بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا رشید اشرف سیفی رحمۃ اللہ علیہ کا سانحۂ ارتحال!

مولانا رشید اشرف سیفی رحمۃ اللہ علیہ کا سانحۂ ارتحال!

 

مولانا رشید اشرف سیفی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی حیاتِ مستعار کو علم و عمل کی خدمت سے قیمتی بناکر بروز منگل بعد نمازِ مغرب اسلامی تاریخ ۲۴ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ موافق سن ۲۰۱۸ء کو سفرِ آخرت پہ روانہ ہوگئے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
افکارِ علم و محقق خانوادۂ عثمانی کے معروف گھرانے کے چشم وچراغ، عالم باعمل، تحقیقِ علم کے زیرک مدرس، باکمال منتظم، بہترین استاذ، نسبتِ علم کی صفات سے متصف جامع شخصیت، تصنیف و تالیف کے خوگر، اکابر و اساتذہ کے مزاج شناس، اپنے مادرِ علمی کے عشق سے سرشار، شعور و آگاہی کے بہترین مربی مولانا رشید اشرفؒ کی پیدائش ۱۹۵۷ء کو کراچی میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجدؒ کے آباء کا تعلق اصلاً برما سے تھا۔ سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہؒ تک پہنچتا ہے، جبکہ والدہ ماجدہ بنت مفتی اعظم مدظلہا کا سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ان دونوں نسبی نسبتوں کو دیکھا جائے تو مولانا سیفیؒ نجیب الطرفین نسبت کے حامل تھے۔ آپ کے دادا کا نام سیف الملوک تھا، اس نسبت کی وجہ سے آپ ’’سیفی‘‘ کی نسبت لگاتے تھے۔ آپ کے آباء واجداد مشہور خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں جزیرۂ عرب سے ہجرت کر کے برما میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔

چند انعام و اعزاز

اپنی تعلیم کی ابتداء سے لے کر درسِ نظامی سے سندِ فراغ اپنے خاندان کے لگائے ہوئے گلشن جامعہ دارالعلوم کراچی سے حاصل کی۔ آپ کا تعلیمی سفر بھی آپ کے دیگر اُمور کی مانند ممتاز رہا۔تمام درجات میں پوزیشن حاصل کر کے اپنے ہم عصروں میں ریکارڈ ساز طلبہ میں شامل تھے، خصوصاً تحصیلِ علم کے آخری سال کے مروجہ تینوں امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کیں، جس میں بخاری شریف میں پچاس میں سے اکیاون نمبر حاصل کر کے ایک روایت بھی قائم کی، جس پہ آپ کے نانا اور عظیم مربی فقیہِ وقت مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ  نے خصوصی انعام سے نوازا،اور فرمایا کہ: ہم تمہیں اس پوزیشن پہ نہیں، بلکہ بخاری شریف میں انعامی نمبر حاصل کرنے پر انعام دیں گے۔
مولانا سیفی رحمۃ اللہ علیہ  کی تعلیمی زندگی کے سفر کی تکمیل اُنیس برس کی کم عمری میں ہوئی اور اس کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے تدریس کا آغاز کیا۔ آپ کی تقرری پہ آپ کے عظیم المرتبت مربی ناناؒ نے دستخط ثبت فرمائے۔ یہ حضرتؒ کی حیات کی آخری تحریری تقرری تھی، جو یقینا مولانا سیفیؒ کے لیے باعثِ سعادت و نیک شگون اور ایک اعزاز ہے۔ آپ کے گھرانے کے کئی حضرات دینی و علمی مشاغل میں مصروف ہونے کے ساتھ جامعہ دارالعلوم کراچی سے منسلک ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو بھی یہ شرف حاصل نہیں۔
آپ حافظِ قرآن نہیں تھے، لیکن آپ نے امام القراء شیخ التجوید حضرت اقدس مولانا قاری فتح محمد پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ  کو مسجدِ نبوی میں قرآن سنایا تو آپ کی بہترین تجوید اور حسن قراء ت پہ آپ کو حضرت قاری صاحبرحمۃ اللہ علیہ  نے پچاس ریال انعام سے نوازا۔انعام کی بات چلی تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب آپ نے اپنے ماموں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ کے درسِ ترمذی کو مرتب کر کے علمی تحقیق کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تو حضرت نے آپ کو تین ہزار روپے انعام دیا۔ 
آپ کو درجہ سادسہ میں میراث کی معروف شاملِ نصاب سراجی میں مہارت و دسترس حاصل ہونے کی وجہ سے دارالافتاء میں میراث سے متعلق آنے والے استفتاء کے جوابات لکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔اہلِ علم خصوصاً اہلِ مدارس اس اعزاز کی اہمیت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

اکتسابِ فیض

آپ نے جن نابغہ روزگار ہستیوں سے کسبِ فیض کیا وہ علوم و فنون کے جوہرِ نایاب تھے،ان میں نمایاں چند نام یہ ہیں:
سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ ،عالم ربانی حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریرحمۃ اللہ علیہ ، محقق زمان شیخ عبدالفتاح ابو غدہرحمۃ اللہ علیہ ،استاذ المحدثین مولانا شیخ سلیم اللہ خانرحمۃ اللہ علیہ ،عارف وقت حضرت مولانا غلام محمدرحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا اکبر علیرحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا قاری رعایت اللہرحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ ۔
مذکورہ کبار علماء ومحدثین کے علاوہ جن مشاہیر سے اجازتِ حدیث حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں جامع المعقول و المنقول حضرت علامہ شمس الحق افغانیرحمۃ اللہ علیہ ،محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریرحمۃ اللہ علیہ ،قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریارحمۃ اللہ علیہ ، خطیب العصر حضرت قاری محمد طیب قاسمیرحمۃ اللہ علیہ ،عالم ربانی حضرت مولانا عبدالشکور ترمذیرحمۃ اللہ علیہ  اور شیخ محمدحسن مکی المالکیرحمۃ اللہ علیہ  جیسی عبقری علمی ہستیوں کے نام شامل ہیں،محترم مولانا سیفیؒ کی اجازتِ حدیث کی عالی سند سے اُن کے مقامِ علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بہترین مدرس

۱۳۹۶ھ موافق ۱۹۷۶ء سے آپ نے تقریباً ۴۳سال تک تسلسل کے ساتھ مستقل تدریسی میدان میں خدمات سرانجام دیں، اس دوران آپ نے درسِ نظامی کے چیدہ چیدہ علوم و فنون کی کئی کتب پڑھائیں، تدریسی زندگی کے تابناک سفر کا اختتام ’’ختامہٗ مسک‘‘ کی مانند ہے، ایامِ آخریں میں ترمذی شریف اور مشکوٰۃ شریف پڑھاتے پڑھاتے دنیا سے کامران چلے گئے۔ تعلیمی سفر کی مانند آپ کا تدریسی سفر بھی باکمال رہا۔ آپ کی زندگی پہ آپ کے تلامذہ کی مرتب کردہ ایک تحریر محترم برادرم مولانا راشد حسین زیدمجدہٗ نے عنایت فرمائی اور آپ کے فیض یافتہ دیگر دو تین احباب سے مولانا سیفیؒ کی تدریس کے حوالہ سے جو معلومات حاصل ہوئیں اس سے مزید آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی قابلِ رشک صورت میں سامنے آیا۔کمزور ذہنی استعداد کے طلبہ کو سبق کی تفہیم کرانا ایک بہترین مدرس کا کمال ہوتا ہے، مولانا سیفیؒ کی تدریسی خصوصیات کو آپ کے تلامذہ اس حوالہ سے منفرد اور ممتاز کمال کا بتاتے ہیں۔ آپ سے کسبِ فیض حاصل کرنے والے طالبینِ علم نے یوں لکھا:
مختصر مگر دلنشین انداز میں سمجھانے کا بہترین ڈھنگ،مشکل اور اہم مباحث کو مکرر ارشاد فرمانا، تعارض بین الاحادیث اور فقہی مباحث کو طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق ایسی ترتیب سے بیان کرنا کہ سبق کا پورا نقشہ ذہن میں سماجائے۔ علاوہ ازیں یہ درسی پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ استاذِ محترم دقیق مسائل کے لیے حسی مثالوں اور بورڈ پر نقشوں سے مدد لے کر سبق اَزبر کرادیتے۔ اُستاذِ محترم اولاً پوری عبارت سند کے ساتھ پڑھ کر ترجمہ کرتے، پھر جامع انداز میں تشریح فرمادیتے۔ یاد نہیں پڑتا کہ آپ سے کبھی حدیث کی کوئی سند یا ’’قال أبو عیسٰی‘‘ کا کوئی عنوان چھوٹ گیا ہو۔ طالب علموں کے اشکالات سننے میں خوب فراخ دلی سے کام لیتے اور لطیف نکتوں سے معترض کو مطمئن کردیتے۔
پابندیِ وقت کا خاص اہتمام فرماتے،انتہائی اشد مجبوری میں سبق کا ناغہ ہوجاتا تو اگلے دنوں میں اس کی تلافی کردیتے۔ آپ کے تلامذہ نے بتایا کہ دیگر اساتذہ کی نسبت آپ کی پابندی سے آپ کے اوقات میں برکت اور نورانیت بہت نمایاں ہوتی تھی۔
طلبہ کی کثرت کے باوجود تمام تلامذہ کے ناموں سے صرف واقف ہی نہیں رہتے تھے، بلکہ ان کی صلاحیتوں سے بھی باخبر رہتے تھے،شفقت ایسی کہ والدین کی محبت کی کمی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا، بعض طلبہ کے انفرادی احوال کا علم رکھتے تھے جس کی وجہ سے بعض مستحق طلبہ کے ساتھ مخفی طور پہ تعاون کرنے کی بات تواتر سے راقم کے علم میں آئی، یہ تعاون مالی بھی فرماتے اور دیگر ضروریات بھی خاموشی سے پوری کردیتے تھے۔ آپ کے گھر کا دروازہ ہمیشہ ایسے طلبہ کے لیے کھلا رہتا تھا،بعض قابل طلبہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمانا بھی معمول تھا۔ مولانا سیفیؒ سے فیضیاب ہونے والے احباب سے ان کی تدریس کی جامعیت اورتفہیم پہ کئی واقعات سن کر ان کی عظمت ورفعت کے کئی قابلِ رشک پہلو سامنے آئے جو یقینا آپ کے لیے بڑا ذخیرۂ آخرت ہے۔
آپ کے فیض یافتہ دنیا بھر میں ہزاروں تلامذہ دین کے کئی شعبوں میں آپ کے علمی فیضان کو جاری رکھے ہوئے ہیں،جن میں کئی اساتذۂ حدیث،کئی بہترین منتظمین،کئی مبلغین،کئی واعظین،کئی مدرسین اپنے استاذ کے پڑھائے ہوئے سبق کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،ان ہزاروں میں کئی راقم کے قریبی احباب میں شامل ہیں۔

تصنیفی و انتظامی خدمات

مولانا سیفیؒ کو اللہ تعالیٰ نے علمی استعداد کے ساتھ اعلیٰ انتظامی و تصنیفی ذوق سے بھی نوازا ہوا تھا۔ آپ کو اپنی جواں عمری میں تدریس کے ساتھ بہترین انتظامی صلاحیتوں کی مقبولیت بھی حاصل رہی۔ اپنے مربی ماموں اور استاذ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ کے درسِ ترمذی کو تحقیق و تدقیق کے مراحل سے گزار کر ایک تاریخی علمی شاہکار کو مرتب فرمایا۔ علماء وطلبہ میں یکساں مفید درسِ ترمذی کی قبولیت و مقبولیت مولانا سیفیؒ کی جہاں علمی و تصنیفی صلاحیت کا مظہر ہے، وہیں علم حدیث سے آپ کی مخلصانہ مناسبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اُردو زبان کی چند مقبول شروحِ حدیث میں فی زمانہ درسِ ترمذی کو شہرہ حاصل ہے۔ قابلِ رشک گراں قدر علمی تحفہ کی صورت میں اب دنیا سے جانے کے بعدیقیناً آپ کے اعمال نامہ کے لیے ایک عظیم ذخیرہ ہے۔
آپ نے اپنے نسبتوں والے والد مولانا نوراحمدؒ کی سوانح کو ’’متاعِ نور‘‘ کے نام سے تالیف و ترتیب دی، واقعی وہ پڑھنے والوں کے لیے ایک متاع ہے،جس میں ایک صاحبِ نسبت کے کئی اہم احوالِ زیست کا ایک مجموعہ ہے۔
۲۴ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ اور ۲۰۱۹ء کے پہلے دن بعد نمازِ ظہر جامعہ دارالعلوم کراچی کی عالی شان مسجد کے ساتھ مشرقی جانب متصل حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ العالی (نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان و صدر جامعہ دارالعلوم کراچی) نے نمازِ جنازہ کی امامت کرائی۔ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کی تکبیرات کی آواز میں درد و غم کو ہزاروں شرکاء نے محسوس بھی کیا۔ دو روز قبل دارالعلوم کراچی میں وفاق المدارس کے پیغامِ مدارس علماء کنونشن میں اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مفتی صاحب مدظلہٗ نے مولانا رشیداشرفؒ کی طبیعت کی ناساز صورت حال پہ اُن کے لیے خصوصی دعاء بھی کروائی تھی، جس میں دارالعلوم کراچی کے لیے مولانا سیفیؒ کی انتھک محنتوں و کاوشوں پہ جس والہانہ انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا، یقینا وہ اس کے مستحق تھے۔
آج مولانا سیفیؒ کی نمازِ جنازہ میں سینکڑوں علماء کرام و مشایخ عظام، صلحاء و اتقیاء و ہزاروں آپ کے روحانی فرزندان سمیت مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے بے شمار حضرات نے شرکت کی۔
ہمارے مخدوم محترم مولانا سیفیؒ کو آپ کے عظمتوں والے والدؒ اور آپ کے ناناعظیم علمی وروحانی ہستی مفتی اعظمؒ سمیت دیگر اولیاء اللہ و اعزہ واقارب کے پہلو میں آپ کے فرزندوں مولانا طیب رشید اشرف اور محمد طاہر رشیداشرف سلمہما نے قبر میں اُتارکر سپردِ خاک کیا۔
مولانا سیفیؒ کی نسبی اولاد میں تین فرزند اور چار بیٹیاں ہیں۔ الحمدللہ! سب حفظ قرآن کی سعادت سے مشرف ہیں، بڑے صاحبزادہ مولانا طیب رشید اشرف سلمہٗ درس نظامی سے فارغ التحصیل ہیں،دوسرے بیٹے حافظ طاہر رشید اشرف سلمہ درجہ سادسہ اور سب سے چھوٹے حافظ مامون رشید اشرف سلمہٗ ابتدائی درجہ میں زیر تعلیم ہیں۔ دو صاحبزادیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔
اپنے علمی و روحانی فرزندوں کی شکل میں اپنے وارثین کی بہت بڑی تعداد اور اپنے کئی چمکتے کارناموں کے نقوش بھی چھوڑ گئے ہیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین