بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

موجودہ دور میں شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ کس طرح ممکن ہے؟

موجودہ دور میں شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ کس طرح ممکن ہے؟

    اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے مسلم لیگ( ن) کو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے دونوں عہدے عطا کیے ہیں۔اب اُن کی جماعت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دے، تاکہ پاکستان کے مطالبہ کا بنیادی مقصدیعنی ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ (جو پچھلے ۶۷ سال سے کھٹائی میں پڑا ہے ) پوراہو سکے ۔عظیم المیہ یہ ہے کہ ماضی میں اقتدار پر براجمان طبقہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت کا بدستور مرتکب رہا ہے۔ اب بھی صورتحال جوں کی توں رہی اور ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو خدانخواستہ ہم مزید قہر خداوندی کے مستحق نہ بن جائیں!     سابق صدر ایوب خان کے دورِ اقتدار میں نافذ کردہ عائلی قوانین جن کی کئی دفعات شریعت اسلامیہ سے متصادم ہیں، ان کو قرآن وسنت کے مطابق تشکیل دیتے ہوئے قانون سازی کا کام عرصہ دراز سے التواء میں پڑا ہے۔ یاد رہے کہ صدر ایوب خان نے مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمن، ڈائریکٹرادارہ تحقیقات اسلامی(وزارت مذہبی اُمور) کے ایما پرخلافِ شرع یہ عائلی قوانین بذریعہ آرڈیننس ۱۹۶۱ء میں قوم پر مسلط کیے، جس کا خمیازہ ہم آج تک اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کی صورت میں بھُگت رہے ہیں۔ اُس کی ایک واضح مثال مروجہ سرکاری نکاح فارم ہے، جس کی شریعت سے متصادم کئی دفعات کو آج تک تبدیل نہیں کیا گیا ۔      باوثوق ذرائع سے ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ایک نجی محفل میں بحالتِ کشف شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری vنے علی الاعلان ارشاد فرمایا تھا کہ ایوب خان آگ میں جل رہا ہے کہ وہ پاکستان کا پہلا حکمران تھا جس نے مداخلت فی الدین کی ابتدا کی اور شریعت کے احکامات میں تحریف کی بنیاد ڈالی، جبکہ ڈاکٹر فضل الرحمن اُس کے بہت قریب اور دینی معاملات میں اُس کا مشیرخاص تھا۔     جب تک ہم اللہ اور اُس کے رسول a کے خلاف اعلانِ جنگ ( یعنی سود کا خاتمہ) اور رُسوائے زمانہ عائلی قوانین کی غیر شرعی دفعات کو کالعدم قرار نہیں دیتے، ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے ۔ کچھ گمنام اولیاء کرام نے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کی اس زمین کے نیچے تیل ، گیس اور معدنیات کے وسیع ذخائر پوشیدہ ہیں جو یہاں اُس وقت تک ظاہر نہیں ہوںگے جب تک کہ یہاں طارق بن زیادv جیسا مرد مومن حکمران جو کشتیوں کو جلاکر شریعت ِاسلامیہ کو بذریعہ نظام خلافت نافذ کرنے کا عزم نہ لے کر آئے۔     اب تو حکمران جماعت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اس تیسرے دورِ حکومت میں کم از کم ان دو بنیادی بُرائیوں(یعنی سُود اور خلافِ شرع عائلی قوانین) کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں، پھر دیکھیں کہ اللہ کی نصرت کس طرح آتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ۱:… ’’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ‘‘۔                      (سورۃ العنکبوت: ۶۹) ’’ اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے ۔‘‘ ۲:…’’ وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘۔( آل عمران: ۱۳۹) ’’اور بے دل اور غمگین نہ ہونا ،اگر تم مومن ( صادق ) ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘‘۔ ۴:…’’ إِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ‘‘۔                     ( محمد: ۷) ’’ اگر تم اللہ ( کے دین) کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔‘‘     اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد یہ ہے کہ اہل ایمان، اللہ کے حکموں پر عمل کریں، کیونکہ اللہ کے وعدے اس کے احکام پر عمل کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔  خاتمۂ سُود کے لیے عملی اقدامات     خاتمۂ سود کے عملی اقدامات کے لیے دین دار ماہرین اقتصادیات بالخصوص ڈاکٹر ارشد زمان، درد دل رکھنے والے ممتاز سول سرونٹ اوریا مقبول جان اور نامور صحافی انصار عباسی جیسے بے لوث لوگوں کی خدمات سے استفادہ کیا جائے کہ سُود کی اس لعنت نے ملک کو دیوالیہ بنا دیا ہے اور اس کی موجودگی میں کبھی ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے اور ہمیشہ غیروں کے محتاج اور قرض دار رہیں گے۔ اغیار کی معاشی غلامی یا اپنے وسائل پر خود انحصاری میں کسی ایک راستہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر نیک نیتی سے ہمارا نصب العین سودی معیشت سے چھٹکارا ہو اور اس کے لیے ہم اخلاص سے اسلام کے معاشی اُصولوں کے مطابق جدو جہد کریں تولازمی طور پر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو گی اور اُس صورت میں فتح و کامرانی یقینی ہے ۔ حضرت ابراہیم m کو جب خالق کائنات کی طرف خانہ کعبہ کی تعمیرنو کا حکم ہوا تو اُنہوں نے اللہ پاک سے عرض کی کہ اس لق و دق صحرا میں عبادت کے لیے کون آئے گا؟ تو غیب سے آواز آئی کہ تمہاراکام صدا لگانا ہے، بندے بھیجناہمارا کام ہے۔ آج حرمین شریفین میں حج اور عمرہ کے موقعوں پر تلِ دھرنے کی جگہ نہیں ملتی! خوشحالی اللہ کی حدود کو توڑ کر نہیں، بلکہ حدود اللہ کے نفاذ میں ہے، جیساکہ نبی اکرم a نے فرمایا: ’’ اللہ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا اللہ کے ملکوں میں چالیس راتوں کی بارش سے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘۔ ( سنن ابن ماجہ )       ہماری غربت و افلاس کی وجہ اللہ کی شریعت سے مُنہ موڑنا ہے ۔ آپa نے فرمایا :’’ جو قوم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرے، اللہ تعالیٰ اُن کے درمیان غربت و افلاس عام کر دیتا ہے‘‘۔( المعجم الکبیر) اور فر مایا :’’ جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب اور نبی کریم aکی سُنت کو معطل کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان خانہ جنگی برپا کر دیتا ہے‘‘۔ ( شعب الایمان)آج کل ہم اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں۔ سُود کے فوری خاتمے سے ایک دفعہ ہماری معیشت کو دھچکا تو ضرور لگے گا مگر بقول شاعر مشرق ،علامہ اقبال ؒ: تُندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے سُود کی لالی پاپ      سُود کی رسیلی مگر زہریلی میٹھی گولی کا ترک کرنا ہمارے نفس پر بھاری تو ضرور ہوگا، کیونکہ حکومتی سطح پر ہر دور میں سُودی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے اور سُودی نظام کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے اور اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو تقویت دی گئی ہے کہ سُود کے بغیر معاشی نظام نہیں چل سکتا، حالانکہ خود مغربی ممالک سُودی نظام کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اسلامی معیشت کی طرف آنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں، مگر ہمارے نام نہاد ماہرین معاشیات غیر سُودی معیشت کے ناقابل عمل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں   ؎ چوں کفر از کعبہ برخیزد کُجا ماند مسلمانی!     اگر ہم سابقہ لغزشوںکی معافی اور کفارہ کے طور پر سُود کو زہر قاتل سمجھ کر اس کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہو گئے تو نہ صرف ہم غیر ملکی شکنجوں سے نجات حاصل کر سکیںگے، بلکہ خوشحالی اور اقوام عالم میں عزت و آبرو اور قدرو منزلت ہمارا مقدر ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ‘‘۔                                                    ( البقرۃ:۱۵۵)     تر جمہ ’’ ہم کسی قدر خوف ،بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو ( اللہ کی خوشنودی کی ) بشارت سُنا دو ‘‘۔     قرآن مجیدنے نہ صرف سُود کو حرام قرار دیا ہے،بلکہ اللہ اور اس کے رسول a کی طرف سے سُودی لین دین کرنے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسی طرح حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ولی( یعنی احیائے اسلام کے سلسلہ میں جدو جہد کرنے والا بندہ) کو اذیت ( ذہنی یا جسمانی ) پہنچانے والوں کے خلاف بھی اعلانِ جنگ کیا ہے۔ اگرحکومتِ وقت سُود کے بارے میں اپنی موجودہ روش پر قائم رہی تو اسے پھر اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ اللہ کے لیے کیا دیر ہے کہ زمین کو ہلکی سی جنبش دے اور ہولناک زلزلے بر پا ہو جائیں یا دریائوں او ر سمندر سے پانی اُچھل کر طغیانیاں تباہی مچا دیں! عائلی قوانین کی غیر شر عی دفعات کا خاتمہ     علمائے حق کی رائے میں مروجہ نکاح فارم میں قرآن و سنت کے مطابق تصحیح ، ترمیم اور اصلاح کے لیے مندرجہ ذیل اُمور کی طرف حکام کی فوری توجہ درکار ہیـ: ۱:…شادی کی عمر کا تعین     اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت ِپاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کی روشنی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر بالترتیب ۱۸ اور ۱۶ سال مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔ شادی کی عمر کا مجوزہ تعین شرعی لحاظ سے بلوغت کی عمر سے زائد ہے۔ قانونِ فطرت اور جدید طبی تحقیق کے مطابق ۱۴/۱۵ سال کی عمر میں بلوغت (Puberty)کا آغاز ہو جاتا ہے، یعنی عورتوں میں ایام حیض کے شروع ہونے سے اور مردوں میں داڑھی مونچھ اُگ آنے اور مادہ تولید کے پیدا ہونے سے۔ بلوغت کی اس فطری ترتیب کے باوجود ملک میں کمسنی کی شادی کے واقعات رونماہو رہے ہیں۔ ارباب اقتدار کو چاہیے کہ معاشرے میں شادی بیاہ اور جہیز کے معاملات میں خلافِ شرع رسم و رواج کی روک تھام کے لیے شریعت کے مطابق قانون سازی کریں ۔      قرآن مجید کے مطابق شادی ( یعنی نکاح و رُخصتی) صرف  نسائ(یعنی بالغ عورتوں) سے ہی جائز ہے۔ دین فطرت میں نکاح ( شادی) کا بنیادی مقصد جائز (شرعی ) طریقے سے جنسی تسکین اور افزائش نسل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک نابالغہ لڑکی قانونِ فطرت کی وجہ سے ازدواجی زندگی کے جملہ تقاضے (مباشرت یعنی وظیفۂ زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت و شعور، اُمورِ خانہ داری یعنی کھانے پکانے کا طریقہ و تجربہ اور گھر کی نگہداشت وغیرہ) پُورے کرنے کی اہل اور متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں و ہ عدم بلوغت کی وجہ سے بچے بھی پیدا نہیں کر سکتی، لہٰذا نابالغہ لڑکی کو بیاہ کر لانے سے شادی کا سارا مقصد ہی سِرے سے فوت ہو جاتا ہے،لہٰذا حکومت کم سنی کی شادی کی حوصلہ شکنی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔     پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں قرآ ن و سُنت سے متصادم قانون سازی نہیں ہو سکتی، جب کہ سندھ اسمبلی میں ۱۸ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا بل اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیاہے ، حالانکہ شریعت میں نکاح کے لیے کوئی عمر متعین نہیں،بلکہ بلوغت شرط ہے جوکہ گرم اور سرد ممالک میں مختلف ہو سکتی ہے۔ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کی نقالی اور ترویج میں صوبائی اسمبلی نے جو سبقت دکھائی ہے، وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے ۔ ۲:…طلاق کا حق     شریعتِ اسلامیہ نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو افضل بنایا ہے، یعنی اس کا حق عورت سے زائد ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِھِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ‘‘۔             (النسائ:۳۴ )  یعنی:’’مردوں کو عورتوں پر قوام (نگہبان )بنایا گیا ہے، کیونکہ وہ عورتوں سے زیادہ طاقت اور قوت والے ہیں اور اُن کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہیں تو جو نیک صالح بیویاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں ( مال و آبرو کی ) خبرداری کرتی ہیں۔‘‘     قرآن کی رُو سے عورت کو طلاق دینے کا حق صرف مرد کا ہے۔عورت کو خاوند سے ناچاقی اور بد سلوکی کی صورت میں خلع لینے کاا ختیار ہے۔ اُس صورت میںوہ حق مہر (اگر ادا نہ ہوا ہو) کا مطالبہ نہیں کرسکتی ، مگر جب مرد طلاق دے تو بقیہ حق مہر کا وہ مطالبہ کر کے وصول کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں مروجہ نکاح نامہ کی شق نمبر ۱۸-۱۹ کے تحت شو ہر کا بیوی کو حقِ طلاق تفویض کرنا ایک غیر فطری عمل ہے اور شوہر کے جائز حق پر قدغن ہے، جس کا کوئی شرعی جواز نہیں۔لہٰذا ان دو شقوں کو نکاح نامہ سے حذف کر دینا چاہیے۔ البتہ اگر مرد نان و نفقہ اور دیگر شرعی عائد کردہ ازدواجی ذمہ داریاں پورا نہ کرنے کی صورت میں عورت کے مطالبہ پر خلع سے انکار کرے تو اس صورت میں عورت کا عدالت سے رجوع کرکے فسخ نکاح کا دعویٰ دائر کرنا حق بجانب ہو گا، مگر مروجہ عائلی قوانین میں حالیہ ترمیم کے بعد عورت کا عدالت میں صرف یہ کہہ دینا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، طلاق کی ڈگری کے حصول کے لیے کافی ہے، حالانکہ شریعت میں اس کے لیے معقول عذرکا ہونا ضروری ہے ۔ سابقہ حکومت کی اس غیر شرعی چھوٹ دینے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔ لہٰذا سر کاری اور نجی شعبہ میں ایسے Comfort Centres (فلاحی و سماجی مراکز) کھولنے کی ضرورت ہے جہاں روٹھے میاں بیوی کے اختلافات ختم کرنے کے لیے مخلص معاونین کی خدمات مل سکیں، تاکہ خاندانی نظام کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا جاسکے۔ ۳:…طلاق کا مسئلہ     اہل سُنت ( احناف ) کے نزدیک مرد اگر ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دے تو وہ طلاق مغلظ یعنی مکمل ہو جاتی ہے اور بیوی شرعی لحاظ سے اُس سے جُدا ہوجاتی ہے اور اُسی تاریخ سے اس کی عدت کا شمار شروع ہو جاتا ہے، مگر عائلی قوانین کے آرڈی نینس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت ایسا نہیں ہے ، بلکہ اس کے تحت فریقین کا معاملہ عدالت(فیملی کورٹ) میں پیش ہو تا ہے، جہاں بحث و مباحثہ شروع ہو تا ہے اور عرصہ دراز تک تاریخیں پڑتی رہتی ہیں، جوکہ شریعت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بیک وقت تین طلاق کے بعدسابقہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہو جا تے ہیںاور ان کوایک ساتھ رہنے کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میںچیئر مین ثالثی کونسل کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب میاں بیوی کا رشتہ ہی ختم ہو گیاتو پھر ثالثی یا صلح و صفائی کس بات کی؟ ۴:…دوسری شادی کے لیے اجازت نامہ کا حصول     عائلی قوانین مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت مرتب کردہ مروجہ نکاح فارم کی شق نمبر: ۲۱بھی شریعت سے متصادم ہے ۔ مرد کو جائز ضرورت کے تحت دوسری شادی کی اجازت ہے۔ شریعت نے اس پر کوئی بندش نہیں لگائی۔ البتہ اس ضمن میں قرآن مجید کا بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے کا قانون واضح ہے، ملاحظہ ہو: ’’وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِیْ الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ أَدْنٰٓی أَلَّا تَعُوْلُوْا‘‘۔ (سورۃ النساء :۳) ’’ ا ور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ ( سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت کافی ہے یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس طرح سے تم بے انصافی سے بچ جائو گے‘‘۔      لہٰذا چیئرمین ثالثی کونسل سے مرد کو د وسری شادی کرنے کی اجازت لینا یا اس کے لیے کوئی پیچیدہ طریقہ کار کو وضع کرنا مداخلت فی الدین ہے۔ کیونکہ عائلی قوانین میں مروجہ نکاح فارم کی شق نمبر:۲۳ کے تحت دوسری شادی کے لیے اجازت نامہ کا حصول ضرور ی ہے، جبکہ شریعت اسلامیہ میں یہ ضروری نہیں اور غیر ضروری کو ضروری قرار دینا ہی مداخلت فی الدین ہے اور اس لیے ا س شق کو بھی کالعدم کرنے کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ جب تک نکاح یا خلع کے غیر شرعی عائلی قانونی تقاضے سرکاری نکاح فارم کے مطابق پورے نہیں ہوتے، مر د یا عورت دوسری شادی نہیں کر سکتے۔مروجہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے فریقین ( یعنی سابقہ میاں ، بیوی ) عرصہ دراز تک عدالتی پیشیوں کے چکروں میں پھنسے رہتے ہیں جو اُن کی بعد از خلع یا طلاق نئی ازدواجی زندگی کی راہ میں نہ صرف بیجا رکاوٹ اور اذیت کا باعث ہے، بلکہ حد درجہ عدالتی تاخیر کی وجہ سے جنسی بے راہ روی کی راہیں ہموار کررہی ہے۔ ۵:… شادی کا نصب العین     اسلام میں شادی یا نکاح ایک فریضہ اور نبی اکرم a کی سُنت ہے۔ آپ a کی پیروی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب اولاد سن بلوغ کو پہنچ جائے تو اُن کے نکاح کر دئیے جائیں۔ اسلام دین فطرت ہے، اس نے ہر خرابی کو جڑ سے کاٹنے کے لیے بہترین راستے اور طریقے بتا دیئے۔ نکاح کو ہمارے دین نے جتنا سہل اور آسان بنایا، بد قسمتی سے مسلمانوں نے اسے اتنا ہی مشکل اور محال بنا دیا جس کی وجہ سے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری تاخیرہونے سے نوجوانوں کی عمریں ڈھل رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی خرابی کی اصل جڑ ریاکاری اور نمائش ہے۔ شادیوں میں زیادہ سے زیاد ہ خرچ کر کے ہم یہ سمجھتے ہیںکہ لوگوں میں ہماری عزت اور بڑا نام ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کو نمود و نمائش میں خر چ کرنا اور اس کو اچھا جاننا شیطانی کام ہے اور اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ (القرآن، سورۂ بنی اسرائیل:۲۷)     شریعت ِ اسلامیہ میں شادی کا نصب العین   Good Will( خوش اسلوبی) ہے ، جو تب بھی ممکن ہے کہ جب میاں بیوی میں مہر ومحبت ہو اور یہ اسلامی طرز زندگی ہی بسر کرنے سے ممکن ہے۔ اس کے لیے حکومت کو مغربی تہذیب کے Flood Gates of Sex (جنسی آوارگی و عیاشی کے طوفانی دروازے) بند کرنے ہوں گے، یعنی مرد و زن کی مخلوط محفلیں ،ریڈیو اور ٹی وی پر نشر فحش ڈرامے اور پروگرام، بے پردگی، بے حیائی اور فیملی پلاننگ کے تحت Condom اور مانع حمل انجکشن و ادویات کا بے دریغ اور خلافِ شرع استعمال وغیرہ۔ علاوہ ازیں ان ادویات کی غیر شادی شدہ افراد کے لیے استعمال کی قانونی ممانعت کی جائے جو ملک میں بد کاری کے فروغ کا موجب بن رہا ہے ، جس کاتدارک کرنابھی اشدضروری ہے۔ بنابریں ملکی سطح پر فیملی پلاننگ پروگرام کے غلط اطلاق کو بھی فوری روکا جائے، تاکہ منکرات کا خاتمہ ہو ۔     بے حیائی شیطان کا ہتھیار ہے ۔ شیطان بڑے عیارانہ انداز سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ فحاشی کو فروغ دیتا ہے اور اس کے حیلے بہانے تراشتا ہے۔زنا بالرضا کے لیے فیملی پلاننگ پروگرام اس کا دلفریب جھانسہ ہے جو اس گناہ ِکبیرہ کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان لڑکوںاور لڑکیوں کا ایک بڑا حلقہ بے حیائی اور بے غیرتی کے عمیق غار میںگرتا جارہا ہے۔اس لیے غیر ملکی امداد سے چلنے والے ایسے اخلاق سوز پروگرامو ں کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے، تاکہ اخلاقی بُرائیوں کا جڑ سے خاتمہ ہو اور ازدواجی زندگیاں خوشگوار گزر سکیں۔  نفاذِ شریعت کے لیے دینی بصیرت سے عاری حکمت عملی کاانسداد     ہمارے معاشر ے میں بگاڑ کا بنیادی سبب قول و فعل کا تضاد ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے، اس لیے اس سے اجتناب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی اولین شرط ہے۔ اسلام مغرب کے سُودی (سرمایہ دارانہ) نظام ، ملحدانہ جمہوریت اور حیا سے عاری دجالی تہذیب کے مقابلے میں ایک اعلیٰ و ارفع نظام حیات پیش کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں اور بالخصوص ارباب اقتدار کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ ملک میں موجودہ جاری و ساری باطل نظام کے تحت اسلام کا نفاذ ممکن نہیں۔لہٰذا شریعت اسلامیہ کو بذریعہ نظام خلافت نافذ کریں، کیونکہ نظام خلافت کاقیام ہی ملکی سا لمیت کی ضمانت دے سکتا ہے ،مگر غیروں سے گلہ ہی کیا، خود اپنوں نے اس دیرینہ ملی مطالبہ کو التوا میں ڈالنے کے لیے دینی بصیرت سے عاری ایسی حکمت عملی وضع کی ہے جس کے تحت ایک جانب ریڈیو، ٹی وی اور میڈیا پر مغرب میں یہود و نصارٰی کے ہاں سے اسلامی علوم میں P.H.D(پی ایچ ڈی) کی ڈگریاں حاصل کرنے والے نام نہاد اسلامی اسکالر دینی احکامات و تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر اپنے ناظرین کے سامنے پیش کر تے ہیں اوراِس طرح ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں اور دوسری طرف خود حکومت ورلڈ بینک، IMF اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں اور ملکی بینکوں سے سُودی قرضے لے کر اللہ اور اس کے رسول a کے خلاف جنگ کو طول دے رہی ہے۔ اس لحاظ سے ذلت و رُسوائی دین سے رُوگردانی کرنے والے حکمرانوں کا مقد ر بن چکی ہے اور عوام مہنگائی، بد عنوانی،رشوت ،قتل و غارت اور ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں، جس کا مداوا ضروری ہے ،تاکہ یہ ملکِ عزیز مزید ٹوٹ پھوٹ کی نذر نہ ہوجائے۔ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ شرعی احکامات کے خلاف یہ بغاوت اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کو دعوت دے رہی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اس مسلسل ضداورہٹ دھرمی کی وجہ سے ہم مزیدآسمانی آفات بالخصوص سیلابوں اور زلزلوں کا شکار نہ ہوجائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرۂ عمل و اختیارات     اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جس کا کام آئین کی دفعہ: ۲۳۰ کے تحت دینی معاملات میں حکومت کی راہنمائی کرنا ہے اور اِسے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا اوراسلامی احکام کو نافذ کرنے کے لیے موزوں شکل میں مدون کرنا ہے ۔     سابق صدر ضیاء الحق دین کے داعی تھے اور ملک میں نفاذِ اسلام چاہتے تھے، انہوں نے سرکاری دفاتر میں نماز باجماعت کا اہتمام کروایا، نظام زکوٰۃ کا حکومتی سطح پر احیا کیا،شر عی حدود کا نفاذ کیا، علما کا وقار بلند کر کے معاشرے میں ان کو جائز مقام و مرتبہ دینے کی کوشش کی۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ علما میری  Constituencyہیں، یعنی وہ میرے حلقہ کے ووٹر ہیں۔ اس مقصد کے لیے عموماً وہ ہر سال علماء و مشائخ کی کانفرنس بلاکر اُن کا اکرام کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ء کے آخر میں نفاذِ اسلام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے اُنہوں نے ایسی ہی ایک علماء و مشائخ کی کانفرنس بلائی جس میں شرکا نے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ آخر میں جسٹس ڈاکٹر تنریل الرحمن صاحب جو اُس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین تھے ( اور یہ گنہگار اُن کا نائب یعنی اسلامی نظریاتی کونسل کا سیکرٹری تھا) کو اپنے خیال کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ اُنہوں نے بڑی جُرأت ایمانی سے کام لے کر صدر صاحب پر واضح کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل آپ کو اسلامی نظام کے رائج کرنے کے لیے سفارشات پیش کرتی ہے،مگر وہ کسی نہ کسی حیلے و بہانے سے سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہیں، جس سے نفاذ اسلام کا کام بُری طرح سے متأثر ہو رہا ہے، لہٰذابغیر عمل کے ایسی کانفرنسیںبلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس پر صدر ضیاء الحق صاحب جلال میں آگئے اور مائیک پر آکر چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کو تین دن کے لیے بچہ سقہ کی حکومت دیتا ہوں، آپ اسلام نافذ کرکے دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس غیر شعوری جسارت کو معاف فرمائیں، کیونکہ اُن کی اسلام سے وابستگی اور دینی خدمات مسلمہ ہیں۔     اسلام دین ِ فطرت ہونے کے ناطے سے ابدی ہے اور دورِ حاضر میں بھی ناقابل عمل نہیں اور نہ ہی اس کے نفاذ کے لیے تین دن کی مہلت درکار ہے۔ اہل اسلام نے تقریباً تیرہ سو سا ل تک قرآن مجید کو دستور بنا کر دنیا میں حکمرانی کی اور اس طرح دین حق نے ایک بہترین معاشی نظام بھی دیا۔ واضح رہے کہ دو سو سال قبل عالم اسلام کی جملہ معیشت سُود سے پاک تھی اور اُس وقت کامعاشرہ آج سے کہیں زیادہ خوشحال اور پُر امن تھا۔ آج بھی خلافت ِراشدہ کا وہ پُر شکوہ اور مثالی دور واپس آ سکتا ہے۔ صرف ضبط ِ نفس ، انتھک محنت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ سے کر کے صدقِ دل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ راہ کٹھن ضرور ہے، مشکلات اور آزمائشیں آئیں گی، مگر جو ثابت قدم رہے وہ کامیاب ہوں گے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے: ’’ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ‘‘۔                                                     (الطلاق : ۲،۳) ’’اور جو اللہ سے ڈرے گا، وہ اس کے لیے( رنج و محن سے ) مخلصی /خلاصی کی صورت پیدا کردے گااور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا توہ وہ اس کی کفایت کرے گا۔‘‘     اسی طرح انگریزی زبان کا یہ مقولہ  Where there is a will there is a way سو فیصد درست ہے، یعنی اگر کوئی کام کرنے کا مصمم ارادہ کر لے تو اُس کے لیے راہیں نکل آتی ہیں۔ ایک گمراہ کُن غلط فہمی کا ازالہ     ناقدین کا یہ عذر بے معنی ہے کہ پاکستان میں کون سا اسلام رائج کیا جائے کہ یہاں تو کئی فرقے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں حتمی ارشادہے : ’’ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا‘‘۔ (المائدۃ:۳) ’’اور آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘ اور حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ a نے مسلمانوں پر واضح کر دیا کہ: ’’ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ و سنۃ رسولہٖ‘‘۔(موطا امام مالک ) ’’ میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑ کر جا رہاہوں ۔ اور اگر تم نے اُن کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: ایک اللہ کا کلام یعنی قرآن مجید اور دوسرا میری سُنت‘‘۔ ایک اور موقع پر رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا : ’’ستفترق أمتی علی ثلثۃ وسبعین فرقۃ، واحدۃ منھا ناجیۃ و البواقی ھالکۃ أوکلھم فی النار إلاواحدۃ، فسئلوہ أی فرقۃ ناجیۃ؟ یار رسول اللّٰہ! قال: ما أنا علیہ وأصحابی‘‘۔      (نسائی) ترجمہ: ’’ یہود ( بنی اسرائیل)۷۲فرقوں میں بٹ گئے اور میری اُمت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی، وہ سب ناری (یعنی جہنمی ہوںگے) سوائے ایک کے۔ عرض کیا گیا: وہ خوش نصیب لوگ کون ہوںگے۔ آپa نے ارشاد فرمایا کہ: وہ لوگ یا گروہ جو میرے اورصحابہ ؓ کے راستے پر چلنے والا ہو‘‘۔      اس سے روزِ روشن کی طرح عیاںہوتا ہے کہ اسلام نام ہے طریقۂ محمدی lکا، لہٰذا رسول اللہ a اور صحابہ s کی اتباع ہم پر لازم ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم پہلے توبہ تائب ہو کر اپنے سابقہ گُناہوں کا کفارہ ادا کریں، تب ہی بفضلہ تعالیٰ ہم اسلام کا نفاذ کرنے کے اہل ہو سکیں گے۔ لمحہ فکریہ :    اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم سودی معیشت کو جاری رکھ کر اللہ اور اُس کے رسول  a کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ہم نے معاذاللہ بغاوت کر رکھی ہے ۔سماجی و معاشرتی اعتبار سے دیکھیں تو ملک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔یہ شیطنت بھی اللہ اور اُس کے رسولa سے کھلی بغاوت ہے ۔ سیاسی پہلو سے دیکھا جائے تو ہماری پارلیمنٹ تحفظ نسواں بل جیسے غیر اسلامی قوانین بناتی ہے۔ ہماری عدالتیں قرآن وسنت کی بالا دستی کی شق کو آئین کی دوسری شقوں کے مساوی قرار دے کر غیر اسلامی شق کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ گویا سیاسی اعتبار سے بھی اسلا م نہیں ہے، پس جب ملک میں اسلام نہ سیاسی اعتبار سے ہے اور نہ معاشی و معاشرتی اعتبار سے تو پھر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ نام میں کیا معنویت رہ جاتی ہے؟! ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمارے عائلی قوانین تک غیر اسلامی ہیں، جو ایوب خان نے ایک منکر حدیث کے کہنے پر نافذ کیے تھے، حالانکہ مسلمانوں کے عائلی قوانین تو انڈیا جیسے ہندو اکثریت کے ملک میں بھی محفوظ ہیں۔ یہاں تو ۹۵ فیصد مسلمان آ باد ہیںاور پھر بھی ہم غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاص کی دولت عطا فرمائے۔ آمین نفاذِ شریعت کے لیے پختہ عزم اور نیک نیتی کی ضرورت     وقت آگیا ہے 67 سال سے اسلام اور نفاذ اسلام کے معاملے میں جو دورنگی اور نیم دِ لی چلی آتی ہے، اسے ترک کر کے یک رنگی اختیار کی جائے اور سنجید گی اور پورے عزم کے ساتھ اسلامی نظریہ اور نظام زندگی کو بفضلہ تعالیٰ بالا دست اور غالب کیا جائے، جس کے تحفظ کا عہد ہر رکن اسمبلی ، وزیر،اسپیکر، ملک کا وزیرا عظم اور صدر کرتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نفاذِ اسلام کا کام اختیاری   (Optional) نہیں، یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے، پھر یہ ریاست پاکستان کا مقصد وجود بھی ہے۔ اس کے بغیر ہماری آزادی ادھوری اور ریاست کا نظریاتی جغرافیہ نامکمل، مبہم اور غیر واضح ہے۔بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ: ’’ پاکستان کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب مسلم نظریہ ہے، ہمیں صرف اپنی آزادی حاصل نہیں کرنی ، بلکہ اس قابل بھی بننا ہے کہ ہم اس کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔‘‘    ( ۲۴ نومبر، ۱۹۴۵ء ،پشاور میں مسلم طلبا سے خطاب)     اسلامی نظریے کی بالا دستی ہی اس ملک کی بقا ء و استحکام کی بنیاد ہے اور جس قدر ہم اس نظریے سے انحراف کر یں گے ، ریاست کی بنیاد کمزور ہوتی جائے گی اور اس وحدت اور بقا کو لاحق خطرات اور علیحدگی پسندی کے جذبات میں اضافہ ہو تا جائے گا۔ پاکستان کے مشرقی بازو کی علیحدگی اس کی واضح مثال ہے،اس لیے فوری طور پر غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، بلکہ آئین میں موجود چور دروازوں کو بھی بند کیا جائے ، جن سے شریعت سے فرار کا راستہ نکلتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دستور میں ترمیم کے ذریعے قرار داد مقاصد ( دفعہ: ۲،الف)کو پورے دستور پر حاوی قرار دیا جائے۔ دفعہ: ۲۲۷ (اسلامی احکام) کو دفعہ: ۲، ب کی حیثیت دے کر قرار دادِ مقاصد سے ملحق کر دیا جائے۔ اور وفاقی شر عی عدالت ( Federal Shariah Court )کو مستحکم کیا جائے اور اس کے لیے اس کے دائرہ کار پر عائد جملہ تحدیدات ختم کی جائیں جو آئین کی دفعہ) ۲۰۳-ج) کے تحت اس پر عائد کی گئی ہیں۔ مزید برآں جید علماء کرام اور مفتیان عظام کو بطور جج وفاقی شرعی عدالت میں تعینات کیا جائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موجودہ آٹھ جج صاحبان میں سوائے ایک کے کوئی بھی عالم دین نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاسُودی معیشت کے طریقہ کار پر نظرثانی کا ریفرنس پچھلے بارہ سال( یعنی ۶ جون ۲۰۰۲ء ) سے وفاقی شرعی عدالت میں جُوں کا تُوں پڑا ہوا ہے ۔ یہ ایک انتہائی اہم معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی بد ترین مثال ہے، لہٰذا پہلے مرحلے میں حکومت نیک نیتی کے اظہار کے طور پر سُود کے حق میں دائر اپنی اپیل سُپریم کورٹ سے واپس لے۔سچے جذبے کے بغیر نیم دِلانہ اقدامات سے غیر سُودی نظام رائج کرنے کا کام نہ پہلے ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو سکے گا! ہمارے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے     اللہ تعالیٰ کے قوانین(شریعت) کے نفاذ کے بغیر پاکستان میں امن و امان ، عدل و انصاف، خوشحالی اور منکرات کا خاتمہ ممکن نہیں، اس حقیقت کا جس قد رجلد ادراک کر لیا جائے اُتناہی ہمارے حق میں بہتر ہو گا۔ پہلے ہی ہم ۶۷ سال باطل نظاموں کا طوق پہن کر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو چکے ہیں۔ کاش ! کہ ہم جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی ہمارا حامی و ناصر نہیں، لیکن اللہ کی مدد حاصل کرنے کی ایک شرط ہے کہ اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس کے ہو کر رہ جائیں ۔ اس کی کبریائی کا اعلان کریں اور یہ عہد کریں کہ رب کی دھرتی پر رب کا ہی نظام نافذ کریں گے، إن شاء اللّٰہ۔     یہاں اصل بنیادی مسئلہ آئین (دستور) نہیں، بلکہ اسے نافذ کرنے والے ہیں، کیونکہ اسلامی دستور کی کامیابی سے نفاذ کا انحصار دیگر کئی باتوں کے علاوہ مخلص دینی جذبے سے سرشار دیانت دار قیادت پر ہے ، جبکہ دینی ذہن رکھنے والے بیورو کریٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد، نیز معاشرتی ماحول کا اسلامی مزاج میں ڈھلنابھی بنیادی امر ہے ۔ اب غور کیا جائے تو مسلمانوں میں بمشکل دس فیصد لوگ صوم و صلوٰ ۃ کے پابند ہونے کی وجہ سے دین دار سمجھے جاتے ہیں۔پھر ان دس فیصد میں بمشکل دو فیصد ہی ایسے ہوں گے جو لین دین، کاروباری معاملات ، وراثت کی تقسیم ، آمدن اور اخراجات میں شریعت کی مکمل پابندی کرتے ہوں ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ نظام تعلیم میں نظریاتی سطح پر بنیادی تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو سکے۔لیکن یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اسکولوں میں شلوار قمیض کی بجائے ابتدا ہی سے بچوں کا یونیفارم پینٹ ،شرٹ اور ٹائی رکھی گئی ہے اور قرآن کی زبان عربی کی بجائے نہ صرف انگریزی کو شروع سے ہی لازمی مضمون قرا ر دے دیا گیا ہے، بلکہ اسے ذریعۂ تعلیم بھی بنادیا ہے ، جس سے اسلامی تشخص و اقدار کا تنزّ ل و پامالی اور مغربی ثقافت کا فروغ پانا ایک قدرتی امر ہے ۔ اگر ارباب اقتدار نے ہنگامی بنیادوں پر اس طرف توجہ نہ دی تو ہماری آئندہ نسلوں کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے میں کوئی چیز مانع نہ ہوگی اور کوئی بعید نہیں کہ پاکستان جیسا اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک اسلامی نظام حیات کی ترویج کی بجائے مغربی تہذیب و تمدن کا گہوارہ نہ بن جائے۔ اس لیے حکومت ِ وقت کو نصاب ِ تعلیم اور نظام تعلیم کو اسلامی دھارے میں لانے کی فکر کرنی چاہیے جو آئین پاکستان کا تقاضا ہے۔ پاکستان کا آئین حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو عام کرے، مگر اس کے بر عکس ہمارے تعلیمی ادارے یعنی اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں قرآن و سنت اور شریعت کی تعلیم نہیں دی جارہی، جوکہ ہماری روحانی اور اخلاقی انحطاط کا موجب ہے اور جس کے ازالہ کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ہمارا خالق و مالک راضی ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس کے ہو جاتے ہیں اور اس سے زیادہ انسان کی اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی ہے ؟ دعوت ِ فکر و عمل     مقامِ افسوس ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کا دین کی طرف رحجان ہے، مگر اس کے باوجود وہ کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے شریعت نافذ نہیں کر رہے ۔ اُن کو باری تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید (سورۃ المائدۃ کی آیت: ۴۴،۴۵ اور ۴۷) میں اللہ کے احکام کے مطابق حکم نہ صادر کرنے والوں کو کافر ، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اور تینوں گروہ جہنم میں جانے والے ہیں۔     جنوب مشرقی ایشیا کے ایک چھوٹے سے مسلمان ملک برونائی کے حاکم ‘ سلطان حسن البلقیہ نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے ۔ برونائی اسلام کے نام پر معرض وجود میں نہیں آیا، جبکہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہو ا تھا ۔ پاکستان کے حکمران ، برونائی کے سلطان ہی سے سبق سیکھ کر ملک میں اسلام نافذ کردیں۔ قیام پاکستان سے اب تک نفاذِ شریعت سے فرار ہی اصل خرابیوں کی جڑ ہے اور اسی دوغلی پالیسی نے ملکی سا لمیت کے لیے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ نفاذ شریعت کے لیے اسلام نے خلافت کا نظام وضع کیا ہے، جس کے احیاء کی اب پھر شدت سے ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر اسلام کا کھویا ہو ا وقار اور عظمت بحال نہیں ہو سکتی ، لہٰذا خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کوشش کرنا فرض ہے او ر اس سے غفلت برتنا اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے۔     قائد اعظم نے مرض الوفات میں اپنے ذاتی معالج ڈاکٹرریاض علی شاہ سے اپنی آخری خواہش کا اظہار ان الفاظ کے سا تھ کیا: ’’ تم جانتے ہو جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا تو میری روح کو کس قدراطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ رسول اللہ aکا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے ‘‘۔ ( ڈاکٹر ریاض علی شاہ، روز نامہ’’ جنگ‘‘۱۹۸۸ئ)      اس سے معلوم ہو اکہ قائد اعظم ملک میں خلافت راشدہ کا نظام جاری کرنا چاہتے تھے، کیونکہ پاکستان کی نجات صرف نظامِ خلافت کی بحالی میں ہی ہے، جو یہاں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی ضمانت دے سکتا ہے۔سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے اپنے خطبۂ حج (۱۴۳۴ھ) میں کہا ہے کہ ’’شریعت کو نافذ کرنے سے کامیابی ہمارے قدم چومے گی‘‘۔ یہی اصل کی طرف لوٹنے کا وہ کامیاب نسخہ ہے جس کے بغیر ہم شفایاب نہیں ہو سکتے۔     شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے لیے کسی لمبی چوڑی مشق(Exercise) کی ضرورت نہیں ۔مجاز حاکم چاہے وہ خلیفہ وقت ہو یا مملکت کا صدر یا ملک کا وزیر اعظم ، صرف پانچ منٹ کے لیے قوم کے سامنے خطاب اور تحریری حکم نامہ سے ملک میں اسلام کا نفاذ کر سکتا ہے، اس طرح کہ وہ سرکاری طور پراعلان کردے کہ آج مورخہ ۲۷ رمضان المبارک۱۴۳۵ھ( یا جو بھی تاریخ مناسب سمجھیں) کو ملک میں جو بھی شریعت سے متصادم قوانین رائج ہیں ( یعنی سُودی لین دین اور کاروبار، خلاف شرع عائلی قوانین، اخلاقی بندش سے عاری فیملی پلاننگ پروگرام وغیرہ) وہ کالعدم ہیں اور شریعت ِ محمدی l کو ملک کاواحد سپریم لاء قرار دینے سے اسلام کا نفاذ ہوگیا۔ باقی جس طرح پانی اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے، اسی طرح بفضلہ تعالیٰ ملک میںاعلان شریعت کے بعدشریعت اپنے نفاذ کے لیے خود راہیں ہموار کر لے گی۔ حرفِ آخر     الغرض پاکستان میں شریعت کو نا فذ کرنے کے لیے انتھک محنت و ہمت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا اہل دین کے لیے احیائے دین اور نفاذ اسلام کی جدو جہد کے بغیر چارۂ کار نہیں، کیونکہ غلبۂ اسلام مقصود ِ مومن ہے۔ اس لیے عوام پُر زور مطالبہ کریں اور اسمبلیوں میں منتخب عوامی نمائندے وزیر اعظم ،میاں محمد نواز شریف صاحب کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ نفاذ شریعت کے لیے اس جیسی مثالی جُرأت کا مظاہرہ کریں جو انہوں نے یوم تکبیر یعنی مورخہ ۲۸ ؍اکتوبر ۱۹۹۸ء کو ایٹم بم کا دھماکہ کرنے کے یادگار موقع پر کی تھی۔اس طرح ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اورعوامی نمائندوں کو بھی اس کی ترغیب دلانے کا اجر و ثواب ملے گا، إن شاء اللّٰہ !     اللہ تعالیٰ اس مرتبہ میاں محمد نواز شریف صاحب کی حکومت کو یہ اہم دینی فریضہ ادا کرنے کی توفیق اور سعادت نصیب کرے۔ اٰمی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین