بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (پہلی قسط)

 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (پہلی قسط)

 

تمہید پیشِ نظر مکتوبات گزشتہ صدی میں عالم اسلام کے معروف محدث وفقیہ اور خلافتِ عثمانیہ کے نائب شیخ الاسلام علامہ محمد زاہد کوثریv نے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریv نام تحریر کیے ہیں، حضرت بنوری v کا ان سے تعلق ۱۳۵۷ھ میں مصر کے سفر کے دوران ہوا اور پھر ان کی وفات (۱۳۷۱ھ) تک یہ تعلق قائم رہا، وہ اپنے شیخ علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کے بعد سب سے زیادہ علامہ کوثریv کی شخصیت سے متاثر تھے، چنانچہ ان خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت بنوریv ، علامہ کوثریv سے مختلف علمی مسائل اور نجی امور میں مشاورت فرماتے تھے، اور علامہ کوثریv بھی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی بصیرت افروز نگاہوں سے ان کے تابناک مستقبل کو بھانپ گئے تھے، اس لیے وہ انہیں زندگی کے تجربات سے آگاہ کرتے اور ناصحانہ آراء سے نوازتے تھے۔ حضرتؒ نے ان سے اجازتِ حدیث کی خواہش ظاہرکی تو علامہ نے سندِ حدیث میں’’الأستاذ الأدیب والجھبذ اللبیب، سلیل أھل الصفوۃ والإخلاص، النحریر الناقد الغواص، العلامۃ المحقق، والحبر المدقق ۔۔۔‘‘ جیسے بلند پایہ الفاظ میں ان کا ذکر فرمایا ہے۔  حضرت بنوری v کے حالاتِ زندگی کے حوالے سے توجامعہ کے ترجمان ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے ’’محدث العصر نمبر‘‘ سمیت بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، ان کی بنسبت علامہ کوثری v کے حالات سے ہمارے دیار میں زیادہ آگاہی نہیں، اس لیے ذیل میں علامہ موصوفؒ کے مختصر حالات ذکرکیے جارہے ہیں، تاکہ قارئین ان کے مقام ومرتبہ سے واقف ہوکر ان خطوط سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھاسکیں۔ علامہ محمد زاہد کوثری vکا مختصرسوانحی خاکہ نام وجائے پیدائش   علامہ محمد زاہد بن حسن حلمی بن علی رضا بن نجم الدین خضوع حنفی v بروز پیر ۲۷ یا ۲۸ شوال ۱۲۹۶ھ کو اذانِ فجر کے وقت ’’قریۃ الحاج حسن الآفندی‘‘ ( ترکی کے شہر’’ آستانہ ‘‘کے مشرق میں واقع ’’دوزجہ‘‘ شہر تقریباً سے تین میل کے فاصلے پر ایک بستی) میں پیدا ہوئے۔  تعلیمی مراحل ابتدائی تعلیم ’’دوزجہ ‘‘کے علماء سے ہی پائی، ۱۳۱۱ھ میں ’’آستانہ‘‘ کے ’’مدرسہ دارالحدیث‘‘ میں منتقل ہوگئے، یہاں کچھ عرصہ ’’جامع فاتح‘‘ میں شیخ ابراھیم حقیؒ (متوفی:۱۳۱۸ھ) سے فیض یاب ہوئے اور اُن کے بعد شیخ علی زین العابدینؒ (متوفی:۱۳۳۶ھ) سے علوم کی تکمیل کر کے ۱۳۲۲ھ میں رسمی طالب علمی سے فراغت حاصل کی۔ اس دور میںشاہی حکم کے تحت پانچ سال میں ایک بار ’’عا لمیت‘‘ کا امتحان ہوا کرتا تھا، چنانچہ ۱۳۲۵ھ میں ایک کمیٹی نے علامہ کوثریؒ کا امتحان لیا ، جس کے رئیس شیخ احمد عاصمؒ(متوفی:۱۳۲۹ھ) اور دیگر ارکان میں شیخ محمد اسعد اخسخویؒ (بعد کے شیخ الاسلام)، شیخ مصطفی بن عظم داغستانیؒ (متوفی:۱۳۳۶ھ) شیخ اسماعیل زہدی طوسیویؒ(متوفی:۱۳۲۷ھ) تھے۔ درس و تدریس   رسمی تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد سے پہلی جنگ عظیم (۱۳۳۲ھ) تک ’’جامع فاتح‘‘ میں تدریس کرتے رہے، اس دوران عثمانی حکومت پر قابض اتحادی اصلاح کے نام پر مختلف حیلوں سے دینی علوم کو ختم کرنا چاہتے تھے، وہ تعلیمی دورانیہ پندرہ برس سے کم کرکے آٹھ برس اور جدید علوم بھی نصاب میں رکھنے کے خواہش مند تھے، اور اس منصوبے کے لیے شیخ سمیت ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی، لیکن علامہ موصوف اُسے دینی علوم کے خاتمے کا باعث خیال کرتے اور جدید علوم کے اضافے کے ساتھ اتنی مدت کو کم سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس کی سختی سے مخالفت کی ،نتیجۃً ابتدائی دوسال ا ور تخصص کے تین برس سمیت کل سترہ سال کا دورانیہ طے ہوگیا۔ شیخ کے اس طرزِ عمل سے فطری طور پر اتحادی نالاںہوئے اور انہوں نے اس وقت کے شیخ الاسلام محمد اسعد بن نعمان اخسخویؒ کو معزول کرکے قدامت سے طبعی کدورت رکھنے والے شیخ خیری آفندی کو اس منصب پر فائز کردیا،لیکن اس کے باوجود اتحادیوں کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا، شیخ کو بھی ’’قسطمونی‘‘ نامی مقام کے ایک ادارے میں منتقل کردیا، جہاں تین برس تدریس کے بعد استعفا دے کر’’ آستانہ‘‘ واپس تشریف لے آئے۔  ’’قسطمونی‘‘ جانے سے قبل ’’آستانہ یونیورسٹی‘‘ میں فقہ وتاریخ فقہ کے لیے ایک استاذ کی اسامی آئی تو اس کے حصول کے لیے بہت سی درخواستیں پیش کی گئیں ، بعض احباب کی خواہش پر شیخ نے بھی درخواست بڑھادی، چنانچہ جب افراد کی کثرت کی بنا پر انتخاب مشکل ہوا تو تمام درخواست دہندگان کا امتحان لیا گیا، جس میں شیخ اول آئے، لیکن اہلیت کے باوجود اتحادیوں نے انہیں یہ عہدہ نہ ملنے دیا، بعد میں کم عمری کے باوصف انہیں’’ درجہ تخصص‘‘ کا استاذ مقرر کرلیا گیا اور پھر ترقی کرتے کرتے اس وقت کے شیخ الاسلام مصطفی صبری v کے نائب کے عہدے پر فائز ہوئے۔  مشائخ وتلامذہ شیخ کے اساتذہ میں ان کے والد شیخ حسن بن علی کوثری ؒ (متوفی:۱۲۷۷ھ)، شیخ ابراہیم حقی ؒ (متوفی:۱۳۱۸ھ)، شیخ علی زین العابدین صولیؒ (متوفی:۱۳۳۶ھ) ، شیخ حسن قسطمونیؒ (متوفی: ۱۳۲۹ھ) اور شیخ یوسف ضیاء الدین تکوشیؒ(متوفی:۱۳۴۳ھ) وغیرہ ہیں، شیخ نے اپنے ثبت ’’التحریر الوجیز‘‘ میں مشائخ کا ذکر کیا ہے۔ ترکی میں قیام کے دورمیں اور ہجرت کے بعد شیخ کے تلامذہ کی تعدادہزاروں میں ہے، جن میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ، شیخ عزت عطارؒ، شیخ محمد ابراہیم ختنیؒ اور شیخ محمد امین سراج (موصوف حیات ہیں اورترکی کے دارالحکومت استنبول میں مقیم ہیں)جیسے معروف اہل علم بھی شامل ہیں۔ مصر کی جانب ہجرت درس وتدریس کا سلسلہ یونہی جاری تھا کہ ترکی میں انقلابی بازگشت سے حالات دگرگوں ہونے لگے، اور حالات کے جبر نے علامہ کوثری v کو ہجرت پر مجبور کردیا، چنانچہ ۱۳۲۶ھ میں وہ اسکندریہ مصر تشریف لے گئے، کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد شام اور پھر دوبارہ مصر آئے، اور قاہرہ میں قیام کرنے لگے، اور ’’دار المحفوظات العربیۃ‘‘ سے وابستہ ہوگئے، یہیں ان سے حضرت بنوری v کی ملاقات ہوئی تھی۔ رشتۂ ازدواج واولاد علامہ کوثری v جنگ عظیم سے قبل ترکی میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے، ان کی اہلیہ مرحومہ نے زندگی کے کٹھن حالات میں ان کا ساتھ دیا ، ان سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا، لیکن سب ہی شیخ کی زندگی میں ہی داغِ مفارقت دے گئے۔ اولاد کی موت کے غم نے اُنہیں پگھلا ڈالا تھا، آخر عمر میں اہلیہ بھی وصال فرماگئیں تو بیماریوں اور بڑھاپے کے ضعف سے شیخ نڈھال ہوگئے، لیکن ان اندوہناک حالات کے باوجود زندگی بھر شاکر وصابر رہے اور ان مصائب پر کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے تھے، بلکہ ذہنی یکسوئی نہ ہونے کے باوجود تدریسی وتالیفی سرگرمیاں جاری رکھے رہے، اور حیرت انگیز طور پر آخر تک حافظہ بھی برقرار تھا، یہ ان کی قوت اورعزم واستقامت کی واضح دلیل ہے۔  عمر کے اس حصے میں ان کی بینائی بھی کمزور ہوگئی اور دیگر امراض اس پر مستزاد تھے، ان امراض ومسائل نے شیخ کے جسم وروح کو نچوڑ دیا تھا، اسی حالت میں ۳۰؍ ربیع الثانی ۱۳۷۱ھ کو اس دنیائے فانی سے منہ موڑ کر راہیِ ملکِ بقا ہوگئے،  قاہرہ میں مشہور متکلم ابوعباس طوسیؒ کی قبر کے پہلو میں اُن کی قبر ہے۔  رحمہٗ اللّٰہ تعالٰی رحمۃً واسعۃً وغفرلہٗ و أسکنہٗ فسیح جنانہٖ ۔  تالیفات وعلمی خدمات  علامہ کوثریv کی تالیفات کو بھی ہجرت سے قبل اور بعد کی دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، پہلے دور کی اکثر کتب مخطوط ہیں، جبکہ دوسری قسم کی اکثریت مطبوع ہے، موصوف کے شاگرد شیخ احمد خیری نے ان کے حالات میں اکیاون(۵۱) کتب کاذکر کیا ہے، جن میں چند معروف نام درج ذیل ہیں: ۱:۔۔۔۔ التحریر الوجیز فیما یبتغیہ المستجیز، ۲:۔۔۔۔ الإشفاق علی أحکام الطلاق ، ۳:۔۔۔۔بلوغ الأمانی فی سیرۃ  الإمام محمد بن الحسن الشیبانیؒ، ۴:۔۔۔۔ حسن التقاضی فی سیرۃ الإمام أبی یوسف القاضی، ۵:۔۔۔۔ لمحات النظر فی سیرۃ الإمام زفرؒ، ۶:۔۔۔۔ الامتاع بسیرۃ الإمامین حسن بن زیاد ومحمد بن شجاع ، ۷:۔۔۔۔ تانیب الخطیب علی ما ساقہٗ فی ترجمۃ أبی حنیفۃؒ من الأکاذیب، ۸:۔۔۔۔ الترحیب بنقد التانیب، ۹:۔۔۔۔ النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃؒ ، وغیرہ ۔ ان کے علاوہ مختلف کتب پر لکھے گئے مقدمات اور علمی وتحقیقی مقالات بھی مستقل جلدوں میں چھپ چکے ہیں۔ پیشِ نظر مکتوبات کا اجمالی تعارف  ’’مکتوبات‘‘ ادب کی ایک دلچسپ صنف شمار کی جاتی ہے، مکتوباتِ مجدد الف ثانی، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری v کے مکتوباتِ صدی ومکتوباتِ دو صدی، مکتوباتِ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مکتوباتِ اقبالؒ اور حال ہی میں چھپنے والے مکتوباتِ مشاہیر بنا م مولانا سمیع الحق، تاریخی حقائق کا خزینہ اور معلومات کا گنجینہ ہیں۔ عربی ادب میں بھی یہ روایت قدیم چلی آرہی ہے،قدمائے اہل علم کے مکاتیب کا قیمتی ذخیرہ بھی ہمیں ملتا ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ v نے ’’نماذج من رسائل السلف وأدبھم العلمی‘‘ کے نام سے امام ابوحنیفہؒ وعثمان بتیؒ اور امام مالکؒ و امام لیث بن سعد w کی باہمی مکاتبت پر مشتمل ایک رسالہ ترتیب دیا ہے، جس میں اس دور کے اہل علم کے باہمی تعلق، محبت والفت، خیر خواہی وخیر اندیشی اور علمی مسائل میں باہمی اختلاف کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں، ان کے علاوہ امام ابوداودv کا ’’رسالۃ الإمام أبی داود إلٰی أھل مکۃ‘‘ تیسری صدی کی علمی روایت کی یادگار ہے۔ علامہ کوثریv کے یہ مکتوبات ان سے قلبی گرویدگی رکھنے والے ایک نوجوان سعودی فاضل ڈاکٹر سعود سرحان نے ترتیب دیئے ہیں اور جابجا توضیحی حواشی کے ذریعہ ان کی افادیت میں اضافہ کیا ہے،ان خطوط میں ان دونوں بزرگوں کے درمیان گہرے تعلق پر روشنی ڈالتے ہیں۔  ان مکاتیب میں جابجا تحقیقی مباحث، علمی مشکلات، ادبی نکات اور اہم امور میں مباحثہ ومناقشہ کے خوبصورت نمونے بکھرے پڑے ہیں، جن کی قدر صحیح معنوں میں اہل علم ہی کرسکیں گے، تصنیفی وتالیفی کام میں زبان وبیان کا وہ بے ساختہ پن نہیں رہتا جو مکاتیب کے اسلوب میں جھلکتا ہے۔ علامہ کوثریؒ کو ہی لیجیے کہ ان کی کتب ومقالات میں ، جوخالص مباحث پر مشتمل اور پائے کی سنجیدہ زبان وادب کا اظہاریہ ہیں، وہ قلبی جذبات اور بے ساختگی دکھائی نہیں دیتی، جو ان مکاتیب میں نظر آتی ہے، مکاتیب میں عمومی دلچسپی کا ایک اہم سبب یہی ہے۔ ا ن مکاتیب کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ بہت سے اُلجھے مسائل اہل علم کے ایک جملے سے کس طرح پانی ہوجاتے اور چٹکی میں حل ہوجاتے ہیں، یوں طلبائے علم کو ان علماء کے زندگی بھر کے مطالعے وتجربے کا حاصل ہاتھ آجاتا ہے۔ ان مکتوبات میں علامہ کوثری v کے اعلیٰ ذاتی اوصاف بھی نمایاں ہیں، جو اُن کی شخصیت کی واضح تصویر بناتے ہیں۔ بہرکیف ذیل میں یہ مکاتیب اردو ترجمانی کے قالب میں ڈھال کر سلسلہ وار پیش کیے جارہے ہیں،اور حسبِ ضرورت حواشی کا بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ’’بینات‘‘ کی علمی تشنگی کی سیرابی کا باعث ہوں گے: بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت جناب برادر عزیز علامہ مجاہد فی سبیل اللہ سید محمد یوسف بنوری حفظہٗ اللہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد سلام! گزشتہ کل آپ کا والا نامہ موصول ہوا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو حج وزیارت کی توفیق دی، اور آپ صحت وعافیت کے ساتھ اپنوں کے درمیان پہنچ گئے، ان شاء اللہ! بوقتِ ملاقات اساتذہ کو آپ کا سلام پہنچادوں گا۔ دو روز قبل استاذ ابراہیم زیلعی (۱) نے غریب خانے کو شرف بخشا تو آپ کے بسلامت پہنچنے کی خوش خبری سنائی، مجھے بہت خوشی ہوئی، امید ہے کہ وہ آپ کو میرا سلام وتعظیم پہنچائیں گے۔ ہمارا باہمی مستحکم بھائی چارہ ہر رشتے سے بڑھ کر ہے، امید ہے کہ آپ میرے لیے درست روی اور توفیق کی دعا کریں گے، میں بھی ان شاء اللہ! غائبانہ دعاؤں میں کوتاہی نہیں برتوں گا۔  شیخ محمد حسین کتبی(۲)کے متعلق بعد میں علم ہوا کہ سرکاری اطلاع کے مطابق ان کی وفات دو جمادیٰ الاخری ۱۲۸۰ھ کو ہوئی تھی، اب آپ ان کے پوتے سے گم شدہ معلومات کے محتاج نہیں رہے۔(۳)  ان کے دو اساتذہ ’’الدر المختار‘‘ (۴)کے محشی سید احمد طحطاوی (۵) اور ’’جلالین‘‘ (۶)کے محشی شہاب صاوی(۷) ہیں، دونوں کی سندیں معروف ہیں۔(۸) حجاز میں آپ کے (علمی)مباحثوں سے جی خوش ہوا، تمنا ہے کہ علماء کے ساتھ جاری رہنے والے یہ مباحثے مدون و مرتب ہو جائیں، تاکہ یہ ایک ابدی ذخیرہ اور مسترشدین کے لیے یادگار ہو۔ اس گمراہ انسان(۹) کی فتنہ انگیزیوں کی اشاعت سے مجھے بہت اذیت پہنچ رہی ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ خصوصی مدد ونصرت سے آپ کی تائید فرمائے۔ آپ کے ذریعے ان گمراہی کے داعیوں کا قلع قمع فرمائے اور آپ کو حکمت و بصیرت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ مسلمانوں کے باہمی اتحاد واتفاق کی توفیق بخشے۔ آنجناب سے دینی خدمت کے پہلو سے ہر خیر کا متمنی ہوں اور ان وسیع وعریض علاقوں میں نئی نسل کی درست راہ کی جانب رہنمائی کی توقع رکھتا ہوں۔ برادر عزیز شیخ محمد احمد رضا بجنوری (۱۰) کو میراسلام پہنچائیں، ان کے لیے ہر نوع کی توفیق کا متمنی ہوں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ’’فیض الباری‘‘ کے مختلف مقامات پر صاحب اَمالی(۱۱)سے بعض نامناسب و ناخوشگوار باتیں سرزد ہوئی ہیں۔ (۱۲) جن کے بارے میں میرے پاس سخت افسوس کے سوا کچھ نہیں ہے، جیسے ’’ عمائ‘‘(ایک روایت میں مذکور لفظ)کے بارے میں ان کا کلام، صاحب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘(۱۳) کی جانب عالم کے قدیم ہونے کی نسبت، حقو، ساق وتجلی اور انسانی صورت میں رؤیت کے متعلق ان کا انوکھا کلام وغیرہ۔ اخیر میں امید ہے کہ اپنی نیک دعاؤں میں مجھے نہ بھولیں گے۔ میں آپ کے لیے بھی تمام احوال میں توفیق اور درست روی کی دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کی نگہبانی میں رہیںاور صحت وعافیت کے ساتھ اس کی حفاظت کے سائے میں محفوظ رہیں۔                    مخلص دعا گو                                                        محمد زاہد کوثری                                         ۵؍ ربیع الاول، ۱۳۴۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۶۳ حواشی ۱:۔۔۔۔۔ ابراہیم مختار بن احمد عمر زیلعی ،اریٹیری ، حنفی، مفتی اریٹیریا، جمادی الثانیہ ۱۳۲۷ھ میں اریٹیریا میں ولادت ہوئی، اپنے شہر کے بعض اہل علم سے حصولِ علم کا آغاز کیا، پھر سوڈان کے لیے رختِ سفر باندھا، بعد ازاں جامعہ ازہر تشریف لے گئے اور طلبائے ازہر کی لڑی میں پروئے گئے، وہیں ’’تخصص فی الفقہ والاصول‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ ترانوے (۹۳)کے قریب ہیں، جن میں علامہ محمد زاہد کوثریؒ، شیخ الاسلام مصطفی صبریؒ، علامہ محمد بخیت مطیعیؒ، علامہ محمد حبیب اللہ شنقیطیؒ، علامہ عبد الرحمن علیشؒ، علامہ محمود خطاب سبکیؒ، علامہ محمد مصطفی مراغیؒ، شیخ عبد الرحمن بناؒ اور شیخ ازہر علامہ شلتوت ؒ وغیرہ۔ موصوف علم وتالیف اور استعمار کے خلاف جہاد میں مشغول رہے، کئی کلیدی عہدوں پر فائز رہے، جن میں اہم منصب یہ تھا کہ استعمار سے آزادی کے بعد اریٹیریا کے مفتی اعظم بنے، وصال تک راہِ راست پر قائم رہے۔ ربیع الثانی ۱۳۸۹ھ میں انتقال ہوا۔ انہیں اجازتِ حدیث دینے والوں میں علامہ کوثری v(موصوف کی سندِ اجازت ان سے منسوب ویب سائٹ پر موجود ہے)، شیخ عبد الرحمن بناؒ،علامہ محمد حبیب اللہ شنقیطیؒ اورعلامہ عبد الرحمن علیشؒ شامل ہیں۔ مزید حالات کے لیے دیکھیے: ’’الأخبار التاریخیۃ فی السیرۃ الزکیۃ‘‘ زکی مجاہد (ص: ۷۳)، اور ان سے منسوب ویب سائٹ:   http://www.mukhtar.ca علامہ کوثریv نے اپنی کتاب ’’لمحات النظر فی سیرۃ الإمام زفرؒ ‘‘(ص: ۱۹،ط : ۱۳۶۸ھ) میں موصوف کا یوں تذکرہ کیا ہے:  ’’و وصیۃ أبی حنیفۃؒ لیوسف السمتی مدونۃ فی کتب المناقب، وقد قام بتحقیقہا الأستاذ الغیور المفضال الشیخ إبراہیم المختار الزیلعی الجبرتی حفظہ اللّٰہ، وہی من عیون الوصایا، تعلم القائم بالإرشاد بین الناس طرق معاشرتہم وسیاستہم لینجح فی إرشادہم وتعلیمہم۔‘‘  ’’کتب مناقب میں یوسف سمتی کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ کی وصیتیں ذکر کی گئی ہیں، غیور وصاحب فضیلت استاذ شیخ ابراہیم مختار زیلعی جبرتی حفظہٗ اللہ نے ان کی تحقیق کی ہے،یہ اہم ترین وصایا میں سے ہیں، جو اصلاحِ خلق کا فریضہ سر انجام دینے والے کو اصلاح و تعلیم میں کام یابی کے لیے معاشرت وسیاست کے گر سکھاتی ہیں۔‘‘ ۲:۔۔۔۔۔ محمد حسین کتبی مکی حنفی، مکہ مکرمہ کے شیخ حنفیہ، علامہ اورفقیہ ۱۲۰۲ھ میں مصر میں پیدائش ہوئی۔ علامہ احمد طحطاویؒ اورعلامہ احمد صاویؒ جیسے علمائے مصر سے علم حاصل کیا۔ ۱۲۵۵ھ میں مکہ مکرمہ منتقل ہوئے اور وفات تک وہیں رہے۔ حرم مکی شریف کے مدرس اور مفتی حنفیہ کے منصب پر فائز تھے۔ علامہ کوثری v نے سرکاری ذرائع سے دن، مہینے اور سال کی تعیین کے ساتھ ان کی تاریخِ وفات لکھی ہے، جب کہ عبد اللہ مرداد اور عبد اللہ غازی نے ۱۲۸۱ھ ذکر کی ہے۔  مزید حالات کے لیے مآخذ: ’’فہرس الفہارس والأثبات‘‘ و’’معجم المعاجم والمشیخات والمسلسلات‘‘ عبد الحی کتانی v (۱: ۴۸۱)، ’’مختصر نشر النور والزہر‘‘عبد اللہ مرداد (ص: ۴۷۵،۴۷۶)، ’’إفادۃ الأنام بذکر أخبار بلد اللّٰہ الحرام‘‘ عبد اللہ غازی مکی (۶:۳۸۲، ۳۸۳)، ’’أعلام المکیین‘‘ عبد اللہ معلمی (۲:۷۹۲)، اور ’’إمداد الفتاح بأسانید ومرویات الشیخ عبد الفتاح‘‘ شیخ محمد آل رشید (ص: ۶۲۹)۔ تنبیہ: ’’فہرس الفہارس‘‘ اور بعض دیگر مآخذ میں موصوف کا نام ’’محمد بن حسن‘‘ مذکور ہے، لیکن درست ’’حسین‘‘ ہے، امام کوثری v نے اپنے ’’فہرس الفہارس‘‘کے نسخے کے حاشیے میں اور استاذ محمد آل رشید نے ’’إمداد الفتاح‘‘ (ص: ۶۹۲) میں اس جانب متوجہ کیا ہے۔ بہت سی کتبِ اثبات اور آخری دور کی کتب تاریخ میں ان کا نام ’’محمد بن حسین‘‘ لکھا گیا ہے، گویا ’’حسین‘‘ والد کا نام ہے، لیکن ڈاکٹر سعود سرحان کی رائے میں ان کا نام مرکب یعنی محمد حسین ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ علمائے مکہ کے حالات پر مشتمل تازہ کتب مثلاً: ’’نشر النور والزہر‘‘ وغیرہ نے ان کا نام یوں ہی ذکر کیا ہے۔ مفید تحقیق کے لیے انہوں نے شیخ کتبی کے ایک پوتے سے ان کے دادا کے درست نام کے متعلق دریافت کیا، جو خود بھی تاریخ سے شغف رکھنے والے طالب علم ہیں، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کا نام ’’محمد حسین‘‘ ہے، خاندانی شجرہ نسب میں یوں ہی مذکور ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ بنوریؒ شیخ کتبی کی تاریخ وفات معلوم کرنا چاہتے تھے، انہوں نے شیخ کے پوتے (بظاہر شیخ محمد امین کتبی ۱۳۲۷ھ - ۱۴۰۴ھ) سے ان کے دادا کی تاریخ وفات کے بارے میں دریافت کیا ہوگا اور انہوں نے تاریخ وفات کی گم شدگی کی خبر دی ہوگی۔ ۴:۔۔۔۔۔۔ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی (انہیں طحاوی اور طحطاوی بھی کہا جاتا ہے)  مصری حنفی، علامہ، فقیہ، مصر میں شیخ حنفیہ، ۲۳۱ھ میں وفات پائی۔ مزید حالات کے لیے:’’عجائب الآثار فی التراجم والأخبار‘‘ عبد الرحمن بن حسن جبرتی (۴: ۴۰۴، ۴۰۶)، ’’حلیۃ البشر فی القرن الثالث عشر ‘‘ عبد الرزاق بیطار (۱: ۲۸۱، ۲۸۲،)، ’’فہرس الفہارس‘‘ کتانی ؒ(۱:۴۶۷، ۴۶۸) اور ’’الأعلام‘‘ خیر الدین زرکلیؒ (۱: ۲۴۵)۔ ۵:۔۔۔۔۔یہ ’’الدر المختار شرح تنویر الأبصار‘‘ کا حاشیہ ہے، جس میں ’’الدر المختار‘‘ کے حواشی وتعلیقات کو جمع کرنے کے ساتھ مزید اضافے بھی کیے گئے ہیں، علامہ ابن عابدین v نے’’الحاشیۃ الفائقۃ‘‘ (عمدہ حاشیہ)قرار دیا ہے، مصر کے مطبعہ امیریہ میں تین بار (۱۲۵۴ھ، ۱۲۶۸ھ، ۱۲۸۲ھ) طبع ہوا،بعد میں بھی اس کے بہت سے فوٹو لیے گئے ہیں۔ ’’الدر المختار فی شرح تنویر الأبصار‘‘ مفتی شام علاء الدین محمد بن علی حصکفی حنفی متوفی: ۱۰۸۸ھ کی تالیف ہے۔ اور یہ علامہ شمس الدین محمد بن عبد اللہ ابن تمرتاش غزی حنفی متوفی: ۱۰۰۴ھ کی تالیف ’’تنویر الأبصار وجامع البحار‘‘ کی مشہورشرح ہے۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون‘‘ (۱:۵۰۱)میں ذکر کیا ہے کہ موصوف نے اس کتاب میں قضا وفتویٰ کے منصب پر فائز علماء کی مدد کے لیے مذہب حنفی کے معتمد متون کے مسائل جمع کر دیے ہیں۔  ۶:۔۔۔۔۔۔ ’’حاشیۃ الصاوی علٰی تفسیر الجلالین‘‘  مطبع بولاق مصر سے ۱۲۹۵ھ میں اور مطبع اشرفیہ سے ۱۳۲۷ھ میں طبع ہواہے۔دیکھیے: یوسف الیان سرکس کی کتاب: ’’معجم المطبوعات العربیۃ والمعربۃ‘‘ (۱: ۳۷۶)۔ ۷:۔۔۔۔۔ ابو عباس احمد بن محمد خلوتی مالکی معروف بہ صاوی، مصری، فقیہ، ۱۱۷۵ھ میں ولادت ہوئی اور  ۱۲۴۱ھ میں مدینہ منورہ میں وفات ہوئی۔ دیکھیے:’’ شجرۃ النور الزکیۃ فی طبقات علماء المالکیۃ‘‘ محمد بن محمد مخلوف مالکی (۱: ۳۶۴) ، ’’الأعلام‘‘ زرکلی (۱: ۲۴۶) نیز ان کے اوصاف و مناقب میں محمد حسین کتبی کی کتاب: مناقب احمد الصاوی، جس کا ایک نسخہ ’’مرکز الملک فیصل للبحوث والدراسات الاسلامیۃ ریاض‘‘ میں رقم: ۱۹۹۱ کے تحت محفوظ ہے۔ ۸:۔۔۔۔۔ دیکھیے ان دونوں مشائخ کے حالات سے متعلق مذکورہ مآخذ، علامہ طحطاویؒ نے اپنی اسانید ثبت میں بھی جمع کردی ہیں، جو طبع ہوچکا ہے۔ ۹:۔۔۔۔۔۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جانب اشارہ ہے ،مزید تفصیل آگے خطوط میںآئے گی۔ ۱۰:۔۔۔۔۔ احمد رضا بجنوری، علامہ محدث و فقیہ، ’’نصب الرایۃ‘‘ کی خدمت اور ۱۳۵۷ھ میں اس کی طباعت میں ایک شریک کار، بتیس اجزاء میں ’’أنوار الباری علٰی صحیح البخاری‘‘ کے مرتب، جس میں موصوف نے صحیح بخاری سے متعلق اپنے شیخ علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کے’’اَمالی‘‘ جمع کردیے ہیں اور الگ سے دو حصوں میں مقدمہ بھی لکھا ہے، جس میں محدثین علمائے حنفیہ کے سوانح ذکر کیے ہیں۔ موصوف علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کے داماد تھے۔ ۱۳۲۴ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۴۱۸ھ میں بحالتِ سجدہ روح پرواز کر گئی۔ رحمہٗ اللّٰہ تعالٰی رحمۃً واسعۃً ۔ دیکھیے: علامہ کوثریv کے رسالے: ’’فقہ أہل العراق وحدیثہم‘‘ پر شیخ عبد الفتاح ابوغدہ v کی تحقیق وتعلیق (ص: ۱۰۰) اور شیخ محمد آل رشید کی کتاب’’ الإمام محمد زاہد الکوثری واسہاماتہ فی علم الروایۃ والإسناد‘‘ (ص:۱۵۳، ۱۵۴)۔ ۱۱:۔۔۔۔۔ مراد علامہ محقق فقیہ محدث مفسر لغوی اور صوفی علامہ محمد انور شاہ کشمیری حنفی ہیں، ولادت ۱۲۹۲ھ میں ہوئی اور وفات ۱۳۵۲ھ میں ہوئی۔ ’’صحیح بخاری‘‘ پر ان کی شرح ’’فیض الباری‘‘ کے نام سے مطبوع ہے، جو طلبہ کے سامنے پیش کیے گئے اَمالی تھے، پھر ان کے شاگرد مولانا محمد بدر عالم میرٹھی v نے جمع کر کے شائع کیے ہیں۔ مولانا کشمیری v کے حالات میں مستقل کتاب بھی ہے، ان کے حالات کے لیے اہم مآخذ درج ذیل ہیں: ’’نفحۃ العنبر فی حیاۃ إمام العصر أنورؒ‘‘علامہ محمد یوسف بنوریv، ’’تراجم ستۃ من فقہاء العالم الإسلامی‘‘ علامہ عبد الفتاح ابو غدہv (۱۳/۸۱)، اور ’’العناقید الغالیۃ من الأسانید العالیۃ‘‘ محمد عاشق الٰہی برنی مظاہریv (ص: ۱۰۴-۱۰۶)۔ علامہ کوثریv ان کے متعلق لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ علامہ، فقید اسلام،محدث ، شیخ محمد انور کشمیریv کے درجات جنت کے بالاخانوں میں بلند کرے اور انہیں حریم اسلام کا دفاع کرنے والوں جیسا بدلہ واَجر عطا فرمائے۔ ‘‘ (مقالات، ص: ۳۵۹) ’’تانیب الخطیب ‘‘ (ص: ۸۴) میں لکھتے ہیں: ’’علامہ، ماہر فن، دریائے علم۔‘‘ علامہ بنوریv کا بیان ہے:’’قاہرہ میں عباسیہ نامی مقام پر واقع علامہ کوثری v کے گھر میں ۱۳۵۷ھ میں ان سے سنا: ’’احادیث کے ضمن میں نادر مباحث اُٹھانے کے پہلو سے شیخ ابن ہمامؒ کے بعد ان جیسا شخص نہیں آیا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’اور یہ طویل زمانہ ہے۔‘‘ (نفحۃ العنبر، ص: ۳۰۵) ۱۲:۔۔۔۔۔ علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کی ’’فیض الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں مذکور امور کی جانب اشارہ ہے، امام کوثریv نے بعض مباحث کی طرف متوجہ کیا ہے، مثلاً: انسانی صورت میں اللہ تعالیٰ کی تجلی اور اللہ عزوجل کی طرف لفظ ’’حقو‘‘ کی نسبت کے بارے میں کلام (فیض الباری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ محمد، ۴: ۲۳۲، ۲۳۳ طبع قدیم اور ۵: ۳۸۹، ۳۹۰ طبع جدید) ، صورت اورساق کے متعلق ذکر کردہ بحث (فیض الباری، کتاب الاستیذان، باب بدء الاسلام، ۴: ۴۰۳، ۴۰۸ طبع قدیم اور ۶: ۱۸۷، ۱۹۳ ،طبع جدید) شاہ ولی اللہ دہلوی v کی جانب ’’قدم عالم‘‘ کے قول کی نسبت علامہ کشمیریv نے ’’باب بدء الخلق‘‘ کی ابتدا میں کی ہے۔ (۴: ۱،۲، طبع قدیم اور ۴: ۲۹۹،۳۰۰ ،طبع جدید) ،چنانچہ لکھتے ہیں: ’’شاہ ولی اللہv نے اپنے بعض رسائل میں ’’قدم عالم‘‘ کو اختیار کیا ہے اور ترمذی کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم a سے دریافت کیا گیا کہ مخلوق کی پیدائش سے قبل رب کہاں تھا؟ فرمایا: وہ ’’عمائ‘‘ میں تھا، اور اس کے اوپر اور نیچے ہوا (خلا) تھی۔‘‘ اس مقام پر اور حاشیے میں ’’عمائ‘‘ سے متعلق کلام ہے۔ علامہ کوثری v نے اس خط میں شاہ ولی اللہv کی جانب ’’قدم عالم‘‘ کی نسبت پر تعجب کرتے ہوئے اُسے بعید از قیاس قرار دیا ہے، البتہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’حسن التقاضی‘‘ (ص: ۹۹) میں علامہ انور شاہ کشمیریv کے بیان کی جانب میلان ظاہر کیا ہے۔ ۱۳:۔۔۔۔۔ ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ تالیف علامہ شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم عمری دہلوی ، ابو عبدالعزیز، اپنے لقب ’’شاہ ولی اللہؒ ‘‘ سے معروف ہیں، فقیہ ،محدث اور صوفی ہیں، ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت کرنے والے کبار علماء میں سے ہیں،  ۱۱۱۰ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۱۷۶ھ میں وفات ہوئی۔ دیکھئے:’’نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر‘‘ عبد الحی بن فخر الدین حسنیv (۶:۸۵۸، ۸۶۷)  ’’فہرس الفہارس‘‘ کتانی v(۲: ۱۱۱۹- ۱۱۲۲) اور ’’الأعلام ‘‘ زرکلی v(۱:۱۴۹)

(جاری ہے) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین