بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نسلِ نو پر مغربی تعلیم کے اثرات کا طائرانہ جائزہ (پہلی قسط)

نسلِ نو پر مغربی تعلیم کے اثرات کا طائرانہ جائزہ Nutty as a Noodle Stories        (پہلی قسط)

    ’’ERDC‘‘ تعلیم و تدریس سے متعلق مشاورت کا نامور ادارہ ہے، اس کے سربراہ جناب سلمان صدیقی اور ان کے رفیق کار جناب زبیر شیخ صاحب نے ڈاکٹر عبدالوہاب سوری اور راقم الحروف کو دعوت دی کہ وہ کراچی کے چند اہم ترین اسکولوں کے مالکان، منتظمین، مہتمم، مدرسین اور بہی خواہوں کی ایک خصوصی نشست میں شرکت کریں اور ان کے اسکولوں کو درپیش مسائل اور ان اداروں سے فارغ ہونے والی نوجوان نسلوں کے بارے میں ان کے زَرین خیالات، سوالات، شبہات واشکالات، اضطراب اور ابہامات براہ ِ راست سنیں۔ ہم دونوں نے اس فکر انگیز نشست میں شرکت کی اور اسکولوں سے وابستہ نہایت مخلص، دین دار، صاحب ایمان خواتین و حضرات کے خیالات سنے۔ ان سب کا مشترکہ موقف یہ تھا کہ ہم اپنے اسکولوں میں اسلامی طرزِ زندگی، اسلامی تعلیمات، اخلاقیات، تجوید، قرآن، حدیث، سب کچھ کا بہت خیال رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود نتائج حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ ہمارے اسکول سے فارغ ہونے والے بچوں کا آئیڈیل مغرب ہی ہوتا ہے، وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور ان کو منزل پاکستان سے باہر ہی نظر آتی ہے۔ ہم اس مسئلے کو کیسے حل کریں؟ ہمارے بہترین ماحول، بہترین اسلامی تربیت کے باوجود بچوں میں یہ خیالات کیوں پیدا ہوجاتے ہیں؟     یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب طویل ہے، مختصر نہیں۔ جدید اسکول کا نظام کہاں سے آیا ہے؟ اس کی ما بعد الطبیعیاتی اَساس کیا ہے؟ اس کے مقاصد و اہداف کیا ہیں؟ اس کا نصاب کس بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ ان اداروں کے قیام کے لیے جبر کیوں کیا گیا؟ بچے پر نماز سات سال میں فرض ہوتی ہے، لیکن اسکول میں بچے کا داخلہ اس وقت کیوں ہوجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے؟ خدا کی عبادت بچہ سات سال میں شروع کرتا ہے، مگر معدہ اور معاش کی عبادت ماں کے پیٹ سے شروع کردیتاہے، آخر کیوں؟ یہ جبر لوگوں کے لیے اس قدر فطری، حقیقی اور قابل قبول کیوں ہے؟ قرآن نے حکم دیا ہے: ’’مائیں دو سال تک بچوں کو کامل دودھ پلائیں‘‘ مگر اس عمر سے بہت پہلے بچے کو مونٹیسوری میں داخل کردیا جاتا ہے، یہ جبر کون مسلط کررہا ہے؟ جدید سیکولر تعلیم کے اَساسی مفکرین روسو [Rousseau] مِل [Mill] ولیم جیمز [William James] جان ڈیوی [John Dewey]  گیٹوز [Gatos] اور فوکالٹ [Foucault] نے اس موضوع پر کیا لکھا ہے؟ کیا جدید تعلیمی نظام کے ہتھیار ابلاغ عام کے اوزار ہیں یا تباہی و بربادی کے آلات؟ [The weapons of Mass instruction or Mass Distruction] وغیرہ وغیرہ۔ ان فلسفیانہ مباحث کو ایک نشست یا ایک مضمون میں بیان کرنا محال ہے، لیکن اس سوال، تشویش اور فکر مندی کا مختصر سا جواب دینے کے لیے راقم الحروف نے انگریزی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی دو اہم کتابوں کے بعض مضامین اور کہانیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے، ممکن ہے اس جائزے میں ان سوالوں کا کوئی جواب مل سکے۔ روشنی کی ایک لکیر بھی گُھپ تاریک رات میں ہزاروں چراغوں کا متبادل ہوتی ہے، اس جائزے کو ایسی ہی ایک لکیر سمجھئے۔     کراچی کے وہ اسکول جہاں’’ Adexcle System ‘‘ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے، تیسری جماعت کے بچوں کو انگریزی ادب کی تعلیم دینے کے لیے ایک کتاب ’’ Nutty as Noodle stories‘‘ کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھارت، ایشیا اور پوری دنیا میں پڑھائی جاتی ہے۔      ’’Pie corbett‘‘ کی کتاب کی پہلی کہانی کا عنوان ہے:’’ Daft Jack ‘‘۔ احمق، نادان، بدھو، جیک ایک غریب ماں کا بیٹا تھاجو گھروں میں کام کرکے اپنی گزر اوقات کرتی، مگر اس کا بیٹا روزانہ صبح کے وقت گھر کے دروازے پر بیٹھ جاتا، گھاس چباتا، سہ پہر کو وہ ندی پہ بیٹھ کر مچھلیوں سے دل بہلاتا اور رات کو تاریک آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا، یہی اس کی مصروفیت تھی۔ ایک دن اس کی ماں نے اس سے کہا کہ یہ سستی، نکما پن ختم کرو اور کام کے لیے نکلو، تاکہ اپنی خوراک کا بندوبست کرسکو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو واپس اس گھر کا رخ نہ کرنا۔ اگلے دن نادان جیک کام کی تلاش میں نکلا، اس کی ملاقات ایک کسان سے ہوئی، اس نے کسان کا ہاتھ بٹایا، شام کو کسان نے اس کی شدید محنت کے معاوضہ میں ایک پینی کا سکہ دیا، اس نے اپنے آپ سے کہا کہ آج تو میری ماں بہت خوش ہوگی۔ واپسی کے سفر میں وہ ندی کے پاس رکا اور مچھلیوں کا نظارہ دیکھنے ندی پر جھکا، اس کے ہاتھ میں رکھا ہوا سکہ ہاتھ سے پھسل کر ندی میں جا گرا، وہ سکے کی تلاش میں ندی کی تہہ تک اترا، مگر سکہ ہاتھ نہ آیا۔ وہ مایوس ہو کر گھر کی طرف چلا، اسے یقین تھا کہ اس کی ماں سکے کی گمشدگی کا سن کربا لکل خوش نہیں ہوگی، وہ مچھلی کی طرح پانی میں تر بہ تر تھا، دن بھر کی محنت کا ثبوت ماں کے سامنے پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ ماں اسے دیکھتے ہی چلائی: او احمق لڑکے! تمہیں سکہ اپنی جیب میں رکھنا چاہیے تھا۔ جیک نے جواب دیا: امی معاف کردیجیے، اگلی مرتبہ غلطی نہیں ہوگی، میں اس نصیحت کو یاد رکھوں گا۔ اگلے دن وہ کام کے لیے نکلا تو اسے ایک کسان ملا جس کے پاس گایوں کا گلہ تھا، اس نے کسان کا ہاتھ بٹایا، شام کے وقت کسان نے اس کی مشقت کے صلے میں اسے دودھ کا ایک جگ دیا۔ جیک کو ماں کی نصیحت اور اپنا وعدہ یاد تھا، لہٰذا اس نے نہایت احتیاط اور ذمہ داری سے دودھ کا جگ اپنی جیب میں رکھ لیا، وہ سوچ رہا تھا کہ آج اس کی ماں بہت خوش ہوگی، لیکن گھر پہنچتے پہنچتے دودھ جیب سے بہہ کر اس کی ٹانگوں سے رسنے لگا، وہ سمجھ گیا کہ اس کی ماں ہر گز خوش نہیں ہوگی، اس کی پتلون دودھ سے تر بہ تر ہورہی تھی اور دن بھر اس نے جو مشقت کی تھی اس کا ثبوت دکھانے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا، بس یہی دودھ سے گیلی پتلون تھی، ماں اُسے دیکھتے ہی چلائی، اے احمق!!! تمہیں دودھ کے جگ کو اچھی طرح ڈھانک کر اپنی قمیض کے اندر رکھ کر لانا چاہیے تھا: You Should have wrapped up the jug and carried it under your shirt جیک نے پھر معذرت پیش کی اور کہا کہ آئندہ میں اس بات کا خیال رکھوں گا (سوال یہ ہے کہ بچہ احمق ہے یا ماں بھی احمق ہے؟ دودھ کے جگ کو قمیض کے اندر رکھ کر کیسے لایا جاسکتا ہے؟) اگلے دن جیک پھر کام کی تلا ش میں باہر نکلا، اسے نا ن بائی ملا، اس نے روٹی کے لیے آٹا گوندھنے کا کام اس کے سپرد کیا، شام کے وقت جیک کی سخت محنت ومشقت کے معاوضے میں نان بائی نے اُسے بلی کا ایک بچہ دیا، جیک کو ماں سے کیا گیا اپنا وعدہ یاد تھا، اس نے بلی کے بچے کو نہایت احتیاط سے لپیٹ کر اپنی قمیض کے اندر رکھ لیا، وہ سوچ رہا تھا کہ آج تو اس کی ماں ضرور اس سے خوش ہوگی، لیکن بلونگڑا قمیض کی اندھیری کال کوٹھری میں نا خوش تھا ،اسے جیک کی قمیض کے اندر رہنا نہایت مضحکہ خیز لگا، بلونگڑے نے غریب جیک کو پنجے مار مار کر لہو لہان کردیا، اس سے پہلے کہ جیک گھر پہنچتا، بلونگڑا چھلانگ مار کر راستے میں ہی بھاگ نکلا، جیک کو احساس ہوگیا تھا کہ اس کی ماں بہت ناراض ہوگی، ماں نے جیک کو جیسے ہی دیکھا چلائی، او گدھے لڑکے! بلونگڑے کو رسی کے ٹکڑے کے ساتھ باندھنا چاہیے تھا، پھر تم اسے اپنے ساتھ ساتھ چلا کر لے آتے۔ جیک نے  حسبِ معمول معذرت پیش کی، اس نصیحت کو یاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا وعدہ کیا، اگلے دن وہ پھر کام کی تلاش میں نکلا، اسے قصائی نے کچھ کام دیا، شام کے وقت اس کی محنت کے معاوضے میں قصائی نے اسے گوشت کا ٹکڑا دیا، جیک کو ماں کی نصیحت اور اپنا وعدہ یاد تھا، اس نے ایک رسی کو گوشت کے گرد لپیٹا اور گوشت کوبلی کے بچے کی طرح رسّی سے کھینچتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوا، وہ سوچ رہا تھا کہ آج تو اس کی ماں یقیناً خوش ہوگی، ابھی وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ بہت سے کتے اس کا پیچھا کرنے لگے، وہ گوشت کھانا چاہتے تھے، وہ تمام راستے گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہے، جب جیک گھر پہنچا تو رسی کے آخری سرے پر کچھ نہیں بچا تھا اور اس کے ٹخنے زخمی ہوگئے تھے، اس نے جان لیا کہ اس کی ماں ہر گز خوش نہیں ہوگی۔ جیسے ہی ماں نے جیک کو دیکھا زور سے چلائی: احمق! گوشت اپنے کندھے پر رکھ کر لانا چاہیے تھا، تاکہ کتے گوشت نہ کھاسکتے: You should have carried the meat on your shoulders then the dogs would not have been able to eat it. (اس کی عقل مند ماں کا یہ مشورہ خود احمقانہ ہے، کیا گوشت کندھے پر رکھ کر لایا جاتا ہے؟) جیک نے حسب معمول معذرت کی، ماں کی نصیحت کو اپنے پلے باندھنے اور اس پر عمل کا وعدہ کیا، اگلے دن وہ کام کی تلاش میں نکلا، اسے شہد جمع کرنے والا ملا، جیک نے چھتوں سے اس کے لیے شہد جمع کیا، دن کے اختتام پر شہد والے نے اسے اپنا بوڑھا ناکارہ گدھا سخت محنت کے معاوضے میں دیا، جیک نے گدھا لیا اور ماں کی نصیحت اور اپنے وعدہ پر عمل کرتے ہوئے گدھے کو اپنے کاندھے پر اٹھالیا اور گھر کی طرف چل دیا، گدھے کی ٹانگیں ہوا میں لہرارہی تھیں، جیک اسی حالت میں چلتا رہا اور گدھا زور دار طریقے سے ڈھینچوں ڈھینچوں کررہا تھا، راستے میں ایک بہت امیر آدمی کا گھر تھا جو اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا، اس کی بیٹی بہت خوبصورت تھی، لیکن اپنی ماں کے انتقال کے بعد سے مسلسل اداس تھی، اس نے ما ںکے مرنے کے بعد اپنی زبان سے ایک لفظ ادا نہیں کیا، وہ ہمیشہ غم میں ڈوبی رہتی، ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو بتایا تھا کہ وہ صرف اسی وقت کچھ بولے گی جب کوئی اسے ہنسا سکے، اس غم زدہ لڑکی نے گھر سے باہر شور شرابے کی آواز سنی تو کھڑکی سے جھانکا، سڑک پر عجیب تماشہ تھا، جیک کے کاندھے پر ایک گدھا لدا ہوا تھا، یہ منظر دیکھ کراس کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا اور مسرت کا چشمہ پھوٹ نکلا، وہ مسلسل اور مستقل ہنسے جارہی تھی، وہ بھاگ کر اپنے ابو کے پاس گئی اور اس پر لطف منظر کا ذکر کیا، لڑکی کا باپ اس واقعہ سے بے انتہا خوش ہوا کہ اس کی بیٹی نے ہنستے ہی بولنا شروع کردیا، لڑکی کے باپ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس لڑکے کو اپنی بیٹی کا شوہر بنائے گا جس نے اس کی اداس بیٹی کو خوش کردیا تھا، لڑکی کے باپ نے اپنی بیٹی جیک کے سپرد کردی، جیک گدھے پر اپنی بیوی کو بٹھا کر گھر لے گیا، اس شام بھی جیک کی ماں اس کا انتظار کررہی تھی، اس کا اندازہ تھا کہ جیک آج بھی کوئی احمقانہ کام کرکے آئے گا اور اس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا، وہ اس کو ایک زور دار سبق سنانے پر تیار تھی، لیکن جب اس نے دیکھا کہ جیک گدھے کی رہنمائی کررہے ہیں اور گدھے پر ایک نہایت خوبصورت لڑکی سوار ہے تو اس کی ماں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہا، اس دن سے جیک کی ماں نے جیک کو کبھی احمق جیک نہیں کہا۔     اس کہانی میں بچے کے لیے کئی اسباق مخفی ہیں جو ہماری تہذیب، علمیت، تاریخ، روایات اور اقدار سے متصادم ہیں: ۱:۔۔۔۔۔روایتی تہذیبوں میں احمق، نادان، معذور، بدھو بچوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، ان کی معذوری نادانی کو لعنت ملامت کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، ان سے خصوصی محبت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ آج بھی روایتی معاشروں میں خاندان کے سب سے کم زور، معذور اور احمق بچے کو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس کو تذلیل، تضحیک، تمسخر کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، کیونکہ وہ خلقی طور پر کم زور ہے اور زندگی کی دوڑ میں صحت مند لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایسے بچوں کے ساتھ صرف ماں ہی نہیں خاندان اور خاندان سے باہر بھی ہر شخص خصوصی توجہ اور محبت کا برتاؤ رکھتا ہے۔ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داریاں بھی نہیں ڈالی جاتیں۔ ۲:۔۔۔۔۔کم زور اور احمق بچے کی خاص تربیت کی جاتی ہے، اس کو پیار و محبت سے سمجھا یا جاتا ہے اور اس کی غلطیوں کی اصلاح نہایت تدبر، فہم اور رحم سے کی جاتی ہے۔ یہ عجیب ماں ہے جو اسے روزانہ ذلیل کرتی ہے اور بچے کو جو سبق دیتی ہے اس کے ساتھ یہ نہیں بتاتی کہ یہ سبق صرف اس طرح کی صورت حال میں کار آمد ہے، لیکن تم اس سبق کو دوسری جگہوں پر استعمال نہ کرو۔ وہ بچے کو یہ سمجھا سکتی تھی کہ جس کے یہاں کام کرو جب وہ معاوضے میں کچھ دے تو اس سے پوچھ لو کہ میں اسے کیسے لے کر جاؤں؟ ۳:۔۔۔۔۔ ایک نادان احمق بچہ بھی اتنا احمق نہیں ہوتا کہ وہ دودھ کو جیب میں ڈال دے اور بلونگڑے کو قمیض کے اندر رکھ کرچھپائے ،جسم کے ساتھ چمٹالے اور خود کو اس سے زخمی بھی کرائے ،بچے کی حماقت انگیزی بہت زیادہ افسانوی ہے، فی الحقیقت بچہ اگر اتنا ہی احمق تھا تو اس پر غصے کا کوئی جواز ہی نہ تھا۔ ۴:۔۔۔۔۔ ماں نے بچے کو جو اسباق دیے وہ خود احمقانہ ہیں، دودھ کے جگ کو قمیض کے اندر رکھ لو، گوشت کو کندھے پر رکھ کرلاؤ، عملی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا، دونو ںطریقے نہایت غلط ہیں۔کہانی نویس نے ماں کو بھی احمق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۵:۔۔۔۔۔ بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے کام صحیح طریقے سے نہیں کرسکتا، لیکن زندگی کا سب سے مشکل کام یعنی شادی کا فیصلہ اس نے ایک لمحے میں کرلیا، اپنی ماں سے مشورہ بھی نہیں کیا، اجازت بھی نہیں لی، شادی کی تقریب بھی منعقد نہیں ہوئی، خاندان کے لوگوں سے کوئی مشورہ، کوئی رائے کچھ نہیں کیا گیا۔ ۶:۔۔۔۔۔ لڑکی کا باپ جو امیر تھا اس نے بھی یہی سوچا کہ یہ احمق لڑکا ہی میری لڑکی کو خوش رکھ سکے گا اور اس کے اشارے پر چلتا رہے گا، لہٰذا اس نے لڑکے کے خاندان، حسب نسب، کام ، کاروبار، ماں باپ ، رہائش کے بارے میں کچھ پوچھنے، دیکھنے، سوچنے، کی زحمت گوارا نہ کی، لڑکی کا باپ ایک جانب اتنا عقل مند ہے، مگر اس نے اپنے کسی عزیز دوست پڑوسی سے مشورہ نہیں کیا، نہ بچی کی شادی میں کسی کو مدعو کیا۔ اچانک سڑک پر جانے و الے ایک نامعلوم لڑکے سے خوش ہو کر اپنی قیمتی متاع لڑکی کا ہاتھ اس احمق لڑکے کے ہاتھ میں تھما کر گدھے پر بیٹی کو ساس کے گھر جانے کی اجازت دے دی، اتنی تکلیف بھی نہیں کی کہ بچی کے سسرا ل تک چلا جاتا کہ یہ احمق داماد راستے میں گھر پہنچنے سے پہلے میری بیٹی کو کوئی نقصان نہ پہنچادے۔ ۷:۔۔۔۔۔ لڑکے کی ماں نہایت سخت تھی، مگر جیک کو ماں کی اجازت کے بغیر شادی کرتے ہوئے نہ شرم آئی، نہ کوئی فکر ہوئی، وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بیوی کو ما ںکی اجازت کے بغیر اس کے گھر لے گیا۔ ۸:۔۔۔۔۔ اس کی ماں اس قدر لالچی تھی کہ اس نے جب دیکھا کہ جیک ایک خوبصورت لڑکی لے آیا ہے تو اس سے پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی کہ احمق! یہ لڑکی کون ہے؟ کہاں سے لایاہے؟ کیوں لایا ہے؟ کس کی اجازت سے؟ تو اتنا احمق ہے کہ کچھ کماتا نہیں ہے، تجھے تو میں گھر سے نکال رہی تھی، اب تو میری غربت میں ایک لڑکی بھی لے آیا ہے، یہ مفلسی میں گیلا آٹا والا معاملہ ہے۔ لیکن ماں نے سوچ لیا کہ لڑکی امیر گھر کی ہے، اپنے شوہر کا خیال رکھے گی اور میرا بھی خیال رکھے گی، اس لڑکی پر میرا احسان ہے کہ میں اگر اس بیٹے جیک کو نہ جنتی تو یہ ادا سی میں گھٹ کر مر جاتی،میرے بیٹے کی بے وقوفی اس بد قسمت لڑکی کے لیے خوشیوں کے خوشے لائی ہے، میرا بیٹا تو خوش قسمت ہے ۔ ۹:۔۔۔۔۔ کہانی میں بچوں کو جو پیغام دیا گیا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ زندگی کا مقصد کمانا اور کھانا ہے، جو کمانے کے قابل نہیں وہ عزت کے قابل نہیں۔ اس کی بے عزتی کرنا جائز ہے، بلکہ اسے گھر سے نکال دینا چاہیے۔ کسی احمق بے وقوف بچے کو گھر میں رکھ کر کھلانا پلا نا احمقانہ بات ہے۔ جو اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکتا اس کا بوجھ ماں باپ گھر والوں کو بھی نہیں اٹھانا چاہیے۔ جدید مغرب کا یہ تصور جو انسان نے اختیار کیا ہے جانور بھی اس سے بہتر تصور رکھتے ہیں، مثلاً افریقہ کے جنگلوں میں ہاتھیوں کے غول کی رفتار کا تعین غول کا سب سے کم زور ہاتھی کرتا ہے، اس کی رفتار کے مطابق تمام ہاتھی اپنی رفتار کم کرلیتے ہیں، اجتماعیت کی خاطر ایک کم زور ہاتھی کے لیے پورا غول قربانی دیتاہے ۔ چیتے کی مادہ بچے دیتی ہے تو چیتا اپنے بھٹ میں نہیں جاتا، وہ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، اندر صرف ماںاور بچے ہوتے ہیں، وہ ماں کے لیے شکار تلاش کرکے لاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایک دن اس مشقت محنت سے تنگ آکر چپکے سے غائب ہو جائے، وہ اپنا فرض ادا کرتا ہے، اپنی بیوی کی جدائی برداشت کرتا ہے، اپنے خاندان کو تنہا چھوڑنا اس کی فطرت کے خلاف ہے، مگر اس کہانی میں ماں جیسی ہستی کو اس قدر کمتر درجے پر دکھایا گیا ہے، جب کہ ماں کی محبت دنیا کی ایسی محبت ہے کہ رسالت مآب aنے جب بندوں سے اللہ کی محبت کی گہرائی کو بیان کیا تو اللہ کی محبت کو ماں کی محبت کے ذریعے بیان کیا، فرمایا کہ: اللہ بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے ۔ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے بندوں کے لیے اس سے زیادہ پیار اور رحم ہے جتنا کہ اس ماں میں اپنے بچے کے لیے’’ لَلّٰہُ أرحم لعبادہٖ من ھٰذہٖ بولدھا‘‘ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم) اور ایک انسان کی ماں کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اسے محسوس کیا جاسکتا ہے، بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جانورکی ماں تک اپنی اولاد سے ایسی محبت کرتی ہے کہ اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے گھر میں ایک مرغی تھی، اچانک بیمار ہوئی، دبلی ہونے لگی، طبیعت اس کی بگڑتی چلی گئی، اس نے انڈے دینے شروع کیے، وہ ہم نے کھائے۔ آخری انڈہ دیتے ہوئے وہ بطخ کے گھر کی طرف چلی، گھسٹتی لڑکھڑاتی ہوئی وہاں پہنچی، آخری انڈہ اس نے بطخ کی دہلیز پر دے کر اپنے انڈے کو بطخ کے سپرد کردیا اور یہ فرض ادا کرنے کے بعد وہیں اپنی جان دے دی، بطخ اسے اپنا انڈہ سمجھ کر گھر میں لے گئی۔ پھر بطخ بھی کئی انڈے دے رہی تھی، بچے پیدا ہوئے، ان میں مرغی کا بچہ بھی شامل تھا، بطخ بچوں کو تیرنے کے لیے پانی میں لے جاتی تو مرغی کا بچہ تیرنے کے بجائے بطخ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتا، بطخ اسے اپنا ہی بگڑا ہوابچہ سمجھتی جو پانی سے خوف کھاتا ہے۔ ایک مرغی موت کا اندازہ کرتے ہی اپنے مستقبل کو ایک محفوظ ہاتھ میں منتقل کرنا چاہتی ہے، یہ ماں کی محبت ہے۔ مغرب اور Edexcle ہمیں کس قسم کی ماں سے آگاہ کررہا ہے؟ لبرل ازم اور سرمایادارانہ نظام کے معاشی اصولوں کا سنہرا اصول ہے کہ’’ Each according to his ability‘‘ کہ ’’ہر شخص کو اس کی صلاحیت واستعداد کے مطابق رزق ملنا چاہیے‘‘  جبکہ سوشلزم اس اصول کو تسلیم نہیں کرتا، اس کا دعویٰ ہے کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق ملنا چاہیے کہ تمام انسان برابر تو ہیں مگر صلاحیتوں میں برابر نہیں ہیں’’Each according to his need‘‘ لہٰذا اجتماعیت کو کم زور افراد کے لیے قربانی دینا چاہیے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق اور اس کے خاندان بنی آدم یعنی انسان کی خدمت ہر مسلمان کا فرض ہے، کیونکہ تمام انسان اللہ کا کنبہ ہیں: ’’ الخلق عیال اللّٰہ‘‘ جو جس کے جتنا قریب ہے اس کی کفالت‘ اس کی اخلاقی، مذہبی اور شرعی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی کمانے کے قابل نہیں ہے تو کمانے والوں کی انفرادی، اجتماعی، گروہی، معاشرتی، خاندانی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عزیز کا اور اجنبی کا بھی خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ تو قیامت کے دن بندے سے پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا، تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔جواب میں انسان کہے گا: اے اللہ! آپ کیسے بھوکے پیاسے ہوسکتے ہیں؟ تو جواب ملے گا: میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، فلاں پیاسا تھا، تم نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اسلام اس نقطۂ نظر کا حامی ہے۔ حدیث میں ماں کی محبت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی محبت ستر ماؤں کی محبت سے زیاد ہ ہے، یعنی اللہ کی محبت کے لیے مثال دی گئی تو اس دنیا سے ماں کو منتخب کیا گیا۔ یہ کہانی ماں کی ایک نہایت گھناؤنی تصویر پیش کرتی ہے جو روایتی، مذہبی، الہامی اور اسلامی تہذیبوں کے تصورِ انسان، تصورِ عبد اور تصورِ مال کے صریحاً منافی ہے۔ یہ خالصتاً مغربی مادہ پرست ماں ہے جو پیسے کے لیے جیتی اور پیسے کے لیے مرتی ہے، اس کی زندگی کا مقصد محض مادی خوش حالی اور ترقی ہے، چونکہ احمق بیٹے نے اپنی حماقت سے ہی مادی خوش حالی کے دروازے اپنے اوپر کھول لیے تھے، لہٰذا وہ خوش ہوگئی۔ مزے کی بات یہ کہ جدیدیت ’’modernism‘‘ کے فلسفے اور فکر کے تحت تخلیق کردہ اس کہانی کی کتا ب پر روایتی مختصر کہانیاں [Traditional Short Stories] لکھا گیا ہے، یہ محض دھوکہ ہے، تاکہ یہ بتایا جائے کہ ماضی بھی ایسا تھا اور عہدِ حاضر میں ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے۔          (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین