بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

موت الانبیاء  علیہم السلام


موت الانبیاء  علیہم السلام

حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی قدس سرہٗ کا وہ خط اور ارشادِ گرامی جو انہوںنے ملتان میں علماء کرام کی موجودگی میں لکھا تھا، اور اُسے کتاب ’’تسکین الصدور فی تحقیق أحوال الموتٰی فی البرزخ والقبور‘‘ [مؤلفہ: مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ]  کا حصہ بنایا گیا تھا، افادۂ عام کی غرض سے ہدیۂ قارئینِ ’’بینات‘‘ کیا جارہا ہے۔                                                     (ادارہ


اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو پیدا فرمایا۔ اس دنیا میں کسی کو دوام نہیں۔ آیتِ کریمہ ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ‘‘ کے مطابق ہرایک کو یہاں سے جاناہے۔ ہر آدمی کو مرنا ہے، اس سنۃ اللہ سے کوئی ولی اور کوئی نبی بھی مستثنیٰ نہیں ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء والمرسلین حضرت محمد a کو بھی ارشاد فرمایا: ’’إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے پیغمبر! بلاشبہ آپ کو بھی موت آنی ہے اور اُن کو بھی موت آنی ہے۔‘‘ چنانچہ اس ارشاد کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا بھی وصال ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم  کی تجہیز وتکفین کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپصلی اللہ علیہ وسلم  کا خلیفہ منتخب فرمایا۔ حضرت عیسیٰm کو یہودی سازش سے بچاکر اللہ تعالیٰ نے دوسرے آسمان پر اُٹھالیا جو اَب تک زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں تشریف لاکر دجال کو قتل کرکے چالیس سال زندہ رہیںگے اور آخر کار وفات پاکر مدینہ منورہ میں روضۂ اطہر میں دفن ہوںگے۔
بہرحال ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ‘‘ کے قاعدہ کلیہ سے کوئی آدمی، جن، ولی اور نبی مستثنیٰ نہیں ہے، نہ اس میں کسی کو اختلاف ہے، نہ بحث، البتہ دوباتوں میں بحث ہے:
 ایک: یہ کہ مرنے کا معنی کیاہے؟ اس کا طریقہ کیاہے؟ اور کیا سب کی موت ایک ہی طریقہ سے ہوتی ہے یا کچھ فرق بھی ہوتاہے؟
دوسرا :یہ کہ مرنے کے بعد قبر میں پھر زندگی ہوتی ہے یا نہیں؟ وہاں روح کا کوئی تعلق جسم کے ساتھ رہتا ہے یا نہیں؟

پہلی بات:’’ موت‘‘ کا مفہوم

عرفِ عام میں ’’موت‘‘ جان نکل جانے کا نام ہے، یعنی جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کو ’’موت‘‘ کہتے ہیں۔ علماء نے ’’موت‘‘ کا معنی کیا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے منقطع ہوجائے۔ قرآن وحدیث کے نصوص واشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’موت‘‘ کے وقت روح نکالی جاتی ہے، آسمانوں کی طرف لے جائی جاتی ہے، پھر اپنی مقرر جگہ پر رکھی جاتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قبر کی طرف لوٹائی جاتی ہے۔ مگر جب تک ہم روح کی حقیقت نہ جان لیں اور یہ نہ سمجھ جائیں کہ جسم میں روح کے داخل ہونے یا تعلق رکھنے کی کیفیت کیا ہے؟ ہم اس کے نکل جانے اور تعلق منقطع ہونے کا مطلب بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے اور جب ہمیں روح کی حقیقت معلوم نہیں ہے تو اس کی صفات وافعال کا ادراک‘ عقل سے کیسے کیا جاسکتاہے؟!
موت طاری ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے اور یہ ماننا بھی لازم ہے کہ موت سے روح کا تعلق جسم سے منقطع ہوجاتاہے اور وہ اس جسم میں تصرفات نہیں کرسکتی، لیکن یہ انقطاعِ تعلق کیسے ہوتا ہے؟ عام لوگوں میں کہاجاتاہے کہ انقطاعِ تعلق یوں ہوتا ہے کہ روح جسم سے نکل جاتی ہے۔ عام خیال یہی ہے۔

’’موت‘‘ کا دوسرا مفہوم

مگر انبیاء علیہم السلام  کی موت کے بارہ میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  بانیِ دارالعلوم دیوبندارشاد فرماتے ہیں کہ: حیات‘ انبیاء  علیہم السلام کی ذاتی صفت  (1)ہے اور اَوروںکی عارضی، اس لیے پیغمبروں سے حیات کا انقطاع نہیں ہوتا اور نہ روح نکلتی ہے، بلکہ جسم سے سمٹ کردل میں مرکوز ہوجاتی ہے، اس طرح اس کا تعلق جسم سے منقطع ہوجاتاہے اور وہ جسم میں عام دُنیوی زندگی کی طرح تصرفات نہیں کرتی، نہ دنیوی اُمور میں مشغول اور نہ مکلف ہوتی ہے۔ روح کے سمٹ جانے سے جسمانی 

حاشیہ:1    یعنی اولاً وبالذات حیات‘ دنیا میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے اور دوسروں کو بالعرض اور آگے حضرت مولانا کے بیان میں آرہا ہے کہ یہ حیات اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔
حواس معطل ہوجاتے ہیں۔ یہی انبیاء علیہم السلام کی موت ہے، جس کے بعد وہ اوروں کی طرح دنیا سے منقطع ہوکر اوروں کی طرح قبروں میں دفن کردیئے جاتے ہیں، جہاں اسی روح سے اُن کے مبارک اجسام میں ادراک واحساس موجود ہوتا ہے۔ حضرت مولاناؒ اپنی اس تحقیق کو اَوروں پر ٹھونسنا نہیں چاہتے، فرماتے ہیں کہ: موت کا اقرار تو ضروری ہے، جیسے کہ آیات میں موت واقع ہوجانے کی خبر قبل از وقت دی گئی تھی، مگر انبیاء علیہم السلام کی موت کا وقوع اس طرح پر ہُوا کرتاہے۔
قطبِ زمان حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  کی تحقیق کی داد دی ہے، ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص فہم وذکا عطا فرمایاتھا، جب ہم قرآن پاک کی اس آیتِ کریمہ پر نظر کرتے ہیں تو مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  کی تائید ہوتی ہے:
’’اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرٰی‘‘                                        (الزمر:۳۱)
’’اللہ روحوں کو موت کے وقت قبض کرتے ہیں اور جن کو موت نہیں ہوتی ان کو (بھی) سوتے وقت قبض کرلیتے ہیں، پھر جس کی موت کا فیصلہ کیا ہو اُس کو روک لیتے ہیں اور دوسری (قسم کی روح) کو چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ نے تصریح فرمادی ہے کہ روح جیسے موت کے وقت قبض ہوتی ہے، اسی طرح نیند کی حالت میں بھی قبض ہوتی ہے، پھر موت والی روک دی جاتی ہے اور نیند والی چھوڑ دی جاتی ہے۔ گویا روح نیند میں بھی قبض ہوتی ہے، مگر باوجود اس کے کہ سونے والا سانس لیتا ہے، زندہ سمجھا جاتاہے اور روح اُس کے اندر موجود سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کا ظاہریہ ہے کہ پہلے روح قبض کی جاتی ہے، بعد میں چھوڑی جاتی ہے۔ روح کا تعلق واتصال سب اُمور متشابہات میں سے ہیں، ان کی صحیح کیفیت کے بارہ میں کوئی جزم سے نہیں کہا جاسکتا۔ پھر اگر حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  کے ارشاد کے مطابق اگر روح سمٹ کر جسم کے اندر تصرفات سے علیحدہ ہوجائے جس سے سارے حواس معطل ہوجائیں اور اسی کو انقطاعِ تعلق یا قبضِ روح سمجھاجائے، اس میں کونسا اشکال لازم آتاہے؟ سکتہ کی بیماری میں بسااوقات سانس تک نہیں چلتا، نہ نبض چلتی ہے، نہ دل کی حرکت محسوس ہوتی ہے، پھر بھی بیمار زندہ ہوتاہے اور روح اس کے اندرسمجھی جاتی ہے۔ بہرحال قرآن پاک نے موت کی خبر دی ہے، اس کے وقوع میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، البتہ ’’موت‘‘ تعطلِ حواس اور انقطاعِ تعلق کی صورت کیاہوتی ہے؟ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ روح نکل جائے، ایک یہ ہے کہ سمٹ جائے، جیسے ایک کمرے میں چراغ جل رہاہے، اس پر برتن اوندھا کرکے رکھ دیا یا اس کو صندوق میں بند کرلیا، بس اس کا تعلق کمرے سے منقطع ہوجاتاہے۔

دوسری بات: ’’قبر کی زندگی‘‘

عام اہلِ اسلام کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں بعضوں کو عذاب، بعضوں کو راحت ہوتی ہے، اس عذابِ قبر وغیرہ کا ماننا تواتر کی وجہ سے ضروری ہے، اسی لیے یہ ماننا پڑتا ہے کہ قبر میں میت کو راحت وتکلیف کا احساس وادراک ہوتا ہے۔
مگر انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ وہ قبروں میں زندہ ہیں، نمازیں پڑھاکرتے ہیں، قریب سے درود وسلام سنتے اور اس کا جواب بھی دیا کرتے ہیں۔ اس کتاب میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی جارہی ہے۔

بعض اصحاب کی کم علمی

یہاں سے ان حضرات کی کم علمی واضح ہوجاتی ہے جو مسئلہ حیات النبی a کو شرک قرار دیتے ہیں۔ شرک تو تب ہوتا کہ کسی کو ایسا زندہ مان لیا جاتا جس کی حیات خدا تعالیٰ کی عطا نہ ہو، اس کے گھر کی ہو، پھر اس پر کبھی موت طاری نہ ہو، مگر یہ تو کسی مسلمان کا عقیدہ نہیں ہے۔ کیا جو پیغمبر دنیا میں زندہ تھے وہ شرک تھا؟ کیا قیامت میں ہم سب زندہ ہوں گے اور زندہ بھی ایسے کہ پھر کبھی نہ مریںگے، کیا وہ شرک ہوگا؟ پھر اگر اللہ تعالیٰ کسی کو درمیان میں، قبر میں بھی پوری یا ادھوری زندگی عطا فرمادیں وہ کیسے شرک ہوگیا؟ جب کہ علماء دیوبند نہ تو آنحضرت a کی وفات ہوجانے کا انکار کرتے ہیں، نہ پیغمبروں کی حیات کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کے مطابق قبروں میں انبیاء علیہم السلام  کی حیات اور نماز پڑھنے اور سلام ودرود سننے کا اقرار کرتے ہیں، جیسے کہ تفصیل آپ کے سامنے آئے گی، تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کو ماننا شرک ہے؟ اللہ تعالیٰ ایسی جہالت اور ضد سے بچائے، آمین!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین