بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مفتی محمد صدیق محمودکوٹی ؒکا سانحۂ ارتحال

مفتی محمد صدیق محمودکوٹی  ؒکا سانحۂ ارتحال

۴؍رمضان المبارک ۱۴۳۳؁ ھ بمطابق ۲۴؍جولائی ۲۰۱۲؁ء بروزمنگل ہمارے محبوب استاد، مجسم تواضع، جامعہ خیر المدارس ملتا ن کے قدیم فاضل، مہتمم جامعہ امداد العلوم محمود کوٹ، فقیہ ملت، حضرت مولانا مفتی محمد صدیق صاحب عمر عزیز کی ۸۶ منزلیں طے کرکے کار حادثہ میں اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئے۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ اٹھائیس شعبان جمعرات کی رات آپ اپنے شاگرد مولانا امام دین تونسوی ؒ کا جنازہ پڑھا کر واپس آرہے تھے کہ صبح تین بجے کے قریب راستہ میں کار اُلٹ گئی، حادثہ میں باقی سوار تو محفوظ نکل آئے، مگرحضرت مفتی صاحبؒ کی گردن کے مہروں پر کاری ضرب آگئی، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے حادثہ کے چھٹے دن بروز منگل صبح ساڑھے آٹھ بجے ملتان زیر علاج ہسپتال میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ بعض فہم وعقل، اخلاص وللہیت اور عزم و استقلال کی پیکر خدا شناس ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا کاز اور مقصد حیات اس قدر عالی کردارکاحامل ہوتا ہے کہ ان کی داستانِ حیات آب زر سے کتابت کے لائق ہوتی ہے،جو اس دارِ فانی کو خیرباد کہہ کر اُس میں ایسا رستا ہوا زخم چھوڑ جاتی ہیں کہ جس کا مندمل ہونا عرصہ دراز تک بہت مشکل اور بے امکان ہو تا ہے، زمانہ ہزاروں کروٹیں لے، تب جا کر کہیں وہ خلا پر ہونے کو آتا ہے۔ حضرت مفتی محمدصدیق صاحبؒ جامع کمالات، عجز و نیاز کے پیکر، علمی و عملی طور پر پختہ کار اور سادگی و مستقل مزاجی میں اکابر کی یاد گار تھے۔ آپ حضرت مولانا خیر محمد جا لندھری ؒ کے خاص شاگرد، شہید اسلام، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ کے رفیق درس اور فقہ و تفسیر کے بہت بڑے عالم تھے۔ افہام و تفہیم کا خاص ملکہ اور درس و تدریس کے شہسوار تھے۔ علوم وفنون پر مکمل عبور اور کئی درسی کتابیں آپ کو حفظ تھیں۔ آپ اپنے مخلصانہ دینی جذبے، بے پناہ قوتِ عمل، اشاعت دین کی خاطرانتھک محنت اور قومی و ملی اصلاحات میں دور اندیشی اور ہمت و استقلال کے لحاظ سے ان برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے، جو کسی بھی قوم کے لئے باعث فخرہو سکتی ہیں۔آپ کی طبیعت میںانتہائی سادگی اور تکلف وبناوٹ کا نام و نشان تک نہ تھا،مگر استغناء وخودداری اور کفایت شعاری کا جوہر اتم اپنے اندر ودیعت لئے ہوئے تھے۔ ہمیشہ حرص و ہوس اور خود غرضی وشہرت سے کوسوں دور محض بندگانِ خدا کی بھلائی، دین متین کی اشاعت اور حق گوئی کواپناشعار بنائے رکھا۔ خود بھی عملی نمونہ بنے رہے اور اشاعت دین کے کئی مراکز کی آبیاری بھی کی ۔ درس و تدریس اور علمی و اصلاحی خدمات میں آپ کا نمایاں و صف علماء و صلحا اورحضرات اکابر کے ہاں آپ کا بے مثال اعتماد تھا۔ دینی وعلمی حلقوں میں آپ کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔تمام عمر اخلاص سے عوام و خواص میں قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کیا اور اساتذہ کا نام روشن کیا۔ آخر کار جب قدرت کو آپ کا اس دار فناء میں رہنا نا منظور ہوا تو اٹھاون سالہ تدریسی خدمات کے بعد یہ پاک روح اپنے اصلی گھر کی طرف روانہ ہوگئی،سن عیسوی کے اعتبا رسے آپ کی عمرتقریباً ۸۴سال اور سن ہجری کے اعتبار سے ۸۶سال کچھ ما ہ بنتی ہے ۔ برگزیدہ شخصیات کا جانبِ حق رحلت فرماناان کے حق میںتو خوش آئندہوتا ہے کہ وہ بے سکونی کے گھر سے اپنے پروردگار، مالک حقیقی کے جوار میں منتقل ہو جاتے ہیں اورمقصد حیات پالیتے ہیں، مگرپسماندگان اور متوسلین کے لئے یہ داغِ مفارقت فیوض وبرکات سے محرومی اورقلبی اضمحلال کاسبب بن جاتا ہے۔  پیدائش: آپ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ اَدو کے علاقہ سنانواں کے مضافات بستی شاہ والا میں جناب میاں شیر محمد گوراہ کے گھر پیدا ہوئے، جو ایک محنت کش کاشت کار تھے۔ آپ کاسن پیدائش تقریباً ۱۳۴۷ ؁ھ بمطابق ۱۹۲۸؁ء ہے ۔ ابتدائی تعلیم  بچپن ہی میں آپ نے اپنے علاقہ کے مشہور عالم حافظ محمد بخش ؒکے پاس بستی دایہ چوکھا میں قرآن پاک حفظ کرنا شروع کیااور حفظ قرآن مکمل کر ہی چکے تھے کہ والد بزرگوار کا سایۂ عاطفت آپ کے سر سے اٹھ گیا، جس کے بعد آپ حالات سے متاثر ہو کر مزید تعلیم کی بجائے اپنے بڑے بھائی جناب ملک علی محمد صاحب کاگھریلو کام کاج میں دست وبازو بن گئے ۔ فنون کی تعلیم کا آغاز  والدماجد کی وفات سے کچھ عرصہ بعد جب آپ کی عمر تقریباً بیس سال مکمل ہو چکی تھی ،آپ کے ننھیالی خاندان کے معروف بزرگ حافظ خان محمد تھوریؒ نے علم و فضل کے حصول کی طرف آپ کو توجہ دلائی اور خاص شفقت سے فارسی کی چند ابتدائی کتب کی تعلیم کا انتظام بھی کیا، جس کے بعد علوم و فنون کے حصول کا شوق آپ کے دل میں گھرکر گیا اور ۱۳۶۷ھ بمطابق ۱۹۴۸ ؁ء میں آپ نے قریبی بستی ٹھٹھی حمزہ کے مدرسہ تعلیم القر آن میں مستقل طور پر درس نظامی کی تعلیم کا آغاز کیا۔ وہاں پرحضرت مولانا محمد عمر قریشی ؒ، فاضل دیوبند، شاگرد حضرت مدنی ؒ سے ایک سال میں متوسطات تک کتب نحو کی تعلیم حا صل کی۔ حضرت مولانا محمد عمر قریشیؒ جب وہاں سے چھوڑ کر مظفر گڑھ چلے گئے اور ان کی جگہ حضر ت مولانا عبد العزیزشہر سلطانیؒ مدرس ہو ئے، جو بقول حضرت مفتی صاحب ؒ: عملًاتو حنفی المسلک، مگر عقیدۃً اہل حدیث تھے، تو آپ نے اگلے سال وہیں پر مدرسہ تعلیم القرآن میں مولانا عبد العزیزشہر سلطانیؒ سے صرف کی بنیادی کتابیں پڑھیں۔ صرف و نحو کی دو سالہ ابتدائی تعلیم کے بعد جب مولانا عبد العزیز صاحبؒ بھی وہاں سے چھوڑ کر شہر سلطان چلے گئے، تو آپؒ نے بھی علوم آلیہ کی مزید تعلیم کے لئے ان کے ساتھ شہر سلطان کا سفر کیا اور وہاں پر ایک سال میںان سے آپ نے شرح ملا جامی، کنزالدقائق، شرح الوقایہ، مشکوٰۃ المصابیح، بلوغ المرام، مختصرالمعانی، اصول الشاشی، نورالانوار اورمنتخب الحسامی سمیت متعدد کتبِ اصول کادرس لیا ۔ درس نظامی کے چوتھے سال آپ شہرسلطان کو خیرباد کہہ کر فنون کی تکمیل کے لئے اپنے شفیق استاذحضرت مولانا محمد عمر قریشی صاحب ؒ کے پاس مظفر گڑھ آ گئے اور مکمل ایک سال جامعہ احیاء العلوم میں رہ کر آپ نے تفسیر جلالین، ہدایہ اول وثانی، جامع ترمذی، سلم العلوم، دیوان متنبی، دیوان حماسہ اور علوم آلیہ کی دیگر شاہکارکتب کی تعلیم حاصل کی۔ دورہ حدیث علوم و فنون کی استعدادی تعلیم حاصل کر نے کے بعد درس نظامی کے پانچویں سال آپ نے حدیث شریف کی مستقل تعلیم کے لئے جامعہ خیر المد ارس ملتان کا سفر کیا اور وہاں پرایک سال میںدار العلوم دیو بند کے مشاہیرفضلائ، شیوخِ حدیث کے سامنے اصولِ ستہ مشہورہ اور دیگر کتب حدیث کا سماع کیا اور شعبان ۱۳۷۲؁ھ بمطابق مئی۱۹۵۳؁ ء میں دورہ حدیث سے سند فراغ حاصل کی۔  جامعہ ’’خیر المدارس ملتان‘‘ میں دورہ حدیث والے سال آپ نے: بخاری شریف : حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ؒ،فاضل دیوبند، شاگرد حضرت کشمیری ؒ سے ترمذی شریف: حضرت مولانا محمد عبدا للہ ڈیروی ؒ، فاضل دیوبند، شاگرد حضرت مدنی ؒ سے مسلم شریف: حضرت مولانامحمد ابراہیم تونسویؒ، فاضل دیو بند، شاگردحضرت مدنی ؒسے نسائی شریف: حضرت مولانا جمال الدین مردانیؒ، فاضل دیو بند، شاگرد حضرت مدنی ؒ سے ابو دائود شریف حضرت مولانا محمد شریف کشمیر ی ؒ، فاضل دیوبند، شاگرد حضرت کشمیری ؒ سے ابن ماجہ،موطئین اورطحاوی شریف : حضرت مولانا عبد الشکور کامل پوری ؒ، فاضل مظاہر العلوم سہانپور، شاگرد حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری ؒ سے پڑھیں۔ فنون کی تکمیل دورہ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے اس دور کی ترتیب و نظامِ تعلیم کے مطابق تکمیل کے عنوان سے فنون کی مزید کتابیں پڑھنے کے لئے دو سال مسلسل جامعہ خیرالمدارس کا قیام کیا اور اس عرصہ میں آپ نے عقود رسم المفتی، شامی، ہدایہ ثالث، ہدایہ رابع،مسلم الثبوت،بیضاوی،توضیح تلویح، ملا حسن، حمداللہ، میرزاہد، قاضی مبارک اور شمس بازغہ وغیرہ کتب اصول وفنون کی تعلیم حاصل کی اور شعبان ۱۳۷۴؁ھ بمطابق اپریل ۱۹۵۵؁ء میں آپ کا یہ تعلیمی سفر اختتام کو پہنچا۔ علم قراء ت جامعہ خیرالمدارس میں آپ نے درسِ نظامی کی دیگر کتب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ خارجی اوقات میں علم قراء ت کی کتابیں بھی پڑھنا شروع کیں اورخیر المدارس کے تین سالہ تعلیمی دورانیے میں حضرت مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی ؒ سے آپ نے مقدمہ جزریہ، فوائد مکیہ اورجمال القرآن کا درس لیا۔   تدریس تعلیم سے فراغت کے متصل بعداگلاسال شروع ہوتے ہی جامع مسجد محمود کوٹ شہر سے آپ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور حضرت مولانا مفتی عبد القادر، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الجلیل، حضرت مولانا اللہ بخش فانی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا فیض الباری ، حضرت مولانا اللہ بخش ملکانی اورحضرت مولاناعبدالرحمن جامی بن حاجی غلام حاضر صاحب جیسے خوش نصیب طالبانِ علم وفضل نے جامع مسجد محمود کوٹ میں آپ سے ایک سال میں فارسی کی ابتدائی کتابیں اور سورۂ کہف، سورۂ مریم اور سورۂ طٰہٰ کاترجمہ پڑھااور بقول مولاناعبدالرحمن جامی بن حاجی غلام حاضر سب سے پہلے درس میں عبارت خوانی کا شرف ان ہی کو حاصل ہوا ۔ تدریس کے دوسرے سال آپ محمود کوٹ چھوڑ کر جامعہ احیاء العلوم، مظفر گڑھ چلے گئے اور وہاں پر چار سال تدریس کرنے کے بعدواپسی دوبارہ محمودکوٹ آگئے۔ اس وقت مدرسہ جامعہ امداد العلوم کی بنیاد رکھی جا چکی تھی، جس کو حضرت مولانا غلام یسین گورمانی ؒ آف تونسہ شریف نے حکیم عبد الحق صاحبؒ کے زیر اہتمام پیر محمد یعقوب بودلہ کی طرف سے وقف کردہ تقریباً نو؍۹ کنال اراضی پرقائم کیا تھا، اس موقع پر سات سال تک مدرسہ امداد العلوم محمود کوٹ شہر میں آپ نے تدریسی خدمات سرانجام دیں اورشوال ۱۳۸۶؁ھ بمطابق فروری ۱۹۶۷؁ء میں آپ وہاں سے چھوڑ کر دوبارہ احیاء العلوم، مظفر گڑھ تشریف لے گئے اور وہاں پر چھ سال پڑھانے کے بعدآپ جامعہ مظاہرالعلوم کوٹ اَدو تشریف لے آئے۔ جامعہ مظاہرالعلوم، کوٹ اَدو میں تین سال تدریس کرنے کے بعد۲۹؍شعبان ۱۳۹۵؁ھ بمطابق ۷؍ستمبر ۱۹۷۵؁ء کووہاں سے مستعفی ہوکرآپ تیسری مرتبہ محمود کوٹ تشریف لے آئے اور جامعہ امداد العلوم کو مستقل طور پر اپنامسکن بنا لیااور تا دمِ آخریہیں پر تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ مجموعی طور پر مختلف اوقات میں آپ نے دس سال احیا ء العلوم مظفر گڑھ، تین سال جامعہ مظاہر العلوم کوٹ اَدو اور پینتالیس سال محمود کوٹ کی جامع مسجد اور مدرسہ امداد العلوم میں علوم و فنون کی خدمت کی۔ دورانِ تدریس شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی علی محمد صاحب ؒنے اپنے اہتمام کے زمانہ میں دار العلوم کبیر والا میں تدریس کے لئے آپ کو دعوت بھی دی تھی،جس کو بعض عوارض کی بنا پر قبول کرنے سے حضرت نے معذرت کر لی تھی۔ آپ نے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ دینی وفکری حوالے سے ہمیشہ حدودِشرع کا تحفظ کیا، اگر کسی بھی موقع پرکسی متجدد اور کجرومکتب فکر نے اپنے اثراتِ بد پھیلانے کی کوشش کی، توآپ نے بھر پورانداز میںاس کا مقابلہ کیا۔ پورے علاقے میں مسلک حق کی وضاحت کی اور باطل نظریات کی تردید میں وسعت بھر کردار پیش کیا۔ شعبۂ افتاء اورتصنیف وتالیف  آپ نے درسِ نظامی کی تدریس کے علاوہ شعبۂ افتاء کا مستقل طور پرکام جاری رکھا اور تادمِ آخر حق گوئی کے اس فریضہ کو سر انجام دیتے رہے۔ ہزاروں کی تعداد میں فتاویٰ آپ کی نوکِ قلم سے صادر ہوئے۔ذاتی طور پر تحریر و تبویب اور انشاء پردازی کا آپ ذوق نہیں رکھتے تھے، اس لئے نصف صدی سے زائدعرصے کے اندرآپ کی نوک قلم سے نکلنے والے فتاوی اوردیگرضروری تحریریں آج کسی خاص ترتیب سے جمع نظر نہیںآتیں، البتہ دورہ حدیث والے سال کتب حدیث کی شرح میں آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی چند کاپیاں دریافت ہوئی ہیں،جن میں بعض پر کتاب کا نام مع مختصر تعارف حضرت ہی کے قلم سے درج ہے : ۱۔ مجمع البحرین فی حل مہمات الجامعین من فیوضات الشیخین، الشیخ مولانا خیرمحمد والشیخ مفتی محمد عبداللہ، حفظہمااللہ تعالیٰ، الفہ :افقرمحمد صدیق مظفر گڑھی،جامعہ خیرالمدارس ملتان شہر،۱۳۷۲؁ھ۔ بڑے سائز میں یہ دفتر تقریباً چارسواسی صفحات پر مشتمل ہے۔ ۲۔علومِ قرآن و اصول تفسیر،افادات :حضرت مولانا خیرمحمدجالندھریؒ، بڑے سائز میں یہ کاپی تقریباً تین سو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ۳۔ تیسری کاپی مبادیٔ تفسیراور علو م حدیث کی مختلف ابحاث پر مشتمل ہے، یہ کاپی چھوٹے سائز میں تقریباًایک سو ساٹھ صفحات پر ہے، اس کے آخر میں حضرت مفتی صاحبؒ ہی کے قلم سے یہ شعر لکھا ہوا ہے،جس کے مصداق میں اب خودمفتی صاحبؒ بھی شامل ہو چکے ہیں: یہ چمن یوں ہی رہے گا، ہزاروں بلبلیں اپنی بولیاں بول کر سب اُڑ جائیں گی علمی پختگی اور تدریسی کمال آپ علمی طور پر بہت پختہ استعداد کے مالک تھے اورفنون پرمکمل عبورحاصل تھا، آخر عمر تک بڑھاپے کے اس زمانے میں بھی اصول وقواعدکا برابر استحضار رہتا تھا۔ درسِ نظامی کی یومیہ کئی کئی کتابیں پڑھانا آپ کاعام معمول تھا۔ہدایہ ثالث، بیضاوی اورکافیہ جیسی ثقیل الدرس کتابوں کی تدریس آپ کے ہاں ایک سہل المنال قضیہ تھا۔جوانی کے ایام میں ایک طویل عرصہ تک ابتدائی درجات سے لے کر جلالین ومشکوٰۃ تک مکمل اسباق آپ اکیلے پڑھاتے تھے۔آپ کی علمی ترقی میں جامعہ احیاء العلوم کے کتب خانے کا بہت بڑادخل تھا۔مظفرگڑھ کے زمانۂ تدریس میںآپ نے موقع کو غنیمت جانا اورجوانی کے اس عالم میں کتابوں کے درمیان خوب عرق ریزی کی، جس کے سنہری اثرات ہمیشہ آپ کی تقریروتدریس میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے تھے۔ آپ کی تعلیمی قابلیت اور علمی رسوخ کا ذکرکرتے ہوئے حضرت مولانا منظوراحمد نعمانی مدظلہ فرماتے ہیں کہ ۱۹۵۴؁ھ میں جامعہ مخزن العلوم خانپور میں دورۂ تفسیر کے دوران حضرت مفتی صاحبؒ، بندہ عاجز اور مولانا مسلم صاحب ؒہم تین آدمی ایک جماعت کی صورت میں اکٹھے بیٹھا کرتے تھے، جس میں بسااوقات دوسرے طلباء بھی شریک ہو جایا کرتے۔ تکرارو مراجعت کی ذمہ داری حضرتؒ ہی کے سپرد تھی۔ ایک مرتبہ دورانِ تکراردسویں پارے میںسورۂ انفال کی آیت’’وَلَوْعَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْراً لَّأَسْمَعَھُمْ، وَلَوْأَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ‘‘ پر حضرت نے ایک اشکال پیش کیا کہ آیت مبارکہ میں مذکورہ دونوں جملے قضیہ شرطیہ کے قبیل سے ہیں،جن میں سے پہلے قضیے کے اندر تالی اور دوسرے میں مقدم حداوسط ہے، اگر حد اوسط کو گرا دیا جائے، تو نتیجہ نکلتا ہے:’’وَلَوْعَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْراً،لَتَوَلَّوْا وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ‘‘جو انتہائی غلط ہے۔ اس اشکال کا جواب جب ہم طلباء میں سے کوئی دوسرا شخص نہ دے سکا، توخود حضرتؒ نے اس کا حل پیش کیااور فرمایا کہ در حقیقت ’’لَّأَسْمَعَھُمْ، وَلَوْأَسْمَعَھُمْ‘‘ کوحد اوسط قرار دینا ہی ایک غلط فہمی پرمشتمل ہے کہ اس کی وجہ سے آیت مبارکہ میں اشکال پیداہو، اس لئے کہ حد اوسط میں دونوں اجزاء کے درمیان وحدت کلیہ شرط ہوتی ہے اور یہاں پروحدت نہیں پائی جارہی، بلکہ اول قضیہ میں سماع سے مراد سماع قبول ہے اورثانی میں اس سے مرادمطلق سماع ہے، جو آپس میں ایک دوسرے سے مغائرہیں، لہٰذا سرسری نظر میںان کو حد اوسط گردانتے ہوئے فنی مشکل میں پھنسنا بالکل بے جا ہوگا۔ زمانۂ طالبعلمی سے ہی آپ کے اندرعلمی ذوق کا جوہرودیعت تھا۔حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ نے شوال ۱۴۰۹؁ھ میں ابو داؤد شریف کے ایک درس کے اندر آپ کی علمی لیاقت کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے: ’’میرے دو ہی دوست تھے، مولاناصدیق صاحب(محمودکوٹی) اوردوسرے کا نام بھی صدیق تھا،مولانا صدیق صاحب انتہائی لائق فائق انسان تھے۔( جامعہ خیر المدارس میں)دورہ حدیث والے سال اکثر کتابوں کی عبارت یہی پڑھا کرتے تھے ‘‘۔    اساتذہ وشیوخ آپ کے اساتذہ میں سے اکثر کا ذکر تعلیمی دورانیے کی تفصیلات میں تقریباًآچکا ہے، جن کے علاوہ حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ تفسیرقرآن میں آپ کے خاص استاذ ہیں، آپ نے جامعہ مخزن العلوم، خانپور میں ان سے دو مرتبہ دورۂ تفسیر پڑھا، ایک مرتبہ دوران تعلیم ۱۳۷۳ ؁ھ بمطابق ۱۹۵۴؁ء میں تکمیل کے پہلے سال اور دوسری مرتبہ دورانِ تدریس آپ نے ان سے تفسیر پڑھی۔ آپ کے قریبی علاقہ ٹھٹھی حمزہ میں آباد سادات خاندان کے دو مشہور فرد حضرت مولانا پیر محمد شاہ صاحب اور حضرت مولاناسید نظام الدین شاہ صاحب بخاری آپ کے اساتذہ میں سے بحمداللہ حال کے اندر بقید حیات بزرگ ہیں۔ حضرت مولانا پیر محمد شاہ صاحب، شاگر دحضرت مولانا محمد عمر قریشی ؒ آ پ کے مشکوٰۃ المصابیح کے استاذ ہیں۔ پیر محمد شاہ صاحب کا خاندان تحصیل کوٹ ادو کا معروف علمی خاندان ہے، جس میں پشت درپشت علماء وفضلا اور عظیم نسبتوں کے حامل اہل خیر چلے آئے ہیں، آپ کے پردادا جناب مولانا سید سلطان احمد شاہ صاحبؒ سرمایۂ ملت، رئیس المتکلمین، محدثِ عصر حضرت مولانا علامہ عبد العزیز پرہاڑوی ؒ متوفی ۱۲۳۹؁ ھ، مولف ’’کوثرالنبی ا‘‘ کے معاصر اور ان کے خاص متعلقین میں سے تھے۔ حضرت مولانا عبد العزیز پرہاڑوی ؒنے عقائد پر فارسی میں اشعار کا مجموعہ اپنی کتاب ــ’’ایمان کامل‘‘ کی تصنیف انہی کے ایماء پر کرائی تھی، جس میں حضرت پرہاڑوی ؒ کے منہ سے نکلنے والے مبارک اشعار کے کاتب اول بھی حضرت مولانا سید سلطان احمد شاہ صاحبؒ ہیں، یہ بات پوری وضاحت کے ساتھـــ ’’ایمان کامل‘‘ کے مقدمہ میں سبب تالیف کے بیان میں مذکور ہے ۔  حضرت مولاناسید نظام الدین شاہ صاحب اس وقت جامعہ تجویدالقراء بی بلاک، لاہور میں قیام پذیر ہیں، اور جامعہ کی ادارت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، آپ حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویؒ کے شاگرد اور ان کے زمانۂ تدریس ۱۳۶۸؁ھ بمطابق ۱۹۴۹؁ء میں جامعہ عباسیہ، بہاولپور کے فاضل ہیں،جس کے بعد درس حدیث کے شدتِ اشتیاق کے پیش نظر ۱۳۶۹؁ھ بمطابق۱۹۵۰؁ء میں آپ نے جامعہ خیر المدارس ملتان سے دوبارہ دورہ حدیث کیا اور ۱۹۵۱؁ء سے جامعہ احیاء العلوم مظفر گڑھ مدرس ہو گئے۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے ۱۳۷۱؁ھ بمطابق ۱۹۵۲؁ء میں ان سے جا معہ احیاء العلوم میں دیوان حماسہ اوردیوان متنبی پڑھی ہے۔ ان حضرات کے علاوہ حافظ محمد وارث صاحبؒ گوراہ بھی آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، جن سے حفظ قرآن کے بعد آپ نے منزل کی دہرائی کی تھی۔ جنازہ وتدفین  ۴؍رمضان المبارک شام سوا چھ بجے مولانا منظور احمد، استاذالحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان کی زیر اقتداء علماء و طلبا اور متوسلین کے ایک جم غفیر نے محمود کوٹ شہرہائی سکول کے گرائونڈ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور بعد نماز مغرب سنانواں میں قبرستان شاہ نظام، نزد ٹبی موچیاں والا میں آپ کے جسد اطہر کو سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس پاک رو ح کو اپنے جوار میں مقاماتِ عالیہ عطا فرمائیں اورجمیع متوسلین میں قرآن وسنت کے علوم وبرکات کی بہاریں قائم فرمائیں۔ پسماندگان میں آپ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں، سب کے سب قرآن پاک کے حافظ اور تین بیٹے عالم دین ہیں، سب سے بڑے بیٹے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحمن جامی صاحب تجربہ کار مدرس اور عرصہ سے خدمت حدیث میں مصروف ہیں۔ حال میں آپ جامعہ حفصہ للبنات مظفر گڑھ کے مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ دارالعلوم رحیمیہ ملتان کے شیخ الحدیث بھی ہیں۔حضرت کی وفات کے بعد۷ رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک جب شوریٰ کاپہلا اجلاس منعقد ہوا، توشوریٰ نے حضرت کی جگہ اہتمام کی ذمہ داری ان ہی کے سپرد کر دی۔اللہ پاک حامی و ناصر ہوں۔  دوسرے بیٹے حافظ عبد الرحیم صاحب، تیسرے پروفیسر مولانا عبد الجلیل صاحب، چوتھے حافظ عبدالقیوم خیالی اور سب سے چھوٹے بیٹے مولانا عبد الحنان صاحب ہیں، ماشااللہ! سب کے سب اپنی اپنی وسعت کے بقدر دین کا کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا ء فر ما ئیں،اُن کے علمی و اصلا حی سلسلوں کو جاری و سا ری رکھیں اور اس میں اپنی خا ص نصر ت سے نو ازیں ۔   

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین