بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ملالہ کے لیے نوبل انعام ، یہ انعام ہے یا الزام ؟

ملالہ کے لیے نوبل اِنعام یہ اِنعام ہے یا اِلزام؟

مغربی طاقتوں کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کو نوبل اِنعام دیے جانے پر ہمارے ہاں میڈیا کی سطح پر جشن کا سماں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ذہنی بیمار طبقہ ملالہ کو اِنٹرنیشنل ایوارڈز دِیے جانے کو پاکستان کے لیے ’’اعزاز‘‘ باور کراتا ہے، اور اُن سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ: ’’ملالہ کو یہ ایوارڈ کس کارنامے کے عوض ملا ہے؟‘‘ اس سوال پر یہ جواب دِیا جارہا ہے کہ ’’ملالہ وہ بچی ہے جس نے سوات میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف آواز بلند کی تھی اور ملالہ کو تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر یہ اعزازات دیے جارہے ہیں‘‘۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی اعزازات کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہوتی ہے،کوئی بھی شخص اپنی کسی غیر معمولی صلاحیت، محنت اورکاوش کی بنا پر عالمی سطح پر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے تو واقعی یہ ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ ملالہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کا بھائی اس سے روز پوچھتا ہے کہ تم نے ایسا کیا کیا ہے جو ساری دنیا میں تمہارا چرچا ہورہا ہے؟دراصل یہی اصل سوال ہے۔  کہا جاتا ہے کہ ملالہ کو بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر انعام دیا گیا ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر سر پر اٹھایا جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس ماحول اور تناظر کو سامنے رکھنا ہوگا جس میں یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس وقت خطے میں ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت جنگ جاری ہے۔ عسکری محاذ پر مغرب کے چالیس سے زائد ممالک کی افواج ۱۳؍ سال کی خواری وذلت اٹھانے کے بعد اپنے زخم چاٹتے ہوئے واپس جانے کی منتظر ہیں۔ عسکری محاذ پر اپنی شکست کے آثار دیکھ کر مغربی طاقتوں نے کچھ عرصے سے اپنا سارا زور فکری وابلاغی محاذ پر لگانا شروع کردیا ہے۔ اس محاذ پر نئے نئے گھات لگائے اور نئے نئے ہتھیار آزمائے جارہے ہیں۔ اس جنگ کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے انٹیلی جنس سرگرمیوں اور خفیہ سازشوں کا ایک جال بھی بچھایا جاچکا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے دشمن کو ’’طالبان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’طالبان‘‘ کا لفظ گالی بنادیاجائے،طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ پشاور کے چرچ پر حملہ اور قصہ خوانی بازار میں دھماکا جیسے واقعات کے ذریعے عوام میں طالبان کی حمایت ختم کرائی جائے۔ یہاں بطور جملہ معترضہ کے یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ امریکی استعمار کے خلاف بے مثال جدوجہد کو کامیابی کی منزل کے قریب پہنچانے والے حقیقی طالبان کے کچھ پاکستانی خیرخواہوں یا نام لیواؤں کی سادگی، غباوت اور بے تدبیری بھی عالمی طاقتوں کی اس ابلاغی مہم کو بہت سارا موادفراہم کررہی ہے۔ اور پھر یہود و نصاریٰ کو مسلمان بچوں اور بچیوں سے اتنی ہمدردی کب سے ہونے لگی ہے کہ وہ ان کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر کسی کو انعام دیں۔ مجھے بتائیں کہ امریکا اور یورپی ممالک نے سوات اور قبائلی علاقوں میں کتنے اسکول کھول رکھے ہیں؟ حکومت پاکستان کو پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کتنی امداد دی ہے؟  جہاں تک ہمارا خیال ہے ملالہ کو ہیروئین بنانے کی وجہ صرف یہ تاثر ہے کہ اس نے مبینہ طور پر طالبان کے خلاف مضامین لکھے تھے۔ گویا ملالہ کو تعلیم کی محبت میں نہیں، بلکہ طالبان کی دشمنی میں آنکھ میں بٹھایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیے کہ ملالہ کی اس خبر کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہے کہ ’’امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کی اپیل مسترد کردی۔‘‘ یعنی بات اگر تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کی ہوتی تو یہ نوبل انعام ڈاکٹر عافیہ کو ملنا چاہیے تھا۔ جی ہاں! ڈاکٹر عافیہ کا جرم یہی ہے کہ اس نے مسلمان بچوں اور بچیوں کی تعلیم اور اسلامی خطوط پر تربیت کے لیے کام کو اپنا مشن بنالیا تھا۔ شایدمیڈیا اور اس کے قبیل کے ’’دانشوروں‘‘ کے علم میں ہی نہیں ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے پی ایچ ڈی ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کے موضوع پر کی تھی۔ ان کے ذہن میں دنیا بھر کے مسلمان بچوں اور بچیوں کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کا ایک پروگرام تھا۔ یہی پروگرام دراصل ان کو انتہا پسند، دہشت گرد اور باغی قرار دے کر پس دیوارِ زنداں ڈالنے کا ذریعہ بنا۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ ’’ملالہ کو جو انعام ملا ہے، اس سے پاکستان کا نام دنیا میں روشن ہوا ہے‘‘ ہماری رائے ہے کہ اس سے پاکستان کا نام روشن نہیں بلکہ پاکستان بدنام ہوا ہے۔ ملالہ کو یہ ایوارڈ اس تأثر کے ساتھ دیا جارہا ہے کہ گویا پاکستانی معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہے، یہاں اسکول جانے والی بچیوں پر حملے ہوتے ہیں، ملالہ نے ہی بچیوں کی تعلیم کا دروازہ کھولاہے۔ یہ تاثر کتنا غلط ہے، کوئی بھی دانشور اس سے لاعلم نہیں ہوسکتا۔ آخر میں ایک ا ورسوال یہ ہے کہ: ’’ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ مغرب اسلامی ممالک کے صرف ان لوگوں کو کیوں ایوارڈ دیتا ہے جن کو ان کے اپنے معاشروں میں راندۂ در گاہ سمجھا جاتا ہے۔ بتایا جائے کہ سوات میں اب توطالبان نہیں ہیں، ملالہ کو ایوارڈ ملنے پر خود اُن کے اپنے گاؤں میں کوئی جشن کیوں نہیں منایا گیا؟ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی ملالہ کو تعلیم کی محبت میں محبت سے نوازا جارہا ہے، یا اصل مسئلہ طالبان سے بغض وعداوت کا ہے؟ یہ حب علیؓ کا کرشمہ ہے یا در حقیقت بغض معاویہ ؓ کا شاخسانہ۔ اور کیا مغرب کو طالبان سے دشمنی تعلیم کی وجہ سے ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ یہاں ایک اور نکتہ قابل غور ہے، کیا ملالہ کو طالبان نے تعلیم حاصل کرنے سے روکا تھا؟ خود ملالہ کی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ کئی دنوں تک ملالہ کا اسکول بند رہا، جب اسکول کھلا تو اس نے اندر جاکر دیکھا، وہاں دیواروں پر ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملالہ کے باپ کے اسکول کو طالبان کے خلاف مورچہ بنادیا گیا تھا۔ اسکول پر قبضہ طالبان نے نہیں، سیکورٹی فورسز نے کیا ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت سوات میں آپریشن جاری تھا، اس وقت دوطرفہ لڑائی کے باعث صرف لڑکیوں کے اسکول ہی بند نہیں تھے، بلکہ لڑکوں کے اسکول بھی بند ہوگئے تھے۔ کاروباری سرگرمیاں بھی بند تھیں۔ ملالہ کے نام سے ان دنوں جو ڈائری بی بی سی میں چھپتی تھی ،اس میں فوج اور طالبان دونوں کی لڑائی کا ذکر تھا، تو اس ساری کہانی میں یہ عنوان کہاں سے آگیا کہ طالبان نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی اور ملالہ نے اس کے خلاف جدوجہد کی؟ ہاں سوات آپریشن کے بعد مخصوص حلقوں نے ملالہ کو صرف اس حوالے سے ہیروئین بناکر پیش کردیاکہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے پر طالبان کے خلاف بغاوت کی۔ اس کو ’’نکتہ بعد الوقوع‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس ساری کہانی کی بنیاد ہے۔ ملالہ کو انعام و اکرام سے نوازنے کے پیچھے یہ تأثر کارفرما ہے کہ پاکستان میں بچیوں کی تعلیم پر پابندی تھی،ملالہ کی وجہ سے گویا یہ پابندی ختم ہوگئی۔ اور پھر ملالہ کو ایوارڈ ملنے پر صرف وہ چند دانشور ٹی وی چینلوں، چوپالوں اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر خوشیاں منارہے ہیں جن کو ان کے محلے میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، جن کو گھر میں ناشتہ نہیں ملتا، وہ ہوٹلوں اور چائے خانوں میں آکر ’’دانش وری‘‘ کے جوہر دکھاکر پیٹ پوجا کاسامان کرتے ہیں۔‘‘ اس سارے پس منظر میں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ملالہ کو جو انعام دیا گیا ہے، وہ واقعی انعام ہے یا الزام؟

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین