بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ کی شہادت

مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ کی شہادت

         ملک کی ممتاز دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالافتاء کے ذمہ دار مفتی‘ حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ اور ان کے نائب مفتی مولانا مفتی صالح محمدؒ بھی قافلۂ شہداء سے جا ملے۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے قائم کردہ ادارے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مفتیان کرامؒ کے دردناک سانحۂ شہادت نے دینی حلقوں کو ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن اب کچھ عرصے سے ایسے علمائے دین کو چن چن کر نشانہ بنارہے ہیں جن کا وجود اہلِ پاکستان کے لئے بہت بڑا سرمایہ اور نعمتِ خداوندی ہے، جن کی سرگرمیاں کتاب وسنت کی تعلیم وتدریس اور اہلِ ایمان کی اصلاح وخیر خواہی تک محدود ہیں۔      یہ لوگ مدارس کی چار دیواری میں رہ کر خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اس فرض کی بجا آوری کے لئے وہ معمولی مشاہروں پر یومیہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بڑی خوش دلی سے درس وتدریس، مطالعہ اور فتویٰ نویسی میں مشغول ومنہمک رہتے ہیں۔      حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوری شہیدؒ بھی اس قبیلے کے معتدل مزاج، سنجیدہ اور علمی کام میں منہمک رہنے والے فردِ فرید تھے، جن کی زندگی قرآن وسنت کو انسانیت تک پہنچانے کے لئے وقف تھی۔ جن سفاک قاتلوں نے ان کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں، انہوں نے ایک انسان ہی نہیں علم کا بھی خون کیا ہے۔ اور خدانخواستہ یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور چلتا رہا تو چاروں طرف ظلمتوں اور جہالتوں کا بسیرا ہوگا، علماء کے اٹھنے کے ساتھ علم بھی اُٹھ جائے گا۔ اس سے پہلے بھی ہم ان قاتلوں کے ہاتھوں کتنے جید علمائ، تقویٰ اور للہیت کے مجسموں اور نادرۂ روزگار افراد سے محروم ہو چکے ہیں۔      حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒاور مولانا مفتی صالح محمدؒ کا دور دور تک کوئی تعلق کسی عصبیت اور فرقہ واریت سے نہیں تھا، ان کی سرگرمیوں کی جولانگاہ مدرسہ کی چار دیواری اور درس وتدریس تھی۔     حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ وفاق المدارس کے امتحانی پرچوں کی چیکنگ کے لئے جب ملتان دفتر وفاق تشریف لاتے تو ان کی زیارت وملاقات اور کچھ دیر رفاقت کا شرف حاصل ہوتا، وہ علم وعمل اور زہد وتقویٰ کے جامع تھے، تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت کے لئے روز وشب کوشاں رہنے والے مخلص استاد تھے، بلا شبہ ان کی شہادت جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لئے ایک صدمہ ہے۔      دکھ کی اس گھڑی میں ہمیں سوچنا چاہئے کہ علماء کا خون کب تک بہتا رہے گا۔ ممکن ہے ہماری نظریں اِدھر اُدھر بھٹکیں، مگر درحقیقت اس خون ریزی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ گزشتہ ماہ جب جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی کے استاذ حدیث مولانا مفتی محمد اسماعیلؒ کو شہید کیا گیا تھا تو امیر جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے بجا طور پر کہا تھا کہ جب تک علماء وطلباء کے قاتل منظر عام پر نہیں لائے جاتے، اس وقت تک حکومت ہی ہماری قاتل ہے۔     پورے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص علمائ، طلبہ، مدارس، عوام الناس سب دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ملک کے ذہین ترین وزیر داخلہ نے کچھ روز قبل یہ ہوش ربا انکشاف فرمایا تھا کہ فروری کے آغاز میں سندھ کے دار الحکومت کراچی میں دہشت گردی اور قتل وغارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کراچی میں طالبان دہشت گردی نہیں کر رہے، بلکہ یہ سرحد پار بیٹھے دشمنوں کی منصوبہ بندی ہے، جس میں مقامی لوگوں کو بھی استعمال کیا جائے گا، ان کے بیان کی باز گشت ابھی کانوں میں ہی تھی کہ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی قائم کردہ درس گاہ کے دو اساتذہ کرام کو شہید کردیا گیا۔     کراچی میں جاری قتل وغارت پر پورا ملک افسردہ اور غمگین ہے، مگر سنگ دل اور بے حس حکمران ٹَس سے مَس نہیں ہورہے۔ دن دَہاڑے قتل ہوتے ہیں، لوگ اغواء ہوتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکمرانوں کو صرف اپنی جانیں اور مال عزیز ہیں، عوام کو وہ بھیڑ بکریاں خیال کرتے ہیں۔     قتل وغارت کی وجہ کوئی بھی ہو، اب دینی حلقوں کی جانب سے پوری قوت سے یہ مؤقف اختیار کیا جا نا چاہئے کہ عوام اور علماء کی جانوں کا تحفظ نہ کر سکنے والوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ رسمی بیانات کی بجائے ایسے پر امن احتجاج کی ضرورت ہے کہ حکومت علماء کی بات سننے اور غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔ کوئٹہ کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ دہشت گردی کے متاثرین نے اپنے مقتولوں کی میتوں کے ہمراہ شدید سردی میں تین دن تک دھرنا جاری رکھ کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔      شہید علماء کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے بھی اسی نوع کے اتحاد واحتجاج کی ضرورت ہے، جس کے لئے قیادت کے مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ معاملہ فہم اور جری ہونا بھی ضروری ہے۔ اس دور میں رسمی احتجاجی بیانات اور تعزیتی قراردادیں قاتل کا ہاتھ مروڑنے کے لئے کافی نہیں۔ مصلحتوں کی اسیر حکومتیں اس وقت تک سنجیدگی سے کسی مسئلے کے حل کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں جب تک آنچ ان کے دامنِ اقتدار تک نہ پہنچے۔ اس کے لئے منتشر صفوں کی شیرازہ بندی، اتحاد، صبر واستقلال اور ایثار کے علاوہ اس عہد کی ضرورت ہے کہ مشائخ عظام اور علمائے کرام کی قیمتی جانوں کا تحفظ تمام وقتی تقاضوں اور مصلحتوں سے بالا تر ہے۔      کراچی میں تین ہزار سے زائد مدارس اور دینی ادارے کام کر رہے ہیں، مساجد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، اس طرح مساجد ومدارس میں پڑھنے، پڑھانے اور کام کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو اپنے بزرگوں کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔      حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم سب کی اجتماعی کوتاہی ہے کہ علمائے کرام کے خون کی ارزانی کی روک تھام کے لئے ہم سب کو جس مؤثر انداز میں آواز اٹھانی چاہئے تھی، اب تک ہم نہ اُٹھاسکے۔     حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ کی شہادت کے بعد’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق یہ امر بہر حال امید افزا ہے کہ کراچی میں علمائ، طلباء اور مذہبی کارکنوں کی پے در پے شہادت اور مدارس پر حملوں کے خلاف دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں نے مرحلہ وار بڑے پیمانے پر تحریک شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے،جس کا حتمی فیصلہ ۶؍ فروری ۲۰۱۳ء کو جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں ہونے والے اجلاس میں ہوا۔ اس اجلاس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت کے علاوہ دینی وسیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔     دینی حلقوں کی یہ مشترکہ آواز اور احتجاج کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ ایک پلیٹ فارم سے بلند ہونے والی اکابر کی اس آواز پر لاکھوں مخلصین ان شاء اللہ العزیز لبیک کہنے کے لئے تیار ہوں گے، تاہم حکومت تک یہ صدائے احتجاج اسی صورت میں پہنچے گی جب اسے منظم ومربوط اور مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے گا ۔ ہمیںعلمائے حق کی جانوں کے تحفظ کے لئے استقامت وہمت سے کام لینا چاہئے، اگر ہم یہ دیکھتے اور کہتے رہے کہ یہ افراد کا نہیں اداروں کا کام ہے، عوام کا نہیں حکومت کاکام ہے، عدلیہ، مقنّنہ اور پولیس کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہئے تو ہم اپنی محترم ومحبوب شخصیات کی حفاظت نہیں کرسکیں گے۔ تشتت وافتراق اور جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے جو ہمیں مل رہی ہے۔ قانونِ فطرت میں بھی ان ہی کی مدد کی جاتی ہے جو خود اپنی مدد کے لئے ہاتھ پاؤں ہلاتے ہیں۔     اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ، مولانا مفتی صالح محمدؒ کو اپنا قربِ خاص نصیب فرمائیں ، اُن کے پسماندگان کو اس سانحہ پر صبر کی توفیق عطاء فرمائیں، اور وطنِ عزیز کو امن وسکون کا گہوارہ بنائیں اور قوم کو مخلص ودیانت دار قیادت نصیب فرمائیں۔ آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین