بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نرم مزاجی کی اہمیت !

نرم مزاجی کی اہمیت !

 


حسنِ اخلاق کامل ایمان کی پہچان ہے، اسلام اورمسلمانوں کاطرۂ امتیازہے،جنت میں داخل ہونے کاذریعہ اورسبب ہے، اللہ کی رضاوخوش نودی کا جلی عنوان ہے۔ حسنِ اخلاق وہ قیمتی زیور ہے جس سے آراستہ ہونے والے شخص کوآپa کا محبوب ہونے کی بشارت سنائی گئی ہے، اور روزِ محشر اس کوآپ a سے قریب ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ یہ وہ بیش بہا وصف ہے جس کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کومبعوث کیا گیا ہے، اور اس کو کمالِ ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ خوش اخلاق اور خوش اطوار انسان خالق ومخلوق ہر دو کی نگاہوں میں محبوب اور منظورِ نظر ہوتا ہے، معاشرے کے افرادکے مابین اس کو مرجعیتِ عام اور مقتدایانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور دوست ودشمن ہر ایک کے لیے وہ مرکزِ محبت وعقیدت ہوتا ہے۔ 

نرم مزاجی کی اہمیت

اخلاقِ حسنہ اسلام کا وہ گلشنِ سدا بہار ہے جس کے اجزائے ترکیبی میں عفو و درگزر، حلم وبردباری، ایثار و ہمدردی، عفت وپاکیزگی، جود و سخا، انصاف وعدل پروری اور نرم خوئی ونرم مزاجی کے گلہائے رنگارنگ ہیں۔ ان کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے، اور دل ودماغ کو فرحت وتازگی بخشتی ہے، اور ایمان ویقین کے خزاں رسیدہ پودوں کو ذوقِ نمو عطا کرتی ہے۔ تحمل وبردباری اور نرم خوئی ونرم مزاجی گلشنِ اخلاق کا وہ گلِ سرسبدہے جس کی مہک اورجس کاروح پروراثر اپنے اندر مقناطیسی قوت رکھتا ہے، اور دوسروں پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ وہ تیرِ نیم کش ہے جس سے کشورِ دل زیروزبر ہوجاتے ہیں، اور انسانی افکار و خیالات کی رو تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ وہ جاذب نظراور خوش نما ہتھیار ہے جس سے بغاوت پسند اور سرکش لوگ قابو میں آجاتے ہیں، اور اپنی زندگی میں صالح اور خوش گوار انقلاب لے آتے ہیں۔ 

سیرتِ رسول اورنرم خوئی

چوںکہ نرم خوئی اورنرم مزاجی بہت ہی اعلیٰ اورقیمتی وصف ہے،بے شمارفوائدومنافع کاحامل ہے؛ اسی لیے آپ a جہاں بہت سے اوصافِ حمیدہ کی مجسم تصویرتھے، وہیں نرم خوئی اور نرم مزاجی بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم  کا خاص وصف تھا، خود قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قیمتی وصف کا تذکرہ فرمایا ہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْلَہُمْ۔‘‘                                      (آل عمران:۱۵۰)
’’اے پیغمبر!آپ اللہ کی مہربانی سے ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگرآپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تویہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے، لہٰذا اُنہیں معاف کردیجئے اور ان کے لیے استغفارکیجیے۔ ‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کی آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی فیضِ صحبت سے منور ہوئیں، اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کو بالکل قریب سے دیکھا، ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں بیان ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہشاش بشاش، خوش اخلاق اور نرم خو تھے، سخت دل تھے نہ تندخو، شوروشغب اور فحش گوئی سے دور تھے، اور عیب جوئی اور بخل سے مجتنب رہتے تھے۔   (الشمائل المحمدیۃ للترمذی، حدیث نمبر:۳۳۴) 
نرم خوئی اورنرم مزاجی کایہ وصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اخلاقی پیکر کا ایسا جزولاینفک بن گیا تھا کہ ایسے حالات جن میں انسان سخت اور درشت لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وقار و سنجیدگی کا دامن اس سے چھوٹ جاتا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عفوودرگزراورنرمی کاثبوت دیاہے۔ 

ایک یہودی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحسنِ برتاؤ

چناں چہ روایتوں میں آتاہے کہ ایک یہودی کی چند اشرفیاں نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم  پر قرض تھیں، یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قرضہ کامطالبہ کیا، آپ a نے فرمایا: ابھی میرے پاس کچھ نہیں ہے جس سے میں تمہارا قرضہ ادا کرسکوں، یہودی نے اصرار کیا، اور کہا کہ جب تک آپ میرا قرضہ ادا نہیں کرتے، میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، آپ a نے فرمایا:اگرایساہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس یہودی کے پاس بیٹھ گئے،اوراس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں، جب صحابہ کرامs کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ یہودی کے پاس آئے، اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامs کو منع کیا، صحابہؓ نے عرض کیاکہ: اے اللہ کے رسول! اس یہودی نے توآپ کو قیدی بنالیا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے معاہد اور غیرمعاہد پر ظلم کرنے سے روکا ہے، جب وہ دن گزرگیا تو اس یہودی نے اسلام قبول کرلیا، اور اس نے کہا:میں اپنا آدھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، میں نے یہ حرکت اس لیے کی تھی کہ میں نے توریت میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پڑھا ہے: محمدبن عبداللہ جن کی جائے پیدائش مکہ ہے، اور جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئیں گے، نہ وہ سخت دل ہوں گے نہ تندخو، نہ چیخ کر بات کریں گے، ان کی زبان فحش گوئی اور بے ہودہ گوئی سے آلودہ نہیں ہوگی، میں نے اب تمام صفات کا امتحان کرکے آپ کو صحیح پایا؛ اس لیے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ میرا آدھا مال ہے، آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں۔       (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،حدیث نمبر:۴۲۴۲)

ایک دیہاتی کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کانرم رویہ

ایک روایت میں ہے:ایک دیہاتی مسجدنبوی میں آیا،اورمسجدکے ایک کونہ میں پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرامؓ نے اس کو برا بھلا کہا، اور اس کی طرف دوڑے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کومنع کیا، اور جب وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام ؓکوپیشاب صاف کرنے کاحکم دیا، اور اس دیہاتی کو اپنے قریب بلاکر نہایت نرمی سے سمجھایا کہ مساجد میں پیشاب نہیں کیاجاتا، مساجد میں تو اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور نماز ادا کی جاتی ہے، وہ دیہاتی آپaکی نرم مزاجی اور عفو و درگزر سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کا بیان ہے: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپصلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ مجھ کو ڈانٹا اور نہ ہی برا بھلا کہا۔ (ابن ماجہ،حدیث نمبر:۵۲۹) 
واقعہ یہ ہے کہ جوشخص عفو ودرگزر کرتا ہو اور نرم خوئی ونرم مزاجی اس کے رگ وریشہ میں رچی بسی ہوئی ہو، ایسے شخص کی طرف بے اختیار دل کھنچا چلا جاتا ہے، اور اس سے غیراختیاری طور پر محبت وعقیدت بڑھتی چلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک داعیِ دین کے اندر عفوو درگزر اور تحمل وبردباری کا ہونا بہت ضروری ہے، جب تک دعوت کا کام کرنے والوں کے اندر یہ قیمتی وصف نہیں ہوگا، وہ درست اور بہتر طور پر یہ فریضہ انجام نہیں دے سکتے، خود آپaکی اسی نرم خوئی اورنرم مزاجی نے کئی لوگوں کو متاثر کیا، اوران کودامن اسلام میں پناہ لینے پر مجبور کیا، اور اس کی بیسیوں مثالیں ذخیرۂ احادیث میں موجود ہیں۔ 

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اورتحمل وبردباری
 

ہمارے اسلاف ‘جن کی زندگی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کاپرتوتھی،اورقندیلِ سیرت سے انہوں نے اپنے اخلاق وکردارکے بام ودرکوروشن ومنورکیاتھا‘کی عملی زندگی میں بھی یہ وصف نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت امام بخاری  رحمہ اللہ  جنہوں نے صحیح بخاری جیسی شہرۂ آفاق کتاب تحریر کی، اور جس کو ’’أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے، اور مصیبتوں اور پریشانیوں میں جس کی تلاوت کرکے دعائیں مانگی جاتی ہیں‘کے بارے میں آتاہے کہ ایک مرتبہ امام بخاریؒ بیٹھے ہوئے تھے، اندر سے آپ کی کنیز آئی، اور تیزی سے نکل گئی، پاؤں کی ٹھوکرسے راستہ میں رکھی ہوئی شیشی اُلٹ گئی۔امام صاحبؒ نے ذرا غصے سے فرمایا: کیسے چلتی ہے؟ کنیزبولی:جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلیں! امام صاحبؒنے یہ سن کرانتہائی تحمل اوربردباری سے جواب دیا: جامیں نے تجھے آزادکیا۔ صیادفی جو امام بخاریؒ کی مجلس میں موجود تھے، انہوں نے کہا: اس نے تو آپ کو غصہ دلانے والی بات کہی تھی، آپ نے اس کو آزاد کردیا؟ فرمایا: اس نے جو کچھ کہا اور کیا، میں نے اپنی طبیعت کو اسی پر آمادہ کرلیا۔ 

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  اورتحمل مزاجی

حضرت اما م اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ  جن کواللہ تبارک وتعالیٰ نے فنِ فقہ میں غیرمعمولی مہارت عطاکی تھی، اور ان کے طریقۂ اجتہادکوپورے عالم اسلام میں جوشہرت اورمقبولیت عطاکی ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ ان کے بارے میں سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ: ایک شخص جس کوحضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے چپقلش اورعداوت تھی، اس نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوایک مرتبہ راہ چلتے ہوئے خوب برا بھلا کہا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  بڑے صبروتحمل کے ساتھ سنتے رہے، اور اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا، جب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کا گھر قریب آگیا تو آپؒ نے فرمایا: اب میں اپنے گھر جارہا ہوں، اگر تمہیں اور کچھ کہنا ہے تو میں اسی جگہ ٹھہرجاتا ہوں؛ تاکہ تم اپنے دل کی بھڑاس نکال لو، وہ شخص دل ہی دل میں بڑا شرمندہ ہوا، اور آپ کے اس رویہ نے اس کی عداوت ودشمنی کومحبت ودوستی سے بدل دیا۔ 

خواص کاملت میں مقام

خواص قوم وملت کا دھڑکتا دل ہوتے ہیں،قوموں کی تعمیر وترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے، قوموں کے عروج واقبال اورشکست وریخت کے بنیادی محرک یہی حضرات ہوتے ہیں۔تمام شعبہ ہائے حیات میں خواص حضرات قوم وملت کے قائد ورہنما ہوتے ہیں ، ملت کی صحیح فکر اورحقیقی معنوں میںملت کا درد خواص کو ہوتاہے،ان کے اقوال وافعال اورحرکات وسکنات میں قوم وملت کے لیے غیر شعوری طور پردعوت کاپہلوپنہاں ہوتاہے۔ان کے اخلاق وعادات، طرزِ معاشرت، بودوباش اوررہن سہن قوم وملت پر غیر محسوس طورپر اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر خواص واکابر کے اخلاق وعادات گلشنِ سیرت کے پھولوں سے عطر بیز ہوں تو ان کی خوشبو نکہتِ نسیم کی طرح پورے معاشرے کو معطراورجانفزا کرتی ہے ۔اسی طرح طبقۂ خواص کے اندر فساد وبگاڑ،اخلاقی انارکی اور پرتکلف، پرتعیُّش طرزِ معاشر ت پوری قوم وملت کی تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ 

خواص کون ہیں؟

خواص سے مرادوہ حضرا ت ہیں جن کواللہ تبارک وتعالیٰ نے علوم نبوت کا وراث اورامین بنایاہے،اورقرآن وحدیث کاٹھوس اورمضبوط علم عطاکیا ہے، اور جن کے کاندھوں پر اُمت کی رہبری ورہنمائی کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ ظاہرہے کہ اُمت کی دینی قیادت بڑی نازک اور اہم ذمہ داری ہے،اوراس کے لیے خواص اورعلماء کوایک طرف قرآن وحدیث کاٹھوس علم ہونا اور عصرحاضرکے تقاضوں اوراس کے چیلنجوں سے واقف ہوناضروری ہے تودوسری طرف بلند اخلاق وکردارکاحامل ہونااورصفاتِ حسنہ سے آراستہ ہونابھی ناگزیرہے۔ جس عالم دین کو قرآن وسنت کامضبوط اورپختہ علم ہو، شریعتِ مطہرہ کے اُصول وجزئیات سے گہری واقفیت ہو؛ لیکن اخلاق وکردارکے لحاظ سے وہ غیرذمہ دارہو،اس کے قول وعمل اورخلوت وجلوت میں ہم آہنگی ا وریکسانیت نہ ہو، اس کی مثال اس پھول کی طرح ہے جس میں خوشبونہ ہو،اس ستارے کی طرح ہے جس میں روشنی نہ ہو،اس عندلیب کی طرح ہے جوخوش آوازنہ ہو۔ ایساعالم ظاہرہے کہ اُمت کی صحیح قیادت اوران کی صحیح دینی رہنمائی نہیں کرسکتا،اوراپنے علم سے عوام الناس کوخاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچاسکتا، اس لیے علماء اورخواص کواخلاقِ حسنہ سے متصف ہونابے حدضروری ہے۔ 

خواص میں نرم مزاجی کی ضرورت واہمیت

اہل علم اورخواص کے طبقہ میں نرم مزاجی اورنرم خوئی از حد ضروری ہے۔سخت لب ولہجہ میں بات کرنااورکسی بات پرناراض ہونااگرتربیت اوراصلاح کے جذبہ سے ہوتوظاہرہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگراس کامنشامحض اپنے غصہ کی تسکین اوراپنے دل کی بھڑاس نکالناہوتویہ علماء اورخواص کی شان کے خلاف ہے۔عامی آدمی سے اگر ایسی بات صادرہوجائے جوخواص کی طبیعت اورمزاج کے خلاف ہو تو فوراًمشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ظاہرہے کہ عام طورپر ایک عامی اورجاہل آدمی کا انداز گفتگو عامیانہ ہوتاہے،اس کوعلماء اورخواص کے ساتھ گفتگوکے آداب معلوم نہیں ہوتے ہیں،اب اگرخواص بھی اس سے الجھ جائیں تو وہ عامی آدمی جوایک عالم دین سے رجوع ہواتھا؛خواہ اس کا مقصد کچھ بھی رہاہو،دنیوی مقصدہویااخروی،جب عالم اس سے غیرسنجیدہ گفتگوکرے گا،اوراس کی جانب سے ناگواربات پیش آنے پردرشت اورکرخت لہجہ اختیارکرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ عامی آدمی اس سے دور اور نفور ہوجائے گا،اوراس عالم دین سے دوبارہ ملاقات کرنے اوراس کی بافیض صحبت سے فائدہ اٹھانے سے کترائے گا،اس کے برخلاف اگرعالم دین اس کی جانب سے پیش آنے والی خلاف طبیعت بات پرصبروتحمل سے کام لے، اور اس کی غیرسنجیدہ گفتگوکے جواب میں سنجیدہ اورنرم اندازمیں گفتگوکرے تو ایک تواس کوعلماء اور خواص کی جانب سے اچھا اورمثبت پیغام جائے گا، دوسرے علماء اور خواص کایہ کریمانہ اورشریفانہ برتائو اس کومتاثرکیے بغیر نہیں چھوڑے گا، چناں چہ کیامعلوم کہ وہ اس سے متاثرہوکرعلماء کی ہم نشینی اورخواص کی صحبت کو لازم پکڑلے، اور اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین