بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ... بنام... مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ... بنام... مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (چھٹی قسط) ( مکتوب :۔۔۔۔۔۔١٢ ) جناب اخی فی اللہ، استاذِ مہربان محمد یوسف بنوری حفظہ، اللہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بعد سلام! آپ کا والا نامہ موصول ہوا اور مجھے انتہائی مسرت سے شاد کام کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خیروعافیت کے ساتھ علم اور علمی خدمات کے لیے لمبی زندگی دے، کامل صحت کے ساتھ بقائے طویل سے نوازے، اور ہمیں اور آپ کو ہر حال میں اپنی خوشنودی سے حاصل ہونے اعمال کی توفیق دے۔ ''شرح ترمذی'' کے متعلق آپ کی سعی پیہم قابلِ قدر ہے، رب سبحانہ، آپ کو اس کی اور اس جیسے بہت سے کارناموں کی تکمیل کی توفیق بخشے، میں اول وآخر آپ کو تاکید کروں گا کہ اس کام میں اپنی جان کو ہلکان نہ کیجیے گا، بلا تکان مسلسل کام زیادہ مفید اور بارآور ہوتا ہے، ہم آپ کے علم سے اللہ سبحانہ، کی توفیق وعنایت کے ساتھ خیر کثیر کی توقع رکھتے ہیں۔ میری دیرینہ تمنا تھی کہ کتاب (سننِ ترمذی) کی شرح سے متعلق آپ کی تحریروں سے آگاہی ہو، لیکن کیا کروں؟! مسافت دور کی ہے اور ان دنوں محکمہ ڈاک' کتابیں اُٹھاتا نہیں، در حقیقت میری خواہش تھی کہ آپ بعض شرحوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''احادیثِ ابواب'' کی تخریج کی جانب اشارے سے بے اعتنائی نہ کریں، میری نظر میں ''احادیثِ ابواب'' کی تخریج کا اہتمام مفید تر ہوگا۔(١) ''تحفۃ الأحوذی''(٢) (درحقیقت) امام ابوحنیفہ (v)، ان کے مذہبِ(حنفی)، ''العرف الشذی'' (٣) اور ''بذل المجہود'' (٤) کو ہر طرح ٹھیس پہنچانے کی ایک کوشش ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ اس کے قابلِ تردید مقامات کا نرمی سے جواب دینے سے بے توجہی برتیں گے۔ (٥) ''صاحبِ تحفہ'' قلبی بیمار اور حق وباطل میں اپنے استاذ (مولانا) شمس الحق (v) (٦) کے پیرو ہیں، البتہ ''مقدمہ تحفۃ الاحوذی'' فوائد سے خالی نہیں، (مولانا) مبارک پوریؒ کسی ''جرمن کتب خانے'' اور اس کی نادر کتب (٧) کا بکثرت تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ کتب خانہ کہاں ہے؟ کیا ''الہداد'' والا کتب خانہ ہی ہے یا کوئی اور؟(٨) اس کی وضاحت کی امید رکھتا ہوں، اور کسی ایسے عالم کا پتہ بھی بتادیجیے جس کا اس کتب خانے سے ربط ہو، تاکہ مذکورہ کتب خانے کی بعض چیزوں کے بارے وضاحت طلب کی جاسکے، آپ کا پیشگی شکریہ۔ ''حدیث الأوعال'' (٩) کی شرح کے ضمن میں ''صاحبِ تحفہ'' (١٠) کا کلام' عقائد میں ان کے رجحان اور (فن) رجال سے ناواقفیت کی دلیل ہے، یہ حدیث امام احمدv نے بسند ''عبدالرزاق، عن یحیٰی بن العلاء (کذاب)، عن شبیب بن خالد، عن سماک بن حرب، عن عبداللّٰہ بن عمیرۃ، عن العباس(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وعنہم)'' نقل کی ہے۔ ابن عمیرہ سے سماک کے علاوہ کوئی راوی نہیں، لہٰذا وہ ''مجہول'' ہیں، جیساکہ (امام) مسلم (v) کی ''المنفردات والوحدان''(١١) سے واضح ہے۔ ابن عمیرہ اور (حضرت) عباس (q) کے درمیان ایک صحراء حائل ہے جسے ''احنف'' کے اضافے سے نہیں پاٹا جاسکتا، اس لیے کہ (امام) بخاری (v) کی تصریح (١٢) کے مطابق احنف سے بھی ابن عمیرہ کا سماع ثابت نہیں، سماک کے متعلق بھی طویل کلام ہے، (امام) مسلم (v )ایسے راوی سے ان کی روایت کو قبول نہیں کرتے جس میں وہ منفرد ہوں، البتہ سماک کے بعد حدیث کے متعدد طرق ہیں، اس لیے کہ ان سے ولید بن ابی ثور، عمرو بن ثابت ابی المقدام، عمرو بن ابی قیس، شریک، ابراہیم بن طہمان اور شبیب بن خالد نے روایت کی ہے، لیکن پہلے ''منکر الحدیث''، دوسرے ''ضعیف''، تیسرے ''عندہ، مناکیر''، چوتھے ''مختلف فیہ''، پانچویں ثقہ راویوں سے معضل روایات کے ناقل، ''ضعیف''، ''لین الحدیث'' اور بعض لوگوں (ائمہ جرح وتعدیل) کے نزدیک ''مضطرب الحدیث'' ہیں، اگرچہ یہ ان راویوں میں شمار ہوتے ہیں جن (کی احادیث) سے (امام) بخاری (v) انتخاب کرتے ہیں، اور چھٹے راوی (شبیب بن خالد) سے (روایت میں) یحی بن علاء کذاب منفرد ہیں، مزید براں حدیث کے موقوف اور مرفوع ہونے اور سند ومتن میں کمی زیادتی کے حوالے سے بھی ان (محدثین) کے درمیان اختلاف ہے۔ (ائمہ محدثین یحییٰ) ابن معین، احمد، بخاری، مسلم، ابراہیم حربی، نسائی، ابن عدی، ابن العربی، ابن جوزی اور ابوحیان کے مجموعی کلام سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور دلیل وحجت بننے کے مقام سے فروتر ہے،( اس کے باوجود اس سے ''صاحبِ تحفہ''(١٣)اپنے مذہب ''فوقیتِ حسی'' (کے ثبوت) کے لیے اس سے استدلال کرتے ہیں)، ١٣٥٩ھ میں ''حدیث الأوعال'' کے متعلق اپنے مستقل مقالے (١٤) میں، میں نے یہ (پوری تفصیل) بیان کی ہے۔ امید ہے کہ آپ(''تحفۃ الأحوذی'' کے) قابلِ نقد مقامات کو بلاتردید نہیں چھوڑیں گے۔ میری رائے ہے کہ عبید اللہ سیکی(سندھی) (١٥) اور ان کے شاگرد (١٦) کو توجہ نہ دیجیے، اس لیے کہ بدعتی کی تردید اُسے برانگیختہ کردیتی ہے، جبکہ اس کی بدعت کے جماؤ سے قبل ایسا اقدام کیا جارہا ہو۔ (١٧) کچھ عرصہ پہلے تقریباً مبلغ چار گنیوں پر مشتمل منی آرڈر موصول ہوا ہے، خیال ہے کہ جوہانس برگ سے (ارسال کیا گیا) ہوگا، اس لیے کہ اس مہربانی پر شکریہ ادا کرنے کے ساتھ میں اس سے قبل اُنہیں لکھ چکا تھا کہ منی آرڈر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن (مولانا بجنوری کے اشارے پر) مولانا محمد بن موسیٰ میاں (١٨) ایک بار کئی ماہ تک مسلسل منی آرڈر بھیجتے رہے ہیں۔ منی آرڈر کے ساتھ خط نہ ہو تو اس کا ذریعہ بھی معلوم نہیں ہوپاتا۔ اگر محمد بن موسیٰ کی طرف سے نہیں تو آپ کی جانب سے ہوگا، اپنے گمان کے مطابق ان کا شکریہ تو ادا کرچکا، لیکن حقیقتِ حال بعد میں ہی معلوم ہوگی۔ آپ کی مہربانیوں اور عنایات پر شکرگزار ہوں۔ (میرے لیے)یہ اہم نہیں کہ منی آرڈر پورا پہنچا یا اس کا کچھ حصہ۔ مجھے امید ہے کہ آپ مولانا ابوالوفاء کو خط لکھتے ہوئے اُنہیں میرا سلام بھی پہنچادیں گے، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میرے عزیز بھائی! مخلص محمد زاہد کوثری ٢/ربیع الآخر سنہ ١٣٦٤ھ شارع عباسیہ نمبر:٦٣ ،مصر قاہرہ (پسِ نوشت) امید ہے کہ مجھے قبولیت کے مواقع میں اپنی نیک دعاؤں میں فراموش نہ کریں گے۔ حواشی ١:۔۔۔۔۔۔ ''سننِ ترمذی'' میں امام ترمذی v کی عادت ہے کہ باب کے اختتام پر اس سے متعلق دیگر روایات کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔ علامہ کوثری v کی خواہش تھی کہ حضرت بنوری v ''معارف السنن'' میں کتاب کی شرح کے ساتھ ''فی الباب'' کی احادیث کی تخریج کردیں تو یہ شرح مفید تر ہوجائے گی، حضرت نے ابتدا میں اس کام کو ''معارف السنن'' کا جزء بنانے کے بجائے ''لب اللباب'' کے نام مستقل طور پر یہ کام از خود شروع کیا تھا، لیکن بعد میں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے شاگردِ خاص مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدv کو سونپ دیا، جو ''کشف النقاب'' کے نام سے پانچ جلدوں میں مطبوع ہے، اور بقیہ جلدوں کے مسودے پر بھی کام جاری ہے۔ ان خطوط میں اس سے قبل اور آگے مکتوب نمبر:٢٠ میں بھی اس سلسلے کا تذکرہ آرہا ہے۔ ٢:۔۔۔۔۔۔ ''تحفۃ الأحوذی فی شرح سنن الترمذی'' معروف غیرمقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارک پوریv (١٢٨٣ ھ - ١٣٥٣ھ) کی تالیف ہے۔ ٣:۔۔۔۔۔۔ حضرت بنوری v اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں: ''مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ''تحفۃ الأحوذی'' میں ''العرف الشذی'' سے عبارات نقل کرکے اس پر رد ومواخذہ کرتے ہیں، یہ سب حنفیہ سے تعصب کی بنا پر کرتے ہیں اور اس پہلو سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ یہ شیخ (مولانا انور شاہ v) کے ایک شاگرد کی ضبط کردہ (املائی تقریر) ہے، خود ان کی اپنی قلمی تالیف نہیں۔'' (نفحۃ العنبر، ص: ١٣١و١٣٢، نیز ملاحظہ کیجیے: مکتوب :٢) ٤:۔۔۔۔۔۔ ''بذل المجہود فی شرح سنن أبی داود'' مولانا خلیل احمد سہارن پوری v (١٢٦٩ھ-١٣٤٦ھ) کی تالیف ہے۔ حضرت اپنی حیاتِ مستعار کے آخر میں مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے، وہیں انتقال ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ مزید دیکھیے: ''تذکرۃ الخلیل'' مولانا عاشق الٰہی میرٹھی v، ''العلامۃ المحدث الکبیر الشیخ خلیل أحمد الأنصاری السہارنفوریؒ'' مولانا محمد ثانی حسنی ندوی، ''نزھۃ الخواطر'' مولانا عبدالحی الحسنیv اور ''العناقید الغالیۃ'' مولانا عاشق الٰہی مدنی v۔ مولانا مبارک پوری v نے اپنی شرح میں ''بذل المجہود'' کے مختلف مباحث پر نقد کیا ہے، بطور نمونہ درج ذیل مقامات دیکھیے: ج:١،ص:٥٤، ٢٦٦، ٢٦٧، ٢٦٨، ٢٩٦، ٣٠٥، ٣٠٦، ٥١٧، ٥٧٤، ٥٧٥۔ ٥:۔۔۔۔۔۔ ''معارف السنن'' میں حضرت بنوری v جابجا مذہبِ حنفی اور ''العرف الشذی'' کے مختلف مباحث پر مولانا مبارک پوریؒ کے اشکالات کے جوابات دیتے دکھائی دیتے ہیں، اس پہلو سے حضرت بنوری v کے منہج میں من جملہ اور خصوصیات کے یہ دو نکتے نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں: ١:- مولانا انور شاہ کشمیری v کے کلام کی وضاحت اور ''العرف الشذی'' میں در آنے والی اغلاط کی اصلاح۔ ٢:- مولانا مبارک پوریؒ کی تنقیدوں کا علمی جائزہ وتردید، مولانا مبارک پوری ؒ کی جانب سے ''العرف الشذی'' کے مختلف مقامات پر نقد کیا ہے اورحضرت بنوری vنے ''معارف السنن'' میں ان کی تردید کی ہے، اس حوالے سے ان مکتوبات کے آخر میں ضمیمہ :٣ میں درج فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ ٦:۔۔۔۔۔۔ مولانا شمس الحق بن امیر علی صدیقی عظیم آبادی v : ہندوستان کے علمائے اہل حدیث میں سے ہیں، علمِ حدیث میں اور کتبِ حدیث کے حواشی وغیرہ سمیت ان کی بہت سی تالیفات ہیں۔ ١٢٧٣ ھ میں ولادت ہوئی اور ١٣٢٩ھ میں وفات پاگئے۔ دیکھیے: ''نزھۃ الخواطر'' مولانا عبدالحی حسنیv (ج:٨ ،ص:١٢٤٣ - ١٢٤٤) اور ''حیاۃ المحدث شمس الحق وأعمالہ'' محمد عزیر شمس۔ ٧:۔۔۔۔۔۔ مولانا مبارک پوریؓ نے ''تحفہ'' کے مقدمے میں اس کتب خانے کے حوالے سے بہت سی نادر کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، ڈاکٹر سعود سرحان نے بھی حاشیے میں کافی نام گنوائے ہیں، ملاحظہ کیجیے: ''مقدمۃ تحفۃ الأحوذی'' (ص: ٢٦٠ تا ٢٦٦) ٨:۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سعود سرحان لکھتے ہیں:''(مولانا) مبارک پوریؒ کا ذکرکردہ یہ کتب خانہ بے بنیاد ہے، ہندوستان یا کسی اور ملک میں اس کا نام ونشان نہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید مشرقی جرمنی میں ہے، اور کچھ کا گمان ہے کہ مغربی جرمنی میں واقع ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص بھی ان مخطوطات میں سے ایک آدھ مخطوطہ بھی حاصل نہیں کرپایا، جن کے بارے میں (مولانا) مبارک پوریؒ نے جرمنی میں موجود ہونے کا خیال ظاہر کیا ہے، اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا کہ اگر یہ کتب خانہ جرمنی میں ہی ہے تو (مولانا) مبارک پوریؒ کو اس کی کتابوں کی تفصیلات کے بارے کیسے علم ہوا؟ اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن قرینِ قیاس یہی ہے کہ انہوں نے (شیخ) تقی الدین ہلالی کی ہندوستان آمد کے موقع پر ان سے اس کے متعلق سنا ہوگا، اور ہلالی صاحب بہت مبالغہ آمیز انسان تھے، شاید انہوں نے اپنے استاذ کو (ایسی نادر خبریں سنا کر) حیران کرنے کی کوشش کی ہوگی۔'' ٩:۔۔۔۔۔۔ یہ حدیث حضرت عباس بن عبدالمطلب q سے منسوب ہے : ''وہ ایک جماعت کے ساتھ بطحاء (وادی) میں بیٹھے تھے اور رسول اللہ a بھی ان کے درمیان تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک بادل گزرا تو رسول اللہ a نے فرمایا: ''جانتے ہو اس کا کیا نام ہے؟'' عرض کیا:'' سحاب'' (بادل)، آپa نے فرمایا: ''اور ''المزن''؟(بادل ہی کو کہتے ہیں) '' عرض کیا : ''مزن'' بھی ہے، فرمایا :''اور ''العنان'' ؟(یہ بھی بادل کا نام ہے)'' عرض کیا : ''عنان'' بھی ہے، فرمایا: ''جانتے ہو کہ آسمان وزمین کے درمیان کیا (مسافت) ہے؟'' عرض کیا: واللہ! نہیں جانتے، فرمایا :'' ان دونوں کے درمیان اکہتر، بہتر یا تہتر سال (کی مسافت) ہے، اور اس کے اوپر والے آسمان تک بھی اتنا ہی (فاصلہ) ہے، یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک بھی (ہر دو آسمانوں کے درمیان یہی مسافت ہے)، ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، جس کی بلندی اور تہہ کے مابین دو آسمانوں کے درمیان کا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں، جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان دو آسمانوں کا درمیانی فاصلہ ہے، پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے، اس کے نیچے سے بلندی کے درمیان بھی دو آسمانوں کے درمیان جتنا فاصلہ ہے، اور اس کے اوپر اللہ عزوجل ہیں۔'' ١٠:۔۔۔۔۔۔ ج:٩ ،ص:١٦٤-١٦٦ ١١:۔۔۔۔۔۔ رقم الترجمۃ: ٤٣٩، ص: ١٤٤ ١٢:۔۔۔۔۔۔ التاریخ الکبیر ،ج: ٥ ،ص:١٥٩ ١٣:۔۔۔۔۔۔ صاحبِ تحفہ کا اس حدیث کو صحیح کہنا اور علامہ ابن قیم v کا ''تہذیب السنن'' میں (ج:٥، ص:٢١٥٧ - ٢١٦٣) اسے قوی قرار دینا باعثِ تعجب نہیں، اس لیے کہ علامہ ابن تیمیہ v نے اس کی تصحیح کی ہے اور اس حوالے سے ان کا کلام ''مجموع الفتاوی'' کے ضمن میں ''مناظرتہ فی الواسطیۃ'' کے زیر عنوان موجود ہے۔ (ج:٣، ص: ١٩٢) ١٤:۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ کیجیے: ''مقالات الکوثری''، ص : ٣٠٨ - ٣١٤، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : ابوعلاء عطار کے ''فتیا فی الاعتقاد'' پر شیخ عبداللہ بن یوسف جدیع کی تعلیق۔ ١٥:۔۔۔۔۔۔ مولانا عبید اللہ سندھی v: تاریخ آزادیِ ہند کا ایک عظیم کردار، ٩ /محرم الحرام ١٢٨٩ھ میں سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، بچپن میں ہی اسلام قبول کرکے سندھ کی طرف ہجرت کرگئے اور وہاں حصولِ علم میں مشغول ہوگئے، پھر دیوبند جاکر تعلیم مکمل کی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی v کے شاگرد خاص شمار ہوئے، ان کے اشارے پر میدانِ سیاست کو اپنایا اور آزادیِ ہند کی خاطر افغانستان کا پرخطر سفر اختیار کیا۔ اس مشن کی ناکامی کے بعد روس میں قیام پذیر رہے، ترکی میں وقت گزارا، آخر تھک ہار حجاز چلے گئے۔ ١٣٥٨ھ میں ہندوستان لوٹے اور دہلی وسندھ میں قیام پذیر رہے، اس دور میں اپنے مخصوص انداز سے شاہ ولی اللہ v کے علوم ومعارف کی نشرواشاعت میں مشغول رہے۔ ٣/ رمضان ١٣٦٣ھ کو راہیِ ملک بقا ہوئے۔ دیکھیے: ''نزھۃ الخواطر'' مولانا عبدالحی حسنیv (ج:٨ ،ص: ١٣٠٠-١٣٠٢) اور خود ان کے قلم سے ''ذاتی ڈائری''۔ بلاشبہ مولانا سندھی v کی زندگی کا بیشتر حصہ مختلف نوع کی تکالیف اور مجاہدوں میں گزرا ہے، لیکن ان کی روس سے واپسی کے بعد کا دور بھی کئی حوالوں سے موضوعِ بحث رہا ہے، اس پہلو سے بہت سے ابہامات ہیں، جن سے فائدہ اُٹھاکر ان کی شخصیت کا غلط استعمال بھی ہوا۔ مولانا چونکہ سکھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے یہاں علامہ کوثری v نے اُنہیں ''سیکی'' (سکھ) لکھ دیا ہے۔ ١٦:۔۔۔۔۔۔ موسیٰ جار اللہ کی جانب اشارہ ہے، جن کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ خط کے حواشی میں آچکا ہے۔ ١٧:۔۔۔۔۔۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حضرت بنوری v نے مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے شاگرد موسی جار اللہ رحمہما اللہ کے افکار ونظریات کی تردید کے سلسلے میں علامہ کوثری v سے مشاورت کی ہوگی۔ ١٨:۔۔۔۔۔۔ مولانا محمد بن موسیٰ میاں v کے حالات کے لیے ملاحظہ کیجیے: کتاب کے آخر میں ملحق ضمیمہ نمبر:١ (جاری ہے)  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین