بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مقبرۃُ الاولیاء میں مدفون شہید (مفتی عبدالمجید دینپوری شہید رحمۃ اللہ علیہ )

مقبرۃُ الاولیاء میں مدفون شہید

مورخہ ۱۹؍ربیع الاول۱۴۳۴ھ بمطابق یکم فروری۲۰۱۳ء شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدرِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے حکم پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی دفتر کے ناظم مولانا عبدالمجید کے ہمراہ وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے خان پور ضلع رحیم یار خان، جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کراچی کے رئیس دارالافتاء شہید ِ علم حدیث نبوی، عالم بے بدل، فقیہ وقت، خانوادۂ دین پور کے چشم و چراغ استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی محمد عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کے جنازے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ خانقاہ راشدیہ قادریہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا میاں مسعود احمد دین پوری مدظلہ نے اشک بار آنکھوں سے نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔ اہل علم و تقویٰ کے علاوہ ہزاروں لوگ سوگوار ماحول میں خون آلودکفن پہنے اپنے محبوب قائد کو دین پور شریف کے تاریخی مقبرۃ الاولیاء والمشائخ میں آسودہ خاک کر کے گھروں کو واپس لوٹے۔یہ وہی مقبرہ ہے جس میں حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ، حضرت مولانا عبدالہادی دین پوریؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبدالقادرؒ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ، حضرت مولانا عبدالشکور دین پوریؒ، حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ، حضرت مولانا غلام مصطفیٰؒ، میاں جی خیر محمدؒ، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ اور مولانا شفیق الرحمن درخواستیؒ کے علاوہ کئی اکابر، علماء اور صلحاء مدفون ہیں۔ خان پور کے قریب گمنام دین پور کی بستی نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی نوراللہ مرقدہٗ، امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کے دیگر رفقاء کار کی تحریک ’’ریشمی رومال‘‘ کے قبل از وقت اِفشا ہو جانے اور بظاہر تحریک کے کچل دئیے جانے کے بعد شہرت پائی۔ سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت حافظ محمد صدیق بھرچونڈی ؒکے خلیفہ مجاز حضرت اقدس مولانا خلیفہ غلام محمد ؒ نے اس جنگل کو منگل بنایا۔آپ کی محنت سے ذکر الٰہی اور تصفیۂ قلب کا ایک مرکز اور خانقاہ یہاں آباد ہو گئی۔ ہزاروں تشنگانِ شرابِ عشق یہاں آ کر اپنی تشنگی بجھاتے۔ اکابر دیوبند کے مزاج کے مطابق یہ خانقاہ صرف ذکر اوراد کی مسند ہی نہ تھی، بلکہ علم نبوت کا بہترین مدرسہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی مضبوط چھائونی بن گئی۔ انگریزوں کے خلاف چلائے جانے والی تحریک کا ایک اہم مرکز اس خانقاہ کو قرار دیا گیا،حضرت خلیفہ صاحبؒ نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کو بھی خلافت سے نوازا تھا۔ حضرت لاہوریؒ کو اول اجازت حضرت مولانا تاج محمود امروٹیؒ سے حاصل تھی۔ حضرت امروٹیؒ اور حضرت خلیفہ صاحبؒ دونوں ایک ہی شیخ سے مجاز تھے۔ امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی سیالکوٹ سے قبولِ اسلام کے بعد ہجرت کر کے اولاً کوٹلہ رحم علی شاہ ضلع مظفر گڑھ، پھر امروٹ شریف تشریف لائے۔ امروٹ سے دیوبند کا سفر فرمایا۔ امروٹ کی نسبت سے حضرت سندھیؒ اور حضرت خلیفہ صاحبؒ کا باہم اعتماد اور رشتہ استوار ہوا۔ مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کے پر نانا مولانا عبدالقادرؒ حضرت سندھیؒ کے استاد تھے۔ حضرت خلیفہ صاحبؒ نے اپنی صاحبزادی کا عقد اُن کے ساتھ کیا۔ان سے مولانا عبدالمنان صاحبؒ تولد ہوئے جو مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ کے نانا تھے۔ مولانا عبدالمنان صاحبؒ حضرت سندھیؒ کے بھی شاگرد تھے۔ مولانا عبدالمنان صاحبؒ نے اپنی صاحبزادی کا عقد نہایت ہی پارسا، متوکل اور شب بیدار عالم دین حضرت مولانا محمد عظیم بخش دین پوریؒ سے کر دیا۔ مولانا عظیم بخشؒ نے خان پور کے مرکزی چوک میں ایک مسجد تعمیر فرمائی۔ نہایت ہی عبادت گزار شخص تھے، زیادہ تر وقت مسجد میں صرف کرتے۔ مولاناعظیم بخش صاحبؒ کے ہاں ۱۹۵۱ء میں بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام عبدالمجید رکھا گیا، مولانا عظیم بخشؒ کی زندگی کی تین تمنائیں اور دعائیں معروف ہیں: اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نیک صالح بیوی دے۔ دوم: اولاد نیک ، صالح، دین دار اور فرمانبردار عطا ہو ۔اور سوم موت حرم میں نصیب ہو جائے۔ حق تعالیٰ نے تینوں دعائیں قبول فرمائیں۔ مولانا عظیم بخش ؒ حرم میں فوت ہوئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ مفتی عبدالمجیددین پوریؒ نجیب الطرفین تھے۔ گھر کا ماحول نہایت ہی تقویٰ اور طہارت پر استوار تھا، اس لئے زہد و تقویٰ مولانا کے رگ و ریشے میں رَچ بس گیا۔ ابتدائی تعلیم دین پور اور گرد و نواح سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون جا پہنچے۔ محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ ، حضرت مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکیؒ، حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ جیسے اکابر کی صحبت نے اُنہیں کندن بنا دیا۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ سے فاتحہ فراغ پڑھا اور پھر جامعہ ہی سے تخصص فی الفقہ کا اعزاز حاصل کیا۔ فراغت کے بعد دارالعلوم حسینیہ شہداد پور اور جامعہ اشرفیہ سکھر جیسے اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ والد صاحب کے وصال کی وجہ سے گھر واپس لوٹنا پڑا۔ مفتی صاحب نے خان پور میں مطب قائم فرمایا، لیکن اپنا تدریسی سلسلسہ بھی قرب و جوار کے مدارس میں جاری رکھا، چنانچہ مدرسہ امداد العلوم خان پور، مدرسہ احیاء العلوم ظاہر پیر اور اپنے مادر علمی دین پور میں تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔ مفتی عبدالمجید دین پوریؒ جیسے گوہر نایاب کا اصل میدانِ عمل مادرِ علمی بنوری ٹائون جیسا ادارہ ہی تھا، لیکن بوجوہ وہ وطن لوٹ آئے۔ اسی دوران آپ کو جامعہ کی طرف سے طلب کیا گیا تو آپ اپنے دنیوی کام کاج چھوڑ کر ماہیٔ بے آب کی طرح فوراً جامعہ جا پہنچے اور تاحیات قرآن و سنت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مفتی عبدالمجید دین پوری ؒ کو مفتی عبدالسلام صاحب کے بنگلہ دیش چلے جانے کے بعد رئیس دارالافتاء بنا دیا گیا۔ آپ سے ملک بھر کے عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مفتیان کرام بھی استفادہ کرتے۔ آپ کی نظر نہایت ہی عمیق اور مزاج تحقیقی تھا۔ علم کے ساتھ عمل اور اخلاق حسنہ کی دولت سے بھی مالامال تھے۔ طبیعت سادہ لیکن پر وقار تھی، خندہ پیشانی سے ہر آنے والے کا استقبال کرنا ان کا وصف تھا۔اپنے اکابر و سلف سے بے پناہ محبت ان کا شیوہ تھا۔ حضرت بنوریؒ کا تذکرہ فرماتے تو آبدیدہ ہو جاتے۔ سبق سے پہلے حضرتؒ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر دعا فرماتے اور پھر درس گاہ میں تشریف لے جاتے۔ طبیعت میں اعتدال غالب تھا۔ وفاق المدارس العربیہ کے درجہ سابعہ کے ممتحن اعلیٰ تھے۔ گزشتہ برس امتحانی کمیٹی کی معاونت کے لئے جب احقر کی تشکیل ہوئی تو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ باکمال انسان ثابت ہوئے۔ وہ جامعہ بنوری ٹائون کے علاوہ مولانا سید لیاقت علی شاہ نقشبندی کے ادارے جامعہ درویشیہ سندھی مسلم سوسائٹی میں صحیح بخاری کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا لیاقت علی شاہ صاحب کے جواں سال صاحبزادے محمد حسان علی شاہ شہیدؒ آپ کو اور مولانا مفتی صالح محمد شہیدؒ کو بنوری ٹائون سے لانے اور لے جانے کی خدمت پر مامور تھے۔ یہ دونوں مخدوم اپنے خادم کے ہمراہ بنوری ٹائون کے دیگر اکابر مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختارؒ ،مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ، مولانا مفتی نظام الدین شامزئیؒ،مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ اور مولانا سعید احمد جلالپوریؒ کے ساتھ جا ملے۔ خان پور کے جنازے میں جنوبی پنجاب کے اکابرین، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی، امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا عزیز الرحمن جالندھری، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا سیف الرحمن درخواستی، مولانا مطیع الرحمن درخواستی، مولانا خلیل الرحمن درخواستی، مفتی ظفر اقبال، مفتی عطاء الرحمن، مولانا عبدالکریم ندیم ، مولانا منظور احمد نعمانی اور مولانا ظفر احمد قاسم سمیت کئی ایک اہم شخصیات نے شرکت فرمائی۔جامعہ بنوری ٹائون سے مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی، مفتی شعیب عالم، اور بنوری ٹائون کے علمأ و طلبأ بھی آپ کے آسودہ خاک ہونے تک ہمرکاب رہے۔ بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین