بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نانی مرحومہ کی وفات ( اہلیہ مرحومہ حضرت مولانا گل محمد سکھروی رحمۃ اللہ علیہ )

نانی مرحومہ کی وفات اہلیہ مرحومہ حضرت مولانا گل محمد سکھروی v

    محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v کی خوشدامن (ساس)، صوبہ سندھ کے مشہور عالم دین ،امام الصرف والنحو ،سکھر کی قدیم دینی درسگاہ جامعہ انوار العلوم کے بانی حضرت مولانا شیر محمد v کی بہو ، حضرت مولانا گل محمد صاحب v کی اہلیہ ،جامعہ کے شعبہ حفظ وناظرہ کے نگران حضرت مولانا قاری محمود الحسن صاحب زید مجدہٗ کی والدہ ماجدہ اورراقم الحروف کی نانی محترمہ ، ۱۱؍ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۵؍اگست ۲۰۱۶ء بروز پیر کی صبح لیاقت نیشنل ہسپتال کے کارڈیو وارڈ میں تقریباً سو سال کی عمر میں راہی عالم آخرت ہوگئیں، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی، أللّٰہم اغفرلہا وارحمہا وعافہا واعف عنہا وأکرم نزلہا ووسع مدخلہا واغسلہا بالماء والثلج والبرد ونقہا من الذنوب والخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس وأبدلہا دارا خیرا من دارھا وأھلا خیرا من أہلہا وأدخلہا الجنۃ وأعذہا من عذاب القبر۔ نانی مرحومہ عابدہ زاہدہ صابرہ خاتون تھیں، صوبہ سندھ کے قدیم اورتاریخی روایات کے حامل معروف شہر سکھر میں جامعہ انوار العلوم ایک ممتاز اور قدیم دینی ادارہ ہے، چونکہ مرحومہ کے ماموں اور سسر حضرت مولانا شیر محمد صاحب v اس ادارے کے بانی اور مؤسس تھے ، اس لیے ساری زندگی طلبہ ، علماء اور مدرسہ کی خدمت میں گزاری، اسی خدمت کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اس ادارے کو ہر دور میں دینی جماعتوں کا مرکز ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، علماء وصلحاء کی میزبانی اس ادارے کا امتیاز ہے، حضرت مولانا سید تاج محمد شاہ امروٹی ؒ،حضرت مولانا حماد اللہ شاہ ہالیجویؒ،حضرت مولانا عبداللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا عبد الکریم بیرشریف والے رحمۃ اللہ علیہم جیسے صلحاء وبزرگ اور دیگرکئی اکابرعلماء کرام کا سکھر میں ٹھکانہ اور جائے اقامت یہی ادارہ رہا، مرحومہ اس ادارے کے تمام طلبہ اور اساتذہ اور آنے والے تمام مہمانوں کا کھانا خود تیار فرماتی تھیں، سکھر کی گرمی اور تپش مشہور اور ضرب المثل ہے، لیکن اہلیانِ انوار العلوم سکھر کی میزبانی نے ہمیشہ دلوں کو ٹھنڈک اور راحت پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، نانی مرحومہ گھنٹوں گھنٹوں اسی گرمی میں سینکڑوں طلبہ کا کھانا خود تیار کرتی تھیں، جب تک صحت نے اجازت دی مدرسہ کا باورچی رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، سکھر میں آئے ہوئے تمام اکابر علماء اور بزرگ مرحومہ ہی کے ہاتھ کا پکا کھانا تناول فرماتے تھے۔  مرحومہ کی منجملہ صفاتِ فاضلہ میں سے ایک اہم صفت دنیا سے بے رغبتی اور زہد تھی، جس کا یہ عالم تھا کہ کبھی اپنے لیے خود سے نئے کپڑے نہیں سلوائے، بارہا ان کی اولاد نے اصرار کیا کہ ہم آپ کے لیے نئے کپڑے سلوادیتے ہیں، مگر آپ سختی سے منع فرمادیتیں۔ اگر کبھی کوئی ہدیہ کے طور پر نئے کپڑے پیش کرتا تو خود پہننے کے بجائے دوسروں کو ہدیہ کردیتیں۔ مرحومہ کے شوہر اور میرے نانا محترم حضرت مولانا گل محمد صاحب v کی وفات پر والد ماجد محدث العصر حضرت بنوری v نے جو تعزیتی شذرہ ’’ماہنامہ بینات ‘‘ میںرقم فرمایا تھا، بطور تذکار یہاں نقل کرنے کو جی چاہتا ہے :  ’’یو م الجمعہ۲۱؍ذوالحجہ ۱۳۹۵ھ ، دسمبر۷۵ھ کو میری دوسری اہلیہ کے والد ماجد مولانا گل محمد صاحب سکھر میں داصل بحق ہوئے،إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ مرحوم کے اخلاص ، کرمِ نفس، جودو سخا، ہمت ومردانگی، جفاکشی، غیرتِ دینی، مکارمِ اخلاق کا مجھے پہلے سے علم ہو چکا تھا، دو سالہ تعلق کے عرصہ میں اُن کے اوصافِ حمیدہ کامشاہدہ بھی ہوتارہا، طویل ترین علالت کے دوران اُن کی استقا مت وصبر کو دیکھ کر حیرت ہوئی، آخر میں دق وسل جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے، لیکن کیا مجال کہ ان کی خوش خلقی اور صبر وتحمل میں ذرا بھی فرق آیا ہو، کبھی اپنی تکلیف کی کسی سے شکایت نہیں کی،حکایتِ حال کے طور کچھ زبان پر کبھی آیا تو آیا۔ خو اص میں اس قسم کے کمالات ہوں تو زیادہ تعجب نہیں ہوتا، لیکن عوامِ امت میں ایسی قابل رشک صفات یقینا باعث تعجب ہیں ۔     حق تعالیٰ کی اس مخلوق کے گمناموں میں نامعلوم کتنے اولیاء اللہ ہیں جن کا کسی کو علم نہیں، اگر مشاہیر میں یہ کمالات ومحاسن موجود ہوں جب بھی قابل قدر ہیں، لیکن غیر مشہور گمنام شخصیتوں میں اس قسم کے محاسن حیرت افزا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مر حوم انوار العلوم سکھر کے روحِ رواں تھے، اس کی ترقی کے لیے ہمیشہ کو شان تھے، ان کی اہلیہ محترمہ طلبہ کے لیے سکھر کی گر می میں سالن اور روٹی اپنے ہاتھ سے تیارکیا کرتی تھیں اور صبح وشام گھنٹوں یہ صبر آزما خدمت انجام دیا کرتی تھیں ادراب بھی کرتی ہیں۔‘‘      (بصائر وعبر، ج:۲، ص:۵۲۳، طبع: مکتبہ بینات) نانی مرحومہ نے پسماندگان میں تین صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں سوگوار چھوڑی ہیں، ماشاء اللہ! تینوں صاحبزادے عالم ہیں ،اور دینی خدمات انجام د ے رہے ہیں، پوتے اور نواسوں میں بھی کثیر تعداد علماء اور حفاظ کی ہے، جو اِن شاء اللہ! مرحومہ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور جن طلبہ کی ساری زندگی خدمت کرتی رہی ہیں، وہ بھی ان شاء اللہ! مرحومہ کی باقیات صالحات کا حصہ ہیں۔ وفات سے چند یوم قبل کمزوری و علالت کے باعث مرحومہ کو لیاقت نیشنل ہسپتال میں داخل کیا گیا ، ڈاکٹروں نے دل کے عارضہ کی تشخیص کی ،بالآخر ۱۱؍ ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۵؍ اگست ۲۰۱۶ء بروز پیر کی صبح پونے گیارہ بجے جان جان آفریں کے سپرد کردی،وفات کے کچھ دیر بعد مرحومہ کو جامعہ بنوری ٹاؤن لایا گیا، نمازِ ظہر کے بعد جامعہ کی مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی، جنازے میں علماء اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی، جنازے کے بعد مرحومہ کو آبائی علاقہ سکھر لے جایا گیا، مرحومہ کے بڑے  صاحبزادے چونکہ نمازجنازہ میں شرکت نہ کرسکے تھے، اس لیے تقریباً رات ساڑھے دس بجے سکھر پہنچنے کے بعد گیارہ بجے جامعہ انوار العلوم سکھر میں حضرت مولانا تاج محمد صاحب زید مجدہٗ کی امامت میں دوسری نماز جنازہ ادا کی گئی اور ساڑھے گیارہ بجے مدرسہ کے عقب میں واقع خاندانی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب زید مجدہم، اساتذہ کرام اور دیگر احباب ومخلصین نے مرحومہ کے انتقال پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا اور مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت اور رفع درجات کی دعا کی۔ بروز جمعرات۱۴؍ ذوالقعدہ جامعہ بنوری ٹاؤن کی مسجد میں مرحومہ کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی بھی کی گئی۔ حق تعالیٰ مرحومہ کی زندگی بھر کی حسنات وخدمات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور رحمت ورضوان کا معاملہ فرمائے۔ ادارہ بینات اپنے باتوفیق قارئین سے مرحومہ کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی درخواست کرتا ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین