بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نومنتخب وزیراعظم کی خدمت میں چند معروضات!

نومنتخب وزیراعظم کی خدمت میں چند معروضات!

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

۱۱؍مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی ۱۸۶ نشستیں لے کر پہلے نمبر پر رہی، پاکستان پیپلزپارٹی ۴۲، تحریک انصاف ۳۵،متحدہ قومی موومنٹ ۲۳، جمعیت علمائے اسلام(ف) ۱۴ اور جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی میں صرف پانچ نشستیں حاصل کیں اور کچھ جماعتوں نے صرف ایک ایک نشست حاصل کی اور کئی ایک آزاد امیدوار بھی منتخب ہوئے، جو اَب اپنی اپنی پسند کی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں میں سے صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کو واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کو دو تہائی سے زیادہ نشستیں ملیں۔ صوبہ خیبرپختون خواہ میںتحریک انصاف بڑی جماعت بن کر اُبھری ۔صوبہ بلوچستان میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل سکی۔ پاکستان کے آئین کے تحت ہونے والے ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ہر جماعت اپنا اپنا منشور اور ترجیحات لے کرالیکشن کے میدان میں اتری اور عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی سعی اور کوشش کی اور عوام نے بھی اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دیے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن سب سے مایوس کن کردار اور خراب کارکردگی ان جماعتوں کی رہی جو اپنے آپ کو دینی ومذہبی جماعتیں سمجھتی ہیں۔ اس لئے کہ جتنا محب وطن، دینی ومذہبی عوام کا ووٹ دینے والا اور ہمدرد طبقہ ہے، وہ ان جماعتوں کی باہم نااتفاقی، عدمِ اتحاد اور انتشار کی بناء پر نہ صرف یہ کہ غیر مطمئن اور پریشان رہا، بلکہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ جماعتیں اور ان کے سربراہ جب اپنے اپنے مفادات کے حصار اور ذاتی اَنا کے خول سے ہی باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں تو وہ دین ومذہب اور قوم و ملک کی کیا خدمت کریں گے؟ اس لئے یہ طبقہ ان جماعتوں سے بہت ہی ناراض نظر آتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی ان جماعتوں کے سامنے آچکا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ان جماعتوں کو ووٹ نہیں دیے، بلکہ انہوں نے بطور احتجاج اپنا ووٹ ان جماعتوں کو دیا جو ان کے نزدیک قدرے بہتر پوزیشن میں تھیں۔ صرف جمعیت علمائے اسلام (ف)وہ واحد جماعت ہے، جس نے اپنی ساکھ اور کارکردگی کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا، بلکہ سب طرف سے مخالفت کے باوجود پہلے سے زیادہ قومی اسمبلی میں نشستیں حاصل کیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بعض مذہبی جماعتوں کا اس الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ فلاں مذہبی اور سیاسی جماعت کے نمائندوں کو شکست سے دوچار کرسکیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ جماعتیں ان انتخابات میں اپنے عمل سے یہ ثابت کررہی تھیں کہ چاہے ہمیں کامیابی ملے یا نہ ملے، لیکن ہماری مبغوض اور محسود جماعت کے نمائندے بھی کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔ اسی کو حسد کہا جاتا ہے اور حسد کی شناعت اور قباحت کو کون نہیں جانتا۔آپ ا کا ارشاد ہے: ’’إیاکم والحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب‘‘۔                                                                         (رواہ ابوداؤد،مشکوٰۃ،ص:۴۲۸) ترجمہ:’’اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے، جس طرح کہ آگ سوکھی لکڑی کو کھاجاتی ہے‘‘۔ اس لئے ان جماعتوں کے ذمہ داران، سربراہوں اور اگر ان کی کوئی شوریٰ ہے تو اس کے ارکان کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور اس کبیرہ گناہ سے صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہئے اور عوام میں عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم بے غرض وبے لوث‘ دین اسلام، ملک اور قوم کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کے لئے ہماری یہ سیاسی جدوجہد ہے۔ نفس پرستی، مفاد پرستی، ذاتی اَنا اور حُبِّ جاہ وحُبِّ منصب یا دوسری سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ناکام کرنا اور نیچا دکھانا ہمارا مقصد اور ہماری منزل نہیں ، تو امید ہے کہ دینی طبقہ اورعوام کی ناراضی ان سے دور ہوجائے گی۔ اس لئے ہماری رائے ہے کہ ان جماعتوں کو ٹھنڈے دل ودماغ سے بیٹھ کر سوچنا چاہئے اور ماضی سے سبق سیکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل وضع کرنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ آئندہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب ہوںگے اور قارئین تک جب یہ شمارہ پہنچے گا تو اس وقت وہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف لے چکے ہوں گے، اس لئے پیش کی گئی ان معروضات میں راقم الحروف اُن سے وزیراعظم صاحب کے لفظ سے ہی مخاطِب ہوگا۔ محترم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بننے کا اعزاز بخشا ہے، اس پر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور جتنا بھی ہدیۂ شکر بجالائیں، وہ کم ہے، اس لئے کہ یہ عہدہ اور منصب جس طرح ایک اعزاز ہے، اس سے زیادہ یہ ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔ اب اُنہیں چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام کے لئے بہترین حاکم اور وزیراعظم بننے کی کوشش کریں۔ بہترین حاکم کیسے ہوتے ہیں؟ اس کے بارہ میں آپ ا کا ارشاد ہے: ’’عن عوف بن مالک الاشجعی رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیارأئمتکم الذین تحبونھم ویحبونکم وتصلون علیہم ویصلون علیکم وشرار أئمتکم الذین تبغضونھم ویبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم‘‘۔                                                                                  (مشکوٰۃ،ص:۳۱۹) ترجمہ:’’حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لئے دعائیںکرو اور وہ تمہارے لئے دعائیں کریں اور تمہارے برے حاکم وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں ‘‘۔ یعنی مسلمانوں کا اچھا حاکم وہ ہے کہ اس کے اور رعایا کے درمیان اعتماد ، یک جہتی اور الفت ومحبت کا رشتہ ہو۔ رعایا حاکم سے مخلص، اُس سے محبت اور اس کے لئے دعائیں کرتی ہو اور وہ رعایا سے مخلص، ان سے محبت اور ان کی فلاح وبہبود کے لئے محنت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے خیر کی دعائیں کرتا ہو۔ اس کے برعکس برا حاکم وہ ہے جو رعایا کو بھیڑبکری سمجھتاہو اور رعایا اس سے نفرت کرتی ہو۔ وہ رعایا کو برابھلا کہتا ہو اور رعایا اس پر لعنت بھیجتی ہو۔ جب سے الیکشن ہوئے تب سے اخبارات،جرائداور رسائل میںاخبار نویس اور دانشور حضرات، اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر اینکر صاحبان اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی فکری سطح کے مطابق آئندہ حکومت کے لئے کرنے کے کام اور ترجیحات کو سامنے لارہے ہیں، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ راقم الحروف بھی نئی حکومت کے لئے چند تجاویز کا تحفہ پیش کرے: ۱:…جناب میاں نواز شریف صاحب نے انتخابات کے موقع پر اپنے جس منشور کا اعلان کیا تھا اور قوم سے جو وعدے کیے تھے، وہ اپنی اولین فرصت میں ان کو عملی جامہ پہنانے کی سعی مشکور فرمائیں اور یہ سعی وعملی کام عوام کو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ ۲:… پاکستان بالعموم اور کراچی بالخصوص ایک عرصہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے اور مذہبی طبقے کو خاص طور پر مشرف دور سے آج تک چن چن کر اور ٹارگٹ کرکے شہید کیا جارہا ہے۔ بڑے بڑے علماء کرام کو نشانہ بنایا گیا، معصوم طلبہ کو شہید کیا گیا اور ان کے علاوہ گزشتہ دورِ حکومت میں عوام، خواص، شہری، دیہاتی، بڑے ، چھوٹے، مرد، عورتیں، عالم،جاہل، آجر، اجیر،تاجر،دکان دار، وکلائ، ججز، سیاستدان، صحافی،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افراد اور مذہبی راہنما سب ہی تکلیف دہ کیفیت اور پریشان کن حالات سے دوچار رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں صرف کراچی شہر میں سات ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، اس لئے ہر ایک نے گزشتہ حکمرانوں کے ظلم وستم، قتل وغارت اور لوٹ مار سے تنگ آکر ان کے دورِ استبداد سے جان چھڑانے کی دعائیں کیں اور اللہ اللہ کرکے قوم کے سروں سے یہ عذاب ٹلا ہے۔ اب اگر آنے والی حکومت ان مجبور،مقہور اور مظلوم لوگوں کی اشک شوئی نہیں کرے گی اور ان کی تکلیفوں کا مداوا اور ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھے گی تو پھر ان مظلوموں کی دادرسی کون کرے گا؟اس لئے ہماری عرض ہے کہ سب سے اولین ترجیح ملکی امن وامان کو قائم کرنے کو دی جائے اور خصوصاً کراچی کا امن بحال کرنے پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کی جائے۔ ۳:… گزشتہ حکومت نے خود غرضی، لوٹ کھسوٹ اور قومی خزانہ کو نقصان پہنچانے میں اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑدیئے۔ وزیراعظم سے لے کر ان کے بیٹوں تک ، وزیر سے لے کر ایک ادنیٰ افسر تک، ہر ایک نے اپنے اپنے حصے وصول کیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں نہ بجلی ہے اور نہ گیس۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوٹی گئی قومی دولت ان سے واپس لی جائے اور اس کا طریقہ کار اس طرح صاف اور شفاف بنایاجائے کہ کسی کو ذاتی انتقام کا شائبہ تک محسوس نہ ہو۔ ۴:… پرویز مشرف کی روشن خیالی اور سابقہ حکومت کی لادین عناصر کی سرپرستی نے پاکستان میں اسلام کو ایک اجنبی اور اچھنبا بنادیا۔ جب کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو بہت سوں کے چہرے اترجاتے ہیں اور وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر اس نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے دور کی کوڑیاں لانے میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ روز روشن کی طرح حق اور سچ ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ؟لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ تحریک پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح اپنی ہر تقریر میں اسی نظریہ کا اعادہ کیا کرتے تھے۔اس لئے پاکستان کی اکثریت آج بھی اسلامی نظام کی حامی ہے اور پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے،آپؓ نے فرمایاتھا:’’نحن قوم أعزنااللّٰہ بالإسلام‘‘ … ’’ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ عزت بخشی ہے‘‘۔ وزیراعظم صاحب! ہماری تمام تر عزت کا مدار دین اسلام پر ہے، دنیا وآخرت کی کامیابی وسرخروئی احکامِ اسلام پرپابندی میں ہے اور دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی احکامِ اسلام کو پسِ پشت ڈالنے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان انتخابات میں یہ قوت بخشی ہے کہ آپ مسلم لیگ کا کیا گیا پرانا وعدہ پورا کریں۔ ۵:… اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ اس لئے وجود میں لایا گیا تھا کہ تمام مسالک کے علماء کرام اس پلیٹ فارم پر شرعی نظام کے نفاذ کی جو سفارشات مرتب اور پاس کرکے قومی اسمبلی کو بھیجیں گے، ان کو قانونی شکل دے کر ملک میں ان کا نفاذ کیا جائے گا۔ لیکن تاحال جو سفارشات بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے قومی اسمبلی کو بھیجی گئیں، ان کو طاقِ نسیان کی نذر کیا گیا اور آج تک کسی ایک سفارش کو بھی بروئے کار نہیں لایاگیا، لہٰذا آپ ان سفارشات کی گرد جھاڑ کر ان کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے ان پر قانون سازی کریں، تاکہ اس ادارہ کی افادیت قوم کے سامنے آسکے۔ ۶:… جناب وزیر اعظم صاحب! آپ نے گزشتہ دور میں اعلان فرمایا تھا کہ آپ سودی کھاتوں کو ختم کرکے اسلام کا معاشی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم آپ کو یہ وعدہ یاد دلاتے ہیں کہ تمام سودی کھاتوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نفع اور نقصان کی بنیاد پر مبنی صاف ستھرا غیر سودی نظام جاری فرمائیں، تاکہ پاکستان کی قوم سود کی لعنت سے بچ سکے۔ ۷:… وزیر اعظم صاحب! ملک پاکستان کے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں، انہوں نے اپنی پڑھائی پر ایک مدت لگائی اور اس پر اُن کا کافی سرمایہ بھی خرچ ہوا، لیکن اس کے باوجود نہ اُنہیں اپنے ملک میں روزگار ملا اور نہ ہی انہیں وہ مقام اور عزت ملی جس کے حصول کے لئے انہوں نے طویل عرصہ تک محنت اور جدوجہد کی، ان کے سامنے اب سوائے لڑنے مرنے اور دنگا وفساد کے کوئی مشغلہ نہیں رہا اور غلط قسم کے لوگوں کو بھی ایسے نوجوانوں کو سبز باغ دکھاکر اپنے جال میں پھانسنے کا موقع ملا۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ جب ایک دفعہ یہ نوجوان ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں توپھر ان کے لئے اس سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حسنِ تدبیر اور حسنِ انتظام کے ساتھ قوم کے ان بے روزگار نوجوانوں کے لئے کوئی ذریعۂ معاش کی اسکیمیں بنائیں، تاکہ قوم کا یہ عظیم ترین سرمایہ ضائع ہونے سے بچ جائے اور ان کی صلاحیتیں بھی منفی راستے پر خرچ ہونے سے محفوظ ہوجائیں۔ ۸:…اور آخر میں ایک درخواست کریں گے کہ بیرونی دنیا کے طلبہ دنیوی اور عصری علوم وفنون سیکھنے اور پڑھنے کے لئے پاکستان آنا چاہیں تو انہیں اجازت ہے اور ان کوپاکستانی سفارت خانوں سے ویزا بھی بآسانی مل جاتا ہے، لیکن کوئی بیرونی طالب علم‘ علم دین پڑھنے کے لئے پاکستان کے دینی مدارس میں آنا چاہے تو اس پر پابندی ہے اور ہمارے سفارت خانے اُسے پاکستان کا ویزا جاری نہیں کرتے۔ یہ پالیسی پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئی اور ابھی تک یہی پالیسی جاری ہے۔ لہٰذا اس تفریق کو آپ ختم فرمائیں اور بیرونی دنیا کے تمام طلبہ کے لئے یکساں پالیسی اپنائیں۔ جب عصری اور فنی تعلیم کے خواہش مند افراد کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں تو دینی تعلیم کے حصول کے خواہش مند اشخاص کے لئے بھی پاکستان کے ویزے جاری فرمائیں۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم‘ بانئی جامعہ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے حوالے سے اپنے بیانات میں فرماتے ہیں کہ حضرت بنوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ: پاکستان میں دو طبقے ایسے ہیں جو پاکستان کے مفت کے سفیر ہیں: ایک طبقہ تبلیغی جماعت ہے جو اپنے ذاتی خرچے اور ذاتی وسائل کے ذریعے بیرونی دنیا میں جاکر اللہ تعالیٰ کا دین وہاں کے لوگوں تک پہنچاتاہے اور وہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کتنا اچھاملک ہے جو اپنے لوگوں کے ذریعے ہم تک اللہ تعالیٰ کا دین پہنچاتا ہے اور دوسرا طبقہ ان طلبہ اور علماء کا ہے جو بیرونی ممالک سے آکرپاکستان کے دینی مدارس میں رہ کر علم دین حاصل کرتا اور پڑھتا ہے، یہاں سے دین پڑھنے اور سیکھنے کے بعدجب اپنے اپنے ملک میں دین کی خدمت کرتا ہے تو وہاں کے لوگ پاکستان کی تعریف کرتے ہیں اور اس پر خوش ہوتے ہیں کہ پاکستان نے ہمارے لوگوں کو عالم وفاضل بناکر ہم میں بھیجا۔ اس لئے پاکستان کے دینی مدارس میں پڑھنے کی خواہش رکھنے والے بیرونی دنیا کے ان طالب علموں،پاکستان کا وقارومقام بلند کرنے والوں اور پاکستان کی نیک نامی کا باعث بننے والے ان دینی طالب علموں کے لئے ویزوں کا اجراء کیا جائے۔ وزیراعظم صاحب! ان شاء اللہ! اس سے جہاں پاکستان کی عزت ووقار اور نیک نامی میں اضافہ ہوگا، وہاں آپ کو اسلام کی اشاعت کا بھی اجر ملے گا۔ بہرحال ادارہ بینات جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور ان سے توقع وامید رکھتاہے کہ وہ ان معروضات پر غوروفکر فرمائیں گے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرور کوشش کریں گے۔

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ سیدنامحمدوعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ٭٭٭

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین