بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی خدمات (دوسری قسط)

 

مولانا عبد الحی فرنگی محلی vکی تاریخی خدمات                                     (دوسری قسط)

         مولانا عبد الحیv نے اگرچہ علمائے احناف کے احوال مرتب کرنے کا بیڑا اُٹھالیا تھا، لیکن ایک سوال ان کے سامنے یہ آگیا: ’’اگرامام ابوحنیفہv کے زمانے سے لے کر اپنے زمانے تک کے تمام علمائے احناف کے حالات کو عہد بہ عہد ایک کتاب میں جمع کردیتا ہوں تو وہ اتنی ضخیم ہوجائے گی کہ اس سے سوائے خاص خاص لوگوں کے اور کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے گا، تو میں نے یہ پسند کیا کہ ایک ضخیم کتاب میں علمائے احناف کے احوال کو جمع کرنے کے بجائے متعدد کتابوں اور الگ الگ رسالوں میں ان کو بانٹ دوں، تاکہ ان سے نفع اٹھانا مشکل نہ رہے۔‘‘1     پھر اسی تجویز کردہ پروگرام کے مطابق مولانا نے علمائے احناف اور مصنفین کے احوال وتراجم کو الگ الگ کتابوں میں بانٹ کرمرتب کرنا شروع کردیا، فقہ حنفی کی معتبر اورمتداول کتاب ہدایہ پر انہوں نے مقدمۃ الہدایہ اور مذیلۃ الدرایہ دو مختلف مقدمے لکھے اور ان میں ان تمام اشخاص وافراد کے حالات جمع کردیئے جن کا کسی نہ کسی عنوان سے اصل کتاب میں ذکر آیاہے، انہوں نے فقہ حنفی کی قدیم ترین کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ پر ایک مبسوط مقدمہ ’’النافع الکبیر من یطالع الجامع الصغیر‘‘ کے نام سے لکھا اور اس میں جامع صغیر کے تمام شارحین کا فقہ حنفی کے تمام مشہور متنوں کے مصنفین کا، حنفی فقہ کی متداول اور مروج کتابوں کا اور ان میں معتبر اور نامعتبر کی تعیین کا، فقہائے احناف کے طبقات کا اور عہد رسالتؐ سے لے کر مجتہدین کے عہد تک فقہ کے ارتقاء کا، اس طرح فقہ حنفی کی تاریخ کا مفصل ذکر کردیا، پھر فقہ حنفی کی رائج کتاب شرح وقایہ کی طرف انہوں نے توجہ کی اور ’’عمدۃ الرعایۃ فی حل شرح الوقایۃ‘‘ کے نام سے موسوم اپنے حاشیہ کے مقدمے میں نہ صرف شرح وقایہ میں مذکور اشخاص، علماء ومصنفین، صحابہؓ وتابعینؒ اور علمائے احناف وشوافع وغیرہ کا تفصیلی ذکرکیا، بلکہ جن جن حضرات نے شرح وقایہ کی پوری کتاب یا اس کے بعض مباحث پر حواشی لکھے، اصل متن وقایہ کی جن دوسرے حضرات نے شرحیں لکھیں، دوسرے مشہور متن نقایہ کی جن جن حضرات نے شرحیں لکھیں ان سب کے احوال کو اس میں جمع کردیا اور اس ضمن میں فقہ حنفی کے تدریجی ارتقاء اور فقہائے احناف کے طبقات کا بھی مفصل ذکر اس مقدمہ میں اس طرح کیا کہ ان مباحث پر مقدمۂ جامع صغیر میں جو کچھ لکھ چکے تھے، اس پر بہت مفید اضافے کیے، پھر شرح وقایہ کی جو مفصل شرح ’’السعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ‘‘ لکھنا شروع کی، جو علمی دنیا کی بدقسمتی سے مکمل نہ ہوسکی، اس کے مقدمے میں اسی معیار کے مطابق انہوں نے مفید اضافوں کے ساتھ انہیں مباحث پر مزید روشنی ڈالی جو مقدمہ ’’عمدۃ الرعایۃ‘‘ میں کر چکے تھے، پھر جب حدیث کی مشہور اور قدیم ترین کتاب مؤطا امام مالک بروایۃ امام محمدؒ پر جس کو مؤطا امام محمدؒ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے مولانا نے ایک تفصیلی اور تحقیقی حاشیہ ’’التعلیق الممجد‘‘ کے نام سے لکھا تو اس کے مقدمے میںبھی بڑی شرح وبسط کے ساتھ فن حدیث کے ارتقاء کی تاریخ بڑے بڑے محدثین اور مؤطا امام مالکؒ کے خاص خاص راویین، مؤطا کے شارحین اور اس کے مختلف نسخوں کی تاریخ پرروشنی ڈالی۔     یہ مقدماتِ کتب اگرچہ اصل کتب کے ضمن میں شائع ہوئے، لیکن بلاشبہ وہ مستقل تاریخی تصانیف ہیں، خود مولانا نے جہاں اپنی تصانیف کی فن وار تفصیل وتعداد بیان کی ہے وہاں مقدمہ’’ التعلیق الممجد‘‘ اور مقدمہ ’’ عمدۃ الرعایۃ‘‘ کے بارے میں صاف طور پر اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے: ’’اگرچہ یہ دونوں مقدمے اصل کتابوں کے ضمن میں شائع ہوئے ہیں، لیکن یہ مستقل تصانیف کے مانند ہیں اس لیے ان کو مستقل اور جداگانہ تصنیف قرار دینا ہی حق بجانب ہے۔‘‘ 2     ان دونوں مقدمات کو نیز اسی طرح کے دوسرے مقدمات کو جن کے نام اوپر گزر چکے ہیں، مستقل تصانیف مانا جائے خواہ ضمنی، مولانا عبد الحیv کی تذکرہ نگاری کی حیثیت پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے کہ تاریخ وتذکرہ کے موضوع پر ان کی مستقل بالذات تصانیف بھی موجود ہیں جن میں سے بعض طبع ہوچکی ہیں، بعض مخطوطے کی شکل میں ہیں اور بعض مفقود۔ تذکرہ وتاریخ پر ان کی مستقل بالذات تصانیف کو ہم نے تاریخی خدمات کا دوسرا پہلو قرار دیا ہے۔     اس دوسرے پہلو کی طرف بھی مولانا عبد الحیv نے ایک وسیع پروگرام بناکر توجہ کی اور تن تنہا اس وسیع پروگرام کو انہوں نے قریب قریب پایۂ تکمیل تک پہنچادیا، جیساکہ اوپر ذکر ہوا، فقہ وحدیث کی مہتم بالشان کتابوں کو ایڈٹ کرتے اور ان پر جامع ومبسوط مقدمات قلم بند کرتے ہوئے بہت بڑی تعداد میں علمائے احناف وغیر احناف نیز محدثین ورواۃ کے احوال انہوں نے صفحۂ قرطاس پر ثبت کردیے تھے، مگریہ واقعہ ہے کہ یہ کوشش ان کی متعدد کتابوں میں بکھری ہوئی تھی اور یہ ضرورت پھر بھی باقی تھی کہ شروع سے لے کر اپنے عہد تک کے تمام قابل ذکر علماء ومصنفین کے احوال کسی ایسی ترتیب کے ساتھ مرتب ہوجائیں کہ ان کا تلاش کرلینا آسان ہو، مولانا نے پروگرام اس طرح بنایا کہ اپنی صدی سے ایک صدی قبل تک یعنی بارہویں صدی ہجری تک کے علماء ومصنفین کے حالات پہلے قلم بند ہوجائیں، اس کے بعد اپنی صدی کے علماء کے تذکرے اسی نقشے کے مطابق انہوں نے اپنے کام کا آغاز کردیا، مولانا کے بیان کے مطابق: ’’میں عنفوانِ شباب ہی سے محترم علماء کے احوال معلوم کرنے کا شائق رہااور احوالِ علماء اور حوادثِ تاریخ کی نہ معلوم کتنی کتابیں میں نے مطالعہ کرڈالیں، یہاں تک کہ اس موضوع پر مجھے کافی معلومات نصیب ہوگئے جن میں سے بیشتر حصے کو میں نے جمع کرلیا اور ارادہ کرلیا کہ اپنے جمع کیے ہوئے ذخیرے کو ایک ایسے مجموعے کی شکل میں سامنے لاؤں کہ وہ تمام معلومات کا جامع ہو۔‘‘3     اسی خیال کو عملی جامع پہنانے کے دوران ہی ان کو کفویv (وفات: ۱۵۸۲ئ-۹۹۰ھ) کی مشہور کتاب ’’کتائب أعلام الأخیار‘‘ مل گئی جو ’’طبقاتِ کفوی‘‘ کہلاتی ہے، مولانا عبد الحی v کی نظر میں طبقات وتراجم کے موضوع پر یہ بہترین کتاب ثابت ہوئی، اس میں امام ابوحنیفہv سے لے کر کفویv کے عہد تک (وسویں صدی ہجری کے آخر تک) کے علمائ، ان کے سلاسلِ تلمذ، ولادت، وفات اور تصانیف کا ذکر ایک ترتیب کے ساتھ تھا۔ مولانا عبد الحی v نے ’’طبقات کفویؒ‘‘ کو اپنے مطلوب ومقصود کے عین مطابق پایا، کفوی v(وفات: ۱۵۸۲ء -۹۹۰ھ) نے اپنی کتاب ’’کتائب أعلام الأخیار‘‘ کے ہر ’’کتبے‘‘ یا ہر باب میں علماء اور مصنفین کے علاوہ صوفیاء اور اولیاء کا بھی ذکر کیا ہے۔ مولانا نے اس کتاب سے ان اجزاء کو جو علماء اور مصنفین کے احوال سے متعلق تھے اختصار کے ساتھ نقل کرلیا اور پہلے سے جو مواد اس سلسلے میں اکٹھا کر چکے تھے اس کو شامل کرکے پوری ایک کتاب ترتیب دے دی جس کا نام ’’الفوائدالبہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ رکھا۔     مولانا نے صوفیاء اور صالحین کے احوال کو طبقات کفویؒ سے اس لیے نہیں لیا کہ:  ’’ان کی -صوفیاء اور اولیاء کے- احوال میں بکثرت تصانیف ہیں اور ان سے متعلق خبریں اور روایتیں کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘ 4     انہوں نے اپنی کتاب کی ترتیب ا س طرح رکھی کہ ’’طبقات کفویؒ‘‘ کے مطالب کو اختصار کے ساتھ نقل کرنے کے بعد، دوسرے ذرائع سے اخذ کردہ مواد کو ’’قال الجامع‘‘ کے تحت اسی کے آگے درج کردیا، اس ضمن میں ’’موالید ووفیات‘‘ کے بارے میں مؤرخین کے اختلافات پر بھی روشنی ڈالی، خود کفویؒ (وفات: ۱۵۸۲ئ-۹۹۰ھ) سے تصانیف کے انتساب میں جو بھول چوک ہوگئی تھی اس کی بھی تصحیح کردی۔ متقدمین کے معتبراور غیر معتبر ہونے کے بارے میں جو فیصلہ کن بات مولانا کے خیال میں ہوسکتی تھی اس کی بھی وضاحت کرتے گئے اور انساب کی کتابوں سے اخذ کرکے فقہاء وعلماء کے نسبوں کو بھی تفصیل سے درج کردیا اور یہاں تک اس تصنیف کو انہوں نے مفید بنانے کی کوشش کی کہ جو اختلافی مسائل تذکروں کے ضمن میں ذکر ہوئے تھے ان کی تحقیق اور ان کے دلائل بھی نکتہ رسی کے ساتھ درج کردیئے۔     اس سلسلے میں جو سب سے اہم خدمت مولانا سے انجام پاگئی، وہ یہ کہ مصنفین کے احوال میں ان کی تصانیف کو گناتے ہوئے مولانا یہ بھی بتاتے گئے کہ خود انہوں نے ان میں سے کون کون سی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی نظر میں مطالعہ کی ہوئی تصانیف کا کیا درجہ ہے، گو بہت مختصر الفاظ میں یہ رائے زنی انہوں نے کی ہے، مگر انتہائی جچے تلے انداز میں کی ہے۔     ’’الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ کم وبیش چھ سو علماء ومصنفین کے تراجم پر مشتمل ہے، اور ان تراجم میں برسبیل تذکرہ جن جن مشہور شخصیتوں کا حوالہ آگیا ان کے مختصر احوال اصلی کتاب کے حاشیہ پر وہ درج کرتے گئے، ان حواشی کا نام ’’التعلیقات السنیۃ علی الفوائد البہیۃ‘‘ رکھا، اس طرح ڈیڑھ سو سے زیادہ مزید تراجم کا اضافہ اصل کتاب پر ہوگیا، مثال کے طور پر مشہور مصنف میر سید شریف جرجانیؒ کا تذکرہ ’’الفوائد البہیۃ‘‘ میں دیکھیے جو اصل کتاب کے صفحہ: ۵۲ پر ہے۔ میر سید شریف جرجانیؒ کے ذکر میں علامہ قطب الدین رازیv کا ذکر اس بنا پر آگیا کہ میر صاحبؒ پہلے ان ہی کی خدمت میں علوم عقلیہ کی تحصیل کے لیے حاضر ہوئے تھے، میر جرجانیؒ کے دو شرکائے درس محمود بن اسرائیلؒ جو ابن قاضی سماوہؒ کے نام سے مشہور ہیں اور تسہیل کے مصنف الحاج پاشا کا بھی ذکر آگیا، ان ہی میر جرجانیؒ کے احوال میں تیمور لنگ کا بھی ذکر آیا اور دربارِ تیموری میں میر صاحبؒ کے حریف علامہ سعد الدین تفتازانیؒ کا حوالہ بھی اور اس مناظرہ کا ذکر بھی جو ا ن دونوں حریفوں کے درمیان ’’استعادہ‘‘ کے موضوع پر ہوا تھا، اس مناظرے کے حَکَم نعمان الدین خوارزمیؒ کا ذکر بھی مناظرے کے ذکر میں آنا ضروری تھا وہ بھی آیا، میرسید شریف جرجانیؒ کے روحانی پیشوا اور مرشد خواجہ علاء الدین العطار بخاریؒ کا بھی ذکر ضروری تھا، وہ بھی ضمناً آیا۔ ان اشخاص کا کفوی نے برسبیل تذکرہ حوالہ دیاتھا، مولانا عبد الحیv  نے ضمناً مذکور ان تمام حضرات کے حالات حاشیہ پر ثبت کردیئے، یہی نہیں بلکہ قطب الدین رازیv کے حالات میں نام ولقب میں ان کے شریک اور نسبت ونسب میں مختلف علامہ قطب الدین شیرازیv کے حالات بھی ان کے ساتھ لکھ دیئے اور ان دونوں نامور مصنفوں کی جو جو تصانیف مولانا کی نظر سے گزری تھیں ان کا بھی ذکر کیا۔ ان دونوں مصنفین یعنی قطب رازیؒ اور قطب شیرازیؒ کے احوال کے سلسلے میں دوسرے مورخین سے جو غلط فہمیاں درج کتب ہوگئی تھیں، ان کی بھی حاشیہ میں مولانا نے تصحیح کردی، جیسے ’’حبیب السیر‘‘ کے مصنف کو غلط فہمی تھی کہ قطب الدین شیرازیؒ دوہیں، ایک وہ جنہوں نے ’’قانون شیخ‘‘ کی شرح لکھی اور جو علامہ طوسی کے شاگرد تھے، دوسرے وہ جنہوں نے ’’حکمۃ الإشراق‘‘ اور ’’مفتاح‘‘ وغیرہ کی لکھی، اور اسی غلط فہمی میں ’’شرح چغمینی‘‘ کے محشی ملا محمد معصوم بلخی بھی مبتلا ہوئے، مولانا نے حاشیہ میں وضاحت کردی کہ یہ غلط گمان ان دونوں کو ہوا، ’’قانون‘‘ اور ’’حکمۃ الاشراق‘‘ دونوں کے شارح دو الگ الگ شخص نہیں، بلکہ ایک ہی صاحب ہیں۔     جرجانی کے شرکائے درس ابن قاضی سماوہؒ اور صاحب التسہیل کے حالات بھی حاشیہ پر مولانا نے درج کیے اور ایک اور شریکِ درس مولی احمدی کا بھی ذکر حاشیہ میں کیا، جن کو کفویؒ (۱۵۸۲ئ-۹۹۰ھ)  نظر انداز کر گئے تھے۔ تیمورلنگ کا بھی احوال مولانا نے حاشیہ پر ثبت کیا، اس کے احوال میں جن کتابوں کا حوالہ مولانا نے دیا، ان میں سے ایک کتاب ’’عجائب المقدور فی أخبار تیمور‘‘ بھی ہے۔ مولانا نے اس کتاب کی تعریف کی ہے کہ وہ دلچسپ اور نادر کتاب ہے اور تیمورلنگ کے مفصل حالات اس میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ’’فتح المتعال فی مدح خیر النعال‘‘، ’’ أخبار الأول‘‘، ’ ’روضۃ المناظر فی أخبار الأوائل والأواخر‘‘ اور ’’حبیب السیر‘‘ وغیرہ کتابوں کا بھی حوالہ اس سلسلے میں انہوں نے دیا ہے۔     دربار تیموری میں جرجانیؒ اور تفتازانیؒ کے درمیان ہونے والے مناظرے کے حکم نعمان الدین خوارزمیؒ کا احوال بھی ’’عجائب المقدور‘‘ اور ’’روضۃ المناظر‘‘ کے حوالوں سے حاشیہ میں لکھا اور اسی ضمن میں اس حاضر جوابی کا نادر الوقوع واقعہ بھی مولانا نے مجملاً درج کردیا ہے جس نے ظالم اور سنگدل تیمور کے غیظ وغضب سے ہزاروں علماء کو ہمیشہ کے لیے بچالیا۔5     علامہ تفتازانیؒ کا احوال، ان کی تصانیف کی تفصیل، میر سید شریف جرجانیؒ کے پیر ومرشد خواجہ علاء الدین العطار بخاریؒ کا احوال اور میر جرجانیؒ کے صحیح نام کی تحقیق وغیرہ یہ سب امور مولانا نے حاشیہ میں بیان کردیئے۔ ’’الفوائد البہیۃ‘‘ کی تاریخی اہمیت اور اس کے مصنف مولانا عبد الحی vکی مورخانہ بصیرت کا اندازہ کرنے کے لیے میر سید شریف جرجانیؒ کا تذکرہ کافی ہے، کفویؒ نے طبقات میں جرجانیؒ کے احوال میں کچھ لکھا تھا، اس کا اختصار مولانا نے ۱۸ سطروں میں کیا ہے، پھر ’’قال الجامع‘‘ کے تحت مولانا نے مزید معلومات ۷۹؍ سطروں میں متن میں درج کیے ہیں اور ۱۵؍ حواشی لکھے ہیں جن کو اگر متن کی سطروں میں شمار کیا جائے تو مزید پچاس سطریں ہوجائیں گی، اس طرح کفویؒ کے پیش کردہ مواد پر مولانا نے کئی گنا اضافہ کیا اور صرف ان سوا سو سطروں کے سلسلے میں جن کتابوں کے حوالے انہوں نے دیئے ہیں، ان کی تعداد بھی حیرت انگیز ہے، یعنی ۳۰ تو صرف وہ کتابیں ہیں جن سے مولانا نے موادکی فراہمی میں کام لیا ہے اور ایک بڑی تعداد ان کتابوں کی ان کے علاوہ ہے جن کے بارے میں ان چند سطروں کے درمیان مولانا نے لکھا ہے کہ میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔     یہی وہ مقامات ہیں جہاں مولانا کے حالات وسوانح پر کام کرنے والا حیرت زدہ بلکہ دہشت زدہ ہوجاتا ہے، بقول مفتی عبد الفتاح ابوغدہ شامیv کے کہ: ’’امام لکھنوی (مولانا عبد الحیv) کی تصانیف کا مطالعہ کرنے والا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کا مصنف کیسی اعلیٰ علمی تحقیق اور کہاں کہاں سے اقتباسات پیش کرتا ہے، جس مسئلے یا موضوع پر لکھتا ہے تو ایسی جامعیت کے ساتھ لکھتا ہے کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس مصنف نے عمر بھر صرف اسی ایک موضوع پر تحقیق کی ہے اور کوئی دوسرا موضوع چھوا بھی نہیں ہے۔ مولانا کی اتنی کثیر تصانیف میں آپ یہ کہیں نہیں پائیں گے کہ انہوں نے اپنی کہی کسی بات کو کہیں بھی دہرایاہو، اور اپنی معلومات کو مکررسہ کرر پیش کیا ہو۔‘‘6     اس مہتمم بالشان تصنیف پر مولانا نے کتنا وقت صرف کیا، اس کا صحیح علم ہوجانے پر حیرت اور بڑھ جاتی ہے، انہوں نے طبقات کفویؒ سے تراجم واحوال کے اخذ کرنے میں صرف ایک مہینہ صرف کیا (جمادی الثانیۃ ۱۲۹۱ھ) اس وقت وہ اپنے وطن لکھنؤ میں مقیم تھے اور ماخوذ مواد پر مولانا نے جو گراں قدر اضافے ’’الفوائد البہیۃ‘‘ کے متن میں کیے ان میں صرف چار ماہ صرف کیے، اس وقت وہ حیدر آباد میں مقیم تھے، اس طرح اس شاندار علمی خدمت سے وہ پانچ ماہ میں فارغ ہوگئے7۔ اور اس کے حواشی ’’التعلیقات السنیۃ‘‘ کی تحریر سے اس کے ایک سال کے بعد فرصت پائی8۔ تعلیقات لکھنے کا آغاز کب کیا تھا؟ اس کی وضاحت نہیں ملتی، یہ صراحت ضرور ملتی ہے کہ اس تصنیف اور اس کی تعلیقات کی تالیف کے دوران پانچ ماہ مولانا نے سفر حج وزیارت میں صرف کیے، اس طرح جمادی الثانیہ ۱۲۹۳ھ میں تعلیقات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہیں۔ یہی نہیں کہ ان محدودے چند مہینوں میں مولانا اسی ایک تصنیف میں مصروف رہے ہوں، ان کی اپنی ہی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ ایک ساتھ کئی کئی موضوعات پر جوباہم بالکل متضاد ہوا کرتے تھے، اہم تصانیف کرنے میں لگے ہوتے تھے، اسی ’’التعلیقات السنیۃ‘‘ کی تالیف کے دوران مولانا اصول حدیث کی اپنی مشہور تالیف میں بھی مصروف تھے جو ’’ظفر الأمانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔9 اور اس کے علاوہ دوسری کتابیں بھی اسی دوران زیرِ تصنیف تھیں۔     اس مضمون کی تحریر کے وقت ’’الفوائد البہیۃ‘‘ کا تیسرا ایڈیشن پیش نظر ہے، جو مولانا کی وفات کے بعد ان کے داماد مفتی محمد یوسفؒ نے اپنے مطبع یوسفی پریس لکھنؤ سے ۱۸۹۵ء میں شائع کیا تھا، یہ بڑے سائز یعنی ۱۲؍ انچ اور ۸؍ انچ لمبے چوڑے صفحے کے ۹۸ صفحات کی ہے، ٹائیٹل اور فہرست مضامین کے چھ صفحے جوڑنے کے بعد مجموعی تعدادِ صفحات ایک سوچار ہوجاتی ہے، ہر صفحے پر ۳۱ سطریں صرف متن کی ہیں، حواشی اس کے علاوہ ہیں۔     اس کتاب کو اگر اس طرح چھاپاجائے جس طرح دائرۃ المعارف (حیدر آباد) کی مطبوعات ہیں یا جس طرح آج کل مشرق وسطیٰ کی عربی مطبوعات چھاپی جارہی ہیںتو بلاشبہ متن اور حواشی سمیت ۹۸ صفحات پر پھیلاہوا مواد ایک ہزار صفحات پر آئے گا، زیر نظر ایڈیشن کی کتابت بھی باریک ہے اور خط بھی نستعلیق ہے جو نسخ یا ٹائپ کے اعتبار سے بہت کم جگہ لیتا ہے۔ حواشی ’’التعلیقات السنیۃ‘‘ کا نستعلیق خط اس قدر باریک ہے کہ ادھیڑ عمر والوں کو اس کا پڑھنا بھی آسان نہیں ہے۔     مولانا کی یہ تصنیف اس قدر مقبول ہوئی کہ ان کی حیات میں اور اس کے بعد باربار ہندوستان میں چھپی، مصر میں بھی اس کی قدر کی گئی اور وہاں بھی بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اسے چھاپاگیا اور ابھی تین چار سال ہوئے بنارس کے ایک ناشر نے اسے پھر شائع کیا ہے، اس لیے کہ بازاروں میں مل نہیں رہی تھی۔     آج بھی جب کہ تاریخی تحقیقات بہت دور تک جاچکی ہیں، علمی دنیا ’’الفوائد البہیۃ‘‘ سے مستغنی نہیں ہوسکی ہے، مشرق وسطیٰ خاص کر مصر میں آج بھی فقہ اور اربابِ فقہ کے سلسلے میں جو تحقیقی کام ہورہے ہیں اورکتابی شکل میں یہاں پہنچ رہے ہیں، ان میں سے مشکل ہی سے کوئی ایسا کام ہوگا جو ’’الفوائد البہیۃ‘‘ کے حوالے سے خالی ہو، ابوزہرہؒ ہوں یا عبد القادر حسن، عبد العزیز عامر ہوں یا یوسف موسیٰ یا ڈاکٹر صبحی محمصانی، مشرق وسطیٰ کے ان نامور محققین کی تصانیف اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں، یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ’’الفوائد البہیۃ‘‘ اور اس کی تعلیقات کی تالیف سے جب مولانا عبد الحیv فارغ ہوئے، اس وقت ان کی عمر صرف ۲۸؍ سال ۷؍ ماہ تھی۔         حواشی وحوالہ جات 1 …الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ،ص: ۸-۹، تیسرا ایڈیشن، مطبوعہ یوسفی پریس لکھنؤ، ۱۸۹۵ء 2…مقدمۃ عمدۃ الرعایۃ ،ص:۳۰، مطبوعہ اصح المطابع واقع لکھنؤ، ۱۳۰۷ھ 3…الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ،ص: ۸، تیسرا ایڈیشن، مطبوعہ یوسفی پریس لکھنؤ، ۱۸۹۵ء 4…ایضاً، ص: ۹۔ 5…اس واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، مذکورہ مناظرے کے حَکَم نعمان الدین خوارزمی کے بیٹے عبد الجبار‘ تیمور کے ساتھ تھے، جب وہ فتوحات کرتا ہوا حلب میں داخل ہوا، فاتح حلب کے پاس شہر کے علماء اور قضاۃ حاضر ہوئے، بادشاہ نے ترجمان کے ذریعہ -اور ترجمان یہی مولیٰ عبد الجبار بن نعمان خوارزمی تھے- علماء وقضاۃ سے سوال کیا-یہی سوال وہ اپنے مفتوحہ علاقوں سمرقند، بخارا اور ہرات کے علماء سے بھی کرچکا تھا اور حسب مرضی جواب نہ ملنے پر ان علماء پر ظلم وستم کرچکا تھا بعضوں کو قتل تک بھی- یہ بتاؤ کہ ہماری فوج اور مفتوحہ فوج کے مقابلے میں ادھر سے بھی لوگ قتل ہوئے ادھر سے بھی ، دونوں طرف کے مرنے والوں میں، شہید کس طرف کے لوگ ہیں؟ قاضی شرف الدین الانصاری شافعیؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا برجستہ جواب القاء فرمادیا اور میں نے عرض کیا کہ یہی سوال آنحضرت a سے بھی پوچھا گیا تھا اور آپ نے جو جواب دیا تھا، وہی میں بھی جواب دیتا ہوں، تیمور ہمہ تن گوش ہوکر مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا اور مولیٰ عبدالجبار نے گویا میرا مضحکہ کرتے ہوئے پوچھا ’’اچھا! تو وہ جواب فرمایئے‘‘ میں نے کہا: ایک اعرابی نے آنحضرت a سے دریافت کیا کہ ایک شخص بہادری اور جذبے سے اس لیے لڑتا ہے کہ اس کا نام ومرتبہ لوگ جان جائیں تو راہِ خدا میں لڑنے والا مانا جائے گا؟ آنحضرت a نے فرمایا: ’’جو شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہووہی اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے، اس کے بعد میں نے تیمور سے کہا کہ ’’ہماری طرف سے اور تمہاری طرف سے قتل ہونے والوں میں شہید ہروہ آدمی ہے جو اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے لڑا ‘‘ تیمور بولا: ’’خوب! خوب!‘‘ اور مولیٰ عبد الجبار نے کہا: ’’کیا عمدہ جواب آپ نے دیا ہے۔‘‘ 6…مقدمہ الاجوبۃ الفاضلۃ،ص: ۱۴، مطبوعہ حلب (شام) ۱۹۶۴ء 7…الفوائد البہیۃ،ص :۹ 8…التعلیقات السنیۃ علی الفوائد البہیۃ،ص: ۱۰۴، مطبوعہ یوسفی پریس، تیسرا ایڈیشن،ص: ۱۸۸۵ء 9…ایضاً                                                                                               (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین