بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (تیسری قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری v  ۔۔۔۔  بنام  ۔۔۔۔

مولانا سیدمحمد یوسف بنوریv

            (تیسری قسط)

ملاحظہ ’’علامہ محمد زاہد کوثری v کے قلم سے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریv کو لکھے گئے یہ گراں قدر مکاتیب ایک نوجوان سعودی فاضل ڈاکٹر سعود سرحان نے ترتیب دیئے ہیں، مرتب نے عرب دنیا کے احوال وضروریات کے مناسب جابجا حواشی بھی قلمبند کیے ہیں، پیشِ نظر سلسلے میں بوجوہ ہر مقام پر ان حواشی کا جوں کا توں ترجمہ کرنے سے قصداً گریز کیاگیاہے۔ فاضل مرتب کی محنت قابلِ قدر ہے اور موقع کی مناسبت سے اس سے استفادہ کے ساتھ حسبِ ضرورت حک واضافہ سے بھی کام لیا جارہا ہے، دیانۃً یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی، امید ہے کہ قارئین ان حواشی کو مفید پائیںگے۔‘‘ (مترجم) {  مکتوب :…۳  } عزیز بھائی، استاذِ محقق سید محمد یوسف بنوری حرسہ اللہ  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! آپ کے خط سے مسرت ہوئی، اللہ سبحانہٗ آپ کے علوم سے مسلمانوں کو مستفید فرمائے اور آپ کو خیر کی ہر توفیق سے نوازے۔  میری دانست میں حدیث کی سند(۱) میں درست وہی ہے جو آپ کے استاذِ کبیر(۲) کی رائے ہے، (سننِ ترمذی کے)نسخے سبھی ناقص ہیں(۳)، تازی(۴) کے طبع میں تو متن وسند کی اغلاط کی حد نہیں۔ امام ترمذیؒ، امام بخاری رحمہ اللہ سے بکثرت نقل کرتے ہیں، ترمذیؒ کے استاذ محمد بن اسماعیل‘ امام بخاریؒ ہی ہیں اور ان کے استاذ مالک بن اسماعیل‘ امام ابوحنیفہ v کے استاذ حماد بن ابی سلیمانؒ کے نواسے ہیں، ’’عارضہ‘‘ (۵) میں ہے کہ امام بخاریؒ نے مالک کی روایات اپنی ’’تاریخ‘‘(۶) میں نقل کی ہیں، اگرچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں نہیں لائے، امام دارمی v بھی اپنی ’’سنن‘‘(۷) میں مالک بن اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، میرے خیال میںاس پہلو میں کوئی شک وشبہ نہیں۔(۸)     مولانا حکیم الامت(۹) کی دست بوسی کی خواہش ہے، ان کی مبارک دعاؤں اور پاکیزہ توجہات کا منتظر ہوں، امید ہے کہ وہ مجھے بھی اپنی اکسیر نگاہوں میں شامل رکھیںگے۔     میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کے سامنے یہاں کے ناشروں کا حال اور ان کی ’’اشعبی‘‘ لالچ(۱۰) کا تذکرہ کیا تھا، اگر یہاں کوئی میری رائے قبول کرنے والا ہوتا تو میں ’’اعلاء السنن‘‘(۱۱) کی طباعت کرواتا، ایک ایسی کتاب جو اپنے موضوع پر جداگانہ اور انتہائی مفید ہے، جب آپ یہاں تھے تو میں نے بعض ناشرین کے ہاں اس کی کوشش کی تھی، لیکن کامیابی نہ مل سکی، یاد آتا ہے کہ آپ کو بتلایا بھی تھا، کاش کہ چھاپہ خانوں کے مالکان کے ہاں میری بات کا چلن ہوتا، لیکن ان کے حال سے تو آپ واقف ہی ہیں ۔ آپ کی غائبانہ دعاؤں کا ہمیشہ امیدوار رہوںگا، میرے بارے میں دریافت کرنے والے محترم بھائیوں کو میرا سلام پہنچایئے اور ہمیشہ بخیر رہیے۔            مخلص محمد زاہد کوثری                                                                                                                                                  ۲۵؍رجب ۱۳۵۸ھ حواشی ۱:… جامع ترمذی کی درج ذیل حدیث کی جانب اشارہ ہے: ’’حدثنا محمد بن حمید بن إسماعیل، حدثنا مالک بن إسماعیل، عن إسرائیل عن یوسف بن أبی بردۃ، عن أبیہ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا خرج من الخلاء قال: غفرانک۔‘‘ (سنن الترمذی، أبواب الطہارات، باب مایقول إذا خرج من الخلائ، ج:۱،ص:۷، قدیمی) ۲:… حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری v مراد ہیں، ان کی رائے میں حدیث مذکور کی درست سند یوں ہے: ’’محمد بن إسماعیل، نا مالک بن إسماعیل‘‘ ملاحظہ فرمائیں:آگے حاشیہ :۸۔ ۳:…علامہ کوثریv کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’’جامع ترمذی‘‘ کے اکثر مطبوع ومخطوط نسخے ناقص ہیں، بظاہر نسخوں میں اغلاط پرانی چلی آرہی ہیں۔ ’’سننِ ترمذی‘‘ کا سب سے بہتر طبع شیخ احمد شاکرv کی تحقیق کے ساتھ ہے، اگرچہ ان کے زیرِ تحقیق مخطوطہ نسخے بھی ناقص ہیں، لیکن شیخ احمد شاکر محض دو اجزاء کی تحقیق کر پائے تھے، نیز ڈاکٹر بشار عواد معروف کا تحقیق کردہ ایڈیشن بھی عمدہ ہے، حال ہی میں ڈاکٹر بشار نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ’’سننِ ترمذی‘‘ پر اپنے سابقہ کام پر دوبارہ نظرثانی کررہے ہیں اور جلد ہی ان شاء اللہ! دوبارہ چھپ کر آرہا ہے۔ ۴:…ابو علی حسن بن محمد قاسم کو ہن تازی فاسی: مغرب کے مورخ اور فقیہ، کتابوں کی تجارت وطباعت ان کا شغل تھا، نفیس کتب پر مشتمل ذاتی کتب خانہ بھی بنایا، بعد میں اسے ’’رباط‘‘ کی ایک خانقاہ پروقف کر گئے، حجاز میں قیام پذیر رہے اور وہیں راہئی ملکِ عدم ہوئے۔ علامہ زرکلیؒ کے بقول ۱۳۴۷ھ کے بعد وفات پائی، جبکہ ابن سودہ نے ان کو چودہویں صدی کی چھٹی دہائی میں وفات پانے والوں کے ضمن میں ذکرکیاہے۔ دیکھئے: ’’نموذج من الأعمال الخیریۃ‘‘ محمد منیر دمشقی ص:۱۰۵، ’’الأعلام‘‘ زرکلی ،ج:۲،ص:۲۲۱، ’’اتحاف المطالع بوفیات أعلام القرن الثالث عشر والرابع‘‘ عبد السلام ابن سودہ (’’موسوعۃ أعلام المغرب‘‘ کے ضمن میں) ،ج:۸،ص:۳۰۸۵ اور ’’مع الزرکلی فی کتابہ الأعلام‘‘دائز فریاطی۔ ۵:… عارضۃ الأحوذی شرح سنن الترمذی: ابوبکر ابن العربی مالکیؒ، ج:۱،ص:۲۲۔ ۶:…۸/۳۸۶،امام بخاریؒ نے ’’الأدب المفرد‘‘ (رقم الحدیث:۶۹۳) میں بھی یہ حدیث مالک بن اسماعیل کی سند سے نقل کی ہے۔ ۷:…ج:۱، ص:۵۳۶۔ ۸:…حضرت علامہ بنوری v کے اشکال کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیشِ نظر نسخے (شاید یہ ۱۳۲۸ھ میں دہلی کا چھپا ہوا نسخہ تھا) میں حدیث کی سند یوں تھی: ’’حدثنا محمد بن إسماعیل، حدثنا مالک بن إسماعیل‘‘ اور اس نسخے میں امام ترمذی v کے شیخ کے نام میں تسامح ہے۔ علامہ کوثری v کا کہنا تھا کہ اس سند میں مذکور ’’محمد بن اسماعیل‘‘ سے بلاشبہ خود امام بخاری v مراد ہیں، اکثر علماء کی یہی رائے ہے، البتہ امام ابن سید الناسv کی رائے ہے کہ اس سے ’’محمد بن اسماعیل بن یوسف سلمی ترمذی‘‘ مراد ہیں۔ (النفخ الشذی فی شرح سنن الترمذی، ابن سید الناس، ج:۱،ص:۴۲۵) اور یہ ان کا تسامح ہے۔ حضرت بنوری v ’’معارف السنن‘‘ میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’قولہ: ’’محمد بن حمید بن إسماعیل، نا مالک بن إسماعیل‘‘: ہندوستان کے مطبوعہ نسخوں میں یہ عبارت یونہی ہے، جبکہ قاضی ابوبکر ابن العربی کی شرح کے ساتھ چھپے ہوئے نسخے میں ہے: ’’محمد بن إسماعیل، نا حمید، نا مالک بن إسماعیل‘‘۔ بولاق (مصر) کے ۱۲۹۲ھ کے طبعۂ امیریہ میں بھی اسی طرح ہے اور ایک مخطوطہ نسخے میں، میں نے یوں دیکھاہے: ’’حدثنا أحمد بن محمد بن إسماعیل، نا مالک الخ‘‘ لیکن ان سب (نسخوں) میں تسامح ہے، اس لیے کہ امام ترمذی v کے شیوخ بلکہ اس طبقے کے رجال میں ’’محمد بن حمید بن اسماعیل‘‘ نام کا کوئی راوی نہیں، نیز کتبِ رجال میں ’’احمد بن محمد بن اسماعیل‘‘ کے حالات بھی کسی نے ذکر نہیں کیے اور نہ ہی امام ترمذیؒ کے مشائخ میں اس نام سے کوئی (راوی)معروف ہیں، ہمارے شیخ (مولانا محمد انور شاہ کشمیریv) فرماتے ہیں: ’’درست’’ محمد بن اسماعیل‘‘ ہے، اور اس سے ’’صحیح بخاری‘‘ کے مصنف امام مراد ہیں، ’’مالک بن اسماعیل‘‘ سے حافظ نہدی مراد ہیں، جو امام بخاری v کے شیوخ میں سے ہیں، حدیث الباب ’’شرح الزرقانی علی المواہب‘‘ (ج:۴،ص:۲۳۸) میں بھی ہے، جہاں امام ترمذیؒ‘ امام بخاری رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ یہی درست ہے، شیخ محمد عابد سندھیؒ کے نسخے میں بھی اسی طرح ہے، لہٰذا اب اس بات میں معمولی شک بھی نہیں رہا۔‘‘ (معارف السنن ،ج:۱،ص:۸۲،۸۳) ۹:… حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی بن عبد الحق تھانوی حنفی v: ماہرِ فنون، عالمِ کبیر، مختلف فنون میں کتابوں کے مؤلف، ایک ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جن میں تفسیر بیان القرآن اور بہشتی زیور وغیرہ کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ ۱۲۸۰ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۳۶۲ھ میں وفات پائی۔ علامہ کوثری v ان کے متعلق یوں رقم طراز ہیں: ’’بے نظیر علامہ، یکتائے زمانہ عالم، ہندوستان کے شیخ المشائخ، محدثِ کبیر، مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی، بہت سی تالیفات کے مالک، جن میں چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہے، احادیثِ احکام میں ’’إحیاء السنن‘‘ اور ’’جامع الآثار‘‘ تالیف کیں، جن کے مؤلف کا عظیم نام ان کے اوصاف کے بیان سے مستغنی کرتا ہے، دونوں کتابیں ہندوستان میں چھپ چکی ہیں، لیکن ان کا حصول مشکل ہے، اس لیے کہ اس عالم ربانی کی تالیفات کے حصول میں راغب لوگوں کی کثرت کی بنا پر نسخے ختم ہوچکے، اس وقت ان کی عمر نوے برس کے قریب ہے، اللہ ان کو طویل بقا عطا فرمائے، وہ ہندوستان میں برکت کا باعث ہیں، علمائے ہند کے ہاں ان کا بلند مقام ہے، اسی لیے انہوں نے ’’حکیم الامت‘‘ کا لقب دیا ہے۔‘‘                 (مقالات الکوثری،ص:۷۵) علامہ کوثری v نے یہ مقالہ حضرت تھانویؒ کی حیات میں لکھا تھا، ان کی وفات کے بعد تالیفات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ ’’إحیاء السنن‘‘ کے متعلق مولانا ظفر احمد تھانوی v نے ذکر کیا ہے کہ یہ کتاب طبع نہیں ہوسکی تھی، بلکہ زمانہ کی دست برد کی نذر ہوگئی، البتہ اس نام سے حضرت کے ایک خادم کی کتاب طبع ہوئی ہے، لیکن وہ حضرت کی منشا کے مطابق نہیں۔ حضرت تھانوی v کی وفات بیاسی برس کی عمر میں ہوئی۔ ملاحظہ کیجئے: ’’نزہۃ الخواطر‘‘ مولانا عبد الحی حسنی (ج:۸،ص:۱۱۸۷-۱۱۸۹)، ’’إعلاء السنن‘‘ پر علامہ عبد الفتاح ابوغدہ v کی تقریظ (،ج:۱،ص:۵)، مولانا ظفر اللہ تھانوی v کی ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ کا مقدمہ، (ص:۱۳،۱۴) ’’اشرف السوانح‘‘ از خواجہ عزیز الحسن مجذوب اور ’’حکیم الامت‘‘ از مولانا عبد الماجد دریابادیؒ اور حضرت تھانویؒ کی حیات وخدمات کے حوالے سے لکھی گئی دیگر دسیوں کتب۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر حکیم الامت حضرت تھانوی v کے گہرے اثرات ہیں، محمد قاسم زمان نے اس خطے کی علمی، روحانی اور سیاسی زندگی پر حضرتؒ کے اثرات کے متعلق مستقل کتاب ترتیب دی ہے، دیکھئے: Muhammad Qasim Zaman, Ashraf Ali al-Tahanawi: Islam in modern Soauth Asia  ۱۰:… عرب کے ایک مشہور شخص ’’اشعب طماع‘‘ کی جانب اشارہ ہے، جس کا نام طمع ولالچ میں ضرب المثل ہے۔ ۱۱:… ملاحظہ کیجئے: ’’إعلاء السنن‘‘ پر علامہ کوثری v کی تقریظ جو ’’مقالات الکوثری‘‘ (ص:۷۵ و۷۶) میں درج ہے اور مولانا ظفر احمد تھانوی v نے اپنے حواشی کے ساتھ کتاب کے حدیثی مقدمے کی ابتدا میں شائع کی ہے۔ (ص:۱۳ تا ۱۵) یہ مقدمہ شیخ عبد الفتاح ابوغدہv کی گراں قدر تعلیقات کے ساتھ ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘ کے نام سے مستقل بھی طبع ہوچکا ہے۔ {  مکتوب :…۴  } برادرِ عزیز، استاذِ مہربان، صاحبِ اوصافِ کریمہ سید محمد یوسف بنوری حفظہٗ اللہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! آپ کا مکتوبِ گرامی موصول ہوا، عمدہ کلمات پر آپ کا شکر گزار ہوں اور اللہ عزوجل سے دعا گو ہوں کہ آپ کو خیر وعافیت کے ساتھ علمی خدمت کی توفیق بخشے اور آپ کے علوم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے۔ معزز بھائی! شاید آپ کو وہ خط یاد ہوگا جو کئی مہینے قبل آپ نے مجھے بھیجا تھا، سال کے قریب وقت گزر گیا، اس میں (سننِ) ترمذی کی ایک حدیث کی سند کے متعلق سوال تھا، اس وقت سے اب تک ان آخری دو خطوط کے علاوہ آپ کا کوئی خط موصول نہیں ہوا، سوال کا جواب تو میں نے اسی وقت دے دیا تھا، میری بڑی تمنا تھی کہ آپ اپنے آخری خط میں ذکر کرتے کہ: ’’العرف الشذی علی جامع الترمذی‘‘ کی نظر ثانی کتنی ہوئی، ’’سننِ نسائی‘‘ کی تدریس کہاں پہنچی اور ان کے علاوہ دیگر علمی خبریں۔  یہاں کے احباب خصوصاً اساتذہ شیخ صبری اور (شیخ) حمامی سلام کہہ رہے ہیں، آپ کی غائبانہ دعاؤںکے امیدوار اور خیر و عافیت سے ہیں۔ استاذ محمود ابو دقیقہ (۱) کا نصف ماہ قبل انتقال ہوگیا، اور ’’مکتبہ بایزید‘‘ کے مالک استاذ اسماعیل(۲) بھی دوماہ پہلے وفات پاگئے۔ کتابوں کے متعلق ان کے مفید تجربے کے حوالے سے میں اسے دردناک ضیاع شمار کرتاہوں، آپ سے ان کی مغفرت اور (اللہ تعالیٰ کی) رضا کی دعا کی امید ہے۔ برادرِ مکرم! میرا خیال ہے آپ نے میری بات کا دائرہ ایسا وسیع کردیا ہے جو میری مراد نہیں،میرا مقصد آپ کو ڈانٹناہرگز نہیں تھا، آپ کے استفسارات کے جواب میں آپ کے آخری وکیل کے متعلق جو سُن گن لگی تھی، اس کی طرف آپ کی توجہات کو مبذول کرنا مقصود تھا، اگر وہ پریس، کاغذ فروش اور دیگر کاموں میں منشا کے مطابق چلے تو یہی ہماری انتہائی آرزو ہے، اگرچہ اس وکیل کے سابقہ وآئندہ احوال، اس کے بارے میں توقف کا باعث ہیں، میں صراحتاً اس کا نام نہیں لینا چاہتا تھا۔ کسٹم ڈیوٹی کی جانب دوبارہ آپ کی توجہات منعطف کرانا آپ کا حق سمجھا ۔  رواں سال میں (جامعہ) ازہر نے ’’صحیح مسلم مع (شرح) نووی‘‘ پڑھانا منظور کیا ہے، ’’شرح نووی‘‘ کی کمیوں اور ’’فتح الملہم‘‘ (۳) کے ہر پہلو سے (کتاب کے) مقاصد کا احاطہ کرنے کے پیش نظر مجھے مولانا عثمانی v کی کتاب کی ترویج کی امید ہے، اگرچہ اکثر علماء عاریت پر اکتفا کی راہ اختیار کرتے ہیں، امید ہے کہ (کتاب کی) دیگر جلدیں بھی اشاعت کی جانب رواں دواں ہوںگی۔     محترم استاذ! میں اپنی زبان سے اعتراف کرتاہوں کہ آپ نے ہمارے ان شہروں کو شرف (زیارت) بخشا تو میں آپ کی علمی خدمت کا فرض ادا کرنے سے عاجز رہا ہوں، (۴) لیکن دوستوں کے لیے خیر خواہانہ جذبہ کی بنا پر میرا یہ عجز آپ کے وکیل کے متعلق سنی گئی باتوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانے میں مانع نہیں۔ میرے حواس (آپ کے یہاں قیام کے دوران ہونے والی) باہمی پاکیزہ گفتگوؤں کی لذت برابر محسوس کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گوہوں کہ ہمیں خیر وعافیت کے ساتھ (دوبارہ) جمع فرمائے، تاکہ ہم خوب مباحثے کریں اور ان لذیذ علمی بحثوں سے تادیر محظوظ ہوں، اللہ کے لیے یہ مشکل نہیں۔                                        مخلص محمد زاہد کوثری                                                       ۸؍ربیع الثانی ۱۳۵۹ھ،شارع عباسیہ نمبر ۶۳ پس نوشت جو کتابیں ڈاک کے ذریعے ارسال کی تھیں، ان کا تذکرہ وصولیابی کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے کیاتھا، معلوم ہوا کہ موصول ہوچکی ہیں ، وللہ الحمد! حواشی ۱:… محمود ابو دقیقہ: مصر کے حنفی عالم اور علمائے ازہر میں سے ہیں، ’’ازہر‘‘ کے ’’کلیہ اصولِ دین‘‘ کے استاذ اور اکابر علماء کی شوریٰ کے رکن تھے، ۱۳۵۹ھ میں وفات پائی۔ دیکھئے: ’’الأعلام‘‘ زرکلی (ج:۷،ص:۱۶۹)۔ ۲:… اسماعیل صائب سنجر: استنبول کے عوامی کتب خانوں کے ناظمِ اعلیٰ، علامہ کوثریv ان کے اخلاق اور کتب ومخطوطات کے متعلق معلومات کے مداح رہے، ’’کشف الظنون‘‘ کی طباعت کے نگرانوں میں سے تھے، ۱۳۵۸ھ میں وفات پائی۔ ملاحظہ کیجئے: ’’مقالات الکوثری‘‘ (ص:۴۹۷،۴۹۹) اور ’’الأعلام الشرقیۃ‘‘ زکی مجاہد (ج:۲، ص:۲۸۱) موصوف کی سوانح کے حوالے سے زکی مجاہد نے بھی علامہ کوثریؒ کے مقالے پر ہی اعتماد کیا ہے۔ ۳:…’’فتح الملہم بشرح صحیح مسلم‘‘ از علامہ شبیر احمد عثمانی v، مولاناعثمانی ’’کتاب الرضاع‘‘ تک پہنچ پائے تھے، بعد میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ نے اس کا تکملہ لکھا، پاک وہند اور عرب دنیا میں کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،جن میں دمشق، شام کے معروف اشاعتی ادارے دارالقلم کا ۱۴۲۷ھ کا طبع عمدہ ہے، صفر ۱۳۵۷ھ میں حضرت بنوریؒ اور مولانا احمد رضا بجنوریؒ، علامہ کوثری v سے قاہرہ میں ان کی رہائش گاہ میں ملاقات کے لیے گئے تو ’’فتح الملہم‘‘ کی دو مطبوعہ جلدیں بھی مؤلف کی طرف سے علامہ کوثریؒ کو بطور ہدیہ پیش کیں، علامہ کوثریؒ کتاب سے بہت متأثر ہوئے، مؤلف کو خط لکھا، علامہ عثمانی v نے اس کا جو جواب تحریر کیا وہ آگے ضمیمہ نمبر: ۲ میں آئے گا، علامہ کوثریؒ نے اسی پر اکتفا نہیںکیا، بلکہ کتاب کے متعلق ایک جاندار مقدمہ لکھا، جس میں اسے ’’صحیح مسلم‘‘ کی تمام شروح پر فائق قرار دیا، یہ مقدمہ ’’فتح الملہم‘‘ کی پہلی جلد کی ابتدا اور ’’مقالات الکوثری‘‘ (ص:۸۲-۸۴) میں موجود ہے۔ ۴:… حضرت بنوریؒ نے علامہ کوثری v سے ملاقات کی تاریخ صفر ۱۳۵۷ھ ذکر کی ہے۔ (نفحۃ العنبر، ص ب، طبع دوم) علامہ کوثری v نے بھی ’’منیۃ الألمعی‘‘ کے مقدمے میں اس ملاقات کی جانب اشارہ کیا ہے، مزید دیکھئے: آگے مکتوب نمبر :۸۔  {  مکتوب :…۵  } جناب برادرِ عزیز مولانا سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! رجب کے آخر میں آپ کا خط موصول ہوا تھا، لیکن اب تک میں جواب نہ دے سکا، آپ کی بیماری (کی خبر) نے مجھے دکھی کردیا، اللہ عز وجل سے دعا گو ہوں کہ آپ کو ایسی شفا عطا فرمائے کہ بیماری کا نام نہ رہے۔ علمی خدمت (کے میدان) میں ہماری آپ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، اللہ کے فضل سے امید ہے کہ وہ توقعات پوری فرمائے گا۔ آپ کی علمی خدمات کی خبروں سے مسرت ہوئی، لیکن آپ کا اپنے نفس کے حق کو فراموش کرنا اور جانِ عزیز کو بیک وقت ’’سننِ نسائی‘‘ اور ’’جامع ترمذی‘‘ (کی خدمت) میں مشغول کرکے تکلیف میں مبتلا کرنا بُرا لگا، شاید یہی صحت کی خرابی کا سبب ہے۔ اساتذہ کو آپ کا سلام پہنچادیا ہے، وہ بھی (آپ کے لیے) سلامِ شوق ومحبت پیش کرتے ہیں۔ خطیب (بغدادی) پر رد اللہ سبحانہٗ کی توفیق سے اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہوگیا، اس (کتاب) کا لہجہ درشتی سے خالی نہیں، جو شخص مسجد حرام میںامام ابوحنیفہ v کو ’’ابوجیفۃ‘‘سے ذکر کرتا ہو، میں اس کے ساتھ نرمی نہیں برت سکتا، (۱) امید ہے کہ میری یہ تحریر امام الائمہ کے دشمنوں کے لیے آخری دوا ثابت ہوگی۔ (۲) کتاب ’’تاریخِ خطیب‘‘ (کی ایک جلد) کے حجم کے برابر لگ بھگ تین سو صفحات تک پہنچ گئی ہے۔ کتاب کے نام کے سلسلے میں یہ رائے طے پائی ہے کہ ’’تأنیب الخطیب علی ماساقہ فی ترجمۃ أبی حنیفۃؒ من الأکاذیب‘‘ (نام ہوگا) ، کاغذ مہنگا اور اس کے نرخ بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس لیے فی الحال اس کتاب کی طباعت ممکن نہیں، یہ معاملہ مستقبل میں اللہ سبحانہٗ کی جانب سے آسانی میسر ہونے تک ترک کردیا ہے۔ جناب بھائی سید(احمد رضا) بجنوری کے نام خط میں بھی میں نے یہی ذکر کیا ہے۔ آپ سب سے امید ہے کہ قبولیت ِ دعا کے مواقع میں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں مجھے نہ بھولیںگے ، اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ آپ کو لمبی زندگی عطا فرمائے، اور اپنی اور اپنے رسول (a) کی رضا کے مطابق علم کی نشر واشاعت کی توفیق بخشے۔                                                            مخلص محمد زاہد کوثری                                              ۲۷؍رمضان ۱۳۵۹ھ شارع عباسیہ نمبر ۶۳ قاہرہ ،مصر حواشی ۱:…خطیب بغدادی ؒ نے ’’تاریخِ بغداد‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ محمد بن عوف سے نقل کیاہے: ’’سمعت حماد بن سلمۃ یکنی أبا جیفۃ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’میں نے حماد بن سلمہ کو ابوحنیفہ کی کنیت ’’أبو جیفۃ‘‘ ذکرکرتے سنا ہے۔‘‘ نیز حنبل بن اسحاق کا بیان ہے: ’’سمعت الحمیدی یقول لأبی حنیفۃ۔إذا کناہ: أبوجیفۃ ’’میں نے سنا کہ حمیدی امام ابوحنیفہؒ کی کنیت بیان کرتے ہوئے ’’أبو جیفۃ‘‘ کہا کرتے تھے‘‘ علامہ کوثری v نے ’’تأنیب الخطیب‘‘ میں اس پر سیر حاصل نقد کیا ہے۔ ۲:… تردیدی تحریروں میں علامہ کوثری v کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت بنوری v نے اشارہ کیا ہے کہ حق ودین میں تلبیس وخیانت کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کا لہجہ درشت ہوجاتا ہے، حضرتؒ لکھتے ہیں: ’’دیکھئے! ایک شخص مسجد حرام میں امام ابوحنیفہ v کو ’’أبو جیفۃ‘‘ سے یاد کرتا ہے تو اس کے ساتھ کیسے نرمی برت سکتے ہیں؟! آپ ’’النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃ‘‘ اور ’’تانیب الخطیب فیما ساقہ فی ترجمۃ أبی حنیفۃ من الأکاذیب‘‘ میں موازنہ کر لیجئے، دونوں کے اسلوب میں واضح فرق پائیں گے، پہلی کتاب میں وہ صلح جو اور نرم مزاج کے حامل دکھائی دیںگے، جبکہ دوسری میں غضب ناک شیر نظر آئیں گے۔‘‘     ملاحظہ کیجئے:’’مقالات الکوثری پر حضرت بنوری v کا مقدمہ،ص:ھ،و‘‘ معلوم ہوا کہ خط میں علامہ کوثریv نے خطیب پر نقد میں درشتی اختیار کرنے کے حوالے سے جو عذر پیش کیا ہے، اسے حضرت بنوری v بھی تسلیم کرتے ہیں۔                                                                                      (جاری ہے)

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین