بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسجد ومدرسہ کا تقدس یا سینما گھر کی اہمیت؟ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت

مسجد ومدرسہ کا تقدس یا سینما گھر کی اہمیت؟

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

ہمارا پورا ملک خصوصاً کراچی شہر‘ دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، قتل وقتال، فتنہ وفساد، خوف وحزن ، رنج والم کے مہیب ماحول اور مسموم ومغموم فضا کی لپیٹ میں ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں درجن یا نصف درجن سے کم لاشیںنہ گرائی جاتی ہوں، ان گرنے والی لاشوں میں بلاتفریق مرد، عورت، سنی، شیعہ،سیاسی، غیرسیاسی، مذہبی، غیرمذہبی، ہر طبقہ اور ہر جماعت سے وابستہ افراد شامل ہیں۔اگر سرسری طور پر بھی جائزہ لیا جائے تو تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد‘ علماء ہوں یا طلبہ ، صحافی ہوں یا وکیل، ڈاکٹر ہوں یا تاجر اس درندگی وبربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ آج حال یہ ہے کہ ہر آدمی شہر میں اپنی ضروریاتِ زندگی کے حصول، اپنے کاروبار کی دیکھ بھال یا نوکری وملازمت کے سلسلہ میں جب گھر سے نکلتا ہے تو جان ہتھیلی پہ رکھ کر جاتا ہے اور دوسری طرف روزمرہ کھانے پینے اور ضروری استعمال کی اشیاء مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے اتنادور کردی گئی ہیں کہ ان کا حصول اور قوتِ خرید ملازم پیشہ طبقہ کے لئے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ جب تک وہ اوور ٹائم یا دوسری جگہ کام نہ کرے، اس وقت تک گھر کا چولہا جلانا اور گھریلو ضروریات پوری کرنا مشکل اورپیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق ہر آدمی اپنی زندگی داؤ پر لگاکر گھر سے باہر نکلتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ شہر میں اتنا خوف وہراس،بداعتمادی اور انتشار برپا کردیا گیا ہے کہ ہر آدمی دوسرے کے سائے سے بھی ڈرنے لگا ہے اورروہ اس سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ شاید یہ میری جان ومال کے درپے نہ ہوجائے یا مجھے کوئی نقصان نہ پہنچائے۔اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ عام شریف شہری ان حالات کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں یا ان حالات کی کیا عکاسی کرتے ہیں؟ اس کی ادنیٰ سی جھلک درج ذیل مراسلہ سے ہوتی ہے، جسے ماہنامہ بینات کے لئے محترم جناب سلیم احمد عثمانی صاحب نے بھیجا ہے، آپ بھی اُسے ملاحظہ فرمائیں، محترم لکھتے ہیں: ’’ایک جنگل میں دوگائیں رہتی تھیں، ایک کا رنگ سفید اور دوسری کا کالا تھا، دونوں کی گہری دوستی اور رفاقت تھی، ہروقت دونوں ساتھ رہتیں، اکٹھا کھاتی پیتی اور اکٹھے ہی سیر کرتیں ۔ جنگل کے بادشاہ شیر کو ان دونوں کی دوستی بالکل نہ بھاتی، لیکن دوسری طرف وہ ان پر حملہ کرنے سے بھی گھبراتا کہ دونوں ہٹی کٹی گایوں کو بیک وقت پچھاڑنا شیر کے بس کی بات نہ تھی، شیر نے ان پر دھاوا بولنے کے لئے پلاننگ کی ۔ شیر نے سفید گائے کو الگ سے سمجھانا شروع کیا کہ تم اپنی گوری رنگت کو تو دیکھو، اپنے سمارٹ اور خوبصورت جسم پر تو نظریں دوڑاؤ، اپنے رعب اور حشمت کو تو دیکھو اور پھر اپنی اس کالی کلوٹی مریل سہیلی پر بھی اک اچٹتی نگاہ ڈالو! تم دونوں کا ساتھ گھومنا تمہارے رعب کو غارت کرنے کے ساتھ ساتھ تمہاری خوبصورتی کو بھی برباد کر رہا ہے ۔ ذرا ہوش کے ناخن لو اور اس کالی کے سحر سے خود کو نکالو، اس کے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردو اور میرے ساتھ سیرو تفریح کرو، اس سے تمہارے رعب میں اضافہ ہوگا، تمہاری خوبصورتی لوگوں کو نظر آئے گی ۔ سفید گائے شیر کی مکاری کا شکار ہوئی ۔ اگلے روز تنہا گھومتی کالی گائے کے خون سے شیر نے خود کو سیراب کیا اور ڈکار مارتے ہوئے سفید گائے سے مخاطب ہوکر کہا: اب تم اپنی جان کی خیر مناؤ ! بھولی رانی بنے سفید گائے نے معصومیت سے کہا: راجو! تم نے تو کل مجھے اپنا دوست بنایا تھا،جس کی خاطر میں نے اپنی سہیلی کی قربانی بھی برداشت کر لی ۔ شیر نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا : وہ تو میری چال تھی جو تم پر کارگر ثابت ہوئی ، اب خود کو موت کے لئے تیار کر لو ۔ سفید گائے نے شیر سے جنگل کے تمام جانوروں کو جمع کر کے نصیحت کرنے کی اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا، شیر نے اس کی آخری خواہش پوری کرتے ہوئے جنگل کے تمام جانوروں کو جمع ہونے کا حکم دیا، جب تمام جانور جمع ہوگئے تو سفید گائے ان سے مخاطب ہوکر گویا ہوئی : اے جنگل میں بسنے والے جانورو ! ابھی کچھ ہی دیر میں شیر تمہارے سامنے مجھ پر حملہ کر کے مجھے قتل کردے گا، تمہارے سامنے تو میں ابھی قتل ہوں گی لیکن دراصل میرا قتل تو اسی روز ہوگیا تھا جس روز شیر نے کالی گائے کو موت کی نیند سلا دیا تھا، کیونکہ اگر کل میں شیر کی باتوں میں نہ آتی اور کالی گائے کو قتل نہ کرواتی تو آج شیر مجھ پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کرتا ۔ اس کے بعد شیر نے سفید گائے پر حملہ کر کے اُسے قتل کردیا۔ سفید اور کالی گائے کا یہ قصہ تحریر کر کے قارئین کو تفریحی ماحول فراہم کرنا مقصدہر گز نہیں، بلکہ اہل مدارس کی توجہ اس جانب مبذول کروانا مقصود ہے کہ ……! جنگل میں حکمرانی کرنے والے شیر کی مانند اس ملک کے شاطر اور عیار حکمران جنگل میں بسنے والی سفید اور کالی گائے کی طرح اہل مدارس کو کبھی ایک ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، اسی لئے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ہر موقع کو غنیمت جان کر مدارس کے مابین پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، ایک فریق کو اپنا حامی اور دوسرے کو اپنا دشمن بنا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی ہر چال میں وہ شیر کی طرح کامیاب، جبکہ اہل مدارس سفید گائے کی مانند اُن کی ہر چال میں پھنستے چلے جاتے ہیں ۔ قانون نافذکرنے والے ادارو ں کی بغیر اطلاع دیئے ’’ اشرف المدارس‘‘ پر چھاپہ مارنے کی یہ کوئی پہلی اور انوکھی کارروائی نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی ایسی چھاپہ مار کارروائیاں معمول کا حصہ رہی ہیں ۔ اس چھاپہ سے چند ماہ قبل ملک کی معروف دینی درسگاہ ’’جامعہ دار العلوم کراچی‘‘ میں بھی اس طرح کی غیر اخلاقی کاروائی کی گئی، قانون نافذکرنے والے اداروں کو اس وقت بھی انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی جامعہ میں موجودگی کی اطلاع ملی تھی، جس پر انہوں نے کمال چابک دستی کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ جامعہ کے اساتذہ وطلبہ کے ساتھ بدتمیزی بھی کی گئی۔ طلبہ کے صندوقچوں سے کپڑے، عمامے، ٹوپیاں، تسبیح، مسواک اور عطر کی شیشیوںجیسے خطرناک اور مہلک ہتھیار وں کے علاوہ جب ہاتھ کچھ نہ آیا تو طلبہ کے عماموں اور ٹوپیوں کو اسی طرح زمین پر بکھیر کر چند طلبہ کو تفتیش کے لئے اپنے ہمراہ لے گئے، جنہیں بعد ازاں کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر رہا کردیا گیا۔ شہر میں موت کا خونی رقص جاری ہے۔ روشنیوں کا شہر سوگ کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ’’جامعہ احسن العلوم‘‘ کے معصوم اور بے گناہ طلبہ کی زندگیوں کے روشن چراغوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کیا گیا، خوشیوں بھرے گھروں کوماتم کدوں میں تبدیل کیا گیا، نئی نویلی دلہنوں کے سہاگ کو اُجاڑا گیا۔ ’’اسلام‘‘ کے نام پر بننے والے اس ملک ِخدادادپاکستان کی سرزمین نے وہ دن بھی دیکھے کہ ایک ہی دن میں چھ، چھ ہم مکتب فرشتہ صفت طالب علموں کو بارودی گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ صرف اس جرم میں کہ وہ کسی دینی مدرسے کے طالب علم تھے ۔ ان چھ معصوم طلبہ کی خون میں لتھڑی لاشیں دیکھ کر تو آسمان بھی رویا ہوگا۔ ’’قال اللّٰہ وقال الرسول‘‘ کہنے والی ان پاک زبانوں کی خاموشی پر تو فضاء بھی غمگین ہوئی ہوگی۔مگر تاریخ کے اس بدترین ظلم کو میڈیا کے سہارے چلنے والا ہمارا معاشرہ خاموشی سے سہہ گیا۔ مجال ہے کہ ہمارے ملک کے کسی سیاسی پنڈت نے تعزیت کی جسارت تک کی ہو۔ ایک ملالہ تو علم کا چراغ تھی، روشنی کا مینار تھی، بہادری کا نشان تھی، جس کی خاطر امریکی ایما ء پر ملالہ ڈے بھی منایا گیا، مختلف تقاریب بھی منعقد کی گئیں اور دیے بھی روشن کئے گئے ، گرماگرم تبصرے بھی ہوئے، ٹاک شوز بھی ریکارڈ کئے گئے اور ’’پڑھنے لکھنے کے سوا‘‘، ’’پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ کے جملے بھی تراشے گئے ۔ صدر اور وزیر اعظم کے پیغامات بھی ملالہ ڈے کی مناسبت سے قوم کے گوش گزار کئے گئے، سیاسی ولسانی تنظیموں نے بھی ملالہ ڈے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مختلف سرکاری ونجی اسکولوں میں ملالہ ڈے کے حوالے سے تقاریب میں ملالہ کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔  لیکن مدرسہ احسن العلوم کے چھ معصوم وبے گناہ طلبہ کو دن دھاڑے، یک بارگی کے ساتھ شہید کر کے ان کے پاک خون سے اس زمین کو رنگین کیا گیا ۔ کیا وہ شہید طلبہ حصولِ علم کی خاطر دیارِ غیر میں نہیں آئے تھے ؟ کیا وہ کراچی کے مہمان طلبہ علم کی روشنی کے طلبگار نہیں تھے؟ لاقانونیت کی آماجگاہ اور جنگل کا سا منظر پیش کرنے والے اس شہر بے اماں میں ان کا حصولِ علم کی خاطر آنا بہادری کا نشان نہیں تھا؟ علوم نبوت کے حصول کی خاطر سرخ لہو سے جن اجساد کو غسل دیا گیا ، ان کے لئے شہادت ڈے منا یا گیا؟ گرما گرم تبصرے اور ٹاک شوز چلوائے گئے ؟ ان معصوم شہیدوں کے سرخ لہو پر بھی کوئی مصرعے تراشے گئے ؟ صداور وزیر اعظم کے پیغامات شہادت ڈے کے حوالے سے قوم کو سنوائے گئے ؟ شہید طلبہ کے لئے دیئے روشن کئے گئے ؟ ؟؟نہیں ! نہیں ! اور ہرگز نہیں !۔     میرا سوال قانون نافذکرنے والے اداروں اور چیف جسٹس صاحب سے ہے کہ ! ٭جن عناصر نے خطرناک دہشت گردوں کی موجود گی کی اطلاع دی‘ آیا اُنہیں ملک کی عظیم دینی درسگاہ ’’دار العلوم کراچی‘‘ کی عزت کی دھجیاں بکھیرنے پر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا؟ ۔ ٭ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جامعہ پر اس قدر بدنُما داغ لگانے والے چہروں کو بے نقاب کیاگیا ؟ ۔ ٭مجرم اور جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بے داغ ماضی رکھنے والی جامعہ کو داغ دار کرنے پر کوئی معذرتی بیان یا جامعہ کے نام کوئی معذرتی لیٹر جاری کیا گیا؟ ۔     جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کی ایک دوسری بڑی دینی درسگاہ ’’اشرف المدارس‘‘ پر بھی گزشتہ رات دھاوا بول دینے کے ساتھ ساتھ مسجد ومدرسہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شدید فائرنگ بھی کی جس کی زَد میں آکر تین افرد شہید اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ جامعہ کے سکیورٹی اہلکاروں کے کمرے کو بھی نذر آتش کیا گیا ۔     اور آخر میں میڈیا سے بھی یہ شکوہ ہے کہ : اگر اس طرح بے جا چھاپہ کسی سینما گھر پر بھی مارا جاتا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے چند افراد مارے جاتے اور متعدد زخمی ہوتے تو……! میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا، ٹاک شوز کا بازار گرم ہوتا، میڈیا چینلز کی گاڑیاں چھتریاں کھولے متأثرہ سینما گھر کے گرد حصار بنائے نظر آتیں، مختلف تجزیہ کاروں کی رائے معلوم کی جاتی اور ہائی کورٹ کے وکیلوں سے قانونی باریکیاں تک بھی معلوم کی جاتیں ۔ لیکن کب؟ جب یہ دھاوا کسی سینما گھر پر بولا جاتا! ہمارے ٹی وی چینلوں اور ان کے اینکر پرسنوں کے ہاں مسجد ومدرسہ کے تقدس کو پامال کرنا، ان مقدس مقامات پر خونریزی کرنا کسی سینما گھر کی سی اہمیت بھی نہیں رکھتا! ۔ تعصب کی عینک اُتار کر، میڈیا کے یکطرفہ ڈھنڈوروں کو پس پشت ڈال کر، شدت پسند اور تخریب کاری کے لیبلوں کو ایک کونے میں رکھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اعتدال کی آنکھ سے دیکھئے اور منصفانہ دل و دماغ کے ساتھ سوچئے!کب تک دشمن کی چال میڈیا وار کی صورت میں ہم پر کارگر ثابت ہوتی رہے گی؟آخرکب تک شیر کادل گردہ رکھنے والی مائیں اپنے جواں سال بیٹوں کو کھونے کا غم سہتی رہیں گی؟ آخر کب تک پاکستانی بچے یتیم ہوتے رہیں گے؟کب تک انتظامیہ کا تکیۂ کلام ’’نامعلوم ‘‘چلتا رہے گا اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ پھلتا پھولتا رہے گا؟ یہ ظلم کی داستان کب تک رقم ہوتی رہے گی؟ ان کے صبر کو کس حد تک آزمایا جاتا رہے گا؟ آخر ایک دن تو اُن سے صبر کا دامن چھوٹے گا،ایک وقت تو ضبط کا بندھن ٹوٹے گا،ایک موقع پرتو تحمل کے آنسو چھلکیں گے اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہوگا، پھر انتقام کی آگ بھڑکے گی اور صبر کا لاوا ابل کر بے قابو ہوگا، نفرت کے طوفان اُٹھیں گے اور پھر بے قصوربھی قصورواروں کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جلیں گے۔‘‘

 

حضرت مولانا محمد اسماعیل  رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت

۱۸؍محرم الحرام۱۴۳۴ھ بمطابق ۳؍ دسمبر ۲۰۱۲ء بروز پیر مدینہ یونیورسٹی کے فاضل ، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے مفتی واستاذ حدیث، سینکڑوں طلبہ کے دلوں کی دھڑکن‘ حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل کو سچل تھانے کی حدودمیں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر اپنے گھر کے قریب واقع چیپل گارڈن میں اندھا دُھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ، وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیلؒنے حضرت مولانا عبدالغنی صاحبؒ کے ہاں صوبہ بلوچستان کے شہر پشین میں ۴۲ سال پہلے آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں پائی اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے ان کی نظرِ انتخاب شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی محمد زرولی خان زید مجدہم کے ادارہ جامعہ احسن العلوم پر پڑی۔ مولانا اسماعیل شہیدؒ نے درجہ اول سے دورہ حدیث تک مکمل تعلیم اسی جامعہ سے حاصل کی۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعداپنی جامعہ میں تخصص فی الفقہ کیا۔ اس کے بعد تین سال تک مدینہ یونیورسٹی میں پڑھتے رہے، وہاں سے سند فراغ حاصل کرنے کے بعد اپنی مادرِ علمی میں تدریس کی ابتداء کی۔ اپنی خداداد صلاحیت، محنت اور جدوجہد سے بہت جلد ہی جامعہ کے ممتاز اساتذہ میں ان کا شمار ہونے لگا۔ آپ نے اپنی پندرہ سالہ تدریسی زندگی میں ابتدائی کتب سے دورہ حدیث تک تمام درجات میں اسباق پڑھائے۔ مولانا شہیدؒ نے پسماندگان میں ایک بیوہ، پانچ لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اعلیٰ درجات سے نوازے۔ مولانا کے بچوں اور گھر والوں کی کفایت فرمائے اور آپ کے لواحقین ، اعزہ ، اقرباء اور شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ادارہ بینات جامعہ کے رئیس شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد زرولی خان دامت برکاتہم اور مولانا کے اعزہ واقرباء سے دلی تعزیت کرتا ہے اور اُن کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ ادارہ قارئین بینات سے حضرت مولانامفتی محمد اسماعیل شہیدؒ اور دوسرے اہل علم شہداء کے لئے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔ ایصالِ ثواب کی درخواست     راقم الحروف کے والد محترم الحاج منشی غلام مصطفی صاحب زندگی کی ۷۸ بہاریں گزار کر ۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۲ء جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے اپنے آبائی وطن لودھراں شہر میں انتقال فرماگئے۔ إنّاللّٰہ وإنّاإلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہ بأجل مسمیٰ۔     حضرت والد صاحب مرحوم کچھ عرصہ بیمار رہے، علاج معالجہ جاری تھا کہ وقت موعود آپہنچا۔ تفصیلی مضمون ان شاء اللہ بعد میں لکھا جائے گا۔     قارئین بینات سے درخواست ہے کہ میرے والد محترم کے لئے ایصالِ ثواب سے دریغ نہ فرمائیں اور ان کے رفع درجات کے لئے دعائیں فرماتے رہیں۔ وأجرکم علی اللّٰہ۔ وصلی اللّٰہ تعالیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلیٰ آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین۔

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین