بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ (یتیم پوتے وغیرہ کی میراث) اسلامی احکام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ         (پہلی قسط)

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴

(یتیم پوتے وغیرہ کی میراث)

اسلامی احکام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ         (پہلی قسط)


اسلامی معاشی نظام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سرمایہ اور ذرائعِ سرمایہ گردش میں رہیں، اور معاشرے کے تمام افراد استحقاق کی بنیادپر اپنا اپنا حصہ حاصل کریں، اسلامی احکامِ میراث میں یہی فلسفہ کارفرما ہے۔ احکامِ میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر احکام کے برعکس ان احکام کے جزئیات تک قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، تاہم اُصولی طور پر قرآن مجید میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ میراث کے استحقاق کا دارومدار قرابت پر ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
۱:-’’لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ۔‘‘(۱)
۲:-’’وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ۔ ‘‘(۲)
مزیدبرآں! دو اور باتوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، ایک یہ کہ ذوی الفروض کے حصے مقرر کردئیے گئے ہیں، تاکہ ان میں سے کوئی وارث محروم نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ عصبات کی درجہ بندی کی گئی ہے، تاکہ اقرب کا حق ابعد پر مقدم ہو۔ غرض یہ کہ زمانۂ جاہلیت میں انسانوں کے بنائے گئے ظالمانہ قوانین کے برعکس انصاف پر مبنی ایک جامع نظامِ میراث انسانیت کو فراہم کیا گیا جس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ معاشرے کے کمزور افراد وطبقات، بالخصوص خواتین اور بچوں کے حقِ میراث کا تحفظ کیا گیا۔ اسلامی احکامِ میراث میں اولاد کو فی الجملہ عصبات کے درجے میں رکھا گیا ہے اور عصبات کے لیے اقرب فالاقرب کا اصول وضع کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قریبی عصبہ کی موجودگی میں بعید ی عصبہ کو میراث نہیں ملے گی، یعنی صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وغیرہ میراث کا استحقاق نہیں رکھتے، اگرچہ وہ یتیم ہوں۔ تاہم جب پاکستان میں مسلم آرڈیننس۱۹۶۱ء فیملی لاء کا نفاذ کیاگیا، تو اس قانون کی دفعہ ۴میں یتیم پوتے وغیرہ کو میراث کا مستحق قراردیاگیا۔ اس وقت علماء اور دینی علوم کے ماہرین کی طرف سے اس پر بڑی تنقید کی گئی، اور اس دفعہ کو ختم کرنے کاپرزورمطالبہ کیاگیا۔ لیکن یہ دفعہ ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، اور قانون کا حصہ ہے۔
زیرِنظر مضمون میں مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ۴ کا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ دفعہ شرعی احکام کے مطابق ہے؟ یا شرعی احکام سے متصادم؟ اگر متصادم ہے تو کون سے اصول واحکام سے متصادم ہے؟ اور کن پہلوؤں سے؟ ذیل کی سطور میں ان سوالات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

دفعہ نمبر:۴- وراثت کا متن

’’اگروراثت کے شروع ہونے سے پہلے مورث کے کسی لڑکے یا لڑکی کی موت واقع ہو جائے تو ایسے لڑکے یا لڑکی کے بچوں کو (اگر کوئی ہوں) بحصۂ رسدی وہی حصہ ملے گا جو اس لڑکے یا لڑکی کو(جیسی کہ صورت ہو) زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔‘‘

دفعہ۴- ’’ وراثت‘‘ کا تجزیہ

اس دفعہ میں بیان کردہ صورت مسئلہ یہ ہے کہ یتیم پوتے، پوتیاں، نواسے اورنواسیاں اپنے دادا/نانا کے ترکہ میں سے مطلقاً میراث کے حقدار ہیں، یعنی اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ صلبی اولاد(بیٹے/بیٹیاں) ہوں، اس شخص کی زندگی میں ان میں سے کسی ایک کاانتقال ہوجاتا ہے اور وہ (مرحوم) اپنے پیچھے اولاد (بیٹے/ بیٹیاں) چھوڑ جاتا ہے- جو عرف میں یتیم کہلاتے ہیں- یہ بچے اپنے دادا/نانا کے مال کے وارث ہوں گے۔ جب بھی داد یا نانا کا انتقال ہوگا،ان کو دادا/نانا کے ترکہ میں سے میراث ملے گی، جس کی مقدار کا معیار ان کے(مرحوم) والد یاوالدہ کا حصہ ہے۔ اگروہ زندہ ہوتے تو جتنی میراث کے وہ مستحق ہوتے، و ہی میراث اب ان بچوں کو ملے گی، اگرچہ ان بچوں کا چچا اور پھوپھی یا ماموں اورخالہ زندہ ہوں۔ خلاصہ یہ کہ یتیم پوتے/نواسے‘ دادا/نانا کے ترکہ میں مطلقاً میراث کے حقدار ہیں۔

شرعی نقطۂ نظر اور ورثاء کی اقسام

شریعت کے نقطۂ نظر سے اس دفعہ کی حیثیت کیا ہے؟کیا یہ شریعت کے احکام میراث کے مطابق ہے؟ یا متصادم؟ اگرمتصادم ہے تو کون سے احکام سے؟ اورکس کس حوالے سے متصادم ہے؟ ذیل کی سطور میں ان سوالات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم تمہیدی طور پرپہلے ورثاء کی اقسام اور ان کی تعریفات پیش کی جاتی ہیں جودرج ذیل عبارت میں بیان کی گئیں ہیں:
’’وَیُسْتَحَقُّ الْإِرْثُ بِرَحِمٍ وَنِکَاحِ وَوَلَائٍ، وَالْمُسْتَحِقُّوْنَ لِلتَّرِکَۃِ عَشَرَۃُ أَصْنَافٍ مُرَتَّبَۃٌ: ذَوُو السِّہَامِ ثُمَّ الْعَصَبَاتُ النَّسَبِیَّۃُ ثُمَّ السَبَبِیَّۃُ ۔۔۔ ثُمَّ ذَوُو الْأَرْحَامِ ۔۔۔ وَالسِّہَامُ الْمَفْرُوْضَۃُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ - تَعَالٰی- : الثُّمُنُ وَالسُّدُسُ ۔۔۔ وَالرُّبْعُ ۔۔۔ وَالنِّصْفُ ۔۔۔ وَالثُلُثُ ۔۔۔ وَالثُلُثَانِ۔ الْعَصَبَاتُ، وَہُمْ نَوْعَانِ: عَصَبَۃٌ بِالنَّسَبِ، وَعَصَبَۃٌ بِالسَّبَبِ۔ أَمَّا النَّسَبِیَّۃُ فَثَلَاثَۃُ أَنْوَاعٍ: عَصَبَۃٌ بِنَفْسِہٖ، وَہُوَ کُلُّ ذَکَرٍ لَا یَدْخُلُ فِی نِسْبَتِہٖ إِلَی الْمَیِّتِ أُنْثٰی۔۔۔ وَعَصَبَۃٌ بِغَیْرِہٖ، وَہُمْ أَرْبَعٌ مِنَ النِّسَائِ یَصِرْنَ عَصَبَۃً بِإِخْوَتِہِنَّ، ۔۔۔ وَعَصَبَۃٌ مَعَ غَیْرِہٖ، وَہُمُ الْأَخَوَاتُ لِأَبَوَیْنِ أَوْ لِأَبٍ یَصِرْنَ عَصَبَۃً مَعَ الْبَنَاتِ وَبَنَاتِ الِابْنِ ۔۔۔وَذَوُو الْأَرْحَامِ: کُلُّ قَرِیْبٍ لَیْسَ بِذِیْ سَہْمٍ وَلَا عَصَبَۃٍ، وَہُمْ کَالْعَصَبَاتِ ، مَنِ انْفَرَدَ مِنْہُمْ أَخَذَ جَمِیعَ الْمَالِ، وَالْأَقْرَبُ یَحْجُبُ الْأَبْعَدَ، وَہُمْ أَوْلَادُ الْبَنَاتِ، وَأَوْلَادُ بَنَاتِ الِْابْنِ، الخ۔ ‘‘(۳)
’’میراث کا استحقاق قرابت، نکاح اور ولاء کی بنیاد پر بنتا ہے اور ترکہ کے مستحق دس قسم کے لوگ ہیں: ذوی الفروض ، پھر عصبہ نسبیہ، پھر عصبہ سببیہ، پھر ذوی الارحام۔ قرآن مجید میں مقرر کردہ حصے: ثمن، سدس، ربع، نصف، ثلث اورثلثین ہیں۔ عصبات دو قسم پر ہیں: عصبہ نسبیہ اورعصبہ سببیہ، عصبہ نسبیہ تین قسم پر ہے: ۱:- عصبہ بنفسہ: یعنی ہرمرد جس کی میت کی طرف نسبت کرنے میں عورت کا واسطہ نہ ہو۔ ۲:- عصبہ بغیرہ: چار عورتیں ہیں، جو اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔ ۳:-عصبہ مع غیرہ: یعنی عینی یا علاتی بہنیں ،جو بیٹیوں اور پوتیوں کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔ ۴:-ذووالأرحام: ہر وہ رشتہ دار، جو ذوی الفروض اور عصبہ میں سے نہ ہو، یہ میراث لینے میں عصبات کی طرح ہے، اگر اکیلا ہو تو سارا مال لے لیتا ہے، اور اَقرب اَبعد کو محجوب(محروم) کردیتا ہے، وہ بیٹیوں اور پوتیوں کی اولاد ہیں الخ)۔‘‘

دفعہ۴ کی روسے ظہور پذیر ہونے والی صورتیں

دفعہ:۴’’وراثت‘‘ کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں حکم کے اعتبار سے عملاً تین صورتیں پیش آسکتی ہیں، جن پر اس دفعہ کا اطلاق ہوگا:

پہلی صورت

یتیم پوتا داد اکا وارث بن جائے، جبکہ اس کا چچا یعنی دادا کا بیٹا موجود ہو۔

دوسری صورت

یتیم پوتی دادا کی وارث بن جائے، جبکہ اس کی پھوپھی ،یعنی دادا کی بیٹی موجود ہو اور دادا کی بہن بھی حیات ہو۔

تیسری صورت

یتیم نواسے/نواسیاں نانا کے وارث بن جائیں، جبکہ ان کے ماموں/خالہ، یعنی نانا کی صلبی اولاد موجود ہو۔
یہ تینوں صورتیں شریعتِ مطہرہ کی نصوص اور ان نصوص میں بیان کردہ احکامِ شرعیہ سے متصادم ہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

پہلی صورت

یتیم پوتا دادا کا وارث بن جائے، جبکہ اس کا چچا یعنی دادا کا بیٹا موجود ہو۔

توضیح

 اگر فرض کرلیا جائے کہ دادا کی وفات کے وقت ایک یتیم پوتااورایک صلبی بیٹا موجود ہیں، تو عائلی قوانین کی دفعہ:۴ کی روسے یتیم پوتے کو دادا کے مال میں سے آدھا حصہ مل جائے گا، اور بقیہ آدھا دادا کے صلبی بیٹے کو مل جائے گا، جبکہ شریعتِ مطہرہ کی رو سے سارا مال یا ترکہ بیٹے کو ملے گا، پوتے کو کچھ نہیں ملے گا۔ ظاہر ہے کہ دونوں احکام ایک دوسرے سے بالکل متصادم ہیں۔ بہرحال! شرعی حکم کی بنیاد اور دلیل قرآنی نصوص، احادیثِ نبویہ، آثارِ صحابہؓ اور اجماعِ اُمت ہے، جس کی تفصیل ذیل کی سطور میں ملاحظہ ہو:

احکامِ میراث کا مشہور قاعدہ 

’’ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محرو م ہوتے ہیں۔‘‘
اس قاعدہ کی بنیاد قرآن وسنت میں صراحۃً مذکور دو اصولوں پر ہے: 
الف:-میراث کا دارومدار رشتے کے لحاظ سے اقربیت پر ہے۔ ب:-استحقاقِ وراثت میں حجب (بعض ورثاء کا میراث سے محروم ہونے) کا قانون جاری ہے۔
پہلااصل: حسبِ ذیل نصوص (آیات واحادیث) میں بیان ہوا ہے:
’’لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۔ ‘‘(۴)
’’مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے، اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے، تھوڑا ہو یا بہت ہو، حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘
’’وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ فَآتُوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدًا۔‘‘(۵)
’’اور ہر کسی کے لیے ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مریں ماں باپ اور قرا بت والے اور جن سے معاہدہ ہوا تمہارا ان کو دے دو ان کا حصہ، بیشک اللہ کے رو برو ہے ہر چیز ۔‘‘
ان دونوں آیاتِ کریمہ میں لفظ ’’الْأَقْرَبُوْنَ‘‘ میں میراث کی علت کی تصریح ہے کہ رشتے میں اقربیت ہے، امام قرطبیؒ پہلی آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’قَالَ عُلَمَاؤُنَا: فِيْ ہٰذِہِ الْأٰیَۃِ فَوَائِدُ ثَلَاثٌ: إِحْدَاہَا- بَیَانُ عِلَّۃِ الْمِیْرَاثِ وَہِيَ الْقَرَابَۃُ۔‘‘(۶)
 ’’ہمارے علماء نے فرمایا کہ: اس آیت میں تین فائدے ہیں، پہلا یہ کہ علتِ میراث کا بیان کہ وہ قرابت ہے۔‘‘ 
اس علت کی عملی تطبیق یوں کی گئی ہے کہ وراثت قرابت کی بنیاد پر ملتی ہے۔ قرآن مجید میں جن رشتہ داروں (ذوی الفروض) کے حصے مقرر کیے ہیں، ان سے بچنے والا مال عصبات میں تقسیم ہوگا، تو جو رشتہ دار جتنا زیادہ قریب ہوگا، وہ پہلے مستحق ہوگا۔ حدیثِ نبوی میں قطعیت کے ساتھ اس اصول کو بیان کیا گیا ہے:
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوْا الفَرَائِضَ بِأَہْلِہَا، فَمَا بَقِيَ فَہُوَ لِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ۔‘‘(۷)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول aنے ارشاد فرمایا: قرآن مجید کے مقرر کردہ حصے اصحابِ فرائض کو دے دو، پھر جوباقی رہے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد رشتہ دار کو دیا جائے۔‘‘
یہ حدیث شریف اکثر کتبِ حدیث میں مذکور ہے، اس لحاظ سے متواتر معنوی کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ اس کے مضمون پر اُمت کا اجماع ہے، بشمول ان لوگوں کے جو پوتے/نواسے کو دادا کے وارث قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ دیگر رشتہ داروں کے حوالے سے اسی حدیث شریف پر عمل ہے۔ گویا اس حدیث کے حوالے سے تواترِ عملی بھی موجود ہے۔ (۸)
اس حدیث شریف میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ میت کے ترکہ میں سے اصحاب الفرائض سے بچنے والا مال عصبات کو ’’الأقرب فالأقرب‘‘ کے اصول سے تقسیم ہوگا، یعنی ا قرب(قریبی رشتہ دار) کی موجودگی میں اَبعد (دور کا رشتہ دار) محروم ہوجائے گا۔ ’’فلأولٰی رجلٍ ذکرٍ‘‘کے الفاظ اس معنی پر دلالت کرنے میں صریح ہیں۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ  امام نوویؒ کے حوالے اس حدیثِ نبوی کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قال النووي: أجمعوا علی أن الذي یبقٰی بعد الفروض للعصبۃ یقدم الأقرب فالأقرب ، فلا یرث عاصب بعید مع عاصب قریب۔‘‘(۹)
دوسرا اصل: ’’وراثت میںحجب کا قانون جاری ہے۔‘‘
لغت میں ’’حجب‘‘ کا معنی ہے چھپانا، علمِ میراث میں حجب کا مفہوم یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں بعید رشتہ دار محروم ہوتے ہیں، جس کی دوصورتیں ہیں، ایک رشتہ دار کی وجہ سے دوسرے رشتہ دار کا حصہ کم ہوجائے، اس کو حجبِ نقصان کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک رشتہ دار کی وجہ سے دوسرا رشتہ دار بالکل محروم ہو جائے، اس کو حجبِ حرمان کہا جاتا ہے۔ حجب کا قاعدہ قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت ہے، چنانچہ آیات المواریث میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ صاحب ’’الدرالمختار‘‘ نے حجب کے احکام کو حسبِ ذیل عبارت میں بیان کیا ہے:
’’ثُمَّ شَرَعَ فِيْ الْحَجْبِ فَقَالَ: (وَلَا یُحْرَمُ سِتَّۃٌ) مِنْ الْوَرَثَۃِ (بِحَالٍ) أَلْبَتَّۃَ (الْأَبُ وَالْأُمُّ وَالِابْنُ وَالْبِنْتُ) أَيِ الْأَبَوَانِ وَالْوَلَدَانِ (وَالزَّوْجَانِ) وَفَرِیقٌ یَرِثُونَ بِحَالٍ، وَیُحْجَبُوْنَ حَجْبَ الْحِرْمَانِ بِحَالٍ أُخْرَی وَہُمْ غَیْرُ ہَؤُلَائِ السِّتَّۃِ سَوَائٌ کَانُوْا عَصَبَاتٍ أَوْ ذَوِیْ فُرُوْضٍ وَہُوَ مَبْنِیٌّ عَلٰی أَصْلَیْنِ: أَحَدُہُمَا (أَنَّہُ یَحْجُبُ الْأَقْرَبُ مِمَّنْ سِوَاہُمْ الْأَبْعَدَ) لِمَا مَرَّ أَنَّہُ یُقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ اتَّحَدَا فِی السَّبَبِ أَمْ لَا (وَ) الثَّانِيْ (أَنَّ مَنْ أَدْلٰی بِشَخْصٍ لَا یَرِثُ مَعَہٗ) کَابْنِ الِابْنِ لَا یَرِثُ مَعَ الْابْنِ وَیَخْتَصُّ حَجْبُ النُّقْصَانِ بِخَمْسَۃٍ بِالْأُمِّ وَبِنْتِ الِابْنِ وَالْأُخْتِ لِأَبٍ وَالزَّوْجَیْنِ۔‘‘(۱۰)
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ چھ رشتہ دار کسی حالت میں محجوب(محروم) نہیں ہوتے، ماں باپ، بیٹا، بیٹی اور میاں، بیوی۔ کچھ رشتہ دار ایک حالت میں وارث ہوتے ہیں، اور دوسری حالت میں حجبِ حرمان کے ساتھ محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ مذکورہ چھ کے علاوہ رشتہ دار ہیں، خواہ ذوی الفروض ہوں یا عصبات اور یہ دوقاعدوں پر مبنی ہے۔ 
پہلا قاعدہ: قریبی رشتہ دار اپنے علاوہ بعید کے رشتہ داروں کو محروم کردیتے ہیں۔ 
دوسرا قاعدہ: بالواسطہ رشتہ دار اس واسطے کے ہوتے ہوئے وارث نہیں بنتا، جیسے بیٹے کا بیٹا (پوتا)، بیٹے کے ساتھ اور حجبِ نقصان پانچ رشتہ داروں کے ساتھ خاص ہے: ماں، پوتی، علاتی بہن اور میاں، بیوی۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قانونِ حجب کی رو سے جہاں بیٹے کی موجودگی میں پوتے محجوب (محروم) ہوتے ہیں، وہاں دیگر رشتہ دار بھی دوسرے قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں محروم ہوتے ہیں، جن میں سے چند ایک مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱:-ماں کی موجودگی میں جدات(دادی/نانی) بالاتفاق محجوب ہوتی ہیں۔ (۱۱)
۲:-والد‘ بھائیوں اور بہنوں کو محجوب بناتا ہے۔ 
۳:-بھائی اور بہن‘ ماں کو ثلث سے سدس تک محجوب بناتے ہیں۔
۴:-بیٹے‘ پوتے اور والد کے سگے بھائیوں کو محجوب بناتے ہیں۔
۵:-اخیافی (ماں شریک) بھائی‘ اولاد، پوتوں، نواسوں، والد اور دادا کے ساتھ بالاتفاق محجوب ہوتے ہیں۔ (۱۲)
حاصل یہ ہوا کہ نصوصِ شرعیہ سے ثابت ہے کہ احکامِ میراث کا دارمدار اقربیت پر ہے، اور یہ کہ احکامِ میراث میں حجبِ حرمان وحجبِ نقصان کا اُصول جاری ہے، چنانچہ قریب کی موجودگی میں بعید محروم ہوتا ہے۔

حوالہ جات

۱:-النساء :۷                ۲:-النساء :۳۲
۳:-الحنفی، عبد اللہ بن محمود ، م:۶۸۳ھ، الاختیار لتعلیل المختار، مطبعۃ الحلبی- قاہرۃ: ۱۳۵۶ھ) جلد:۵، صفحات: ۸۶-۱۰۵۔
۴:-النساء :۷                ۵:-النساء :۳۳
۶:-القرطبی ، أبو عبد اللہ محمد بن أحمد، م:۶۷۱ھ ، الجامع لأحکام القرآن (دار الکتب المصریۃ، القاہرۃ، ۱۳۸۴ھ)، جلد:۵، صفحات:۴۶
۷:-البخاری، محمد بن إسماعیل ، الجامع الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمہ، رقم الحدیث:۶۷۳۲ (دار طوق النجاۃ ، ۱۴۲۲ھ) جلد:۸، ص :۱۵۰۔
۸:-دیکھئے : ٹونکی ، ولی حسن، مفتی، عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں، ص:۷۳۔
۹:-عسقلانی، شہاب الدین أحمد بن علی بن حجر، فتح الباری (دار المعرفۃ- بیروت، ۱۳۷۹ھ) جلد:۱۲، صفحہ:۱۳۔
۱۰:-ابن عابدین، سیدمحمد أمین بن عابدین الشامی، م:۱۲۵۲ھـ، رد المحتار علی الدر المختار، (دار الفکر- بیروت، ۱۴۱۲ھ) جلد:۶، صفحہ:۷۸۰
۱۱:-السرخسی، شمس الائمہ، م:۴۸۳ھ، المبسوط (دار المعرفۃ، بیروت، ۱۴۱۴ھ) جلد:۲۹، ص:۱۶۹
۱۲:-الحنفی، عبد اللہ بن محمود، ۱۳۵۶ھ، جلد:۵، ص:۹۴
                                                                                (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین