، شکاری کتے جمع رکھتے تھے، اس لیے ان کا نام بھی کلاب پڑ گیا۔

قصی:… نام مجمع تھا، آپ نے چونکہ قریش کے متفرق قبائل کو جمع کیا تھا، اس لیے ان کو مجمع کہتے تھے۔ آپ حکیم ودانا تھے، آپ کے کلماتِ حکمت میں نقل کیا گیا ہے کہ:

’’ جو لئیم اور کمینہ کا اکرام کرے، وہ بھی اس لؤم اور کمینہ پن میں شریک ہے، جو اپنے مرتبہ سے زیادہ طلب کرے وہ مستحقِ محرومی ہے اور حاسد دشمنِ خفی ہے۔‘‘

عبد مناف:… امام شافعیv فرماتے ہیں کہ: عبد مناف کا نام مغیرہ تھا، نہایت حسین وجمیل تھے، اسی وجہ سے ان کو’’ قمر البطحاء ‘‘بھی کہتے تھے۔

ہاشم:… امام مالکv وامام شافعیv فرماتے ہیں کہ: ہاشم کا نام عمرو تھا، مکہ میں قحط تھا تو ہاشم نے شوربہ میں روٹیاں چور کر اہل مکہ کو کھلائیں، اس لیے ان کا نام ہاشم پڑ گیا۔ ’’ہشم‘‘ کے معنی چورہ کرنے کے ہیں اور ہاشم اسی کا اسم فاعل ہے۔ آپ نہایت سخی تھے، آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا، ہروارد وصادر کے لیے آپ کا دسترخوان حاضر تھا۔ غریب مسافروں کو سفر کے لیے اونٹ عطا فرماتے تھے۔ نہایت حسین وجمیل تھے، نورِ نبوت آپ کی پیشانی پہ چمکتا تھا۔ علماء بنی اسرائیل جب آپ کو دیکھتے تو سجدہ کرتے اور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے۔ قبائل عرب اور علماء بنی اسرائیل نکاح کے لیے اپنی لڑکیاں ہاشم پر پیش کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک مرتبہ ہرقل شاہ روم نے ہاشم کو خط لکھا کہ مجھ کو آپ کے جود وکرم کی اطلاع پہنچی ہے، میں اپنی شہزادی کو جو حسن وجمال میں یگانۂ روزگار ہے کو آپ کی زوجیت میں دینا چاہتاہوں۔ ہاشم نے شہزادی کے نکاح سے انکار کردیا، جبکہ اس طرف شاہ روم کا مقصد اصلی یہ تھا کہ وہ نورِ نبوت جو ہاشم کی پیشانی پہ چمک رہا ہے، اس کو اپنے گھرانے میں منتقل کردے۔

عبد المطلب:…       نام شیبۃ الحمد ہے، نہایت حسین وجمیل تھے۔

علی شیبۃ الحمد الذی کان وجہہ

یضیئ ظلام اللیل کالقمر البدری

’’چودہویں رات کے چاند کی طرح شیبۃ الحمد کا چہرہ رات کی تاریکی کو روشن کرتا تھا۔‘‘

ابن سعدvطبقات میں روایت کرتے ہیں کہ عبد المطلب تمام قریش میں سب سے زیادہ سخی اور کریم اور سب سے زیادہ شر اور فتنے سے دور بھاگنے والے تھے اور قریش کے مسلَّم سردار تھے۔ عبدالمطلب کا جود وکرم اپنے باپ ہاشم سے بڑھا ہوا تھا، آپ کی مہمان نوازی انسانوں سے گزر کر چرند پرند تک پہنچ گئی تھی، اسی وجہ سے عرب کے لوگ آپ کو فیاض اور مطعم طیر السماء (آسمان کے پرندوں کو کھانا کھلانے والے) کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔ غارِ حرا میں سب سے پہلے خلوت وعزلت عبد المطلب ہی نے کی۔

عبد اللہ:… یہ وہ نام ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ دو نام محبوب ہیں: ایک عبد اللہ اور دوسرا عبد الرحمن۔حضرت اسماعیل m کی طرح حضرت عبد اللہ بھی ذبیح اللہ ہیں۔

حضرت عبد المطلب کو جب اپنے فرزند عبد اللہ کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی تو قبیلہ زہرہ جوکہ شرافت نسبی میں ممتاز تھا، اس میں وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی سے جن کا نام آمنہ تھا، ان کے گھروالوں کو نکاح کا پیغام دیا۔

حضرت ابن عباسr فرماتے ہیں کہ: جب عبد المطلب اپنے فرزند عبد اللہ کو نکاح کے لیے لے چلے تو راستہ میں ایک یہودی عورت پر گزر ہوا، جس کا نام فاطمہ تھا، توریت وانجیل وغیرہ سے خوب واقف تھی، حضرت عبد اللہ کے چہرے پر نورِ نبوت دیکھ کر اپنی طرف بلایا اور کہا: میں تجھ کو سو اونٹ نذر کروں گی، تو حضرت عبد اللہ نے جواب میں یہ اشعار کہے:

أما الحرام فالممات دونہٗ

 

والحل لاحل فأبینہٗ

’’حرام کے ارتکاب سے موت آسان ہے اور ایسا فعل بالکل حلال نہیں جس کو معرضِ ظہور میں لاسکوں۔‘‘

فکیف بالأمر الذی تبغینہٗ

 

یحمی الکریم عرضہٗ ودینہٗ

’’جس ناجائز امر کی تو طلب گار ہے وہ مجھ سے کیسے ممکن ہے؟ کریم النفس آدمی تو اپنی آبرو، اپنے دین کی پوری حمایت اور حفاظت کرتا ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ جب حضرت آمنہ سے نکاح کرکے واپس ہوئے تو واپسی میں پھر اسی عورت پر گزر ہوا تو اس عورت نے پوچھا: اے عبد اللہ! تم یہاں سے جانے کے بعد کہاں رہے؟ حضرت عبد اللہ نے جواب دیا: میں نے اس عرصہ میں وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی آمنہ سے نکاح کیا اور نکاح کے بعد تین روز وہاں قیام کیا ،اس یہودی عورت نے سن کر یہ کہا: واللہ ! میں کوئی بدکار عورت نہیں، تمہارے چہرے پہ نورِ نبوت کو دیکھ کر یہ چاہا کہ یہ نور میری طرف منتقل ہوجائے، لیکن اللہ نے جہاں چاہا وہاں اس نور کو ودیعت رکھا۔                                            (سیرۃ المصطفی از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ)

حضور a کے نسبِ اطہر میں آپa کے آباء و اجداد اپنے زمانے والوں پر بے شمار صفاتِ عالیہ وحسنہ کے ساتھ ممتاز وبرتر رہے کہ کوئی سخاوت میں نمایاں ہے تو کوئی شجاعت میں، کوئی حسن کا بادشاہ ہے تو کوئی سرتا پا جلوہ گاہ ہے، کسی کی دہلیز پر حکمت کا بسیرا ہے توکسی کے سر اتحاد بین القبائل کا سہرا ہے، کسی کی نورانی پیشانی پر بادشاہ وملوک انگشت بدنداں ہیں تو کسی کے ٹکڑوں پہ پلتا سارا جہاں ہے۔

حضور k کے مبارک خاندان میں حضرت عبد اللہ سے حضرت عدنان تک سب کے سب بے شمار خوبیوں سے مزین ہیں اور پھر ان سب خوبیوں، بھلائیوں اور عمدہ صفات کے حامل، جود وکرم کے برستے مینہ، حسن کی بہاروں او رکرم نوازیوں سے لبریز اگر کسی ہستی کو دیکھنا ہو تو وہ ہستی، وہ ذات مصطفی مجتبیٰ ،ناصر ومنصور، شاہد ومشہود، حق مبین، نبی اکرم، حضرت محمد a کی ذات بابرکات ہےa

آدم کے لیے فخر یہ عالی نسبی ہے

مکی مدنی ہاشمی و مطلبی ہے

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین