بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نسلِ نو پر مغربی تعلیم کے اثرات کا طائرانہ جائزہ (دوسری اور آخری قسط)

نسلِ نو پر مغربی تعلیم کے اثرات کا طائرانہ جائزہ Nutty as a Noodle Stories  (دوسری اور آخری قسط)

Essential Fiction انگریزی ادب کے نام پر کیا پڑھایا جارہا ہے؟ Adexcle سسٹم کے تحت تیسری جماعت کے بچوں کو Brian Moses کی مرتبہ Essential Fiction" " پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کی پشت [back] پر اس عظیم شاہکار کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے: " This Essential fiction anthology has been carefully put to gether to give you some of the very best examples of children's literature" اگر مغرب میں سب سے بہترین ادب اس کا نام ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بد ترین ادب کس درجے کا ہوگا؟!! آئیے! اس بہترین شاہکار انتخاب کا جائزہ لیتے ہیں: کتاب میں ایک کہانی ہے  ’’Rumpelstilskin ‘‘اسے روایتی کہانی ’’Traditional Story ‘‘بتایا گیا ہے۔ کہانی کا آغاز ایک غریب چکی والے سے ہوتا ہے جو شیخ چلی کی طرح اپنی خوبصورت بیٹی کے بارے میں اونچی اونچی باتیں ہانکنے کا شوق رکھتا تھا، چکی والا ایک دن بادشاہ کے دربار میں گیا، اس نے کہا کہ میری بیٹی بہت دانا، زیرک اور ہوشیار ہے، وہ بھوسے کو سونے میں تبدیل کرسکتی ہے، یعنی لڑکی کا باپ صرف شیخی خور ہی نہیں جھوٹا بھی تھا اور احمق بھی۔ بادشاہ جو سونے کا دیوانہ تھا، بہت خوش ہوا اور اس سے کہا کہ چلو ہم دیکھتے ہیں کہ تمہاری بیٹی کیا واقعی بھوسے کو سونے میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہے؟! اچانک چکی والے کو اپنی احمقانہ جھوٹی باتوں کا احساس ہوا، اس نے بادشاہ کے حضور معافی پیش کی، لیکن وقت گزر چکا تھا۔ بادشاہ نے چکی والے کی لڑکی کو پکڑ کر ایک ایسے کمرے میں بند کردیا جہاں بھوسہ بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ نے لڑکی سے کہا: اب میں تمہاری ذہانت دیکھوں گا، اس کمرے میں موجود تمام بھوسے کو صبح سے پہلے پہلے سونے میں تبدیل کردینا، ورنہ میں تمہارے سر کو پاش پاش کردوں گا۔ بادشاہ یہ کہہ کر کمرے سے چلا گیا، تنہا لڑکی رونے لگی، وہ بھوسے کو سونے میں نہیں بدل سکتی تھی، اسے اپنی موت سرپر منڈلاتے ہوئے نظر آرہی تھی، اچانک دروازہ زور سے کھلا اور ایک چھوٹا سااجنبی شخص نمودار ہوا، اس نے لڑکی سے پوچھا: تم کیوں رورہی ہو؟ ماجرا سن کر اجنبی نے کہا: اچھا! اگر میں اس بھوسے کو سونے میں بدل دوں تو تم مجھے اس کے بدلے میں کیا دو گی؟ لڑکی نے کہا: میں اس کے بدلے میں اپنا ہار تمہیں دے دوں گی، چھوٹے سے شخص نے اپناکام شروع کیا، صبح سے پہلے پہلے بھوسہ سونے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ بادشاہ نے اتنا سارا سونا دیکھا تو بہت خوش ہوا، مگر اس کا لالچ مزید بڑھ گیا، اس نے غریب لڑکی کو پہلے سے بڑا کمرہ دیا جو پہلے سے زیادہ بھوسے سے بھرا ہوا تھا اور حکم دیا تھا کہ صبح سے پہلے پہلے یہ بھوسہ سونے میں بدل دو، ورنہ تمہارا سر پاش پاش کردوں گا۔ جیسے ہی بادشاہ کمرے سے باہر نکلا، لڑکی رونے لگی، چھوٹا شخص اچانک دوبارہ نمودار ہوا، ماجرا سنا اور پوچھا: چلو میں بھوسہ سونے میں بدل دوں گا، مگر تم اس کے معاوضے میں مجھے کیا دو گی؟ لڑکی نے کہا: میں اپنی انگوٹھی تمہیں دے دوں گی، چھوٹے آدمی نے بھوسے کو سونے میں بدلنے کا کام شروع کردیا۔ ۱:۔۔۔۔۔کہانی کا پہلاسبق یہ ہے کہ باپ احمق، لالچی، بے وقوف اورجھوٹا ہے اور اتنا بے وقوف کہ اپنی بیٹی کو بادشاہ کے ہاتھوں پھنسوا دیا، اس کی جان کے لالے پڑگئے۔ ۲:۔۔۔۔۔ بادشاہ اتنا لالچی اور احمق کہ بھوسے کو سونے میں بدلنے کا کام ایک ایسی لڑکی کے سپرد کردیا جس کے باپ نے اپنے احمقانہ الفاظ واپس لے کر اس سے معذرت کرلی تھی، مگر اس نے سوچا کہ کیا پتہ اُسے یہ ہنر آتا ہو، آزمانے میں کیا حرج ہے؟ ۳:۔۔۔۔۔ بادشاہ اتنا ظالم کہ باپ کی غلطی کی سزا ایک معصوم لڑکی کو دینے پر آمادہ ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم نے بھوسے کو سونے میں نہیں بدلا تو سر کچل دوں گا، حالانکہ روایتی تہذیبوں میں بادشاہ رعایا کا باپ تصور کیا جاتا تھا اور عورتوں کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔  برنارڈ لیوس نے اپنی کتاب ’’What went wrong ‘‘میں  1860ء میں آسٹریا کے صدر مقام ویانا کا واقعہ ایک ترک سفیر کی زبانی نقل کیا ہے کہ وقت کا بادشاہ ویانا کی سڑک پر گھڑ سواری کررہا تھا، اس نے ایک عورت کو آتے ہوئے دیکھا تو گھوڑے کی باگ کھینچ لی، گھوڑا روک کر اترا اور اس عورت کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ دوسرا واقعہ یہ لکھا ہے کہ بادشاہ چہل قدمی کررہا تھا، اچانک ایک عورت سامنے سے گزری تو وہ اس کے احترام میں رک گیا، اپنی ٹوپی سر سے اتار کر نیچے جھکا، یہ عورت کا احترام تھا۔  جس مغربی تہذیب کا بادشاہ اٹھارہویں صدی میں عورت کا اتنا احترام کرتا تھا اس تہذیب میں بادشاہ کو اتنا سفاک بتانا درست بات نہیں ہے۔ ۴:۔۔۔۔۔ایک مظلوم لڑکی کی مدد کرنے والا اجنبی چھوٹا شخص بھی لالچی ہے، وہ لڑکی کی مدد رحم، ہمدردی، انسانیت کے جذبے کے تحت نہیں کررہا، بلکہ اس سے مدد کا معاوضہ طلب کررہاہے، یہ کس قسم کی تہذیب ہے اور کیسا آدمی ہے؟ ۵:۔۔۔۔۔بادشاہ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اگر لڑکی بھوسے کو سونے کے ڈھیر میں بدل سکتی ہے تو اس کے ابو چکی کیوں چلاتے ہیں؟ وہ تو بھوسے کو سونے میں بدل کر دولت مند بن سکتے ہیں، کسی سلطنت کو سنبھالنے والا بادشاہ تو ذہین ہوتا ہے۔لڑکی نے پہلی بار جب بادشاہ کو سونے کا ڈھیر بنا کر دیا تو بادشاہ خوش ہوا، لڑکی نے اس وقت سچ بول کر اپنی جان کیوں نہیں بچائی؟ وہ بادشاہ کو سچ سچ بتادیتی کہ یہ سونا کس نے بنایا ہے، مگر وہ اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھی؟ جبکہ تیسری بار بھوسے کو سونا بنانے کے بعد بادشاہ نے شادی کی پیشکش کی تھی، اسے لڑکی کی نہیں بلکہ سونے کی لالچ تھی، وہ سونے کی کان سے شادی کررہا تھا، انسان سے نہیں، شادی سے پہلے بادشاہ نے اور لڑکی کے باپ نے کوئی مشورہ نہیں کیا، نہ لڑکی نے بادشاہ سے کہا کہ میںاپنے ماں باپ سے پوچھ لوں۔ حریص حاسد لڑکی کو محل کی زندگی فریب دے رہی تھی۔ لڑکی یہ بھی جانتی تھی کہ اجنبی چھوٹا آدمی بھی لالچی ہے، اگر وہ بادشاہ کے سامنے نمودار ہوتا تو بادشاہ کو بھی سونا ملتا رہتا اور اجنبی چھوٹا آدمی بھی جو چاہتا بادشاہ سے بدلے میں لیتا، اس طرح دونوں لالچی اپنے مقاصد حاصل کرلیتے۔ کہانی میں کسی ایک کردار کو سچا اور ایماندار بتایا جاسکتا تھا، تاکہ بچے سچائی اور ایمانداری سیکھتے، انہوں نے اس کہانی سے یہ سیکھا کہ ملکہ نے جھوٹ بول کر مسئلے کا حل نکالا اور کامیاب رہی۔ کہانی میں یہ پیغام بھی تو دیا جاسکتا تھا کہ اگر سچ بول کر بھی بادشاہ لڑکی کی جان لیتا تو سچائی کی خاطر وہ لڑکی جان کی قربانی دے دیتی، اس طرح لڑکی کے باپ کو بھی لالچ اور جھوٹ بولنے کی سزا مل جاتی۔ ۶:۔۔۔۔۔ مدد کرنے والا اجنبی شخص لڑکی کے باپ کی طرح نہایت احمق بھی ہے، اس کے پاس یہ فن موجود ہے کہ وہ ایک کمرہ بھر بھوسے کو سونے میں تبدیل کرلے تو وہ یہ کام کرنے کے بجائے لڑکی سے  سونے کا ہار اور انگوٹھی مانگ رہا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ نہایت لالچی ہے، کیونکہ اسے بھوسے کو سونا بنانا توآتا ہے، لیکن اگر کہیں سے کچھ اور سونا مل جائے تو اس کوہتھیانے میں کیا حرج ہے؟ کسی مظلوم کی بلا معاوضہ مدد کرنا اچھی بات نہیں،ہر کام کا معاوضہ لینا چاہیے۔ مغرب میں لبرل ازم اور انسانی حقوق کے تحت فلسفہ یہی ہے کہ کام ’’work ‘‘ہر شخص کو کرنا چاہیے کہ کام سے سرمایہ ملتا ہے اور سرمایہ سے آزادی ملتی ہے، جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہے وہ زیادہ آزاد ہے، لہٰذا آزادی کی ٹھوس شکل مغرب میں سرمایہ ہی ہے۔ جو کام نہیں کرتا،سرمایہ نہیں کماتا، وہ آزاد نہیں ہے، عقل مند نہیں ہے، احمق ہے، نفسیاتی مریض ہے، اس لیے فوکالٹ لکھتا ہے کہ: کام کا نہ ہونا پاگل پن ہے: ’’  The absence of work is madeness ‘‘ لہٰذا مغرب میں ہر شخص کام کرتا ہے، تاکہ سرمایہ کما سکے۔ جو عورت گھر میں رہ کر گھر کے کام کرتی ہے اس کو مغرب کام نہیں تسلیم کرتا کہ اس کام سے سرمایہ نہیں ملتا، اسے مغرب’’   working women‘‘نہیں کہتا، لیکن جس لمحے یہ عورت گھر میں بچوں کے کپڑے دھونے ، باورچی خانہ میں کھانا پکانے کے بجائے یہی کام لانڈری اور ہوٹل میںدوسروں کے لیے انجام دے جس کے اسے پیسے ملیں تو اس عورت کو فوراً ’’ working women ‘‘کہا جاتا ہے۔ رنڈی کو مغرب میں قابل عزت سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم سے کام لے کر سرمایہ کماتی ہے، لہٰذا مغرب میں اس کا عزت والا نام ہے:’’   sex worker‘‘ کیونکہ مغرب کے بہت بڑے فلسفی جان لاک نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ انسان کا جسم اس کی ملکیت ہے اور وہ اس میں آزادانہ طور پر تصرف کا اختیار رکھتا ہے، یعنی جسم اللہ کی ملکیت اور ہمارے لیے امانت نہیں، انسان کی ملکیت ہے۔ لیکن ظاہر ہے روایتی تہذیبوں میں ایسا نہیںہوسکتا۔ کہانی آگے چلتی ہے ، چھوٹا آدمی صبح سے پہلے بھوسے کو سونا بنا کر غائب ہو جاتا ہے، جب بادشاہ دیکھتا ہے کہ لڑکی نے اتنے سارے بھوسے کو سونا بنادیا ہے تو اس کا لالچ اور بڑھ جاتا ہے، اسے مزید سونا چاہیے، لہٰذا وہ اس رات لڑکی کو ایک بہت بڑے کمرے میں منتقل کرتا ہے جو بھوسے سے بھرا ہوتا ہے اور وہی حکم دیتا ہے کہ صبح تک اسے سونا بنادو، اگر تم نے ایسا کردیا تو میں تم سے شادی کرکے تمہیں اپنی ملکہ بنا لوں گا، جیسے ہی بادشاہ کمرے سے باہر نکلتا ہے، لڑکی رونے چلانے لگتی ہے، ایک تو  خطرہ کہ سونا نہ بنایا تو قتل کردے گا، دوسرے امید کہ سونا اگر بنادیا تو شادی ہو جائے گی، اتنا بڑا محل مل جائے گا، خوف اور لالچ کے جذبات اس پر غالب تھے،کچھ کھونے کا غم اور کچھ پانے کی امید۔ اچانک اجنبی چھوٹا شخص دوبارہ نمودار ہوتا ہے، مدد کا وعدہ کرتا ہے، لیکن پوچھتا ہے کہ اس مدد کے صلے میں وہ کیا معاوضہ دے گی؟ لڑکی صدمے سے کہتی ہے کہ اب تو میرے پاس دینے کے لیے کوئی تحفہ نہیں ہے: ’’  This time I have no gift to give you‘‘ (مغرب میں جو چیز مانگ کر لی جاتی ہے اُسے تحفہ gift کہتے ہیں، کہانی میں یہی فلسفہ پیش کیا گیا ہے) اجنبی آدمی لڑکی سے وعدہ لیتا ہے کہ اچھا جب تمہارا پہلا بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ مجھے دے دینا۔ وہ وعدہ کرلیتی ہے، اجنبی آدمی مستقبل کے وعدے پر بھوسے کو سونا بنادیتا ہے، لڑکی کی جان بھی بچاتا ہے، اس کا مستقبل بھی شاندار کردیتا ہے۔ بادشاہ اس لڑکی سے شادی کرکے ملکہ بنا لیتا ہے۔ ملکہ کے یہاں بچہ پیدا ہوجاتا ہے، ملکہ اپنے لڑکے کے ساتھ ایک دن بیٹھی ہوتی ہے، اچانک دروازہ کھلتا ہے، چھوٹا آدمی آتا ہے اور اسے بھولا ہوا وعدہ یاد دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لڑکا میرے حوالے کردو۔ ملکہ رونے لگتی ہے، اس سے بچے کی بھیک مانگتی ہے کہ اسے تم لے کر نہ جاؤ۔ چھوٹا آدمی اسے تین دن کا وقت دیتا ہے کہ اگر تم تین دن کے اندر میرا درست نام بتادو تو میں بچہ تم سے نہیں لوں گا، تم اسے اپنے پاس رکھ لینا۔ ملکہ ساری رات جاگتی ہے اور اس کا نام سوچنے کی کوشش کرتی ہے، اگلے دن جب وہ شخص آتا ہے تو وہ اندازے سے مختلف نام بتاتی ہے۔ وہ جواب دیتا ہے :تم نے میرا صحیح نام نہیں بتایا، وہ کمرے میں خوشی سے ناچنے لگتا ہے، اسے امید ہے کہ اب اس کی محنت کا صلہ اس بچے کی صورت میں ملے گا۔ اگلے دن ملکہ کا باپ اس سے ملنے آتا ہے، ملکہ اس سے مدد کی بھیک مانگتی ہے۔ دوسرے دن چھوٹا آدمی دوبارہ آتا ہے، دوبارہ ملکہ سے اپنا نام پوچھتا ہے، ملکہ غلط نام بتاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نہیں تم صحیح نا م نہیں بتاسکتیں، اب یہ بچہ میرے حوالے کردو۔ وہ ایک دن کی مزید مہلت دے کر چلا جاتا ہے، ملکہ کا باپ ایک فیصلہ کرتا ہے، وہ اجنبی شخص کے جاتے ہی اس کی تلاش شروع کرتا ہے، جنگل کے ایک کونے میں اسے بہت چھوٹا سا گھر نظر آتا ہے، وہ گھر میں جھانکتا ہے، اسے اندر سے ناچنے گانے کی آوازیں آتی ہیں، گھر میں وہی آدمی نظر آتا ہے، اندر سے آنے والی آوازوں میں اس آدمی کا نام بھی وہ سن لیتا ہے، کیونکہ وہ گارہا ہے: ’’For Rumpl stiltskin is my name‘‘ ملکہ کا باپ یہ نام سن کر دوڑتا بھاگتا محل میںواپس آتا ہے، اپنی بیٹی کو نام بتاتا ہے، اگلے دن جیسے ہی وہ چھوٹا آدمی بچے کو لینے سے پہلے اپنا نام پوچھتا ہے تو ملکہ جھوٹ موٹ دو تین غلط نا م بتاتی ہے، اچھا! تمہارا نام Herbert ہے؟ وہ کہتا ہے: نہیں۔ اچھا! تو  Humphrey ہے، وہ کہتا ہے: نہیں اور تم اب کبھی میرا نام نہیںبتاسکو گی، لہٰذا بچہ میرے حوالے کردو، ملکہ تو اسے بے وقوف بنا رہی تھی، پھر وہ اچانک کہتی ہے:’’   Could it be possibly be Rumpel Stiltskin ‘‘ یہ نام سنتے ہی چھوٹا آدمی غصے سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے، تمہیں میرے نام کا پتہ کیسے چلا؟ وہ چیختا چنگھاڑتا زمین پر نہایت زور سے اپنے پاؤں مارتا ہے، اس کے پیر زمین میں دھنس جاتے ہیں، وہ غصے سے بے قابو ہو جاتا ہے، وہ پیر زمین سے کھینچ کر نکالتا ہے اور خود دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ کہانی میں آپ نے دیکھا کہ باپ لالچی، شیخی خورا،جھوٹا۔ بادشاہ لالچی، ظالم، شر پسند، حریص حاسد، بد معاش ۔ مظلوم لڑکی کی مدد کرنے والا بھی لالچی کہ مدد کا معاوضہ طے کرتا ہے، پھر مدد کرتا ہے۔ لڑکی بھی لالچی کہ اس ظالم بد معاش بادشاہ سے خوشی خوشی شادی کررہی ہے جو اس کی جان کا دشمن تھا اور ایک ایسا کام اس کے سپرد کررہا تھا جو وہ نہیں کرسکتی تھی اور قتل کی دھمکی دے رہاتھا، مگر وہ ایسے ظالم بے غیرت بادشاہ کی ملکہ بننے کے لیے تیار ہوگئی، تاکہ اپنے کنگلے باپ کی جھونپڑی کے بجائے عالی شان محل میں خوش رہ سکے۔ لڑکی جھوٹی دھوکے باز کہ اپنے محسن سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے پر تیار نہیں ہوئی، اس کے محسن نے اس کی جان بچائی، اس کی وجہ سے لڑکی کو بادشاہ کا رشتہ ملا، مگر مُحسن کُشی ضروری تھی ۔ اس کا باپ بھی جھوٹا، لالچی، دھوکے باز کہ اتنی سخت مشکلات دیکھنے کے باوجود بھی اس کی اخلاقی حس بیدار نہ ہوئی، اس نے جاسوسی کی اور اپنی بیٹی کی غیر اخلاقی حمایت کی، اس نے بیٹی سے یہ نہیں کہا کہ پہلے میں نے جھوٹ بولا تو اتنی آزمائش آئی، اب ہم سچ بولیں گے، تم اپنا وعدہ پورا کرو، جس میں عہد کا پاس نہیں وہ انسان کسی عزت کے قابل نہیں۔ اس کہانی کے تمام کردار ہی خبیث، گھٹیا، اور اخلاقی اقدار سے عاری ہیں۔ ایسی کہانی کو بچوں کے نصاب میں شامل کرکے ان کو کیا سکھا یا جارہا ہے؟ اسی کتاب کا پہلا سبق ہے:’’   The Twelfth floor kids ‘‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ اصل زندگی تو فلیٹ کی زندگی ہوتی ہے، بارہویں منزل پر ایک فلیٹ میں چھ لوگ رہتے ہیں، امی ابا چار بچے، اس میں دانستہ طور پردادا دادی، نانا نانی کو شامل نہیں کیا گیا، یہ خاندان کا حصہ نہیں ہوتے، کیونکہ مغرب میں ان کو  old home میں پھینک دیا جاتا ہے، فلیٹ میں Amy کا الگ کمرہ دکھایا گیا ہے، یعنی ہر بچے کا کمرہ الگ الگ ہونا چاہیے۔ دوسری تصویر  Eddieکی ہے، وہ بتاتی ہے کہ میں باپ کے بغیر اس فلیٹ میں اپنی بہن اور ماں کے ساتھ رہتی ہوں، ماں کی دکان ہے، وہ دکان پر کام کرتی ہے۔ یہاں پیغام بالکل واضح ہے۔ تیسری تصویر  seeta کی ہے، اس کے گھر میں بھی خالہ، پھوپھی، چچی، نانی، دادی، دادا کوئی بوڑھا آدمی نہیں ہے، کیونکہ مغرب میں ان سب کا ٹھکانہ اولڈ ہوم ہے۔ آخر ی تصویر Dan  کی ہے جو اپنی امی اور بلی  Jinnyکے ساتھ رہتا ہے، گھر میں بوڑھوں کے لیے جگہ نہیں ہے، کتوں بلیو ں کے لیے جگہ ہے، ان کو گود میں بٹھایا لٹایا جاتا ہے، اپنے بستر پر سلایا جاتا ہے اور بوڑھی نانی دادی کو اولڈ ہوم میں، یہی تہذیب بتائی گئی ہے۔   Jinny کا باپ اس کے ساتھ نہیں رہتا، اس کا باپ سڑک اور علاقے کے اُس پار دوسری جگہ رہتا ہے جس سے ملنے کے لیے وہ کبھی کبھی اس کے پاس جاتا ہے: "My dad lives over the other side of town & some times I go to see him at the weekend." پاکستانی اسلامی خاندانی نظام میں آنکھ کھولنے والے بچوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ خاندان یہ ہوتے ہیں، ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے پتوں کی طرح اڑتے اور پتنگوں کی طرح منتشر خاندان، بغیر باپ کے ، بغیر بزرگوں کے اور وہاںعورتیں دکانو ںپر بیٹھ کر کام کرتی ہیں، کیونکہ مطلقہ ، بیوہ یامعذور شوہر کی عورت کی کفالت کی ذمہ داری مغرب میں نہ باپ اٹھاتا ہے، نہ بھائی، نہ خاندان کے لوگ، نہ قبیلہ، نہ محلے والے۔ ہر شخص اپنی لاش خود ہی اٹھا کر گھومتا ہے، کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ بچے اسکول میں پڑھتے ہیں تو نوکری شروع کردیتے ہیں، پاکستان کے بچوں کی طرح ماں باپ کے سرمائے سے مزے نہیں کرتے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ہر بچے کو قرضہ ملتا ہے، یہ قرضہ وہ خود ادا کرتے ہیں۔  یہی آئیڈیل زندگی ہے۔ مغرب کو پاکستان اور دنیا بھرمیں یہی طرزِ زندگی مطلوب ہے۔ یہ ساز ش نہیں ہے، وہ اسی طرز کو ’’الحق‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ الحق اور روشن خیالی کی تحریک  [Enlightenment Movement] کے دو اہم ترین دھاروں جدیدیت   [Modrenism] اور رومانویت   [Romanticism] سے نکلتے ہیں۔ جدیدیت‘ عقلیت، سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے اور رومانویت‘ وجدان، ادب، شاعری، قصے کہانی اورآرٹ کے ذریعے روشن خیالی کو عام کرتی ہے۔ یہ کہانیاں رومانوی تحریک کے زیر اثر تخلیق ہورہی ہیں، تاکہ قدیم روایتی معاشروں کو جدید آزاد روشن خیال معاشروں میں تبدیل کیا جاسکے۔ دوسرا سبق ہے:’’   It is not fair ‘‘اس میں بتایا گیا ہے کہ کھانے کی چیزوں کا احترام نہ کریں، کھانے کی چیزوں کو کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ روایتی ، مذہبی، اسلامی تہذیبوں میں کھانے کی چیز کا بہت احترام ہوتا ہے کہ یہ رزق ہے جو اللہ نے دیا ہے، یہ امانت ہے، جسے رزق ملا ہے وہ شکر ادا کرے اور شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ زبانی شکر کے کلمات کہنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رزق اور اس کی نعمتوں میں ان کو شریک کرے جو اس سے محروم ہیں، لہٰذا ہمارے یہاں روٹی زمین پر گرجائے تو اُسے اٹھا کر چومتے ہیں، صاف کرکے کھالیتے ہیں، اگر کھانے کے قابل نہ ہو تو پرندوں کو ڈال دیتے ہیں، لیکن یہاں بچے کو سبق دیا جارہا ہے کہ انڈہ چمچے میں ڈال کر دوڑ لگاؤ، خواہ دوڑتے ہوئے انڈہ گر جائے، پھٹ جائے، زمین اور کپڑے گندے کردے، کیونکہ مزہ تو آرہا ہے: ’’Once come first in the egg & spoon race.‘‘ Kitty کا قد چھوٹا ہے، اس کی جماعت میں ایک لمبا لڑکا ہے جو اسے چھوٹے قد کے باعث جھینگا  [Shrimp] کہتا ہے، یہ تہذیب ہے۔ بچوں کا کام ہے قد آدم تصویریں  [Mural]بنانا ، ٹام اس پر ہنس رہا ہے کہ وہ میورل پر آسمان نہیں بناسکتی کہ گڈی چھوٹی ہے، کسی بچے نے شرارت سے اس کی جیکٹ اٹھا کر بہت اونچی جگہ پر لٹکادی ہے، وہ شرم کے مارے کسی سے جیکٹ اتارنے کا نہیں کہتی، وہ باہر جاتی ہے تو اسے سخت سردی لگتی ہے، ایک بد تمیز لڑکی  kitty کا مذاق اڑاتی ہے، کوئی تمہیں اپنی ٹیم میں نہیں لے گا، تم بہت چھٹنکی ہو: ’’  Your are too tiny‘‘، وہ گھر پہنچی تو بہت اداس تھی، ماں کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ نکلا، اس کے بھائی نے اسے بتایا کہ مجھے بھی اسکول میں بچے shorty کہتے تھے، مگر ان کا رویہ بہت محبت آمیز دوستانہ ہوتا تھا، میں برا نہیں مانتا تھا، ہماری کلاس میں جو لڑکا لمبا اور پتلا تھا اسے ہم  stringy کہہ کر پکارتے تھے ، لہٰذا نام رکھنے اور چڑانے سے کچھ نہیںہوتا، اگلے دن بچی اسکول گئی، اس نے دیکھا کہ اس کے دوست  Tom کے بال نارنجی بھورے تھے اوراسے اپنے بالوں سے نفرت تھی، اس نے بتایا کہ اسے اسکول میں بچے  Carrotsکہتے تھے، اس کے بعد Kittyنے میدان میں اسکول کے بچوں کو اپنے اِردگرد دیکھا توکوئی لمبا، کوئی موٹا، کوئی پتلا، کالا، سانولا، شرمیلا، کوئی بہادر، کوئی گا سکتا تھا، کوئی تیر سکتا تھا، کوئی نازک، نفیس، لطیف، کوئی بھدّا، بے ڈھب تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ہم سب مختلف ہیں، لہٰذا جو لوگ مجھے  Shrimpکہتے ہیں وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں: ’’  We are all different and I suppose that's fair‘‘ سبق یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برے، گندے، غلط، ناپسندیدہ ناموں سے پکارنا بری بات نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا، چڑ بنانا، چڑانا بہت اچھی بات ہے۔ یہ تو حقیقت ہے، حقیقت کا بہادری سے سامنا کرنا چاہیے۔ رونے، پیٹنے، چیخنے کی ضرورت نہیں، کیا تہذیب سکھائی گئی ہے؟!!! ایک سبق ہے: ’’  The tasting game ‘‘تصویر میں عالیشان باورچی خانہ ہے، ٹائلز لگے ہوئے ہیں، اوپر سے نیچے تک الماریاں ہی الماریاں ہیں، ایک فریج رکھا ہے جو انواع و اقسام کی اشیاء سے اَٹا پڑا ہے۔آنکھوں پر پٹی باندھ کر چیزوں کو چکھ کر پہچاننے کا کھیل ہورہا ہے، چیزوں کے نام سنیے: اسٹرابری جام،  Cranberry Jelly، Peanut butter، Raisins،Syrup , Cheese, sugar , vinegar, ice cream, mustard , orange squash , banana Milk shake  ایک ایسے ملک میں جہاں پچاس فی صد آبادی پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھاسکتی، چھ ہزار آدمی ہر سال بھوک سے خود کشی کررہے ہیں، وہاں سات سال کے بچے کو یہ آئیڈیل زندگی پڑھائی سکھائی جارہی ہے۔ ایک گھر میں کھانے پینے کی اتنی چیزیں اور لاکھوں گھروں میں دو وقت کی روٹی نہیںہے،کھیل میں کیا سکھایا جارہاہے!دیکھئے: "Then 1 pinched Ben's nose & shoved the spoon into his mouth" اسی کتاب میں ’’   The Toad Tunnel‘‘ایک سبق ہے۔  Toads کے لیے سرنگ کی صفائی میں کتنی جان لگائی گئی اس کا اندازہ اس کہانی سے ہوتا ہے۔ انسانوں کی بھلائی ، بہتری کے لیے کوئی کہانی اس کتاب میں نہیں ہے۔ جانوروں اور جانداروں سے تعلق اور محبت سکھائی جارہی ہے۔ ایک نسل جو اپنی دادی دادا کو گھر میں رکھنے پر تیار نہیں، جانوروں، پر ندوں اور حشرات الارض کے لیے اتنی فکر مند اتنی پریشان کیوں ہے؟ انسان غیر اہم جبکہ ڈڈو، مینڈک، آگ ، کھانا پینا سب اہم ہے۔ ’’  At the End of School Assembly ‘‘ اس سبق میں زبان و بیان سکھانے کے نام پر بد نظمی، کھیل تماشے کو معیار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہلہ گلہ، شور شرابہ ، غیر سنجیدگی یہی مغربی تہذیب کا حاصل ہے۔ الحمدللہ! ہمارے تمام انگریزی اسکولوں میں اور وہ اسکول جہاں اسلامی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے عموماً یہی صورت حال ہوتی ہے، چھٹی ہوتے ہی بچے پاگل ہو جاتے ہیں، ظاہر ہے جدیدیت نے اسکول کے نام پر جو جدید قید خانہ تعمیر کیا ہے اس سے آزادی حاصل ہونے پر بچے خوش نہ ہوں تو کیا کریں؟ مگر ماں باپ بہت خوشی سے اپنے ڈیڑھ سال کے بچے کو اس قید خانے میں پیسے دے کر داخل کراتے ہیں۔ یہ بھی تاریخ انسانی کا لطیفہ ہے کہ خدا کے لیے ہم سے پیسے لے لو، مگر اس شیطان کو اپنی قید میں رکھو، ورنہ ہم اپنے گھر میں اس کے قیدی بن جائیں گے۔ صرف ترقی معاشی و مادی فلاح Progress اور Development   کے لیے ماں باپ بچے کو اس قید با مشقت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ماریہ سبرٹ نے  ’’ The Deveopment Dictionary : A guide to knowledge as power‘‘ میں ’’  Progress‘‘پر نہایت تفصیل سے لکھا ہے، ہم بار بار اپنے مضامین میں اسلامی تحریکوں اور اسلامی ذہن رکھنے والوںکو توجہ دلاتے ہیں کہ اس لغت کا لازمی مطالعہ کریں۔ اس صدی کے بہت سے مفروضات ، عقیدوں، نعروں ، دعووں اور واہموں کی حقیقت کھولنے کے لیے یہ کتاب کافی ہے۔ اسکولوں کے منتظمین اس کے ابواب’’ Development ‘‘اور ’’Poverty ‘‘کا لازماً مطالعہ کریں۔ ہائیڈیگر کا آخری انٹر ویو جو جرمنی کے رسالے ’’ Speiegel‘‘ کو دیا گیا جس میں ہائیڈیگر نے وہ تاریخی جملہ بھی کہا تھا’’  Only God can save this world ‘‘ وہ انٹر ویو بھی اسکولوں کے منتظمین کے لیے جدید انسان کے ذہنی، عقلی، حالت منکشف کرتا ہے۔ جدید تعلیم اور جدید جبر انسان کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے سوچنے پر مجبور کرتا ہے، وہ ہے تسخیر کائنات اور کائنات کا استحصال ۔ ’’  Ivan ilich‘‘کی کتاب ’’ D-schooling Society ‘‘اسکول کے جدید قید خانوں کے بارے میں کچھ نئی باتیں بتاتی ہے۔ امریکہ میں’’  Dad School ‘‘ اور’’   Mom School‘‘ بھی کچھ نئی باتیں سناتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں تعلیم و تدریس کا نظا م کیا تھا، اس کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمن کی کتاب’’   Islam & Modrenity ‘‘کا مطالعہ کیجیے، آپ حیران رہ جائیں گے، مدارس دینیہ کا موجودہ اقامتی اور ادارتی نظام بھی اسلامی تاریخ میں اس شکل میں کبھی نہ رہا جو گزشتہ ایک صدی میں حالات کے تقاضوں کے تحت وجود پذیر ہوا ہے۔ اس موضوع کو سید سلیمان ندویv نے ’’حیات شبلی ‘‘ میں تاریخی حوالوں سے بیان کیا ہے، اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ ادارتی اقامتی نظام کے جہاں فوائد ہیں وہیں بے شمار مسائل بھی ہیں جن پر گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم یہ تھا کہ ایک ہی مدرسے میں پڑھنے والے تین ہم سبق حضرت مجدد الف ثانیv، عالم اور بزرگ بنے ، محمد خان بادشاہ وقت کا وزیر اعظم بنا اور معماراحمد خان تاج محل کا معمار بنا۔ ۱۸۸۶ء میں انگریزوں نے رڑکی میں پہلا انجینئر نگ کالج بنایا، لیکن اس کالج کے بننے سے پہلے تاج محل، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ اور ہندوستان بھر میں تعمیرات کے اعلیٰ ترین شاہکارتخلیق کرنے والے کسی انجینئرنگ کالج سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ ہڑپہ، موہنجودڑو، بابل، نینوا، روم، ایران، یونان، چین میں آخر فنون کہاں سے سیکھے جاتے تھے؟ اہرام مصر بنانے والے فن کاروں نے کسی انجینئرنگ یورنیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ان سوالات اور نکات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم تعمیراتی دنیا کے شاہکار تخلیق کرنے والے اذہان کی تعمیر، تشکیل، تربیت، تدریس کے نظام سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ ہمارا مقصد صرف غور و فکر کے نئے دریچے کھولنا ہے، نہ کہ حاضر و موجود نظام کو حرام یا کفر قرار دے کر یکسر مسترد کردینا۔ ہم ایک خاص تاریخ، زمان و مکان میںپیدا ہوئے ہیں، جو کچھ حاضر ہے اسے گہری نظر سے جاننا اور جانچنا ہے۔ اگر تنقیدی شعور بیدار رہے تو متبادل نظام کا خاکہ بھی تخلیق ہوسکتا ہے اور حاضر و موجود میں اصلاح، تصحیح و ترمیم کے امکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائے، حاضر و موجود کی بڑے پیمانے پر اصلاح اورمتبادل کی جستجو۔ اس کے لیے گفتگو ، مباحثے، غور و فکر کا دروازہ کسی کی نیت و اخلاص پر شک و شبہ کیے بغیر ہمیشہ کھلا رکھا جائے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین