بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریر ات (تفصیلی و تنقیدی جائزہ) (پہلی قسط)


 مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریر ات

 

(تفصیلی و تنقیدی جائزہ)       (پہلی قسط)

 

قبلہ اول ،انبیائے کرامؑ کا مولد و مدفن اور روئے زمین پر حرمین شریفین کے بعد افضل ترین بقعہ ’’مسجد ِ اقصیٰ‘‘ کے حوالے سے عمار خان ناصر کا ـ’’عجیب و غریبــ‘‘ موقف اور ماضی و حال کی پوری امت ِمسلمہ کے برعکس اختیار کردہ ’’نظریہ‘‘علمی حلقوں میں کافی عرصے سے زیر ِ بحث ہے ۔امت ِ مسلمہ کے بالغ نظرمحققین نے اس موقف اور نظریے کے مضمرات ،نقصانات، پس ِ منظر اور اس حوالے سے عمار خان ناصر کے’’ مآخذ ومراجع‘‘ کو بخوبی آشکارا کیا ہے۔ذیل کی تحریر میں ہم آنجناب کی اس موضوع پرشائع شدہ دو مرکزی تحریروں’’مسجد ِ اقصیٰ،یہوداور امت ِ مسلمہ‘‘(ماہنامہ الشریعہ،ستمبر ، اکتوبر۲۰۰۳ء)اور ’’مسجد ِاقصیٰ،یہوداور امت ِ مسلمہ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ،اپریل،مئی۲۰۰۴ء) کا ایک منصفانہ جائزہ لیتے ہیں ،کیونکہ جناب عمار خان صا حب عموماً ’’شاکی‘‘ رہتے ہیں کہ میری تحریروں پر مفصل اور سنجیدہ تنقید کسی نے نہیں کی اور میرے اٹھائے گئے’’نکات ‘‘ اور ’’اعتراضات‘‘ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔(۱) لہٰذا مذکورہ تحریروں کا ابتدا سے لے کر انتہا تک ایک مربوط جائزہ‘ نکات ، استفسارات اور سوالات کی شکل میں لیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق بات کہنے ،لکھنے ،حق آشکارا ہونے کے بعد اُسے ماننے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائیں، آمین۔
۱:…بحث اول
آنجناب نے سب سے پہلے مضمون کی تمہید میں مسئلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اور اس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یاد گار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجد ِ اقصیٰ موجود ہے، جس کی تولیت کا مسئلہ مسلمانوں اور یہود کے مابین متنازع فیہ ہے‘‘۔ (براہین ، ص: ۲۳۳)
 ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ تمہید میں اس تنازع کا پس ِ منظر کیوں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تنازع کب سے ہے؟بعثت ِ نبوی سے،حضرت عمر ؓکی فتح ِ بیت المقدس کے وقت سے،صلاح الدین ایوبیؒ کے دور سے یا کفریہ طاقتوں کا ایک مخصوص منصوبے کے تحت ارض ِ مقدس میں یہودیوں کی آباد کاری کے وقت سے؟تنازع کا وقت ِ ابتدا اگر آنجناب بیان کر دیتے ،تو مذکورہ تنازع کے کافی پہلو ئو ں پر روشنی پڑ سکتی تھی۔ یہ تحریر پڑھتے وقت قاری یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید صدر ِ اسلام سے آج تک یہ مسئلہ متنازع فیہ ہے۔ آنجنا ب سے سوال ہے کہ حضرت عمر ؓ کی فتح سے لے کر اس تنازع کے پیدا ہونے سے پہلے تک کبھی یہودیوں نے اس جگہ کو واپس لینے ، اس پر احتجاج کرنے اور مسلم حکمرانوں سے اس کی تولیت لینے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے؟آنجناب ضروریہ کہیں گے کہ یہود اس مطالبے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو سوال یہ کہ حضرت کعب احبارؓ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر ؓ کے ساتھ تھے اور ان کے بارے میں سب کو علم ہے کہ اپنے زمانے میں یہود کے کتنے بڑ ے عالم تھے ،انہوں نے حضرت عمر ؓ جیسے ’’عادل ‘‘اور ’’شرعی حکم‘‘ کے سامنے سر جھکا دینے والی شخصیت سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر کیوں نہیں کیا؟ خود آپ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ صدیوں کے سکوت کے بعد یہودیوں کے ہاں اس (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر کا مطالبہ شدت سے سامنے آیا ہے، تو آنجناب صدیوں کے سکوت کی کیا توجیہ کریں گے؟کہ اچانک اس مطالبے کے پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟کیا ہماری پوری اسلامی تاریخ میں مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت کی بحث کبھی اٹھائی گئی؟اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، تو یہ بات بخو بی واضح ہوتی ہے کہ یہ تنازع فطری اور واقعی نہیں ہے، بلکہ مخصوص طاقتوں کی طرف سے پیدا کردہ مصنوعی اور امت ِ مسلمہ کو یہود کے ہاتھوں زیر کرنے کا ’’جامع منصوبہ‘‘ ہے۔
۲:…بحث دوم
 اس ’’مبھم ‘‘اور ــ’’مغالطہ ‘‘ پر مبنی تمہید کے بعد آنجناب نے مسجد ِ اقصیٰ کی مختصر لیکن ’’نا مکمل تاریخ‘‘ بیان کی ہے۔ یہ تاریخ مکمل طور پر تورات اور اسفار ِ یہود سے نقل کی گئی ہے۔ جناب عمار صاحب سے بجا طور پر سوال ہے کہ آنجناب نے اس بارے میں غیر اسلامی مآخذ کو ترجیح کیوں دی؟کیا اسلامی مآخذ مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں خاموش ہیں؟مفسرین نے سورۂ اسراء کے تحت،محدثین نے بخاری شریف کی حدیث ِ ابی ذرؓ(۲) اور نسائی شریف کی حدیث ِ عبداللہ بن عمروؓ(۳)کی تشریح میں مسجد ِ اقصیٰ کی جو تاریخ بیان کی ہے ،آنجناب نے اس سے پہلو تہی کیوں اختیار کی ؟ہماری تاریخ کی امہات الکتب میں مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ جا بجا بیان ہوئی ہے (۴)آنجناب نے اس کو نظر انداز کیوں کیا؟اس کے علاوہ صدر ِ اسلام سے لے کر آج تک مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ ، فضائل اور احکام پر بیسیوں کتب لکھی گئی ہیں،اس وقت میرے سامنے شہاب اللہ بہادر کی مایہ ناز کتاب ’’معجم ما ألف فی فضائل و تاریخ المسجد الأقصی‘‘ہے ،اس میں فاضل مصنف نے تیسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی کے اختتام تک مسجد ِ اقصیٰ کے حوالے سے لکھی گئی مطبوعہ و مخطوطہ کتب کا تعارف کرایا ہے ۔ان سب معتبر ، مستند اور معتمد مآخذ کو چھوڑ کر محرف و منسوخ شدہ مصاحف پر اعتماد کیوں کیا گیا؟خصوصاً دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم مجیر الدین الحنبلی کی کتاب ’’الأنس الجلیل بتاریخ القدس و الخلیل‘‘اور بارہویں صدی ہجری کے مؤرخ محمد بن محمد الخلیلی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ القدس و الخلیل‘‘مسجد ِاقصیٰ کی تاریخ کے حوالے سے مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کو پس ِ پشت کیوں ڈال دیا؟صحف ِ یہود سے تاریخ نقل کر کے قاری کے ذہن میں غیر محسوس طریقے سے کہیں یہ بات تو نہیں ڈالی جارہی ہے کہ مسجد ِ اقصیٰ پر ’’یہود کا تاریخی و مذہبی حق‘‘(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لیے گئے ہیں)کچھ اس طرح سے پختہ ہے کہ اس کی تاریخ کے لیے بھی ہمیں صحف ِ یہود کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔آنجناب ضرور یہ کہیں گے کہ تاریخ میں سابقہ صحف پر اعتماد کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقیناً کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اولاً: جب ایک چیز اسلامی مآخذ میں بآسانی مل سکتی ہے تو اس میں ان مصاحف کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت اور ان کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ ثانیاً:ان صحف کا موضوع مسجد ِاقصیٰ کی تاریخ کا بیان نہیں ہے، بلکہ مختلف قصوں اور واقعا ت کے ضمن میں متفرق مقامات پر مسجد ِ اقصیٰ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے تو باقاعدہ اس موضوع پر لکھی گئی مفصل تصنیفات کو چھوڑ کر غیر متعلقہ مراجع سے استمداد کسی’’ علمی تحقیق‘‘ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ثالثاً: ان میں تحریف صرف احکام میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ تاریخی حوادث و واقعات میں بھی اہلِ کتاب نے بہت کچھ اپنی طرف سے داخل کیا ہے، قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے قصوں کے ضمن میں مفسرین کی نقل کردہ اسرائیلی روایات اس کی شاہد ہیں،تو ان سب’’ موانع ‘‘کے ہوتے ہوئے آخر ان پر اعتماد کی وجہ کیا ہے؟
 اس پر مستزاد یہ تاریخ بھی نامکمل بیان کی گئی ہے(کیونکہ ان ’’محرف‘‘ صحف میں تاریخ اتنی ہی بیان ہوئی ہے)مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ حضرت ِدائود و حضرت ِ سلیمان علیہما السلام سے شروع کی ہے، حالانکہ تمام مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دو جلیل القدر پیغمبر مسجد ِاقصیٰ کے مؤسس و بانی نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت محض تجدید کنندہ کی ہے،اور خود عمار صاحب نے بھی مضمون کے حاشیے میں اس کا ذکر کیا ہے،تو آنجناب سے سوال یہ ہے کہ مسجد ِاقصیٰ کی ابتدائی تاریخ اور اس کے اولین مؤسس کو زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا؟جبکہ کسی چیز کی تاریخ کے بیان میں اس کی ابتدا اور بانی کا ذکر سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اصل بانی و مؤسس کے ذکر سے آنجناب کے ’’موقف ‘‘پر زد پڑسکتی تھی؟کہ جب مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ یہودکے زمانے سے پہلے شروع ہوتی ہے، تو انہیں اس پرمحض اپنا حق جتانے اور اس کی تولیت کا دعویٰ کرنے کا کیا حق ہے؟
۳:…بحث سوم
مسجد ِ اقصیٰ کی نامکمل تاریخ بیان کرنے کے بعد آنجناب نے ’’حقِ تولیت سے یہود کی معزولی‘‘کا عنوان باندھا ہے۔اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک عجیب ’’مقدمہ‘‘تراشا ہے اور اس تحریر کی پوری عمارت اس مقدمے پر کھڑی ہے۔اس مقدمے کا خلاصہ یہ نکات ِثلاثہ ہیں:
۱:…کسی مذہب والوں کو ان کی مخصوص عبادت گاہ اور مرکز ِ عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کے لیے قرآن و حدیث کی واضح نص کی ضرورت ہے۔
۲:…مشرکین ِ مکہ کو مسجد ِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیا،جب تک ۹ھ میں سورۂ براء ت کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں۔
۳:…مسجد ِاقصیٰ سے یہود کی تولیت کی منسوخی کے بارے میں اس طرح کی کوئی واضح نص نہیں ہے ،جس طرح سے مسجد ِ حرام کے بارے میں ہے،اس لیے اس بارے میں جتنے ’’استدلالات‘‘ کیے جاتے ہیں، وہ سارے کالعدم ہیں ،کیونکہ وہ ’’صریح‘‘ نہیں ہیں۔
 یہ مقدمہ درج ذیل وجوہ سے محض ’’خود ساختہ‘‘ ہے:
مقدمہ کے پہلے حصہ کا رد
مسجد ِ اقصیٰ کے بارے میں بحث کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب کی مرکزی عبادت گاہ کی اہلِ مذہب سے تولیت کی منسوخی کے کیا شرعی احکامات ہیں،بلکہ بحث کا اصل طرز یہ ہے کہ روئے زمین کے وہ چند مقدس مقامات جن کی اہمیت ،فضیلت،برکت اور عظمت صرف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ کسی مذہب والوں نے انہیں مرکز ِعبادت کے طور پر آباد کیا،بلکہ خود حق تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبروں کے ذریعے ان جگہوں کو بابرکت اور افضل البقاع قرار دیا، ان کو ان مقامات کی تعمیر ،تاسیس ،تجدید اور انہیں مرکز ِ عبادت بنانے کے باقاعدہ احکامات دیئے اور ان مقامات کی فضیلت وتقدس تمام ادیان ِسماویہ میں مسلم ہے ۔ایسے ’’مقامات‘‘کی تولیت ،انہیں آباد کرنے اور ان میں عبادت ِصحیحہ ادا کرنے کا حق بعثت ِ نبوی کے بعد دنیا میں اب تک موجود تین ادیانِ سماویہ: اسلام،یہودیت اور عیسائیت میں کس مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔شرعی نصوص کے مطابق روئے زمین پر ایسے مقدس اور بابرکت مقامات صرف تین ہیں: مسجد حرام ،مسجد ِنبوی اور مسجد ِ اقصیٰ۔ چناچہ حافظ ِ ابنِ حجرؒ شدِرحال والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
’’وفی ہذالحدیث فضیلۃ ہذہ المساجدومزیتہاعلی غیرہا لکونہا مساجد الأنبیاء ولأن الأول قبلۃالناس وإلیہ حجہم والثانی کان قبلۃ إلا مم السالفۃ والثالث أسس علی التقوی‘‘۔(۵)
 اس کے علاوہ اسراء کے موقع پر مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سفر’’لا تشد الرحال ‘‘والی حدیث (۶) دونوں مسجدوں کی تاسیس والی حدیث ِ بخاری(۷)مساجد ِ ثلاثہ میں نماز کا ثواب بیان کرنے والی حدیث(۸)اور فقہائے کرام کے ان مقامات میں نذر،اعتکاف اور ان سے عمرہ و حج کا احرام باندھنے کے الگ احکامات کابیان(۹)ان مقامات کے مراتب ِفضیلت پر بحث(۱۰)اور اسلامی تاریخ کے جلیل القدر علماء کی مقامات ِ ثلاثہ کے فضائل، تعارف، تاریخ اور احکامات کو بیان کرنے کے لیے الگ تصنیفات(۱۱)اس بات کے واضح شواہدہیں کہ یہ تینوں مقامات مخصوص فضیلت اور ناقابل ِ انفکاک تعلق کے حامل ہیں۔قرآن و حدیث کے ادنی طالب ِ علم پر ان مقامات کے خاص فضائل اور ان کا تقدس مخفی نہیں ہے۔ 
ان’’ مقامات ِ مقدسہ‘‘ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ یہ ہر زمانے کے اہل ِحق کو ملتے ہیں ۔اگرچہ کبھی کبھار اہل ِ حق کے کمزور ہونے اور انہیں ان کے کیے کی سزا کے نتیجے میں ان پر اہل ِ باطل کا غلبہ بھی رہا ہے،لیکن ان کا ’’شرعی ‘‘حکم یہی چلا آرہا ہے کہ اس کے حقدار صرف اور صر ف زمانے کے اہل ِ حق ہوتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ ابو الانبیاء ہیں ،اس لیے ان کے بعد یہ مقدس مقامات ان کی اولاد اور ان کے سچے متبعین میں تقسیم کیے گئے ،چنانچہ مسجدِ حرام بنی اسماعیل اور مسجد ِ اقصیٰ بنی اسرائیل کے حوالے کی گئی ،لیکن ساتھ یہ شرط بھی لگا دی گئی کہ تمہارے پاس ان مقدس مقامات کی تولیت اور ذمہ داری دین ِحق پر قائم رہنے ، اللہ کی اطاعت پر کار بند رہنے اور شرک و کفر سے بچنے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ انبیاء بنی اسرائیل کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ اعلان سنایا گیا،جسے آنجناب نے بھی نقل کیا ہے:
’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جائواور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو،بلکہ جاکر اور معبودوںکی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگوتو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ،کاٹ ڈالوں گااور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے،اپنی نظر سے دور کر دوں گااور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہو گا‘‘۔(۱۲)
 اس کی تائید قرآن پاک سے بھی ہوتی ہے ،چنانچہ سورۂ مائدہ میں اللہ نے بنی اسرائیل کو حضر تِ موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہ اعلان سنایا:
’’یٰقَوْمِ ادْخُلُوْ الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی أَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْنَ ‘‘۔                                                        (المائدہ :۲۱) 
ترجمہ:’’ اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو،ور نہ پلٹ کر نامراد ہو جائو گے‘‘۔
 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ’’ولا ترتدوا‘‘کی جہاں اور تفسیریں کی ہیں، وہاں ساتھ یہ تفسیر بھی کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی نافرمانی اور سرکشی ہے،چنانچہ علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
’’  لا ترجعوا عن دینکم بالعصیان ‘‘۔(۱۳)
 امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:
’’ لا ترجعوا عن طاعتی و ما أمرتکم من قتال الجبارین‘‘۔(۱۴)
اس کے علاوہ سورۂ اسراء کی ابتدائی آیات میں بیت المقدس سے بنی اسرائیل کی دو مرتبہ بے دخلی بھی اسی سنت اللہ کی تائید کر رہی ہے کہ اس مقدس مقام کی تولیت اللہ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے ۔
 اسی طرح بنی اسماعیل کو بھی مسجد ِ حرام کی تولیت اسی شرط کے ساتھ دی گئی تھی،چونکہ بنی اسماعیل میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں نازل ہوئی، اس لیے اس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا،چنانچہ سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
 ’’وَمَا لَہُمْ أَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَہُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْا أَوْلِیَائَ ہٗ إِنْ أَوْلِیَائُ ہٗ إِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ‘‘۔                                              (الانفال:۳۴)
ترجمہ:…’’اور بھلا ان میں کیا خوبی ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے، جبکہ وہ لوگوں کو مسجد ِ حرام سے روکتے ہیں، حا لانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہیں ،متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے متولی نہیں ہو سکتے‘‘۔
سابقہ صحف اور قرآن پاک کی ان واضح نصوص سے یہ بات بخوبی ثابت ہورہی ہے کہ ان مقامات ِمقدسہ کے بارے میں سنت اللہ یہی ہے کہ ان کی تولیت کے حقدار صرف اہل حق ہیں۔اب آنجناب بتائیں کہ نبی پاک ا کی بعثت کے بعد روئے زمین پر اب امت ِمسلمہ کے علاوہ بھی کوئی حق گروہ ہے؟اس لیے اس سنت اللہ کے مطابق مسجد ِحرام اور مسجد ِاقصیٰ دونوں کی تولیت صرف اس امت کے ذمے ہے ،جبکہ مسجد ِنبوی میں تو ویسے آپ اکا شاہی دربار سجا ہے۔
آنجناب نے بحث کی پوری ترتیب کو ’’خلط‘‘کیا اور مسجد ِاقصیٰ کو ایک خاص مذہب کا محض مرکز ِ عبادت قرار دے کر پھر اس کی تولیت کی بحث کی ہے ،اسی خلط ِ مبحث کا نتیجہ ہے کہ آنجناب کو مسجد ِ اقصیٰ امت ِ مسلمہ کی تولیت میں دینے پر ’’تضادات‘‘نظر آئے۔(جس کا ذکر اپنے مقام پرآئے گا)
اس سنت اللہ کے نتیجے میںاللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جملہ وراثتوں کا حقدار اس امت کو ٹھہرایا ہے،چنانچہ سورۂ آلِ عمران میں فرماتے ہیں:
’’إِنَّ أَوْلٰی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘۔ (آل عمران:۶۸)
ترجمہ:’’ ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حقداروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی،نیز یہ نبی ااور وہ لوگ جو ان پر ایمان لائے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں ان مقامات ِمقدسہ کی تولیت کا سوال کبھی نہیں اٹھایا گیااور نہ ہی اس حوالے سے ’’شرعی دلائل‘‘اکٹھا کرنے کا اہتمام کیاگیا۔اسی طرح ان کی تولیت لینے کے لیے کسی ’’واضح نص‘‘کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی،بلکہ ان مقدس مقامات پر سیاسی غلبہ ہوتے ہی ان مقامات کو تولیت میں لیا گیا،چنانچہ فتحِ مکہ کے موقع پر مسجدِ حرام کی تولیت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور مسجد ِاقصیٰ کی تولیت آپ ا  کی بشارت کے نتیجے میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں امت نے سنبھالی۔(آنجناب نے اس حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں، ان کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا)
مقدمہ کے دوسرے حصہ کا رد
اس خود ساختہ مقدمے کا دوسرا حصہ کہ مشرکین کو مسجد ِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیا،جب تک ۹ھ میں سورۂ براء ت کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں،اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔اسلامی تاریخ کا ادنیٰ طالب ِ علم جانتا ہے کہ آپ ا کا مکہ کو فتح کرنے کا مقصد ہی دراصل مشرکین سے بیت اللہ کو چھڑانا تھا۔آنجناب بتائیں کہ اس کے علاوہ فتحِ مکہ کا کیا مقصد تھا؟جب آپ اوہاں ٹھہرے بھی نہیں،وہاں کے باشندوں سے انتقام بھی نہیں لیا،وہاں کے باشندوں کو اسلام پر مجبور بھی نہیں کیا،تو پھر محض اس شہر میں داخل ہو کر واپس نکلنے کا کیا مقصد تھا؟نیز اسلامی تاریخ میں فتح مکہ کو جو مقام و اہمیت حاصل ہے،وہ کس بنیاد پرہے؟اور صحابہ کرام ؓنے جس جوش و خروش اور جس جذبے کے ساتھ اس میں شرکت کی ،اس کی بنیادی وجہ کیا تھی؟سیرت نگاروں نے فتح مکہ کا مقصد ِ اعظم ہی ’’بیت ِ عتیق‘‘ کو مشرکین سے چھڑوانا لکھا ہے،چنانچہ ابن القیمؒ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں فتح ِمکہ کو ’’الفتح الأعظم‘‘ لکھ کر اس کا مقصد یوں بیان کیا ہے:
 ’’الذی أعز اللّٰہ بہ دینہ و رسولہ و جندہ و حزبہ الأمین،و استنقذ بہ بلدہ وبیتہ الذی جعلہ ھدی للعالمین،من أیدی الکفار و المشرکین‘‘۔(۱۵)
ترجمہ:…’’وہ فتح جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین ،اپنے رسول،اپنے لشکراور اپنی امانت دار جماعت کو عزت سے نوازااور اس کے ذریعے اپنے شہر اور اپنے اس گھر کو مشرکین اور کفار سے چھڑایا ،جس کو پوری کائنات کے لیے ہدایت کاذریعہ بنایا ہے‘‘۔
آپ ا کا مکہ فتح کر کے بیت اللہ میں داخل ہو نا،بتوں کو گرانا ’’جَائَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ‘‘ کی صدالگانا،وہاں نماز پڑھنا،حضرت بلال ؓکا چھت پر چڑھ کر اذان دینا،کیا یہ سارے کام بیت اللہ کی تولیت کو واپس لینے کے اعلانات نہیں تھے؟اگر جناب عمار صاحب کا خود ساختہ مقدمہ مان لیں تو سوال یہ ہے کہ زبانِ نبوت نے اس موقع پر ایسا کوئی جملہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا کہ’’حق ِ تولیت چونکہ ایک نازک معاملہ ہے، اس لیے کسی واضح نص تک ہمیں انتظار کرنا چاہئے‘‘؟آپ ا نے جب حضرت عثمان بن ابی طلحہ ؓ سے بیت اللہ کی چابیاں لے لیں اور حضرت علیؓ و دیگر صحابہؓ نے درخواست کی کہ یہ چابیاں ہمیں عطا فرمائیں، تو اس وقت آپ ا نے یہ کیوں نہیں فرما یا کہ ’’حق ِ تولیت چونکہ ایک نہایت نازک معاملہ ہے، اس لیے کسی واضح نص کا انتظار کرنا چاہئے‘‘؟ بلکہ آپ ا نے چابیاں ان سے لے کر پھر اپنے اختیار سے ان کو واپس کر دیں،جو حافظ ابنِ حجرؒ کے بقول صلح ِ حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے،(۱۶)  کیا کسی مسلمان کو بیت اللہ کی چابیاں دینا مشرکین سے حقِ تولیت واپس لینے کی دلیل نہیں ہے؟
 البتہ اتنی بات تھی کہ آپ ا نے چونکہ عام معافی کا اعلان کیا تھا،اس لیے مشرکین کو بھی بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی ۔سورۂ براء ت کی مذکورہ آیتوں کے نزول کے بعد ان کا داخلہ نہ صرف مسجد ِ حرام میں بند کیا گیا ،بلکہ پورے حرم کو ان کے لیے ممنوع قرار دیاگیا۔
آنجناب نے ان مذکورہ آیتوں کو حقِ تولیت کی منسوخی کی دلیل بنا یا،جو کئی وجوہ سے مخدوش استدلال ہے:
وجہ اول:آنجناب کی پیش کردہ آیتوں میں سے سورۂ براء ت کی آیت نمبر: ۲۸تو اپنے مفہوم کے ساتھ بالکل واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس کا مقصد مشرکین کا مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کا بیان ہے۔آنجناب کے استدلال کی ’’بنیادی غلطی‘‘ یہی ہے کہ آنجناب نے داخل ہونے اور نہ ہونے کی بحث کو تولیت کی بحث کے ساتھ ’’خلط‘‘ کردیا ،حالانکہ ان دونوں میں واضح فرق ہے،کیو نکہ کسی مقام میں کسی کے داخل ہونے کی اجازت سے اس مقام کی تولیت اس کے لیے کیسے لازم آگئی؟چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یَاأَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا‘‘۔                                                                           (براء ت:۲۸)
 ’’اے ایمان والوـ! مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں،لہٰذاوہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں‘‘۔ 
 علامہ آلوسیؒلکھتے ہیں:
’’المراد:النھی عن الدخول إلا أنہ نھی عن القرب للمبالغۃ‘‘۔(۱۷)
یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے مسجد ِ حرام اور بقیہ مساجد میں مشرکین اور اہل ِکتاب کے دخول کے جواز و عدمِ جواز پر بحث کی ہے ۔اور اس بارے میں فقہاء کے مذاہب تفصیل سے بیان کیے ہیں(۱۸) لیکن تولیت کا مسئلہ قدماء میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا،آنجناب نے کس طرح اس سے تولیت کی منسوخی اخذ کی، ہمیں معلوم نہیں ہو سکا؟حالانکہ خود آنجناب نے ’’اصول‘‘ بنایا تھا کہ اس معاملے میں ’’صریح دلیل‘‘ کی ضرورت ہے۔
وجہ دوم:تولیت کی منسو خی کے لیے اس آیت کے علاوہ آنجناب نے مذکورہ سورت کی آیت نمبر :۱۷ کو بھی دلیل بنایا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یَّعْمُرُوْا مَسَاجِدَ اللّٰہِ شَاہِدِیْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ‘‘۔(براء ت:۱۷)
ترجمہ:… ’’مشرکین اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں‘‘۔
اس آیت کو منسوخی کا ’’اعلان ‘‘قرار دینا بھی بوجوہ درست نہیں ہے:
پہلی وجہ:آنجناب کو علم ہوگا کہ تولیت کے لیے عربی میں’’عمر‘‘کا مادہ استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ’’ولی‘‘کا مادہ آتا ہے۔آنجناب آباد کرنے سے تولیت کس ’’دلالت‘‘کی بنیاد پر لے رہے ہیں؟ اگر بالفرض دلالت کی کسی قسم سے تولیت بھی اس کے مفہوم میں آجائے تو صریح نہ ہونے کی بنیاد پر آنجناب کے اصول کی بنیاد پر ’’کالعدم‘‘ہے۔
دوسری وجہ:مفسرین نے اس آیت کے تحت تولیت وغیرہ کی کوئی بحث ہی نہیں کی ہے ،بلکہ اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ مشرکین کے ایک فاسد زعم پر رد کر رہے ہیں ، وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر اور اس کے مہمانوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ،تو اللہ نے ان آیات میں ان کا رد کیا کہ اصل قابلِ فخر چیز ایمان ہے،نیز جب وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کی ان خدمات کا کوئی فائدہ نہیں ہے،چنانچہ علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
’’والغرض إبطال افتخار المشرکین بذلک لا قترانہٖ بما ینافیہ وھو الشرک‘‘۔(۱۹)
اسی بات کو تفسیر طبری میں بھی بیان کیا گیا ہے(۲۰)اگر ان آیات کا مقصد مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت کی منسوخی کا اعلان ہے، جیسا کہ آنجناب کا ’’گمان‘‘ ہے ،تو پھر اس چیز کو سر فہرست ہونا چاہیے تھا ،کیونکہ یہ یقینا ًاس امت کی تاریخ میں ایک یاد گار اور سب سے بڑا اعلان تھااور مسلمانوں کو بیت العتیق کی تولیت کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے تھی ،حالانکہ اس طرح کی کوئی بات تواریخ میں منقول نہیں ہے۔
تیسری وجہ: ان آیات کے نزول کے بعد اسی سال حج کے موقع پر آپ ا نے حضرت علیؓ کو مشرکین کے بھرے اجتماع میں کچھ اعلانات کے لیے بھیجا ،اس میں بھی تولیت کا اعلان سرے سے غائب ہے ،چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ:
’’   أمرہ أن ینادی فی المشرکین أن لا یحج بعدالعام مشرک ولایطوف بالبیت عریان‘‘۔(۲۱)
ترجمہ:’’ حضور ا نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف نہ کرے‘‘۔
اگر واقعی ان آیات سے مشرکین کا حق تولیت منسوخ ہوا تھا تو اس کو تو سر فہرست ہونا چاہیے، آنجناب نے یہاں بھی اسی ’’خلط ِمبحث ‘‘سے کام لیتے ہوئے اس اعلان کو حق ِتولیت کی منسوخی کا اعلان قرار دیا،حالانکہ یہ بات بدیہی ہے کہ حج سے روکنا اور بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت الگ بحث ہے، اور تولیت ایک الگ بحث ہے۔
 خلاصہ یہ نکلا کہ آنجناب نے جو یہ مقدمہ ’’تراشا‘‘ ہے کہ مشرکین کو مسجد ِحرام کی تولیت سے ایک صریح نص کی بنیاد پر محروم کیا گیا ،سرے سے غلط ہے ،کیونکہ تولیت تو مشرکین سے فتحِ مکہ کے موقع پر ہی لے لی گئی تھی،اگرچہ ان کا مکمل داخلہ ۹ھ میں سورۂ براء ت کی مذکورہ آیات کی بنیاد پر بند کیا گیا۔اور یہ تولیت اسی سنت اللہ کے نتیجے میں آپ ا نے لی ،جس کا ذکر سابقہ صحف اور فرقان حمید میں بار بار ہوا تھااورپچھلے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ بھی اس پر شاہد تھی۔
حوالہ جات
۱…ملاحظہ ہو! آنجناب کا مضمون :مسجد ِاقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۷ء)
۲…بخاری شریف ،۴؍۱۴۶،رقم الحدیث: ۳۳۶۶، مراد وہ حدیث ہے ،جس میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا عرصہ بیان ہوا ہے۔
۳…سنن نسائی ،باب فضل المسجد الاقصیٰ ،رقم الحدیث: ۶۹۲، اس حدیث کی طرف اشارہ ہے ،جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیربیت المقدس کا ذکر ہے۔
۴…الکامل فی التاریخ، ۱؍۱۷۳۔            ۵…فتح الباری ،۳؍۶۵۔
۶…بخاری شریف ،۲؍۶۰ ،رقم الحدیث: ۱۱۸۹۔        ۷…بخاری ،رقم الحدیث: ۳۳۶۶۔
۸…سنن ابن ماجہ،الصلاۃ فی المسجد الجامع ،رقم الحدیث: ۱۴۱۳۔    ۹…بدائع الصنائع ،باب الا عتکاف ؍۱۱۳ ، باب مکان الاحرام، ۲؍۱۶۴۔
۱۰…فتح الباری، ۳؍۶۵۔                ۱۱…ملاحظہ ہو!معجم ما الف فی فضائل و تاریخ المسجد الا قصی ۔
۱۲…براہین، ص:۲۴۰۔        ۱۳…روح المعانی ،۶؍۱۰۶۔    ۱۴…تفسیر القرطبی ،۷؍۳۹۷۔
۱۵…زاد المعاد ،۳؍۴۹۴۔        ۱۶…الا صابہ ،۴؍۲۲۰۔        ۱۷…روح المعانی ،۱۰؍۷۶۔
۱۸…تفسیر القرطبی ،۱۰ ؍۱۵۴۔        ۱۹…روح المعانی ،۱۰؍۶۴۔        ۲۰…تفسیر طبری ،۱۴؍۱۶۸۔
۲۱…ابن کثیر ،۷؍۱۷۳۔                                                             (جاری ہے)


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین