بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

وسیلہ کا مدلل ثبوت

وسیلہ کا مدلل ثبوت (حدیث ِنبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام سے مثال)       یوں تو تصوف کا کوئی ایک مسئلہ بھی کتاب و سنت سے باہر نہیں، لیکن وسیلہ کے متعلق بعض اوقات ایسی باتیں بھی منکرین تصوف کر دیتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توحید ِخالص کے خلاف ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، ذیل کا واقعہ اس مسئلہ میں راہنما ہے:     ایک مرتبہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری v کی خدمت میں محدث العصر حضرت مولانا علامہ سیّد محمد یوسف بنوری صاحب v تشریف فرما تھے، میں بھی موجود تھا کہ ایک شخص نے پوچھا کہ وسیلہ پکڑنا کہاں سے جائز ہے؟ آپ لوگ جو شجرہ پڑھتے ہیں اور بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں، یہ کہاں سے جائز ہے؟ میرے شیخ  ؒ نے فرمایا:     ’’ہمارے بڑے مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ہیں، یہ اس کا جواب دیں گے۔‘‘     حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب v نے فرمایا کہ:      ’’میں وہ جواب دیتا ہوں جو امام العصر حضرت مولانا علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری v نے دیا تھا کہ حدیث میں ہے کہ:تین آدمی غار کے منہ پر چٹان گرنے کی وجہ سے پھنس گئے، تینوں نے اپنے اپنے عمل کا واسطہ دیا، ایک کے عملِ مقبول کی برکت سے پہلے تہائی چٹان ہٹی، پھر دوسرے کے عملِ مقبول کی برکت سے تہائی چٹان ہٹی اور پھر تیسرے کے عملِ مقبول کی برکت سے پوری چٹان ہٹ گئی۔ (بخاری، باب من استأجرا جیراً)     تو جب قالب(جسم) کے عمل کا واسطہ دینا جائز ہے تو اللہ والوں سے محبت کرنا تو قلب (دل)کا عمل ہے اور قلب قالب سے اعلیٰ ہوتا ہے، پھر اس کا وسیلہ دینا یعنی اللہ والوں سے اپنی قلبی محبت کا وسیلہ دینا کیسے جائز نہیں ہو گا؟جب قالب کا عمل وسیلہ بن سکتا ہے تو قلب کا عمل کیوں وسیلہ نہیں بن سکتا؟ ‘‘            (بحوالہ طریق الی اللہ، ص: ۲۸)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین