بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا محمدحسن عباسی ، پروفیسر غفور احمد ، مولانا محمد امیر بجلی گھر، مولاناقاری رفیق الخلیل شہید ، جناب قاضی حسین احمد

مولانا محمدحسن عباسیؒ کا وصال

حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی، حضرت مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مراقدہما کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد حسن عباسیؒ ۲۶؍ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء بروز منگل زندگی کی ۹۱ بہاریں گزار کر راہی بعالم عقبیٰ ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یذھب الصالحون الأول فالأول ویبقی حفالۃ کحفالۃ الشعیر أو التمر لایبالیھم اللّٰہ بالۃ‘‘۔ ترجمہ:’’نیک لوگ یکے بعد دیگرے اُٹھتے جائیں گے اور انسانیت کی تلچھٹ پیچھے رہ جائیں گے، جیسا کہ ردی جو اور کھجور رہ جاتے ہیں، حق تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا‘‘۔ دوسری حدیث میں ہے: ’’إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من قلوب العباد ولکن یقبضہ بقبض العلماء حتیٰ إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤساً جھالاً فسئلوا بغیر علم فضلوا وأضلوا‘‘۔ ترجمہ:’’بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ بندوں کے سینوں سے چھین لے، بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھاتا رہے گا، یہاں تک کہ جب ایک عالم بھی باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، ان سے سوالات ہوں گے، وہ بغیر جانے بوجھے فتوے دیں گے، خودبھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ ان دونوں احادیث سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ علم صحیح اور عمل صحیح جب تک رہے گا، یہ دنیا فتنوں، گمراہیوں اور فسق وفجور سے محفوظ رہے گی اور یہ دونوں چیزیں علمائ، اولیاء اور صلحاء کے وجود سے ہی قائم رہتی ہیں۔ آج ایک طرف یہ علماء اور صلحاء اس دنیا کو چھوڑ کر عالم عقبیٰ کو سدھار رہے ہیں تو دوسری طرف دنیا میں فتنہ وفساد، ظلم وستم، قتل وقتال اور بعض وعناد عروج پر ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہ علماء اور اللہ کے برگزیدہ بندے اپنی اخلاص بھری عبادات سے جہاں اپنے خالق کو راضی رکھتے تھے، وہاں اپنی نالۂ نیم شبی کے ذریعہ اللہ کی مخلوق کے لئے  فتنوں سے بچاؤ کا ذریعہ بھی تھے۔اے کاش! یہ بزرگ ایک ایک کرکے اس دنیا سے اُٹھتے جارہے ہیں، صرف ایک مہینے میں کئی بزرگ ہستیاں ہم سے جدا ہوگئیں۔ حضرتؒ ۱۹۲۱ء میں حاجی محمد ہاشم کے گھر گوٹھ راضی کلہوڑوتعلقہ کنڈیاروضلع نوشہروفیروز میں پیدا ہوئے۔ قرآن کریم کی تعلیم خلیفہ غلام محمدؒ سے حاصل کی، پرائمری کی تعلیم کے بعد مورو کے قریب مدرسہ مفتاح العلوم میں مولانا محمد کاملؒ کی خدمت میں رہے۔ بعد میں مدرسہ انوار العلوم کنڈیارو میں تکمیل حدیث کی۔ آپ نے پہلی بیعت ملک کے عظیم بزرگ حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ سے کی اور دوسری بیعت حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے کی ، ۱۱؍ رجب ۱۳۷۰ھ میں حضرت نے آپ کی دستار بندی کرائی اور آپ کو خلافت عطا کی۔ حضرت کو عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت اور جمعیت علماء اسلام سے خصوصی تعلق تھا۔ راقم الحروف حضرت ڈاکٹر عبدالسلام زیدمجدہم خلیفہ مجاز مولانا غلام رسول خلیفہ مجاز حضرت لاہوری نور اللہ مرقدہما کی اطلاع اور ہدایت پر کراچی سے شاہ پور چاکر آپ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوا۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت مولانا عبدالحئی دامت برکاتہم شیخ الحدیث مدینۃ العلوم ٹنڈوآدم نے پڑھائی۔ آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت فرمائی۔اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت الفردوس نصیب فرمائیں ، آپ کے معتقدین ، متوسلین اور اقرباء کو صبر جمیل سے نوازیں۔ جناب پروفیسر غفور احمدؒ ۱۲؍صفر المظفر ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۶؍ دسمبر ۲۰۱۲ء بروز بدھ جناب پروفیسر غفور احمد بھی اس دنیا سے چل بسے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ جناب پروفیسر غفور احمدؒ ۱۹۲۶ء میں انڈیا بریلی میں پیدا ہوئے۔ آگرہ ،لکھنؤ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی، اسلامیہ کالج لکھنؤ میں پروفیسر مقرر ہوئے، پاکستان بننے کے بعد کراچی میں چارٹرڈ اکاؤنٹس انسٹی ٹیوٹ اور اردو کالج میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر تھے۔ ۱۹۷۴ء میں جب قادیانی مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو آپؒ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے ساتھ مل کر ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ آپؒ ہمیشہ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ سے برابر ملاقات اور مشاورت میں رہتے تھے، جب کہ محدث العصر اس وقت عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے امیر تھے۔ کچھ عرصہ سے جناب پروفیسر غفور احمد علیل تھے، علاج معالجہ جاری تھا کہ وقت موعود آپہنچا۔اللہ تعالیٰ آپ کی حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ حضرت مولانا محمد امیر بجلی گھر کی رحلت! جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بانی محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے رفیق وساتھی، شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتویؒ کے خصوصی شاگردِ رشید، جمعیت علماء اسلام کے سابق راہنما، پشتوزبان کے ہر دل عزیز عوامی خطیب حضرت مولانا محمد امیر المعروف مولانا بجلی گھر ۱۶؍ صفر المظفر ۱۴۳۴ھ مطابق  ۳۰؍ دسمبر۲۰۱۲ء کو اس دارِ فانی سے رحلت فرمائے عالم آخرت کو سدھار گئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ حضرت مولانا محمد امیر صاحب کا نام ایک عرصہ سے سنا تھا، لیکن آپ کی زیارت کا شرف گزشتہ سال ملا اور اس کی سبیل یوں بنی کہ پشاور کا سفر ہوا۔ مولانا محمد ایاز حقانی مدظلہ کے توسط سے آپ کے صاحبزادے مولانا محمد قاسم بجلی گھر سے ملاقات کا وقت طے ہوا، غالباً عصر کے بعد کا وقت تھا، جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت بہت خوش ہوئے اور اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور کافی دیر تک بزرگوں کے حالات سناتے رہے، لیکن محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ کا تذکرہ بڑے وجد اور رقت آمیز انداز میں فرماتے رہے۔ فرمایا کہ: حضرت بنوریؒ جب پشاور تشریف لاتے تو میں اپنے ادارہ سے چھٹی لے لیتا تھا اور پورے سفر میں حضرت کے ساتھ رہتا تھا، حضرت پشاور کے سفر میں اور جگہوں کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ اپنی والدہ کی قبر پر ضرور تشریف لے جاتے اور فرمایا:مولوی صاحب! میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو سکون آپؒ کی والدہ کی قبر پر میں محسوس کرتا تھا وہ اور کہیں مجھے محسوس نہ ہوا۔ اور فرمایا: ایک بار میں نے حضرت بنوریؒ سے عرض کیا کہ حضرت! کراچی میں اپنا ایک مکان بنالیں، تو حضرت بنوریؒ نے فرمایا: جب تم کراچی آؤگے تو میرا مکان دیکھ لوگے۔ جب میں کراچی گیا، میں نے کہا: حضرت! اپنا مکان دکھائیں، تو حضرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور جہاں آپ کی قبر مبارک ہے، یہاں مجھے لے گئے اور اپنی لاٹھی سے جو آپ کے ہاتھ میں تھی اس سے اسی جگہ پر لکیر کھینچ کر فرمایا: یہ میرا مکان ہے اور اب جب تم کراچی آؤ گے تو مجھے یہاں دیکھو گے۔ مولانا محمد امیر صاحبؒ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوا۔ اسی دن جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر بھی آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ حضرت مرحوم نے حضرت ڈاکٹر صاحب سے بھی بہت دیر تک گفتگو فرمائی، اور والہانہ انداز میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا نام لیتے رہے۔ پھر فرمایا کہ: کافی عرصہ ہوا میرے پاس ماہنامہ بینات نہیں آتا، میں نے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ! کراچی پہنچتے ہی میں آپ کو بھجوادوں گا۔ میں نے کراچی پہنچ کر نائب رئیس جامعہ علوم اسلامیہ حضرت مولانا سید محمد سلیمان بنوری مدفیوضہم سے اس ملاقات کا تذکرہ کیا اور آپ کو حضرت کا سلام پہنچایا، بلکہ مولانا مرحوم کی خواہش تھی کہ میں حضرت بنوریؒ کے فرزند ارجمند سے ملاقات کروں اور ان سے بات کروں۔ اس وقت نائب رئیس جامعہ نے حضرت مولانا محمد امیر صاحب سے فون پر بات کی اور حال احوال دریافت کئے اور فرمایا: اب میں پشاور جب آؤں گا تو آپ سے ضرور ملاقات کروں گا۔ الحمد للہ مولانا سید سلیمان بنوری زیدمجدہم نے بھی آپ کی زندگی میں آپ سے ملاقات کرلی تھی۔  آپ کا نام نامی تو محمد امیر تھا،لیکن آپ مولانا بجلی گھر سے مشہور ومعروف تھے، وجہ یہ تھی کہ آپ پشاور کے پاور ہاؤس (بجلی گھر) ٹاؤن کی مسجد میں طویل عرصہ امام وخطیب رہے، اس لئے مولانا بجلی گھر کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آپؒ شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتویؒ کے صرف شاگردرشید ہی نہ تھے، بلکہ آپ کو شیخ الحدیث صاحب سے والہانہ محبت وعقیدت تھی، اسی بنا پر آپ نے اپنے استاذ کی وہ تمام باتیں اور ملفوظات جو آپ نے مختلف مجالس میں ان سے سنے تھے، ان کو اپنے حافظہ میں محفوظ کررکھا تھا، اپنے بیٹے حضرت مولانا محمد قاسم کو وہ قلم بند کرائے اور انہوں نے وہ سب ملفوظات ’’مجالس غورغشتوی ‘‘کے نام سے ایک خوبصورت کتاب مرتب فرمادی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں اور آپ کے عزیز، اقرباء اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ مولاناقاری رفیق الخلیل شہیدؒ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے خلیفہ مجاز ، عالمگیر مسجد کے امام وخطیب، بزرگ عالم دین مولانا رفیق الخلیل کو ۱۶؍ صفر المظفر۱۴۳۴ھ مطابق ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۲ء بروزاتوار دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ حضرت مولانا قاری رفیق الخلیل ۱۹۵۰ء میں خانیوال میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم دارالعلوم کبیروالا سے حاصل کی، ۱۹۶۸ء میں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں استاد رہے، اس دوران جامع مسجد عالمگیر میں امام وخطیب مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۸ء میں ملیر ۱۵ میں انہوں نے ’’ادارۃ الفرقان‘‘ کے نام مدرسہ قائم کیا، اسی مدرسہ سے واپس آتے ہوئے آپ کو شہید کیا گیا۔ آپؒنے پسماندگان میں ۴؍ بیٹے ، ۲؍ بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کے درجات کو بلند فرمائے، آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور آپؒ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ جناب قاضی حسین احمدؒ کا سانحۂ ارتحال ملی یکجہتی کونسل کے صدر، متحدہ مجلس عمل کے سابق صدر، جماعت اسلامی کے سابق امیر محترم جناب قاضی حسین احمد صاحب ۵،۶؍ جنوری ۲۰۱۳ء کی درمیانی رات دل کے عارضہ میں خالق حقیقی سے جاملے۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ حضرت قاضی صاحب چار بار جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے اور بائیس سال تک جماعت کے امیر رہے اور جماعت اسلامی کو آپ کے دورِ امارت میں خوب ترقی ملی اور جماعت اسلامی کو دینی وسیاسی جماعتوں میں نمایاں مقام تک پہنچایا۔ ہر دینی تحریک میں آپؒ قائدانہ کردار ادا کرتے نظر آتے۔ وقتاًفوقتاً وہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن بھی تشریف لاتے اور بزرگوں سے اس وقت کے حالات کے بارہ میں تبادلہ خیال فرماتے۔آپ کے انتقال پُرملال کے موقع پر جامعہ کے رئیس حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی اور جامعہ کے اساتذہ کی طرف سے جو تعزیت نامہ آپ کے پسماندگان کے ہاں بھیجا، وہ یہ ہے: ’’محترمی ومکرمی ، عزیزان گرامی! صاحبزادگانِ محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم                                                   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آج مورخہ ۲۳؍۲؍۱۴۳۴ھ بمطابق ۶؍۱؍۲۰۱۳ء کو آپ کے والد گرامی محترم قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پُرملال کی خبر سنی، فإناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب کا ہماری جامعہ سے ایک ناقابل فراموش تعلق رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم آپ کے اس دُکھ درد میں خاندان کے افراد کی طرح شریک اور غم زدہ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولانا لطف اللہ پشاوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے دیرینہ رفقاء کاروں اور جامعہ کے اولین معماروں میں شمار ہوتے تھے ، اور محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے لگتے تھے، اس لئے ہمیں آپ کی رحلت فاجعہ پر گہرا افسوس اور انتہائی رنج ہے، مگر ہم وہی کہیں گے جو اللہ تعالیٰ اور آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع کے لئے فرمایا ہے، جو کہ طبعی حزن کے ساتھ ساتھ صبر واستقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے۔ یہی آپ کو تلقین کرتے ہیں اور دعا گوہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے والد گرامی کی مغفرت فرمائے اور ان کے سلاسل خیر کو جاری وساری رکھنے کے لئے آپ حضرات کو توفیق واستعداد نصیب فرمائے…… آمین                                                   فقط والسلام                                                عبدالرزاق اسکندر                                        مہتم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی                                                 ۲۳؍۲؍۱۴۳۴ھ‘‘ آپؒ ہمیشہ اس بات کے کوشاں رہے کہ ملک میں اتحاد ویگانگت ہو، دینی ومذہبی جماعتوں میں جو بعد اور افتراق وانتشار کی فضا ہے، اسے کسی طرح دور کیا جائے اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے، اسی مقصد کے لئے آپ نے ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ فعال کیا اور اسلام آباد میں تمام جماعتوں پر مشتمل ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور آپ کے لواحقین کو آپؒ کا مشن جاری وساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین