بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ... بنام... مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (ساتویں قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری v

 ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوریv

            (ساتویں قسط)

{  مکتوب :…۱۳  }

جناب مولانا، جلیل القدر استاذ، سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  آپ کے والانامے سے مسرت وشادمانی ہوئی، لیکن ہونہار فرزند کی وفات (کی خبر) نے مجھے غمزدہ کردیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرعظیم عطا فرمائے، وہی دے کر لے لینے والا اور پھر بدل عطا کرنے والا ہے۔ نیز عزیز بھائی مولانا (احمد رضا)بجنوری کو ان کی رفیقہ محترمہ اور چھوٹی بیٹی کی وفات سے پہنچنے والے صدمے نے بھی غمگین کردیا، اللہ ہی (ان کے اس غم کی)تلافی کرنے والا اور عوض دینے والا ہے، ہم بھلا کرہی کیا سکتے ہیں؟! اس دنیا کی یہی حقیقت ہے! آپ کی لذت افروز علمی باتوں سے میں بہت لطف اندوز ہوتا ہوں، ان کو سن کر میرے شوق کی آگ سلگنے لگتی ہے۔ (مولانا)مبارک پوریؒ کے متعلق (پچھلے خط میں ذکر کردہ)میرا کلام اس خیال کی بنا پر نہ تھا کہ کہیں آنجناب ان کے معاملے کو نظر انداز نہ کردیں، بلکہ محض دلی اطمینان کے لیے کہہ گزرا، میں مطمئن ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو بارآور فرمائے اور ہر خیر کی توفیق ارزاں فرمائے۔ بوجہ علالت مولانا عثمانی کے علمی سرگرمی سے انقطاع پر افسوس ہوا، اللہ تعالیٰ انہیں شفا وعافیت عطا فرمائے۔ اشاعتِ علم کے لیے دہلی جیسے شہر کو مرکز بنانا بہت مناسب ہے۔ ہمارا رب آپ کو توفیق دے اور ثابت قدم رکھے۔ نزولِ عیسیٰ m کے متعلق میرا چھوٹا سا رسالہ ان شاء اللہ! شطحیات پر مشتمل مقالات کے رَد کے حوالے سے کمرتوڑ ہے، میں نے اس کا عنوان ’’نظرۃ عابرۃ‘‘رکھا ہے، اس لیے کہ یہ موضوع گہری نگاہ سے بے نیاز ہے۔ ان شاء اللہ! ترسیلِ کتب کی اجازت ملتے ہی ارسال کروں گا۔  اس موضوع پر مولانا کشمیری کے رسائل(۱) بھیجنے کی مکرر اُمید رکھتا ہوں، افسوس کہ بعض بھائیوں نے ان میں سے کچھ (رسائل)ضائع کردیئے ہیں، اور آپ نے درست فرمایا کہ یہ عقیدہ‘ مجمع علیہ ومتواتر ہے۔والسلام علیکم، ہمیشہ بخیر رہو میرے انتہائی عزیز بھائی!                                                                      مخلص                                                                     محمد زاہد کوثری                                                        رمضان سنہ ۱۳۶۴ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۶۳ پس نوشت:… ’’النظرۃ‘‘کے (ص:۱۰) میں لکھا ہے:’’نزولِ عیسیٰ m کی احادیث کے متواتر ہونے کی صراحت ابن جریر(۲)، آبری(۳)، ابن عطیہ(۴)، ابن رشد کبیر(۵)، قرطبی، ابوحیان، ابن کثیر(۶)ابن حجر وغیرہ حفاظِ(حدیث)نے کی ہے، اور یہ سب اہلِ فن ہیں، مزید براں شوکانی(۷)، صدیق (حسن)خان (۸)اور کشمیری نے بھی اپنی تالیفات میں ان (روایات)کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔ رہی بات اجماع کی تو اس کی صراحت حافظ عبدالحق بن عطیہ اندلسی اور حافظ ابوحیان نے اپنی تفسیروں میں کی ہے۔ ’’البحر ‘‘ (۲/۴۷۳) میں ہے:’’ابن عطیہ کہتے ہیں:حدیثِ متواتر سے ثابت شدہ اس عقیدے پر اُمت کا اجماع ہے کہ عیسیٰ (m) آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں نزول فرمائیں گے۔ ‘‘  ’’النہر‘‘(۲/۴۷۳)کے حاشیے میں ہے:’’امت کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ m آسمان میں زندہ ہیں اور عنقریب نزول فرمائیں گے ۔ ‘‘ لیکن ابن حزم ’’مراتب الإجماع ‘‘(۹)اور ’’المحلی‘‘(۱۰) میں اس اجماع کا اقرار نہیں کرتے۔ ‘‘ اس مسئلے کے کتاب وسنت اور اجماع کے ساتھ تعلق کے اعتبار سے ہمارے رسالے میں توسع ہے۔ ’’القول الفصل ‘‘(۱۱)میں شیخ الاسلام مصطفی صبری نے بھی اس مسئلے پر عمدہ کلام کیا ہے، اور ہمارے دوست(۱۲) عبداللہ بن صدیق(غماری)(۱۳) کا بھی ’’إقامۃ البرہان علٰی نزول عیسٰی علیہ السلام فی آخر الزمان‘‘کے نام سے رسالہ ہے۔ بذریعہ ڈاک کتابوں کی ترسیل کی چھوٹ ملنے پر ان شاء اللہ! جلد ہی یہ سب رسائل بھیجوں گا۔  نزولِ عیسیٰ m کے منکر کو کافر قرار دینا‘ سیوطیؒ کے رسالہ ’’الإعلام ‘‘(۱۴)میں مذکور ہے، میں کہتا ہوں کہ آلوسی کی ’’روح المعانی ‘‘(۱۵) میں بھی درج ہے۔نیز انہوں نے، کلابازی نے’’معانی الأخبار‘‘ (۱۶) میں اور سفارینی نے اپنی ’’شرح العقیدۃ ‘‘(۱۷)میں نزول عیسیٰ m پر اجماع نقل کیا ہے۔  حافظ (ابن حجرؒ)نے ’’التلخیص ‘‘(۱۸)میں (حضرت عیسیٰ m کے)زندہ حالت میں آسمان کی جانب رفعِ جسمانی پر محدثین ومفسرین کا اتفاق ذکر کیا ہے۔ حواشی  ۱:…اس موضوع پر علامہ محمد انور شاہ کشمیری v کے درج ذیل رسائل ہیں:’’عقیدۃ الإسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام’’یا ’’حیاۃ المسیح بمتن القرآن وشرح الحدیث الصحیح ‘‘،’’تحیۃ الإسلام بحیاۃ عیسٰی علیہ السلام‘‘ اور ’’التصریح بماتواتر فی نزول المسیح ‘‘۔ ۲:…’’جامع البیان عن تأویل آی القرآن ‘‘(ج:۶،ص:۴۵۸ )۔ ۳:…جیساکہ حافظ ابن حجرؒ نے ’’فتح الباری ‘‘(ج:۶،ص:۴۹۳-۴۹۴)میں ان سے نقل کیا ہے۔  ۴:…’’المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز ‘‘(ص:۳۰۸)۔ ۵:…’’شرح الأبی علی صحیح مسلم ‘‘ (ج:۱،ص:۲۶۵ )۔ ۶:…’’تفسیر القرآن العظیم ‘‘،  تفسیر سورۃ الزخرف (ص:۱۶۸۴)۔ ۷:…ان کی کتاب کا نام ’’التوضیح فی تواتر ما جاء فی المنتظر والمہدی والمسیح‘‘ ہے۔ ۸:…’’الإذاعۃ لما کان ویکون بین یدی الساعۃ‘‘(ص:۷۷)۔ ۹:…(ص:۱۷۳)پر لکھتے ہیں: ’’اس میں اختلاف ہے کہ عیسیٰ m قیامت سے قبل آئیں گے یا نہیں ۔ ‘‘ ۱۰:… ’’المحلی بالآثار شرح المجلی بالاختصار ‘‘(ج:۱،ص:۴۳)۔ ۱۱:… ’’القول الفصل بین الذین یؤمنون بالغیب والذین لایؤمنون ‘‘، یہ ان کی کتاب ’’موقف العقل والعلم والعالم‘‘ کا تیسرا جزء ہے، جو پہلے الگ چھپا اور پھر اصل کتاب کے ضمن میں طبع ہوا ہے۔  ۱۲:…علامہ کوثری v نے اشارہ کیا ہے کہ شیخ عبداللہ غماری ان کے دوست تھے، حالانکہ شیخ ان کے شاگردوں کے درجے میں ہیں، علامہ موصوف نے ان کی مذکورہ کتاب ’’إقامۃ البرہان ‘‘کا مقدمہ بھی لکھا ہے، اور اس مقدمے سے قبل شیخ غماری یوں رقم طراز ہیں:’’بعض حاسدین کی ناکام کوششوں کے باوجود میرے اور استاذ کوثری کے درمیان مضبوط تعلق رہا، وہ مجھے بہت عزت دیتے تھے، حتیٰ کہ ان کی وفات سے ایک برس قبل میں نے ان سے اجازتِ حدیث طلب کی تو انہوں نے بھی مجھ سے اجازت کا مطالبہ کردیا، بعض لوگ ان سے احادیث کے متعلق پوچھتے تو وہ مجھ سے دریافت کرتے تھے۔ ان کی وفات تک یونہی تعلق برقرار رہا،اللہ ان پر رحم فرمائے اور انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمائے۔ ‘‘ دونوں اہل علم کا باہمی احترام ملاحظہ کیجیے۔ ۱۳:… علامہ عبداللہ بن محمد بن صدیق غماری: فقیہ ومحدث، اُصولی ومتکلم اور بہت سے فنون کے ماہر، ۱۳۲۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۴۱۳ھ میں راہی ملک بقا ہوئے، مزید دیکھیے: ان کی خود نوشت ’’سبیل التوفیق فی ترجمۃ عبداللّٰہ بن الصدیق‘‘۔ ۱۴:… ’’الإعلام بحکم عیسٰی علیہ السلام’’فی ضمن ’’الحاوی للفتاوی‘‘(ج:۲،ص:۱۶۶)۔ ۱۵:…’’روح المعانی ‘‘ (ج:۲۲،ص:۳۴)۔ ۱۶:…’’بحر الفوائد المشہور بمعانی الأخبار ‘‘(ج:۲،ص:۷۱۳)۔ ۱۷:…یہ کتاب ’’لوامع الأنوار البہیۃ وسواطع الأسرار البہیۃ فی شرح الدرۃ المضیۃ فی عقد الفرقۃ المرضیۃ‘‘ (ج:۲،ص:۹۴)۔ ۱۸:…’’ التلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر ‘‘ (ج:۴،ص:۴۳۱)۔          (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین