بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ... بنام... مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (آٹھویں قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  

 ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  

            (آٹھویں قسط)

{  مکتوب :…۱۴  }

جناب صاحبِ فضیلت، مولانا، علامہ یگانہ و محققِ یکتا سید محمد یوسف بنوری أمتع اللّٰہ المسلمین بعلومہٖ، ومد فی عمرہٖ السعید (اللہ تعالیٰ آپ کے علوم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے اور عمرِسعید طویل فرمائے) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ گزشتہ شعبان میں آپ کے ارسال کردہ مکتوب کا جواب میں نے مولانا سید احمد (رضا) بجنوری کو لکھے گئے جواب کے ضمن میں لکھ دیا تھا، شاید آپ کے سفرِ پشاور اور اُستاذ بجنوری کے سفرِ بجنور سے قبل آپ کو موصول نہیں ہوا، اور دونوں خطوط بعد میں پہنچے ہوں گے، پھر (طباعتی) حروف(۱) کی خریداری کے حوالے سے حاجی یوسف میاں(۲) کی رہنمائی کے متعلق استاذ بجنوری کا خط پہنچا۔ مولانا ابوالوفاء افغانی نے حجازی ٹرین کے ذریعے والد ماجد(۳) کی معیت میں آپ کی آمد کی خبر دی تو مجھے واپسی کے سفر میں ،خواہ چند روز سہی، آپ کے روشن چہرے کی زیارت کا شرف حاصل ہونے کی طمع ہوئی، تاکہ ہماری کچھ پیاس بجھتی۔ بعدازاں ہمارے مشترکہ دوست استاذ محمود حافظ(۴) اور حاجی یوسف کی معرفت آپ کا والانامہ مجھے موصول ہوا، اور معلوم ہوا کہ آپ مصر سے گزرے بغیر ہی واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تو افسوس ہوا۔ امید ہے کہ اللہ سبحانہ خیروعافیت کے ساتھ ہمارے جمع ہونے کی کوئی صورت پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمائیں گے۔ بلاشبہ آپ قابل رشک ہیں کہ تیسری بار اپنے والد بزرگوارکی معیت میں حج وزیارت کا شرف حاصل کر رہے ہیں، یہ بڑی توفیق (کی بات) ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حج وزیارت قبول فرمائے اور آپ کو مزید توفیق عطا فرمائے، آپ کی مقبول دعاؤں کا ہمیشہ امیدوار ہوں، اور آپ کے والد محترم کی دست بوسی کرتے ہوئے دعاؤں کی امید رکھتا ہوں۔  میں نے ’’نظرۃ عابرۃ‘‘ ، ’’ڈابھیل‘‘  بھیجی تھی، جو نزولِ عیسیٰ m کے متعلق شلتوت کے پانچ مقالات میں (اس حوالے سے) اس کے نظریات کے رد میں ہے، اور ایک دوست سید عبداللہ غماری کی ’’إقامۃ البرہان‘‘ اور شیخ الاسلام مصطفی صبری کی ’’القول الفصل‘‘ بھی (ارسال کی تھی)، معلوم نہیں یہ کتابیں پہنچی ہیں یا نہیں؟ پھر استاذ بجنوری کے پتے پر ’’النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃ‘‘ کے دو نسخے بھیجے تھے، ان میں ایک آنجناب کے لیے تھا، شاید وہ پہنچ چکے ہوں گے۔ آج حاجی یوسف براہِ قدس وعراق، ہندوستان لوٹ رہے ہیں، احتیاطاً انہیں (’’النکت‘‘ کے) دو نسخے اور ’’نظرۃ عابرۃ‘‘ دے دی ہے۔  ’’النکت‘‘ تصحیح شدہ نہیں، اور تصحیح کے مقامات آنجناب پر مخفی نہ ہوں گے۔ اللہ عزوجل سے دعاگو ہوں کہ دوستوں کے ساتھ مل کر جو روشنی آپ پھیلا رہے ہیں، اس کی ضیاپاشیاں تمام دشواریوں کو عبور کرتے ہوئے بڑھتی رہیں، آپ جیسے شخص کو صبر ومداومت کی تاکید کرنا مناسب نہ ہوگا، جبکہ نیتیں عمدہ ہیں، اگرچہ کسی وقتی ضرورت کی بنا پر بعض اوقات آرزوؤں کے پورا کرنے میں تاخیر ہوجائے۔ (طباعت کے لیے)حروف کی تیاری کے حوالے سے مصر میں ایک عمدہ حروف ڈھالنے کے ماہر کے ساتھ حاجی یوسف کا معاملہ طے ہوگیا ہے، میں نے ان کی آمد سے قبل کسی قدر راہ ہموار کردی تھی۔ ان کی ترجمانی اور فنِ طباعت کی مہارت کی بنا پر استاذ محمود حافظ کا ان کے ساتھ آنا بہتر ثابت ہوا، (۵)اس کام میں استاذ محمد حلبی (جو پریس کے مالک ہیں) کی بہترین رہنمائی بھی حاصل رہی۔ عنقریب امریکہ یا لندن سے چھپائی مشین منگوائی جائے گی، آپ کے پاس وقت ہے،(اس دوران) بمبئی یا کسی اور جگہ کے پریس میں کمپوزروں کو تیار کرکے انہیں یہ فن سکھایا جاسکتا ہے، کیونکہ حاجی یوسف صاحب نے آپ کو بتلایا ہے کہ حروف چند ماہ بعد ہی تیار ہوسکیں گے، اس لیے کہ ڈھلائی کے اس کارخانے کے گاہک بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور اُن کے پاس اتنے آرڈر ہیں کہ (ہمارا) مطلوبہ کام (مقررہ) مدت کے بعد ہوسکے گا۔ اللہ سبحانہٗ سے دعاگو ہوں کہ آپ کی سعی مسلسل کی بدولت، آپ جیسے شخص کے عزائم میں کسی رکاوٹ کے بغیر یہ علمی روشنی بڑھتی رہے، نیز اللہ جل جلالہٗ سے یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ ’’جامع ترمذی‘‘ کی عظیم شرح کا بقیہ حصہ اور اس جیسے بہت سے (علمی) کارنامے آپ کے معزز ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ میں اس (کتاب یعنی ’’شرح سنن ترمذی‘‘) سے آگاہی کا بے حد متمنی تھا، تاکہ آپ کے وسیع علوم وتحقیقات سے استفادہ کرسکوں، اور توفیق تو اللہ سبحانہٗ کی جانب سے ہوتی ہے۔  میری خواہش ہے کہ اگر سہولت ہو تو آپ مجھے ’’التصریح‘‘، ’’عقیدۃ الإسلام فی حیاۃ عیسٰی علیہ السلام‘‘ اور ’’تحیۃ الإسلام‘‘ ارسال کردیں۔ تینوں (کتابیں) مولانا محقق کشمیری کی ہیں، اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے۔ مولانا عثمانی، مولانا ابوالوفائ، مولانا سید بجنوری اور مہربان اُستاذ مولانا ظفر احمد تھانوی کو میرا مخلصانہ سلام، اور ساتھ ساتھ (میری جانب سے) مولانا مفتی مہدی حسن کی دست بوسی فرمائیں۔ انتہائی عزیز بھائی! اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ خیروعافیت کے ساتھ اُمت کا راہنما بنائے رکھے۔                                                                مخلص : محمد زاہد کوثری                                                      محرم سنہ ۱۳۶۶ھ ،شارع عباسیہ نمبر ۶۳ قاہرہ حواشی ۱:…چھپائی کے لیے طباعتی حروف مراد ہیں، جو مخصوص انداز میں ڈھال کر تیار کیے جاتے تھے، اس لیے کہ یہ حجری طباعت کا دور تھا۔ ۲:… حاجی موسیٰ میاں کے صاحب زادے اور حاجی محمد بن موسیٰ w کے بھائی، جن کا تذکرہ پہلے آچکا ہے۔  ۳:… جد امجد حضرت مولانا محمد زکریا بن میر مزمل شاہ  رحمۃ اللہ علیہ  : ۱۲۹۵ھ میں ولادت ہوئی اور حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ   کی رحلت سے دو سال قبل ۲۴؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۹۵ھ میں انتقال ہوا۔ باکمال عالم، ماہر طبیب اور سلوک و تصوف کے رمز آشنا اور اُردو، عربی و فارسی تینوں زبانوں میں کئی کتب ورسائل کے مؤلف تھے۔ زندگی بھر مجاہدات اور گوشۂ خمول میں گزاری، روحانی کمالات کے حصول کے لیے سالہا سال بادہ پیمائی میں بسرکیے۔ عشقِ الٰہی وعشقِ رسالت کے قتیل تھے۔ ان کی رحلت کے موقع پر حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ   نے مفصل مضمون میں تأثرات کا اظہار کیا تھا، جو ’’إبداء الکبد‘‘ کے نام سے مستقل رسالے کی صورت میں چھپ چکا ہے اور بینات شمارہ رجب المرجب ۱۳۹۵ھ کے بصائر وعبر کی صورت میں ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ۴:… محمود حافظ: نسبی اعتبار سے حسنی ہیں، اصلاً ہندوستانی خاندان سے ہیں۔ ۱۳۳۸ھ میں مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔ نیک صالح اور قرآن کریم کے حافظ تھے، شہرت ونمود سے کوسوں دور تھے، اہلِ علم سے محبت کرنے والے اور ان کے صحبت یافتہ تھے۔ سعودی عرب میں اہلِ علم کے قدردان اور معروف صاحب وجاہت شخصیت شیخ عبدالمقصود خوجہ کے ماموں تھے، عرصۂ دراز سے شیخ خوجہ نے علماء وادباء کے اعزاز وتکریم کے لیے مشہور زمانہ سلسلہ ’’الإثنینیۃ’’ شروع کر رکھا ہے، جس میں کسی شام ایک عالم کی شخصیت وکردار اور علمی کارناموں کے متعلق مقالات پیش کیے جاتے ہیں، مجلس کے آخر میں لذتِ کام ودہن کا اہتمام ہوتا ہے اور بعد میں یہ مقالات کتابی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔ شیخ خوجہ نے شیخ محمود حافظ کی تکریم کے لیے بھی ایسی محفل منعقد کرنے کا عزم کیا تھا، اور اُنہیں باصرار اس کی دعوت پیش کی تھی، لیکن طبعی طور پر تواضع اور شہرت سے نفور کی بنا پر انہوں نے انکار کیا۔ مکہ مکرمہ میں سرکاری مطابع کے منتظم رہے، ترقی کرتے کرتے ملکی سطح پر تمام سرکاری مطابع کے ناظمِ عمومی کے عہدے تک جاپہنچے اور ریاض منتقل ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بقیہ زندگی مدینہ منورہ میں گزاری، اور وہیں ۱۴۱۰ھ میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ رحمہ اللّٰہ وغفرلہٗ وأسکنہٗ فسیح جنانہٖ۔ ۵:… گزر چکا کہ شیخ محمود حافظ، سعودی عرب کے سرکاری مطابع کے منتظم تھے۔ {  مکتوب :…۱۵  } جناب صاحبِ فضیلت، علامہ یکتا ومحدثِ یگانہ، اخی فی اللہ سید محمد یوسف بنوری حفظہٗ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد سلام! آپ کے عظیم مرتبہ والد کی دست بوسی کرتا ہوں اور اُن کی نیک دعاؤں کا امیدوار ہوں۔ میں آپ کی گوشہ نشینی سے بے انتہا متاثر ہوں، اور رکاوٹوں کی دوری، معاملات کی آسانی اور حقائق کے غلبے کے بعد قریبی فرصت میں ’’جامع ترمذی‘‘ پر آپ کی لازوال شرح کے منظر عام پر آنے کا بے حد مشتاق ہوں۔ عزیز دوست سید احمد رضا بجنوری کا گرامی نامہ کافی عرصے سے نہیں ملا، امید ہے وہ بخیر وعافیت ہوں گے۔ مولانا عثمانی نے ’’شرح مسلم‘‘ کا کتنا کام کیا؟ کیا اس کا کچھ حصہ بھی شائع نہیں ہوا؟ اور مولانا ظفر احمد تھانوی کی ’’إعلاء السنن‘‘ کے بقیہ حصہ کا کیا بنا؟ امید ہے مولانا مفتی مہدی حسن صحت کی بحالی کے ساتھ بخیروعافیت ہوں گے۔ استاذ جلیل (مولانا)ابوالوفاء مستعدی سے ہمارے ساتھ خط وکتابت کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے نشاط اور علمی خدمات میں اضافہ فرمائے! بھائی محمود حافظ (سفر سے) لوٹنے کے بعد ہمیں ملے تھے، اور جوہانس برگ کے فاضل برادران کے کاموں کے متعلق ہمیں ہر قسم کی خیریت کی خوش خبری سنائی، اور بتایا کہ قریبی فرصت میں جامعہ کا دہلی منتقل ہونا اور وہیں پریس لگانا طے ہوا ہے، اور یہ بھی کہ اس معاملے میں آنجناب کو اطلاع دے دی گئی۔  میں منتظر تھا کہ آنجناب کی جانب سے اس خوش خبری کے پورا ہونے کی خبر پہنچے، مجھے علم ہے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں وہاں جامعہ، مجلس اور طباعتی امور کے لیے جگہ حاصل کرنے میں کامیابی ممکن نہیں، بلکہ اس معاملے میں تمام پہلوؤں سے گہرا غور وفکر ضروری ہے۔ نزولِ عیسیٰ m کے حوالے سے احادیث کے تواتر کے متعلق مولانا کشمیریؒ کا رسالہ ’’التصریح‘‘ا رسال کرنا جب ممکن ہو تو میں شکرگزار رہوں گا۔ دوستوں کو ہدیہ کرنے کی رغبت ہو تو میں ’’النکت‘‘کے چند نسخے بذریعہ ڈاک بھیج دیتا ہوں۔ امید ہے کہ شرح کی تکمیل اور وہاں کتب کے اشاعت کے حوالے سے اپنی مساعی اور بھائیوں کی صحت یابی کے متعلق ہمیں بتائیں گے۔ توقع ہے کہ اپنی نیک دعاؤں میں مجھے نہ بھولیں گے، اور اس عاجز کے بارے میں دریافت کرنے والے بھائیوں کو میرا سلام پہنچائیں گے۔ میرے عزیز بھائی! اللہ تعالیٰ خیروعافیت کے ساتھ آپ کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔                                                                آپ کا بھائی                                                                محمد زاہد کوثری                                                              شعبان ۱۳۶۶ھ                                                            شارع عباسیہ نمبر ۶۳ قاہرہ                                                                            (جاری ہے) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین