بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا محمد سلامت حسین فاروقی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا محمد سلامت حسین فاروقی v

    گزشتہ دنوں میرے سسر حضرت مولانا محمد سلامت حسین فاروقی کافی عرصہ علالت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     آپؒ ہندوستان کے صوبہ بہارمیں ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، وہاں بڑے بڑے اکابرین علماء ومشائخ اوربزرگان دین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ اور حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمیؒؒ جیسی ہستیوں کی خدمت اور جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔۱۹۵۷ء میں شادی ہوئی، شادی کے بعد والدہ اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مشرقی پاکستان تشریف لائے، ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان کا دفاع کیا۔ بنگلہ دیش بن جانے پر دوبارہ ہندوستان تشریف لے گئے، آپؒ کی والدہ محترمہ پاکستان آنے کو رضامند نہ تھیں، ۱۹۷۴ء ۱۹۷۵ء میںہندوستان کو الوداع کرتے ہوئے بیوی بچوں سمیت کشمیر تشریف لے آئے، تقریباً دو سال وہیں رہے۔ ۱۹۷۷ء میں پھر دوبارہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، کچھ عرصہ تک وہیں رہے۔ ۱۹۷۹ء میں اپنی اہلیہ اور بچوں کو ساتھ لے کردوبارہ پاکستان آگئے، یہاں کراچی کے علاقہ بلدیہ ٹاؤن میں اپنی زمین خریدی، جہاں مسجدو مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ فرمایا،اپنے شیخ ومربی حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نام سے موسوم جامع مسجد مدنی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام سے مدرسہ دارالعلوم گنگوہیہ کی بنیاد رکھی، جس جگہ یہ ادارہ قائم ہوا وہاں نہ بجلی، نہ گیس اور نہ ہی پانی تھا۔ آج سے تقریباً ۳۶،۳۷ سال قبل جب بلدیہ ٹاؤن کے علاقہ میں مسجدومدرسہ قائم کیا تو بہت دشواریاں اور اہل محلہ کی طرف سے اذیتیں پیش آئی،جن کو انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس میں دارالعلوم دیوبند کی خوشبو آتی ہے۔اکثر میرے شیخ ومربی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی مجالس ذکر ،دفتر بینات اور دیگر مواعظ اور بیانات میں شریک ہوتے تھے، شکل وصورت اور چال ڈھال حضرت لدھیانوی شہیدؒ سے مشابہت رکھتی تھی۔ آپؒ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ۱۹۸۳ء میں اپنے علاقہ کے صدر بھی رہے، ایک عرصہ تک اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھاتے رہے۔ جس علاقہ میں مدرسہ ومسجد قائم ہے وہاں کی آبادی میں اکثریت بدعتی ، غیر مقلدین اور جماعت المسلمین کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ادارہ قائم کرنے اور دینِ اسلام کی دعوت وتبلیغ کو عام کرنے کے لیے بہت سی اذیتیں اور مشقتیں برداشت کیں، ہر مشکل اور کڑے وقت میں اپنے روحانی مرکز جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں بڑے بڑے اکابرین اور مفتیان عظام سے مشورے کے لیے رجوع فرماتے رہے، خصوصاً امام اہلسنت حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن نور اللہ مرقدہ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ، اور ان کے علاوہ دیگر اکابرین خصوصاً جامعہ کے دارالافتاء کے رئیس حضرت مولانا مفتی عبد السلام چاٹگامی مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی محمد شاہد صاحب مدظلہ جیسی ہستیوں کو وقتاً فوقتاً اپنے مدرسہ میں مشورے کے لیے لے جاتے رہے۔     حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن نور اللہ مرقدہ نے ہمارے سسر مرحوم کو اس جگہ کا معائنہ کرنے کے بعد ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور تسلی دی، اور جامعہ کے ساتھ الحاق کا مشورہ دیا، اس کے بعد سے آپؒ کی ہمت اور حوصلے مزید بڑھ گئے۔ مسجد میں امامت وخطابت کے زمانے میں بدعتیوںاور غیر مقلدین کی طرف سے شرمناک تکلیفیں اٹھانی پڑیں، حتی کہ عدالتوں ، کچہریوں اور جیل خانہ کے چکر کاٹنے پڑے، مگر حضرت امام اہلسنتؒ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آپؒ کے دل ودماغ میں نقش ہوچکے تھے، پھر نہ دن دیکھا نہ رات، اپنی جان کی پروا کیے بغیر دن رات ایک کرکے مدنی مسجد، دارالعلوم گنگوہیہ کی تعمیر وترقی میں لگ گئے اور عوام خواص کو راہ راست پر لانے کے لیے ہمہ تن کوشش فرماتے رہے۔ الحمد للہ! آج آپؒ کی محنت کا نتیجہ ہے کہ کافی تعداد میں بچے؍بچیاں حفظ قرآن اور ناظرہ کی تعلیم حاصل کرہے ہیں، نیز بچوں؍بچیوں کے امتحانات کے لیے دارالافتاء بنوری ٹاؤن کے مفتی ابوبکر سعید الرحمن صاحب بارہا تشریف لاتے رہے، مدرسہ کی تعمیرات کے لیے ہمارے استاد مولانا مفتی محمد شاہد صاحب مدظلہ کا بڑا کردار رہا ہے۔ بیٹے؍بیٹیوں کے رشتے اور نسبت طے کرنے میں بھی آپؒ کی کوشش رہی کہ دینداراور صاحب علم حضرات کے رشتے ملیں، آپؒ کی تیسرے نمبر کی بیٹی کا نکاح حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے جاکر پڑھایا اور وعظ فرمایا۔     راقم الحروف کی نسبت طے کرنے میں حضرت مولانا مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب مدظلہ اور ہمارے استاد محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ سے مشورہ کیا، استخارہ کے بعد راقم الحروف کی طرف اشارہ ملا، نکاح کے لیے ہمارے والد محترم مولانا عبد الرزاق لدھیانوی(استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن)میرے استاد حضرت مولانا عبد القیوم چترالیؒ کو ساتھ لے گئے۔ باقی گھر والوں میں سے صرف والدہ محترمہ اور مفتی محمد نعیم دہلوی صاحب (راقم الحروف کے بہنوئی)ساتھ تھے۔ اس طرح انتہائی سادگی سے سنت کے موافق نکاح کی تقریب مسجد میں ادا ہوگئی۔ نکاح حضرت مولانا عبد القیوم چترالیؒ نے پڑھایا۔ آپؒ علم طب کے ماہر تھے، ہندوستان ہی میں طب کا یونانی کورس مکمل کیا، کراچی تشریف آوری کے بعد رہائش گاہ کے متصل دواخانہ کھولا تھا، فارغ اوقات میں دواخانہ میں بیٹھ کر از خود دوائیں تیار فرماتے، دور دراز سے آنے والے مریضوں کا علاج معالجہ انتہائی کم قیمت پر کرتے، غریب درجہ کے مریض کو مفت دوائیں فراہم کرتے، اللہ پاک نے ذہانت کا وہ ملکہ عطا فرمایا تھا کہ دیوبند کے پرانے اکابرین بزرگان دین کے بے شمار واقعات فرفرسنایاکرتے تھے،شادی کے بعد جب اہلیہ کو ساتھ لے جاتا تو طعام کے بعد بزرگان دین کے واقعات سناتے سناتے رات کا اکثر حصہ گزرجاتا، بندہ واقعات سنتے سنتے تھک جاتا، مگر آپؒ نہیں تھکتے۔ اللہ کی یاد میں آپ کی زبان ہمیشہ تررہتی، ذکر خفی کرتے ہوئے اکثر اوقات دل سے ’’اللہ‘‘ اونچی آواز سے نکل جاتا، بارہا رات رکنے کا موقع ملا،کبھی آدھی رات کوآنکھ کھلتی تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر اللہ اللہ کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔ باوجود ضعف اور بیماری کے کبھی آپ سے نماز تہجد فوت نہیں ہوئی۔ نماز تہجد اور فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر آرام فرماتے۔     شریعت کی حدود کی پاسداری بھی آپؒ کی شخصیت کا ایک تابناک پہلو ہے، اس بارے میں آپؒ ہرطرح کی رواداری اور مداہنت سے کوسوں دور تھے، کسی منکر پر نکیر سے اغماض برتنا حضرتؒ کے مزاج کے خلاف تھا، شریعت سے متصادم کسی بھی رسم اور خواہش کی آپ کی موجودگی میں تکمیل ممکن نہ تھی، بارہا فرماتے سنا کہ شریعت اصل ہے اور تصوف شریعت کا حسن وجمال ہے۔ خوشی، غمی ہرموقع پر شریعت کو مقدم رکھاکرتے تھے۔ بیٹوںاور بیٹیوں کی تربیت پر حضرت کی گہری نگاہ ہوا کرتی تھی، گھر کا ہر معاملہ اور لین دین لکھت پڑھت پر ہوا کرتا تھا، ایک ایک پائی کا حساب لکھا کرتے تھے۔ فیاضی بھی آپؒ کا نمایاں وصف تھا، مختلف مواقع پر آپؒ خوب نوازتے رہتے، اگر سائل دروازے پر آجائے تو اسے بغیر کچھ دیئے واپس نہ جانے دیتے، ’’الید العلیا خیر من یدالسفلٰی‘‘ کے مصداق تھے۔     حضرتؒ بچوں سے انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے، گھر آکر ہر چھوٹے بڑے کو خود ہی سلام کرتے۔ آپؒ چونکہ گزشتہ ۳۵ سال سے شوگر جیسی موذی بیماری میں مبتلا رہے، نیز مرض الوفات کے زمانہ میں شوگر، بلڈپریشر حد سے زیادہ بڑھ چکا تھا، متفرق بیماریوں کے باوجود ہمت نہ ہاری، آخر عمر تک اپنے ادارہ اور ادارے میں پڑھنے والے بچوں، بچیوں کی فکر رہتی، آخر کاراپنے تمام معاملات اپنے چھوٹے بیٹے مولوی محمد ہارون الرشید سلمہ (فاضل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) کے سپرد کردیئے۔آپؒ کی دلی آرزو تھی کہ موت اپنے گھر پر آئے، نماز جنازہ بیٹا محمد ہارون الرشید پڑھائے، تدفین اور نماز جنازہ میںتاخیر ہرگز نہ ہو، دفن میری اہلیہ کے متصل کرنا، الحمد للہ! اللہ پاک نے ساری نصیحتیںاورآرزوئیں پوری فرمادیں۔ بیٹے نے حسب معمول صبح تقریباً ۹؍بجے نیند سے اٹھایا، وضو وغیرہ کروا کر پاک صاف کپڑے پہنائے، ناشتہ سے قبل شوگر کی وجہ سے جسم پرہونے والے زخم کی صفائی اور پٹی کررہے تھے کہ تقریباً ساڑھے ۹؍ بجے اللہ کے دربار میں لبیک کہتے ہوئے جان اپنے مولیٰ کے سپرد کردی۔پسماندگان میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک حضرتؒ کو معاف فرماکر جنت الفردوس نصیب فرمائے، آپ کی جملہ دینی خدمات کو قبول فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین