بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مسلمانوں کے لیے نظامِ زندگی اور لائحہ عمل! مولانا سید ابو الحسن علی ندویv کی کتاب ’’دستورِ حیات ‘‘کی روشنی میں

مسلمانوں کے لیے نظامِ زندگی اور لائحہ عمل!

 مولانا سید ابو الحسن علی ندویv کی کتاب ’’دستورِ حیات ‘‘کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہے،خلقِ آدم ؑسے لے کر قیامت تک آنے والے بندۂ اخیر تک اللہ تعا لیٰ کی نعمتوں کا لازوال سلسلہ اپنے بندوں پر جاری رہے گا،ایسی نعمتیں کہ جن کا استحضار و احاطہ کرنا بھی عقل انسانی کے بس میں نہیں۔انہیں نعمتوں میں سب سے افضل ،اعلیٰ بلکہ یوں کہیں کہ محبوب ترین نعمت انسانیت کو ایمانی دولت سے سرفراز کرنا ہے۔ ایمان کی دولت وہ نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں، یہی وہ نعمت ہے جو مخلوق کو اپنے خالق کے قریب کرتی ہے، جو اس دولت سے مالامال نہیں، اس کے لیے خسارہ اور بربادی کا اعلان کیا گیا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتے ہیں : ’’وَالْعَصْرِ إنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إلَّا الَّذِیْنَ  أٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ۔‘‘(العصر:۱-۳) ’’زمانہ کی قسم !بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے۔‘‘ ایمان ہی وہ قیمتی اثاثہ ہے جو ہر طرح کی کامیابیوں سے انسان کو نواز دیتا ہے۔ ایمان جیسی عظیم نعمت عطاء کرنے کے لیے اللہ نے ایسی عظیم الشان ہستیاں مبعوث فرمائیں جنہوں نے اپنی اپنی قوموں اور امتوں کو راہِ راست پر آنے کی نہ صرف دعوت دی، بلکہ اپنی مکمل کاوشوں سے بندوں کو اللہ کے قریب کردیا۔ انبیاء کریم علیہم السلام کے اسی سلسلے کی آخری کڑی جناب رسول اللہ a تھے، آپ ہی کے سبب اللہ نے اپنے بندوں کو ایمان کا تحفہ دیا ۔ ابتداء میں اسلام کی خاطر پیغمبر a اور صحابہ کرامؓ نے بہت تکالیف برداشت کیں، طرح طرح کی آزمائش میں مبتلا رہے، بے جا مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا، حضور a اور صحابہؓ کی اَن تھک محنت، غیر معمولی جدو جہد، جانی ومالی قربانی اوراللہ سے والہانہ محبت کی وجہ سے یہ دین اسلام پھیلتا گیا، بستی بستی، گلی کوچوں، گوشوں گوشوںتک اسلام کی معطر ہوائیں چلنے لگیں اور آج چودہ سو سال بعد بھی پوری دنیا میں اسلام اپنی حقیقت کے ساتھ متعارف ہو چکا ہے ،کوئی ملک،کوئی شہر ،کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسولa پر ایمان رکھنے والا نہ ہو۔ مگر آ ج المیہ یہ ہے کہ یہ اسلام ہم تک اسلاف کی جن کاوشوں سے پہنچا ،آیا ہمیں اس کی قدر ہے یا نہیں ؟ اور کیا ہم ظاہر کے ساتھ ساتھ حقیقۃً بھی مسلمان ہیں یا نہیں؟ اس سائنٹفک دور میں جہاں ایک طرف انسان ترقی کے منازل طے کر رہا ہے، نِت نئی جدید چیزوں سے آراستہ ہو رہا ہے ،اچھی زندگی گزارنے کے لیے ہر قسم کے ہنر کا متعلم و معلم بن رہا ہے، اپنا کمایا ہوا سرمایا عیش وعشرت میں صرف کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف اسلام کی حقیقت، اللہ کے احکامات، نبی کریم a کی تعلیمات،سلف صالحین کی زندگی کے سبق آموز واقعات اور اللہ پاک کے بنائے ہوئے دستورِ حیات سے انسا ن دور ہوتا جارہا ہے۔ مدارس، خانقاہیں، تبلیغی اور چند دینی مراکز کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت ایمان کی حقیقت سے لا علمی اور نا واقفیت میں گزار رہی ہے۔ یہ دین چونکہ ہمیں حلوہ کی سجی ہوئی تھال کی مانند عنایت ہوا تو ہم نہ اس کی وہ قدر کر پارہے ہیں جو اس کا حق ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کو اس دین اسلام کے سانچہ میں ڈھال پارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اتنے اسبابِ ضرورت، بے تحاشا مال ودولت ،ہر قسم کی آسائش مہیا ہونے کے باوجود بھی آج مسلمان پستی کی طرف جارہے ہیں۔ دنیائے کفر اپنی دھاک بٹھائے بیٹھی ہے۔ کفار کے رعب و دبدبہ سے مسلمان ہر طرف سے پستا چلا جارہا ہے، اُسے آ ج وہ حیثیت نہیں دی جارہی جو آج سے چند سو سال قبل مسلمانوں کو میسّر تھی۔ ظاہر تو ظاہر باطن کا بھی یہ عالم ہے کہ بے سکونی پیچھا نہیں چھوڑتی، پریشانیاں ذہنوں میں گردش کر تی رہتی ہیں، ہر وقت آنے والے کل کی فکر میں مسلمان لگا ہوا ہے۔ ایک قسم کا جنون سر پر سوار کرنے کے باوجود بھی کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ مسلمانوں کے اس ظاہری وباطنی نقصان کا سبب اسلامی تعلیمات سے دوری بنا، جتنا زیادہ مسلمان ان تعلیمات سے دور ہوتا گیا اتنا ہی معاشرے کی اس تاریک بھول بھلیوںمیں پھنستا گیا۔ اب اگر مسلمان دونوں جہانوں میں کامیابی اور کامرانی کی آغوش میں آنا چاہتا ہے تو اُسے ایک ایسا نظام زندگی ترتیب دینا ہوگا جو ہر طرح سے کامل ومکمل ہو اور ایسا نظام زندگی ہمیں اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے۔ ہم سے گزشتہ لوگوں نے اسلامی تعلیمات سے زندگی گزارنے کے ایسے رہنما اُصول نکالے ہیں جن کو اپنانے سے انسان فلاح و بہبود کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوجائے ۔اس مکمل نظام زندگی کو اس اُمّت کے محسن علمائے کرام اورسلف صا لحین نے اپنی عالمی فکرسے ترتیب دیا ہے اور ایمان کو پانچ بڑے حصوں پر تقسیم کیا ہے، جن میں عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ایسا جامع موضوع ہے کہ اس پر لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی اور لکھی جارہی ہیں۔ان موضوعات کا احاطہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ البتہ ایک ایسا راستہ دکھایا جاسکتا ہے جس پر چل کر ان موضوعات کی مکمل حقیقت اور ان کتابو ں تک رسائی حاصل ہوسکے، جن میں ان پر جامع مانع بحث کی گئی ہے۔ لہٰذا مندرجہ ذیل سطور میں ان کا ایسا مختصر تعارف کروانے کی کوشش کی جائے گی جس کے ذریعے ان موضوعات سے اچھی خاصی مناسبت اور انہیں اپنی زندگی میں لانے کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ عقائد ایمان کی حقیقت میں سب سے بڑا عنصر’’صحیح عقائد‘‘ کا ہونا ہے۔ عقیدۂ صحیحہ کا ایمان سے وہ ربط ہے جو روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ جس طرح روح نکلنے سے جسم کسی کام کا نہیں رہتا، بعینہٖ عقیدہ میں بگاڑ آجانے سے ایمان بھی کسی کام کا نہیں رہتا۔ پھرعقائدکی بھی قسمیں ہیں:بعض باتیں تو وہ ہیں جن پر ایمان لانا اور انہیں تسلیم کرنا ایمان کی حقیقت میں داخل ہے، ان کا انکار کفر کو مستلزم ہوتا ہے اور بعض باتیں ایسی ہیں جو اس درجہ کی تو نہیں اور نہ ہی ان کے انکارسے مسلمان ایمان کی دہلیز پار کرتا ہے، البتہ ان کا منکر فسق وفجور اور گمراہی کے زمرے میںداخل ہوجاتا ہے، ان عقائد کا مختصر سا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے : ۱:…اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے متعلق مسلمان کا عقیدہ  اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ ہو نا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اس کارخانۂ قدرت کا قدیم صانع ہے۔ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے کسی نے جنا، نہ اس نے کسی کو جنا۔ ساری کائنات،اس میں موجود ہر شئے،ہر ذرہ کا خالق ہے، تمام جہاں کا رب ہے، حقیقی رازق ہے، ہر چیز پر قادر ہے، ہر عیب سے پاک ہے،ہرجگہ موجود ہے ،سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے، مختار کل ہے، داتاؤں کا داتا ہے، اس کا کوئی ہمسر، کوئی مقابل، کوئی مددگار، کوئی شبیہ نہیں، تمام عبادتوں کا صرف وہی لائق ومستحق ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا،وہ لامحدود ہے، نہ وہ جوہر ہے نہ عرض ہے، نہ جسم ہے،مستوی علی العرش ہے،وہ سب پر حاکم ہے،اپنی مخلوق کی ہرخواہش، ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے ،ہر چیز کا علم قبل الوقوع اور بعد الوقوع اللہ ہی کو ہے۔ ۲:…فرشتوں کے متعلق مسلمان کا عقیدہ فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں ،بلند و مقرب ہیں،کچھ فرشتے صرف اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں اور کچھ کے ذمے اللہ نے دیگر کام لگائے ہیں، جیسے بندوں کے اعمال لکھنا ،حفاظت کرنا ،بارش برسانا،رزق تقسیم کرنا ،پیغمبروں تک وحی پہنچانا،جان نکالنا،مرنے کے بعد سوال وجواب کرنا،پھرصور کے ذریعے دوبارہ اٹھانا وغیرہ۔ جنات و شیاطین بھی اللہ کی مخلوق ہیں جو آگ سے بنی ہیں،جنات میں اچھے اور برے جن ہوتے ہیں، جبکہ شیاطین خالصۃًشریر اور دوسروں کے لیے شر کا باعث بنتے ہیں۔ ۳:…اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابوں کے متعلق مسلمان کا عقیدہ اللہ پاک نے اپنے اولو العزم پیغمبر وں پر مقدس کتابیں اور صحیفے نازل کیے ہیں ،جو برحق ہیں، جن میں سے سب سے آخری اور افضل کتاب قرآن مجید ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے ،اس کے الفاظ ومعانی سب اللہ کی طرف سے ہیں ،کامل ومکمل ہے،ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے ،اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے ،اس کا ہر حرف، ہر بات سچی ہے، اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ ۴:… رسولوں کے متعلق مسلمان کا عقیدہ اللہ نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور اپنے احکامات ان تک پہنچانے کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب کیا، جو ہر دور میں ہر قوم کی طرف بھیجے گئے، جنہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا، اور اس کی تلقین بھی کی، انبیائo ایسی امتیازی صفات سے متصف تھے جو دوسرے انسانوں میں نہیں، اللہ نے ایسے خرقِ عادت امور اِن کے ہاتھ سے سرزد فرمائے جو اُن کی نبوت کی دلیل ہوتی تھی، سلامتیِ فطرت اور مثالی اخلاق کے حامل ،گناہوں سے معصوم ، کسی بھی خطأ پر قائم رہنے سے محفوظ ہیں، کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائo اللہ نے بھیجے،حضرت آدم m سے انبیائo کاسلسلہ شروع ہوا اور فخرِدو عالم حضرت محمدa پر یہ سلسلہ ختم ہوا۔ حضرت محمد aآخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نیا نبی، نئی شریعت کے ساتھ نہیں آسکتا، آپa اللہ کے سب سے محبوب بندے ہیں، سب نبیوں سے افضل ہیں، مخلوق میں کوئی بھی آپa کے مثل نہیں، آپa کی دعوت ساری دنیا، تمام انسانوں، اور جنات کے لیے ہے۔ آپa کی رسالت پر ایمان لائے بغیر اب کوئی بھی ایمان معتبر نہیں اور اس دین کے علاوہ کوئی دین اس وقت بر حق نہیں۔ ۵:…آخرت کے متعلق مسلمان کا عقیدہ  قیامت بر حق ہے ،جہاں تمام مخلوق کا حساب و کتاب کیا جائے گا ،روزِ اول سے روزِ آخر تک کی سب مخلوق کو جمع کیا جائے گا، جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے، پل صراط سے گزارا جائے گا، مؤمنین کو جنت میں اور کفار و مشرکین کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔ ۶:… اچھی بری تقدیر کے متعلق مسلمان کا عقیدہ  اچھی اور بری تقدیر سب اللہ کی طرف سے ہے، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: اس وقت تک کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ تقدیر پر ( اچھی ہو یا بری) ایمان نہ لائے اور جب تک یہ جان نہ لے کہ جو کچھ اس کو پہنچا ہے، اس سے بچ کرنکل نہیں سکتا، اور جس سے بچ کر نکل گیا وہ اس تک پہنچ نہیں سکتا۔ (ترمذی شریف) ۷:…موت کے بعد اُٹھائے جانے کے متعلق مسلمان کا عقیدہ موت بر حق ہے جس کا کوئی منکر نہیں، اسی طرح موت کے بعد دوبارہ اُٹھایا جائے گا،حساب وکتاب کیا جائے گا وغیرہ ،جس کا ذکر گزشتہ صفحہ پر گزرا۔ ۸:…کچھ مزید عقائد  یہ کچھ بنیادی عقائد تھے، ان کے علاوہ یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ معراج بر حق ہے جو آپ a کو بحالتِ بیداری رات میں بیت المقدس اور وہاں سے جہاں خدانے چاہا، لے جایا گیا۔ انبیاء کرامo کے بعد سب سے افضل مخلوق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، سب کے سب صحابہؓ بر حق اور قابل احترام ہیں، ہر ایک کو کوئی نہ کوئی جزوی فضیلت حاصل ہے، جن میں خلفائے اربعہؓ، عشرۂ مبشرہؓ، اصحابِ بدرؓ وغیرہ سب شامل ہیں۔ صحابہؓ میں سب سے افضل اور سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں، پھر حضرت عمرؓ، پھر حضرت عثمان ؓ اور پھر حضرت علی ؓ ہیں۔ تمام ازواجِ مطہراتؓ امت مسلمہ کی مائیں ہیں، سب کی توقیر و تعظیم ایمان کا حصہ ہے۔تمام صحابہؓ وصحابیاتؓ کا ذکر خیر کرنا اہل وسنت والجماعت کا شیوہ ہے۔ یہ سب ہمارے رہبرورہنما ہیں۔  اولیائے عظام کی کرامات بر حق ہیں۔ جسے اللہ چاہتا ہے نوازتا ہے۔ نبوت ولایت سے مطلقاً افضل ہے، نبی ہو یا ولی تکلیفِ شرعی کسی سے بھی ساقط نہیں ہوتی۔ اہل قبلہ کافر نہیں، ہاں! مگر وہ جو اللہ کو خالق و قادر اور مختار کل نہ مانے یا غیر اللہ کی (مخصوص ناروا)تعظیم کرے یا آخرت، یا کسی نبی یا کتاب یا ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ ہر قسم کا شرک، بدعت اور گناہ مذموم اور منع ہے،اس سے بچنا ضروری ہے۔ عذابِ قبر بر حق ہے۔ اچھے اعمال جنت کی طرف اور برے اعمال جہنم کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہیں ۔ علاماتِ قیامت جو وارد ہوئی ہیں، وہ برحق ہیں۔ ان تمام باتوں کا زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تصدیق کرنا ہی کامل ومکمل ایمان ہے۔ عبادات عبودیت کی بنیاد عقائد وایمان کی تصحیح پر موقوف ہے۔ جس کے عقائد میں خلل ہوگا اس کی عبادت مقبول نہ ہوگی۔ عقائد کے بعد اسلام میں عبادات پر زور دیا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے، جن وانس کو پیدا کرنے کا اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت بتایا ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’وماخلقت الجنَّ والإنس إلا لیعبدون۔‘‘(سورۃالذاریات:۵۶) ’’میں نے جنات اور انسانوں کو صرف عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ اب عبادت کے مختلف طریقے اور صورتیں ہیں ،جن عبادات کا قرآن و سنت میں ذکرہے، وہ سب کی سب اپنے اپنے موقع ومحل کے حساب سے افضل ہیں۔ تمام عبادات کا ذکر کرنا مشکل ہے، البتہ بنیادی اور اہم عبادتوں کا اجمالی تذکرہ مندرجہ ذیل ہے: 1:…نماز  عبادات میں پہلا اور سب سے اہم رکن نماز ہے۔ نماز دین کے ستونوں میں سے ہے، مسلمانوں اور کفار کے درمیان وجہ امتیاز ہے،قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔‘‘(سورۃ الروم:۳۱) ’’اور نماز پڑھتے رہو اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔‘‘  اسی طرح حضرت جابر q(المتوفیٰ:۷۸ھ) حضور a سے روایت نقل کرتے ہیں، آپa نے فرمایا :’’بین العبد وبین الکفر ترک الصلٰوۃ۔‘‘ (ترمذی،ج:۵،ص:۱۳، باب ماجاء فی ترک الصلوٰۃ، طبع: مکتبہ مصطفی بابی حلبی، مصر)یعنی ’’بندہ اور کافر کے درمیان (حدِ فاصل)ترکِ نماز ہے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا:’’بین الکفر والإیمان ترک الصلٰوۃ۔‘‘ (ایضاً)یعنی ’’کفر اور ایمان کے درمیان (حدفاصل) ترکِ نماز ہی ہے۔‘‘ نماز کو وصول الیٰ اللہ، تعلق مع اللہ اور تقرب و ولایت کے حصول میں جو کمال درجہ کی تاثیر اور غایت درجہ کی اہمیت حاصل ہے، وہ پورے نظامِ شریعت میں کسی اور چیزکو حاصل نہیں، اس کے ذریعے اس امت کے علمائ، صلحائ، مجاہدین، اکابرین اور ہر قسم کے خاص وعام لوگ ہر دور میں ایمان ویقین،علم ومعرفت، روحانیت ولِلّٰہیت کے ان درجات پر پہنچے ہیں، جہاں بڑے بڑے دانشمندوں کی عقلیں تھک کر ہار جاتی ہیں۔نبی کریم a نے نماز کو حددرجہ اہمیت دی اور صحابہؓ سے بھی اس بارے میں ہر موقع پر تلقین کی، کہیں تو آپa نے یہ فرمایا:’’وجعل قرّۃ عینی فی الصلٰوۃ ۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، مغیرہ بن شعبہؓ، ج:۲۰، ص:۴۲۰، طبع:مکتبۃ العلوم والحکم، موصل) یعنی ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ اور کہیں یہ فرمایا:’’قم یا بلال! فأرحنا بالصلٰوۃ۔‘‘(ابو دائود،باب فی صلوٰۃ العتمۃ، ج:۷، ص:۳۳۹، طبع: دارالرسالۃ العالمیۃ)’’اے بلال!کھڑے ہوجاؤ اور ہمیں نماز کے ذریعہ آرام پہنچاؤ۔‘‘  حضرت حذیفہ q(المتوفیٰ:۳۶ھ) فرماتے ہیں :’’کان النبی a إذا حزبہٗ أمرٌ صلّٰی۔‘‘ (ابو داؤد، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، ج: ۲، ص: ۴۸۵، طبع: دارالرسالۃ العالمیۃ)یعنی’’جب بھی حضور a کو کوئی بھی پریشانی پیش آتی توفوراًنماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔‘‘     آپ a کی نماز ’’احسان‘‘کے اعلیٰ درجہ پر تھی،’’احسان ‘‘ کے معنی خود حضور a نے ایک طویل حدیث میںارشاد فرمائے کہ:’’أن تعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ  فإنہٗ یراک۔‘ ‘ (صحیح البخاری، باب سؤال جبرئیل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱،ص:۱۹، طبع: دارطوق النجاۃ)’’اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو جیسا کہ تم اس کودیکھ رہے ہو،اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تووہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘ مسلمان سے بھی یہی نماز مطلوب ہے جو نبی کریم a کی نماز تھی،آپa نے ارشاد فرمایا:’’صلُّوا کما رأیتمونی أُصلّی۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۱،ص:۱۲۹، دارطوق النجاۃ)’’اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھ کونمازپڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ نماز کی مکمل کیفیت اور طریقہ یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں، البتہ مردوں اور خواتین کی نماز کا مکمل طریقہ جاننے کے لیے کتبِ فقہ سے رجوع کیا جائے۔ اس دور کے محقق عالم دین، شیخ الاسلام، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا رسالہ ’’نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں‘‘ عوام وخواص کے لیے اس موضوع پر بہترین تحفہ ہے۔ 2:…زکوٰۃ   اسلام کا دوسرا بڑا رکن اور عبادات میں نماز کے بعداہم عباد ت زکوٰۃہے ۔زکوٰۃکا مقصد غریبوں کی دستگیری کرنا ہے۔زکوٰۃ کہتے ہیں کہ وہ مال جو شریعت کے مقرر کردہ نصاب کے برابر پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس کا چالیسواں حصہ مستحق زکوٰۃ (جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے) کو دینا۔ اس سے نہ صرف ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوگی بلکہ اسلام جس بھائی چارگی کا درس دیتا ہے،اس کے لیے بھی زکوٰۃ و صدقات بہت معاون ہوتے ہیں ۔اس کے ذریعے آپس میں محبتیں بڑھتی ہیں اورزکوٰۃ دینے والے کے مال کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ a اس عبادت کی ادائیگی میں بھی سب سے آگے تھے، کبھی بھی اپنے پاس مال جمع نہ فرمایا، جیسا جیسامال آتا گیا، ویسا ویسا اسے تقسیم کردیا کرتے۔کبھی کسی سائل کو رد نہیں فرماتے اور دیگر مسلمانوں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ آپa مال کے معاملے میں بھی سب کا خیال فرماتے، جس علاقہ کے اغنیاء سے زکوٰۃ لیتے اُسے اسی علاقہ کے فقراء اور مسکینوں میں تقسیم کردیتے۔ یہی ہمارے نبیa کا معمول تھا، ہمیں بھی اسی طریقہ پر چلنا ہے۔ اگر آج مسلمان اس فلسفۂ شریعت کو سمجھ کر اپنی زکوٰۃ پوری پوری ادا کریں اور نفلی صدقات سے بھی پیچھے نہ ہٹیں تو ایسا وقت دور نہ ہوگا جب کوئی بھی مستحق زکوٰۃ ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گا اور مسلمان کہیں بھی کمزور نہ ہوگا ۔ 3:…روزہ  اصلاحِ نفس اور تقرب الیٰ اللہ کے حصول کے لیے بہت بڑا کردار روزہ کا ہے۔ یہ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے۔ روزہ وہ ڈھال ہے جو شیطان اور نفس کی طرف سے ہو نے والے مہلک حملوںکا دفاع کرتی ہے ،اسی کے ذریعے انسان تقوے کے بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ’’یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔‘‘                                                       (سورۃالبقرۃ:۱۸۳)   ’’اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیساکہ تم سے گزشتہ لوگوں پر فرض تھے شاید کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ نبی کریم a کی حیاتِ طیبہ میں روزہ کو بہت اہمیت حاصل تھی، روزہ کے بارے میں آپa کا طریقہ جہاں ایک طرف جامع ومکمل اور حصولِ مقصد کا مفید ترین ومؤثر ترین ذریعہ تھا تو وہیں دوسری طرف سہل و آسان بھی تھا۔ فرض روزوں کی پابندی کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی آپ بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے، غیر رمضان میں کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے اور کبھی کئی کئی دن نہ رکھتے، شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے، اسی طرح ایامِ بیض اور پیر و جمعرات کے روزوں کا بھی خاص اہتمام فرماتے۔ یہ تو غیر رمضان کا حال تھا اور رمضان میں رسول اللہa کی عبادت کے کیا کہنے۔  آپ a رمضان میں بہت سی وہ عبادتیں کرتے تھے جو غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے۔ مکمل رمضان کے روزے رکھتے، سحری بھی فرماتے، اسفار میں کبھی روزہ ترک بھی فرمادیتے، سحری وافطاری میںکھانے میں جو میسّر آجاتا‘ تناول فرما لیتے۔ کبھی تو صرف کھجور سے افطاری کرتے اور کبھی صرف پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت فرماتے اور جبرئیل امینm کے ساتھ قرآن کا دور بھی کرتے۔ جود وسخا کا فیض رمضان میں آپa سے اس طرح جاری ہوتا تھا جیسے انعامات کی تیز وتند ہوائیں ہوں۔ آخری عشرے میں اعتکاف بھی پابندی سے فرمایا کرتے، حتیٰ کہ ایک بار چھوٹ گیا تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ 4:…حج  حج اسلام کا چوتھا بڑا رکن ہے، اپنے رب سے اظہارِ محبت اور کامل اطاعت کرنے کا حج ایسا طریقہ ہے جس کی کوئی نظیر نہیں، جس طرح کوئی اپنے محبوب کی محبت میں اس کے گھر کے دیوانہ وار چکرکاٹتا ہے ،اُدھر سے اِدھر بھاگتا ہے، تا کہ سکون اور محبوب کی ایک نظر اُسے عطا ہوجائے، اسی طرح حج میں بھی انسان اپنے رب سے اپنی والہانہ محبت کا کھل کر اظہار کرتا ہے، تا کہ اپنے حقیقی محبوب کی نظر کرم اور خصوصی توجہ عطاء ہوجائے۔ نبی کریم a نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج ادا فرمایاجو حجۃ الوداع تھا، ہجرت کے بعد آپ a نے چار عمرے کیے۔حج کا باب بہت مفصل اور طویل ہے، صرف اس کے طریقہ کو جان لینا زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتا جب تک عملی مشق نہ ہوجائے۔ اس کے لیے کتب فقہ سے رجوع کیا جائے۔ اس دور کے مایہ ناز محقق عالم دین مفتی انعام الحق صاحب دامت برکاتہم کی کتاب ’’عمرہ و حج کا آسان طریقہ‘‘اپنے موضوع پر نہایت مفیدترین کتاب ہے۔  5:…جہاد ارکانِ اربعہ کے بعدبہت سی ایسی عبادتیں ہیں جن کو شریعت میں بلند مقام حاصل ہے، جیسے تلاوتِ قرآن مجید ،ذکرِ الہٰی، عید الاضحی میں قربانی، اسلام کی دعوت وتبلیغ وغیرہ، ان سب کے ذکر کرنے سے بات طویل ہونے کا خدشہ ہے، البتہ ان سب میں سے ایک ایسی اہم عبادت اور خدا کا حکم ہے جسے بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے اوروہ ہے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔اس دور میں جہاد کا لفظ سنتے ہی دل فوراً گھبرانے لگتا ہے،اعضاء کانپنے لگتے ہیں ،دہشت گردی کی طرف ذہن چلا جاتا ہے، مگر در حقیقت جہاد اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا مبارک حکم ہے ،قرآن کریم میں سینکڑوں مقامات پر جہاد سے متعلق آیاتِ مبارکہ نازل ہوئی ہیں، البتہ اس موضوع کی صحیح تشریح کی ضرورت ہے ۔ اصطلاحِ شرع میں جہاد کہتے ہیں: اعلاء کلمۃ اللہ اور دفاعِ دین کی خاطر اللہ کے لیے دشمنانِ اسلام سے قتال کرنا، پھر جہاد کی کئی قسمیں ہیں :۱:… نفس سے جہاد کرنا، ۲:…شیطان سے جہاد کرنا، ۳:…کفار سے جہاد کرنا، ۴:… منافقین سے جہاد کرنا۔ پھر کفار سے جہاد کی بھی صورتیں ہیں :۱:۔۔۔ ہتھیارکے ذریعے جہاد کرنا، ۲:۔۔۔قلم کے ذریعے (میدانِ تصنیف میں) جہاد کرنا، ۳:۔۔۔ زبان کے ذریعے (ظالم حاکم کے سامنے حق بات کرکے) جہاد کرنا۔ یہ سب صورتیں شریعت کی جانب سے مشروع ہیں۔ جہاد کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگائیںکہ خود نبی کریم a باوجود رحمتہ للعالمین ہونے کے اس فریضہ کی ادائیگی میں بہت زیادہ متحرک رہے، بذاتِ خود آپa نے ۲۷؍ غزوات میں شرکت کی اور کفار کا سامنا کیا، اس کے علاوہ بے شمار سرایا (جنگی دستے)آپa نے کفار کے خلاف روانہ فرمائے ۔ مگر ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جو حکم جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کی شرائط اتنی ہی سخت ہوتی ہیں ۔جہاں ایک طرف اللہ نے جہاد کا حکم دیا ہے، وہیںدوسری طرف شریعت نے اس کے لیے ایک مکمل ضابطہ مقرر کیا ہے۔ اگر کوئی ان ضابطوں کی خلاف ورزی کر کے، شریعت کی حدود تجاوز کرکے، نبی کریمa کی تعلیمات پس پشت رکھ کے، من چاہی طریقہ سے قتل وغارت اور فساد پھیلا کر اُسے جہاد کا مبارک نام دے، تو یہ عمل نہ صرف اللہ اور اس کے رسول a کی نظر میں مذموم ہے، بلکہ دنیا وآخرت میں ایسے شخص  کے لیے سخت وعید اوراس پر سخت گرفت کا حکم ہے ۔ اگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سنتِ مطہرہ کے مطابق، حکمت و بصیرت، عقل و دانشمندی اور موقع محل کی مناسبت سے جہاد کی جس صورت یا جس میدان میں بھی عمل کیا جائے، وہ نہ صرف پسندیدہ ہے، بلکہ اس کے بے شمار فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ معاملات گزشتہ دو صورتوں :عقائد اور عبادات کاتعلق حقوق اللہ سے ہے، اس کے بعد اب ان صورتوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ آ ج اس فتنہ کے دور میں اور دین سے دور ہونے کے باوجود بھی مسلمان حقوق اللہ کی ادائیگی میں کچھ نہ کچھ کوشش کرتے ہیں، مگرحقوق العباد کی ادائیگی میں صفر بٹہ صفر کے درجہ پر ہیں، جبکہ یہ اتنا اہم ہے کہ اللہ اپنے حقوق تو معاف کردے گا، لیکن بندوں کااپنے حقوق و مطالبات کا معاف کرنا بندوں ہی کے اختیار میں چھوڑا ہے ۔ حقوق العباد میںمعاملات کا شریعت کے مطابق ہونا بہت ضروری ہے، بیع وشرائ، ترکہ ومیراث، قرض ، ہر قسم کا لین دین جیسے بیسیوں ابواب ہیں جن کا تعلق معاملات سے ہے ۔ انہیں سیکھ کر اُن پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس میں ہمارے نبی a کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ان مسائل کو سیکھنے کے لیے اپنے فن میں ماہر مفتیان کرام اور فقہ کی مستند کتابوں سے رجوع کیا جائے۔ معاشرت معاشرت کابھی حقوق العباد سے گہرا تعلق ہے۔ معاشرت کا مطلب ہے کہ معاشرے میں رہن سہن کس طرح کیا جائے۔ گھر والوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، اپنے دوستوں اور رفقاء کے حقوق، جہاں پڑھ رہے ہیں وہاں کے طلبہ، اساتذہ کے حقوق ،جس دفتر ،دکان ، کمپنی میں کام کر رہے ہیں، وہاں کے عملہ کے حقوق صحیح طرح سنت و شریعت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہیں۔بے شمارآیات اور احادیث ِمبارکہ میںحسنِ معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے ۔نبی کریم a کی ذات بابرکت حسنِ معاشرت میں ہمارے لیے سب سے بہترین مثال ہے۔ اخلاقیات اخلاقیات شریعت کا بہت اہم حصہ ہے۔ اخلاق کے اچھے اور برے ہونے سے انسانی زندگی بہت زیادہ متأثر ہوتی ہے۔ اخلاق کی دو قسمیں ہیں:۱:… اخلاقِ حسنہ ، ۲:… اخلاقِ رذیلہ ۔ 1:…اخلاقِ حسنہ  نبی کریم a کی ذاتِ عالی اخلاقِ حسنہ کا کامل ترین نمونہ تھی۔آپa کے اخلاق اتنے جامع، اس قدر حسین تھے کہ قوموں کی قومیں صرف انہیں اخلاق کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوگئیں۔ قرآن کریم میں اللہ خود اپنے حبیبa کی تعریف اس طرح فرما رہے ہیں :’’وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۔‘‘  سورۃ القلم:۴)’’اور بے شک تمہارے اخلاق (بہت) عالی ہیں۔‘‘ اخلاقِ حسنہ اپنانے کے لیے سیرتِ نبویہ(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) پر ہمہ وقت نظر رکھنی ضروری ہے۔ حضور a کے شمائل ہی سے انسانوں کی زندگیوں میں اخلاقِ حسنہ بار آور ہو سکتے ہیں ۔ 2:… اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ رذیلہ برے اخلاق کو کہتے ہیں،ان سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہی وہ دبیز پردے ہیں جو تعلیمات نبویہ (l) سے فائدہ اُٹھانے اور ’’اللہ کے رنگ‘‘ میں رنگ جانے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ یہی انسان کو ہوا و ہوس کا شکار اور بازیچۂ شیطان بنادیتے ہیں۔ اس کی حفاظت خود بھی ہو سکتی ہے، مگر اس کاسب سے مجرب اور اس پرفتن دور میں لازم طریقہ یہ ہے کہ بندہ خود کو کسی ایسے ولی کامل، شیخ طریقت کے سپرد کردے، جس کی زندگی خالصتاً اتباعِ سنت میں گزری ہو، کیونکہ اخلاقِ رزیلہ در حقیقت روحانی بیماریاں ہیں اور جس طرح بیماری کا علاج خود کرنا نقصان دہ ہوتا ہے، اس کے لیے کسی اچھے ڈاکٹر کی طرف رہنمائی ضروری ہوتی ہے تو اسی طرح ان روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے یہ ولیِ وقت اچھے طبیب کی مانند ہوتے ہیں جو نہ صرف ان بیماریوں کا علاج کرتے ہیں، بلکہ پرہیز کرواکے ان بیماریوں کو دوبارہ لگنے سے بچاتے بھی ہیں۔ کچھ اور ضروری باتیں شریعت کے ان پانچ حصوںکے علاوہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ ہر وقت اللہ کی یاد میں لگا رہے، اس کے لیے ان مسنون دعاؤں کا اہتمام کرے جو ہر موقع پر جناب رسول اللہ a سے ثابت ہیں۔ اسی طرح ہمارے نبیa جو اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں،ان پر کثرت سے درود وسلام بھیجنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اس سے نہ صرف اللہ اوراس کے رسول a خوش ہوںگے، بلکہ دنیا و آخرت میں ہر جانب اس کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہوگی۔ ان سب کے ساتھ ایک ایسی بات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ایک مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے جو اس کی زندگی میں سدھار کا ذریعہ اور بگاڑسے دوری کا سبب بنتی ہے اور وہ ہے ’’موت کی یاد ‘‘،کیونکہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی منکر ہو سکتا ہے، مگر موت کا کوئی منکر نہیں۔ اور جب مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد اللہ کے دربار میں حاضری دینی ہے تو پھر انسان ہر وقت اسی خیال میں رہے گا کہ کوئی ایسا امر سرزد نہ ہوجائے جو پکڑ کا باعث بن جائے اور اپنے رب کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ آخری کلمات ایک مسلمان اگر اپنے لیے یہ نظامِ زندگی بنالے تو دنیا میں کسی بھی میدان میں خسارے کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا اور آخرت میں بھی خوشی خوشی رب کی رضا کے ساتھ جنت کے مزے لوٹے گا۔اور اگر اپنی زندگی ایسے ہی چھوڑدی جیسے چوپائے گزارتے ہیں اور شریعت کی جانب سے مقرر دستورِ حیات کو بروئے کار نہ لائے تو اس چمک دَمک کی دنیا میں بھی ہمیشہ تاریکی میں رہے گا اور آخرت میں عقاب وعذاب کا خود کو مستحق بنائے گا ۔   ۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین