بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نظم وضبط کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!

نظم وضبط کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!

الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلٰوۃ والسلام علٰی سیدالأنبیاء والمرسلین، أمابعد: ’’إن الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتاً۔‘‘                         (القرآن) ترجمہ:’’یقیناً نمازمسلمانوں پرفرض ہے اورقت کے ساتھ محدود ہے۔‘‘     (بیان القرآن) ’’إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُکُمْ عَمَلاً أَن یُّـتْـقِنَہٗ۔‘‘                  (الحدیث) تمہید ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ دین اسلام کامل ومکمل دین ہے، جوانسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ دین اسلام جہاں زندگی کے ہر پہلو پر اصولی تعلیمات فراہم کرتاہے، وہاں دینی امورکی جزئیات بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ یہ محض ایک دعویٰ نہیں، بلکہ قرآن وحدیث کی نصوص، فقہائے اسلام کی توضیحات وتشریحات اورعلمائے امت کی کاوشیں اس کابیّن ثبوت ہیں۔ چونکہ اسلام قیامت تک رہتی انسانیت کے لیے بھیجا گیا اور یہ اللہ کاآخری پیغام ہے، اس لیے اس میں نظم وضبط، اتحاد واتفاق اور اجتماعیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ نظام کا مفہوم نظام نظم سے ہے، اور نظم لڑی میں پرونے کو کہتے ہیں۔ گویا اسلام افرادِ امت کے لیے ایک ’’مالا‘‘ ہے، اور اس ’’مالا‘‘ میں افرادِ امت میں سے ہر فرد کو یکجا سمیٹ کر رکھنا امر مرغوب ہے، اور ان افراد کے بکھر جانے سے جیسے ’’مالا‘‘ کے سارے موتی بکھر جاتے ہیں، ویسے ہی امت بکھر جاتی ہے، جو کسی بھی طرح محبوب نہیں، اس کو حدیث میں یوں سمجھایا گیا ہے کہ : ’’المُسلمون کَجسدٍ واحدٍ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، ج:۲، ص:۸۸۹، ط:قدیمی) یعنی سارے مسلمان ایک جسدکی مانندہیں، اگرایک عضومیں تکلیف ہو تو سارا ہی بدن تکلیف محسوس کرتا ہے، ایسے ہی اگر مسلمانوں کے ایک گروہ یا ایک جماعت کو تکلیف پہنچے تو دنیا کے سارے مسلمان اس جماعت کی خاطر کھڑے ہوجائیں۔ دین اسلام ایک رسی ہے جو امت مسلمہ کے افراد کو جوڑ کر باہمی مربوط کرکے حق تعالیٰ شانہٗ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں باہمی ربط کو مضبوطی سے قائم رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً۔‘‘                                  (آل عمران:۱۰۳) یعنی اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لو، اس اعتصام واعتضاد پر بہت زور دیا گیا ہے اور امت مسلمہ کی کامیابی وسرفرازی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی اعتصام ہے۔ کتب احادیث میں ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘ کے ضمن میں بے شمار احادیث سے متابعت جماعت کا حکم اور مفارقت جماعت سے اجتناب کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا: ’’وَأَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا  إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔‘‘                                                       (الانفال:۴۶) ترجمہ:اوراللہ اوراس کے رسول(a) کی اطاعت (کا لحاظ) کیا کرو، اور نزاع مت کرو (نہ اپنے امام سے نہ آپس میں ) ورنہ کم ہمت ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اُکھڑجائے گی، اور صبر کرو، بیشک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔                                    (بیان القرآن) یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو، ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی، اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ اس آیت کریمہ میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کئے گئے ہیں: ایک یہ کہ تم ذاتی طور پرکمزور اوربزدل ہوجاؤگے۔ باہمی کشاکش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجانا تو بدیہی امر ہے، لیکن اپنی قوت پر کیا اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہے، اس لیے ایک آدمی اپنے اندر پوری جماعت کی قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو ہر آدمی کی قوت اکیلی قوت رہ گئی۔ باہمی اتحاد کے قیام اور افتراق و انتشار سے بچاؤ کی راہ نظم کا قیام ہے۔ نظم فرد واحد کی مانند انسانیت کو ایک لڑی میں پرودیتا ہے، اور بہترین معاشرہ وہی کہلاتا ہے جس میں خدائی تعلیمات کی تعمیل ہو اور زندگی کے ہر شعبے میں آسمانی ہدایات پیش نظر رکھی جائیں۔ غلط فہمی سے ہمارے معاشرے میں نظم وضبط کو محض ملکی وقومی امور کا لازمہ سمجھاجاتاہے، حالانکہ نبی کریم a نے فرمایا: ’’ إن اللّٰہ تعالٰی یحب إذا عمل أحدکم عملاً أن یتقنہ۔‘‘    (شعب الایمان، باب فی الامانات ومایجب من أدائھاالیٰ أہلھا،ج: ۷، ص:۲۳۲، ط:مکتبۃ الرشد ریاض) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے کسی بھی کام میں یہ پسند کرتا ہے کہ اُسے عمدگی اور سلیقہ سے کیا جائے۔‘‘ ہر چھوٹا یا بڑا عمل سلیقہ مندی کا تقاضا کرتا ہے، اور دین نے ہمیں یہ سلیقہ سکھایا ہے۔ سلیقہ مندی نظم کے قیام کا باعث ہے، اور بظاہر معمولی سمجھی جانے والی بدسلیقی‘ بدنظمی کا ذریعہ وسبب بنتی ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع v معارف القرآن میں سورۂ صافات کی آیت ’’وَالصّٰفَّتِ صَفًّا‘‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ہرکام میں نظم وضبط اورترتیب وسلیقہ کالحاظ رکھنادین میں مطلوب اوراللہ تعالیٰ کوپسندہے، ظاہرہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یااس کے احکام کی تعمیل، یہ دونوں مقصداس طرح بھی حاصل ہوسکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیرمنظم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایاکریں، لیکن اس بدنظمی کے بجائے انہیں صف بندی کی توفیق دی گئی، اوراس آیت میں ان کے اچھے اوصاف میں سب سے پہلے اسی وصف کو ذکر کر کے بتادیا گیاکہ اللہ تعالیٰ کوان کی یہ ادابہت پسند ہے۔      (معارف القرآن، ج:۷،ص: ۴۱۷، ط:مکتبہ معارف القرآن) اسی نظم وضبط کے پہلوسے مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق دینی تعلیمات کاایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں: عبادات عبادات میں بنیادی امورارکانِ خمسہ ہیں، ان تمام ارکان میں نظم جلوہ گرہے۔ ۱:۔۔۔۔۔نظامِ صلوۃ باجماعت نماز بھی نظم وضبط اوراجتماعیت کا پنج وقتہ در س ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ مسلمان مسجد میں جب اکٹھے ہوں تویہ احساس رہے کہ سارے مسلمان یک جان ہیں، الگ الگ نہیں ہیں اوراس جماعت کی اتنی اہمیت بتائی گئی ہے کہ جنگ کے دوران بھی اس کوترک کرنے سے گریز کیا گیا اور ’’صلاۃ الخوف‘‘  مشروع کی گئی اور مسلمانوں کویکسانیت کااحساس دلانے کے لیے ’’سووا صفوفکم، فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوۃ۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی، باب اقامۃ الصف من تمام الصلوۃ) ’’اپنی صفیں درست رکھو، کیونکہ صفیں درست رکھنا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے۔‘‘ کا حکم بھی دیا گیا۔ نیز نماز کے ارکان وشرائط نظم کی کھلی دلیل ہیں۔ حدیث شریف میں حکم دیا گیا ہے کہ جب آدمی مسجد میں جائے تو جماعت میں شامل ہونے کے لیے بھاگ دوڑ نہ کرے، بلکہ وقار اور سنجیدگی کو ملحوظ رکھے۔ جماعت کی نمازمیں مقتدی امام کی پیروی کرے وغیرہ، یہ تمام امور نظم و ضبط کے دائرے میں آتے ہیں۔ پھرجمعہ وعیدین میں بڑے اجتماع سے اسی اجتماعیت اورعدم مفارقت کادرس دینامقصودہے کہ مسلمان ایک جسم ہیں، اگرچہ دنیاوی مشاغل میں کچھ جداہوجائیں، لیکن حقیقت میں یک جان ہیں۔ ۲:۔۔۔۔۔نظام صوم سال میں ماہِ رمضان میں روزے رکھنے کی مشروعیت کی ایک حکمت یہی ہے کہ مالدارآدمی جب پورے دن بھوکارہے تو اس کو احساس ہوکہ غریب ولاچارلوگ کیسے ساری زندگی ایسے ہی فقروفاقہ میں گزاردیتے ہیں، شریعت کے مزاج میں یہ بات ہے کہ غریبوں کا احساس کیا جائے، لاچار و مسکین کا خیال رکھا جائے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب احساس پیدا ہو، اسی احساس کو پیدا کرنے کے لیے شریعت نے روزے کو مشروع قراردیا، پھر روزے میں اوقات کی تعیین اور دیگر متعلقہ احکام بھی نظم کی افزائش کا باعث ہیں، گویا ’’صوم‘‘ بھی اجتماعی نظم کا سبق ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔نظامِ زکوۃ اسی طرح زکوٰۃ کی مشروعیت اس بات کا درس دینے کے لیے ہے کہ مسلمان وہ نہیں جو صرف اپنی دنیا بنانے اور سمیٹنے کی فکر میں لگا رہے اور قریب کے دوسرے غریب لوگ فقر و فاقہ میں پڑے رہیں، اسی بات کا سبق سکھاتے ہوئے حضورa نے اِرشاد فرمایا:’’تؤخذ من أغنیائھم وتُرَدُّ علٰی فُقرائھم‘‘ گویا زکوۃ ادا کرتے ہوئے بھی مسلمان اجتماعیت کے قیام کی لڑی پرورہا ہوتا ہے۔ ۴:۔۔۔۔۔نظامِ حج جس طرح پنج وقتہ نماز مسلمانوں کو متابعتِ جماعت کی یاد دہانی کے لیے ہے اور عیدین کا اجتماع بھی اسی یاددہانی کی کڑی ہے تو بالکل اسی طرح صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کردیئے جانے کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ساری دنیاسے مسلمان ایک جگہ جمع ہوجائیں اور اس اجتماع سے مسلمانوں کی یکجہتی کا اظہار ہو۔ حج کی فرضیت میں بھی مخالفت سے اجتناب اور مقارنت جماعت کا پہلو پایا جاتا ہے۔ ۵:نظام جہاد اسلامی نظام کی ایک اہم اَساس یہ بھی ہے کہ قوموں کے درمیان طاقت کا توازن قائم رہے، ایسا نہ ہوکہ طاقت ور کمزور کو لقمۂ تر بنالے، بلکہ ہرقوم کو اپنے تحفظ، دفاع اور طاقت کے ناجائزتسلط سے محفوظ رہنے کے لیے طاقت کو یکجا رکھنے اور اس کو نظم ونسق سے استعمال کرنے کے اصول بھی تفصیل سے بتائے ہیں، انہی تفصیلات کا اجمالی عنوان ’’جہاد‘‘ ہے۔ جہاد کے لیے تیاری، صف بندی، عزم وحوصلہ، ثابت قدمی، ضعیفوں، کمزوروں، عورتوں اور مذہبی طبقے سے عدم تعرض کے تفصیلی احکام سکھائے ہیں۔ یہ تفصیلات اسلام میں جنگی نظام کے نظم ونسق اور ہمہ جہتی کا مظہر ہیں۔  ۶:۔۔۔۔۔واقعۂ معراج عبادات کے ضمن میں واقعۂ معراج بھی سبق آموزہے، اسلام ہمیں منظم انداز میں تمام امور کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا درس دیتا ہے، اور نظم کی پابندی کے بغیر کیف مااتفق امور کو سرانجام دینے کو ناپسند کرتا ہے، اس کی مثال ہمیں واقعۂ معراج میں ملتی ہے کہ جب رسول اللہ a براق پر سوار ہوکر آسمانوں کی طرف گئے، تو امت کو نظام کی اہمیت سکھلانے اور جتلانے کے لیے کچھ ایسے واقعات سے مطلع فرمایا کہ جس کا خلاف متوقع تھا۔ جب حضور a آسمانِ دنیا پر پہنچے تو سوال ہوا کہ :’’من ھذا؟‘‘ پھر دوسرا سوال ہوا: ’’ومن معک؟‘‘ پھر تیسرا سوال ہوا: ’’وقد أرسل الیہ؟‘‘ پھر اس کے بعد ’’مرحباً بہٖ فنعم المجیء جائ‘‘سے استقبال ہوا، اورآگے حضرت آدم m نے’’مرحباً بالابن الصالح والنبی الصالح‘‘ کہہ کر آمد پر خوشی کا اظہار فرمایا،  پھر ان سوالات کا سلسلہ ساتویں آسمان تک جاری رہا۔ مزید برآں یہ بھی اسی واقعہ میں نظم کا حصہ نظر آتا ہے کہ جبریل امینm کو ایک موقع پر مقام خاص کے بعد آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، اور حضورa کی خصوصیت کہ آپ مزیدآگے تشریف لے گئے، جس کو اللہ پاک نے قرآن مجیدمیں بھی بیان فرمایا: ’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنٰی۔‘‘(النجم:۸، ۹) اس واقعہ سے نظام کی اہمیت اور نظم کی بلااستثناء پاسداری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باوجود اللہ پاک کے علام الغیوب ہونے کے ہر آسمان پر سوالات کا سلسلہ بتاتا ہے کہ نظام کی پاسداری ضروری ہے، اور یہ کہ ہر کام ایک نظم کے تحت ہی ہونا چاہیے، جس سے کام باآسانی اور سہولت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ نظامِ معاشرت وحقوق العباد اسی طرح اسلام حقو ق العبادکے معاملہ میں بھی ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جو ہر انسان کو اس کا حق دلاتا ہے، کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی کو قطعاً برداشت نہیں کرتا، اور اس نظام کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب اور قانون میں نہیں ملتی۔مثال کے طور پر خواتین کے معاملہ میں اسلامی نظام میں ہر بالغ مرد و عورت کو یکساں شہری اور دیوانی حقوق حاصل ہیں، وہ اپنی ذاتی اور شخصی جائیداد اور ملکیت کے حصول اورنظم ونسق اورتصرف میں بالکل آزاد ہیں۔ اس کے برعکس ’’قانونِ روما‘‘ میں خواتین مستقل طور پر مردوں کی نگرانی اور سرپرستی میں تھیں، وہ اپنے نگراں یا سرپرست کی اجازت کے بغیر نہ کوئی جائیداد حاصل کرسکتی تھیں اور نہ حاصل شدہ جائیداد میں کسی تصرف کی مجاز تھیں۔ یہ پابندی خواتین پر زندگی کے آغاز سے لے کر انتہاء تک رہتی تھی۔ یہ بات بھی دنیا کے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے اسلام کا یہ نظام وحی الٰہی کا مرہونِ منت ہے۔ اس کی اصل قرآن و سنت ہے۔ اس کی کوئی ہدایت یا راہنمائی کبھی کسی دوسرے مذہب سے لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ نہ صرف فقہ اسلامی کے تشکیلی دوریعنی ابتدائی چار ہجری صدیوں میں بلکہ بعد میں کم وبیش مزید آٹھ سال تک مسلمانوں نے قانون کی کسی کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں کیا، جس سے معلوم ہواکہ اسلام کا قانون انتہائی مرتب اورمنظم ہے۔ نظامِ معاملات جس طرح عبادات کے مختلف شعبوں میں اسلام اپنے پیروکاروں کی پوری طرح رہنمائی کرتا ہے، اسی طرح معاملات میں بھی اسلام نے باہم معاملات کرنے والے بائع ومشتری کو کچھ اصول سکھلادیئے جس سے وہ ایک نظم کے تحت اپنے کاروباری مسائل کو حل کرسکیں۔ اور اس نظام کا داعیہ یہاں بھی وہی ہے کہ کہیں متعاقدین کے درمیان نزاع وجدال کی صورت پیش نہ آئے، اور ہر عاقد کو اپنا پورا حق مل سکے، اور ہر قسم کے دھوکے سے گریز کرنے کی تاکید فرمادی گئی، تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں خلل واقع نہ ہو، اس نظام سے متعلق چند احادیث درج ذیل ہیں: ۱:۔۔۔۔نھیٰ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیع الغرر۔‘‘                                              (صحیح مسلم، باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر) ترجمہ:’’رسول اللہ a نے بیع غررسے منع فرمایاہے۔ بیع غرراس بیع کو کہتے ہیں جس میں مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) مجہول ہو یا بیچنے والے کے قبضے سے باہر ہو۔‘‘ ۲:۔۔۔۔’’لایسم المسلم علٰی سوم أخیہ۔‘‘ (صحیح مسلم، باب تحریم بیع الرجل علی بیع أخیہ وسومہ علی سومہٖ) ترجمہ: ’’کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے، یعنی کسی سے خرید و فروخت کا معاملہ ہورہا ہو تو اس میں مداخلت نہ کرے اور اس چیزکے زیادہ دام نہ لگائے۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔نھٰی عن بیع الثمار حتّٰی یبدوَ صلاحُھا۔‘‘                      (مؤطاالامام مالک، باب النہی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحہا، ط: داراحیاء التراث العربی) ترجمہ:’’رسول کریم a نے پھلوں کواس وقت تک بیچنے سے منع فرمایاہے جب تک کہ ان کی پختگی ظاہر نہ ہوجائے۔‘‘ ۴:’’من احتکر فھو خاطیئٌ۔‘‘                     (صحیح مسلم، باب تحریم الاحتکار فی الأقوات) ترجمہ:’’نبی کریم a نے فرمایا:جوآدمی ذ خیرہ اندوزی کرے وہ گناہ گار ہے، یعنی جو تاجر غلہ وغیرہ ضررویاتِ زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرروت کے باوجود مہنگائی کے لیے محفوظ رکھے۔‘‘ ۵: ’’اسی طرح ایک شخص نے نبی کریم a کی خدمت میں عرض کیاکہ مجھے خرید و فروخت میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں تو آپ a نے فرمایاکہ: جب تم خریدو تو کہہ دیا کرو کہ ’’لاَ خِلابۃ‘‘ یعنی اس بیع میں مجھے کوئی دھوکہ نہ ہو، اور تین دن کا اختیار مقرر کرنے کا فرمایا۔                                         (صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی، باب مایکرہ من الخداع فی البیع) نظامِ وراثت اسلام سراپا نظام ہے، ہر پہلو کا ایک نظام منظم کردیا گیا ہے۔ وراثت کے باب میں بھی جب ہم اسلامی نظام پر نظر دوڑاتے ہیں تو شریعت کے احکام بالکل منفرد انداز کے نظر آتے ہیں، اور ہر فریق کا حصہ قرآن پاک میں تفصیل سے واضح کردیا گیا اور ’’الأقرب فالأقرب‘‘ اور ’’القربیٰ تحجب البعدیٰ‘‘ کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قریبی رشتہ دار کو محرومی سے بچالینے کا درس بھی یہی نظام دیتا ہے۔ نظامِ سیاست سیاست بھی زندگی کا بہت وسیع اور بہت اہم شعبہ ہے۔ اس کو بھی اسلام نے ایک نظام میں منضبط کردیا۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور وہی اصل قانون ساز ہے، اس لیے اسلامی حکومت کے دستور کا مآخذ قرآن مجید ہے، ان کی تشریح و تفصیل اور جزئیات کی تفریع شارع m پر چھوڑدی گئی ہے، چنانچہ انہی بنیادوں پر آنحضرتa نے حکومت الٰہیہ کی تشکیل فرمائی اور اس کی روشنی میں جزوی قوانین بنائے، پھر جب اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع ہوا، نئے نئے ملک زیرنگیں ہوئے، نئی نئی قومیں مفتوح ہوئیں اور نئے نئے مسائل پیدا ہوئے، تو پھر خلفائے راشدینؓ نے کلام مجید اور رسول اللہ a کے اقوال و اعمال اور فیصلوں کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے خلافت اسلامیہ کا نہایت وسیع اور مکمل نظام قائم کیا، اموی اور عباسی دور میں ’’کتاب الخراج، کتاب الأموال، أحکام السلطانیۃ، الطرق الحکمیۃ‘‘ بھی اسی نظام کوضبط کرنے کے لیے لکھی گئیں۔ سیاست و حکومت سے متعلق جتنی جامعیت کے ساتھ اسلام نے راہنمائی فراہم کی ہے، اس کا نمونہ دیگر اقوام و مذاہب کے ہاں ناپید ہے، علامہ ابن خلدونv نے مقدمہ ابن خلدون اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویv نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس کا اجمالی تعارف اور بنیادی احوال ذکر کیے ہیں۔ مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ نظم و ضبط اوراجتماعیت دین میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے قیام کا پس منظر بھی اسی مقصد کا حصول ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسلام اپنے تمام شعبوں میں مرتب نظام کانفاذچاہتاہے اور اس نظام سے روگردانی اور اعراض کو قطعاً ناپسند کرتا ہے جس کی دلیل ’’من شذّ  شُذّ  فی النار‘‘، ’’علیکم بالجماعۃ وإیاک والفرقۃ‘‘ ، ’’یداللّٰہ علٰی الجماعۃ‘‘ میں ملتی ہے، اور اللہ پاک کی طرف سے نصرت کے وعدے بھی ایک جماعت و نظام کے تحت چلنے میں ہیں اورمفارقت میں وعیدیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین