بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسئلہ کشمیر ، پاکستان اور قادیانیت

مسئلہ کشمیر ، پاکستان اور قادیانیت


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

وادیِ کشمیر اپنے قدرتی مناظر اور فطری حسن کی بنا پر جنت نظیر وادی کہلاتی ہے اور دنیا بھر کے باذوق سیاحوں کے لیے مرکزِ نگاہ ہے۔ ہندوپاک کی تقسیم سے قبل جموں وکشمیر کی تمام سڑکیں اور ریلوے مواصلات پاکستان سے ملتے تھے۔ کشمیر کے لیے طلب ورسد، مصنوعات ، پھلوں اور تمام ضروریات کے لیے راول پنڈی مرکز ہوا کرتا تھا۔ اب بھی ریاست جموں وکشمیر کی سات سو میل لمبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے، پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، چین اور روس سے بھی اس کی سرحدات ملتی ہیں۔ لیکن دینی، تہذیبی، سیاسی، علاقائی اور نسلی اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر پنجاب اور سرحد کا جزو لاینفک ہے، اس لحاظ سے پاکستان اور کشمیر لازم وملزوم ہیں، اس لیے بانیِ پاکستان نے فرمایا تھا کہ: ’’کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔‘‘
ریاست جموں وکشمیر کا مجموعی رقبہ ۸۴۴۷۱ چوراسی ہزار چار سو اکہتر مربع میل ہے۔ تقریباً ۵ ہزار مربع میل موجودہ آزاد کشمیر ہے۔ ۲۸ ہزار مربع میل گلگت اور بلتستان کا آزاد علاقہ ہے۔ بقیہ ۵۴ ہزار مربع میل سے کچھ زائد علاقہ پر بھارت کا قبضہ ہے، جسے ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ۱۹۶۱ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کی آبادی سوا کروڑ بتائی گئی ہے، جس میں اسی فیصد لوگ مسلمان ہیں۔
بارہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک یہاں مسلمان حکومتیں رہی ہیں۔ ۱۸۱۹ء میں سکھوں نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ ۱۸۴۶ء میں جب انگریز برصغیر پر قابض ہوا تو اس نے کشمیر سکھوں سے چھین کر ڈوگرہ جاگیردار گلاب سنگھ کو ۷۵ لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کردیا اور اس کو ’’معاہدۂ امرتسر‘‘ کا نام دیا گیا۔ گلاب سنگھ انگریزوں کا وفادار اور مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم وستم کرتا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے ظلم کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے آوازِ حق بلند کی تو اس نے آزادی کے متوالوں کو منگ راولا کوٹ کے درختوں پر لٹکاکر ان کے جسموں سے کھالیں اُتروائیں۔ انگریزوں کو بعد میںپتہ چلا کہ کشمیر کا خطہ گلاب سنگھ کو دیتے ہوئے ان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی، لیکن معاہدہ کے تحت وہ اس میں کوئی مداخلت کا حق نہیں رکھتے تھے۔ اس کے بعد۱۸۵۸ء میں اس کا بیٹا رنبیر سنگھ آیا، اس نے بھی انگریز کی مکمل اطاعت کی، ۱۸۸۵ء میں اس کا بیٹا مہاراجہ پرتاب سنگھ حکمران ہوا، اس نے انگریز کو کچھ آنکھیں دکھائیں، اس کے بھائیوں: رام سنگھ اور امر سنگھ نے انگریز کے کان بھرے کہ مہاراجہ پرتاب سنگھ روس سے ساز باز رکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز نے نہایت رازداری سے مرزا غلام احمد قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی اور دیگر چند ایجنٹوں کو مہاراجہ کے دربار سے وابستہ کرایا، تاکہ مہاراجہ پرتاب سنگھ پر نظر رکھی جاسکے۔ روس سے تعلقات کے الزام میں کچھ عرصہ کے لیے پرتاب سنگھ کو انگریز نے معزول بھی رکھا، لیکن بعد میں بحال کردیا، مگر اس کے بعد بھی بدستور مرزائی اور قادیانی انگریزوں کے لیے جاسوسی کے فرائض انجام دیتے رہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر پر تسلُّط اور غلبہ کے حصول کے لیے انگریز عیسائیوں نے ہی اپنے خود کاشتہ پودے مرزا غلام قادیانی سے یہ دعویٰ کرایا کہ: 
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تین برس تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پاکر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور ’’یہودیوں‘‘ کی دوسری قوموں کو جو ’’بابل‘‘ کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان، کشمیر اور اور تربت میں آئے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاکر کشمیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر محلہ خانیار میں دفن کیے گئے ۔‘‘(کادیانیت کا سیاسی تجزیہ، ص:۷۶۵، بحوالہ رازِ حقیقت، ص:۳، مرزا قادیانی)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک، اور ان کی قبر محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان پر حیات ہیں اور قربِ قیامت ان کا نزول ہوگا اور دینِ محمدی کا اتباع اور لوگوں کو اس کے مطابق عمل کرائیں گے، دجال کو قتل کریں گے، شادی کریں گے، ان کی اولاد ہوگی، پھر وفات ہوگی، مسلمان ان کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور روضۂ اقدس میں ان کی تدفین ہوگی اور قیامت کے دن قبر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا صدر مرزا غلام قادیانی کے بڑے بیٹے قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کو بنایا گیا، ا س لیے کہ اس کمیٹی کے محرک یہی تھے اور اس کے ارکان میں اکثر قادیانیوں کو رکھا گیا اور مسلمانوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے علامہ اقبالؒ اور چند دوسرے مسلمان بھی اس کے رکن بنائے گئے، لیکن جلد ہی مسلم زعماء کو پتہ چل گیا کہ مرزابشیرالدین محمود کمیٹی کو کشمیری مسلمانوں کے مفاد سے زیادہ اپنے جماعتی مفاد میں استعمال کررہے ہیں۔ کمیٹی کا کوئی دستور نہیں تھا، صدر کو غیرمعمولی اختیارات حاصل تھے۔ اس کمیٹی کا دوسرا اجلاس لاہور میں رکھا گیا، جس میں احرار کے لوگ بھی شامل تھے اور مطالبہ کیا گیا کہ اس کا دستور مرتب کیا جائے تو قادیانیوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی، مرزا محمود نے کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا اور علامہ اقبالؒ اس کمیٹی کے صدر بنائے گئے، قادیانیوں نے اس کمیٹی کا عملاً بائیکاٹ کردیا۔ جن مسلمانوں کے مقدمات کے وکیل قادیانی تھے، انہوں نے ان مقدمات کو ادھورا چھوڑکر مسلمانوں کو نئی اذیت میں مبتلا کردیا، حتیٰ کہ ظفر اللہ قادیانی نے ایک بیان میں صاف کہہ دیا تھا کہ:
 ’’ وہ کشمیر کو نہیں مانتے جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا، وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔‘‘ (رئیس احمد جعفری، اقبال اور سیاست ملی، ۱۵۹-۱۶۰)
قادیانیوں کے اس رویہ سے بددل ہوکر علامہ اقبالؒ نے اس کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیااور اس کے بعد علامہ اقبالؒ کھل کر قادیانیوں کے ناپاک عزائم اور ارادوں کو طشت از بام کرنے لگے، ادھر چونکہ انگریز کی طرح ہندو کا مفاد بھی کسی درجہ میں قادیانیوں کے ساتھ وابستہ ہوگیا تھا، نہرو جو ہندو تھا، اس نے قادیانیوں کی وکالت کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ کو لکھا کہ آپ قادیانیوں کے خلاف کیوں ہیں؟ اور کیوں ان کے خلاف لکھتے ہیں؟ تو علامہ اقبالؒ نے تاریخی جواب دیا کہ آپ کو معلوم نہیں ’’ یہ قادیانی ملک اور ملت دونوں کے غدار ہیں۔ ‘‘کشمیر کے شیخ عبداللہ جن پر قادیانیوں کا بہت اثر تھا، وہ خود لکھتے ہیں:
’’ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کی سب سے بڑی وجہ ان کا آپسی تفرقہ ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے کادیانی عقیدے کے دوستوں نے اس پلیٹ فارم سے اپنے مسلک کی تبلیغ شروع کردی ہے۔ اگر اس پر روک نہ لگائی گئی تو نتائج بہت تباہ کن ہوں گے۔ میرزا صاحب (مرزا بشیر الدین محمود)نے میری تقریر، صبروسکون کے ساتھ سنی اور پھر بولے کہ ’’احمدی (کادیانی) بنیادی طور پر ایک تبلیغی جماعت ہے۔ ہم نے پہلے پہل کشمیر میں اس قسم کی سرگرمیوں پر روک لگارکھی تھی، لیکن وہ ایک عارضی مرحلہ تھا،ہمارے لیے مستقل طور پر اس کی پابندی کرنا اور اپنے مشن سے دست بردار ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس پر میں نے دو ٹوک جواب دیا کہ ’’ایسے حالات میں احمدی (کادیانی) جماعت کے ہم خیال کارکنوں کا تحریک (آزادی کشمیر) سے وابستہ رہنا نہ مناسب ہے اور نہ ممکن، کیونکہ ان کا تحریک (آزادی کشمیر) کا جزو بن کر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہنا کانفرنس میں فرقہ واریت کے شعلے بھڑکاسکتا ہے، جن میں ہمارا سارا حاصل خاکستر ہوکر رہ جائے گا۔ اس دن کے بعد ہی سے احمدی (کادیانی) جماعت کا رویہ تحریک کے ساتھ پہلے پہل تو سرد مہری کا رہا، بعد میں وہ ہماری مخالفت کرتے رہے اور آخر کار کھلم کھلا ہمارے خلاف صف آراء ہوگئے۔ ‘‘  (آتش چنار، ص:۱۴۴ تا ۱۴۶، از شیخ محمد عبداللہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو فارمولہ یہ طے ہوا کہ جن اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ علاقہ اور ضلع پاکستان کا حصہ ہوگا۔ اور جس ضلع میں غیرمسلموں کی اکثریت ہوگی، وہ بھارت کا حصہ ہوگا۔ تو ضلع گورداسپور جس میں قادیان بھی آتا ہے، قادیانی اگر اپنا شمار مسلمانوں میں کراتے تو مسلم اکثریت کی بنا پر یہ ضلع بھی پاکستان کو ملتا، لیکن انہوںنے ریڈ کلف کمیشن کو درخواست دے کر اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل کرانے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے ضلع گورداسپور کو ضلع کی سطح پر نہیں، بلکہ مرزا بشیر الدین محمود کے کہنے کی وجہ سے تحصیل کی سطح پر تقسیم کرایا، جس کی وجہ سے تحصیل شکر گڑھ مسلم اکثریت کا علاقہ قرار دے کر پاکستان میں شامل کی گئی اور تحصیل پٹھان کوٹ اور دوسری تحصیلوں کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا، جس سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ ملا، ورنہ اس کے پاس جموں وکشمیر میں داخل ہونے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا، چنانچہ پاکستان بن جانے کے دو ماہ بعد بھارت نے اپنی فوجیں اسی راستہ سے جموں وکشمیر میں داخل کردیں اور اس کے بڑے حصہ پر قابض ہوگیا اور ابھی تک اس کا یہ ناجائز قبضہ اور تسلُّط برقرار ہے۔
بھارتی افواج کے ریاست جموں وکشمیر میں داخلہ کے بعد کچھ قبائل نے جہادِ آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے ان بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کیا، جس کی بناپر آزاد کشمیر کا علاقہ فتح کیا، ادھر پاکستانی فوج کا اس وقت سربراہ ایک انگریز ڈیکلسن نامی تھا، جس کو قائد اعظم نے حکم دیا کہ اپنی فوج کو مقابلہ کرنے کا حکم دیں اور اس بھارتی فوج کو ریاست جموں وکشمیر سے باہر نکالیں، اس نے حکم ماننے سے انکار کردیا اور قادیانی گروہ کی ایک فرقان نامی فورس کو سرحد پر لگادیا، جنہوں نے بجائے مجاہدین کی معاونت کرنے کے الٹا مجاہدین کا راستہ روکا۔ بہرحال مجاہدین نے جب تابڑ توڑ حملے کیے اور قریب تھا کہ وہ آگے بڑھ کر پوری ریاست جموں وکشمیر ہندوستانی فوج سے خالی کرالیں، نہرو جو بھارت کا وزیراعظم تھا، اس نے اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست کردی۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرار دیا کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے۔ یہاں استصوابِ رائے کرایا جائے گا، یہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔اس وقت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام آزادی کے لیے تحریک چلارہے ہیں، اقوامِ متحدہ اور تمام دنیا کو اپنے خون اور جانوں کی قربانیوں سے یاددلارہے ہیں کہ ستر سال قبل کیا گیا وعدہ پورا کریں، لیکن اقوامِ متحدہ ہے کہ ابھی تک اس نے کشمیریوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ ظفر اللہ قادیانی بھی اقوامِ متحدہ اور انہیں کے ذیلی اداروں میں لمبی لمبی تقریریں تو بہت کرتے تھے، لیکن کشمیر کے حق میں مؤثر اور مدلل آواز کبھی بلند نہیں کی۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر ان قادیانیوں کا ہی اُلجھایا ہوا مسئلہ ہے، اس لیے کہ انہوں نے طے کررکھا ہے کہ اگر کشمیر میں ہمارا کوئی حق نہیں یا ہمارے مفادات کا کوئی تحفظ نہیں تو پھر ہمیں بھی اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی دل چسپی نہیں، بلکہ اس مسئلہ کے حل کرانے میں کوئی پیش رفت بھی نہیں ہونے دیں گے۔اس لیے کہ ان کا خواب تھا کہ اس خطہ میں ہم انگریز کے جانشین ہوں گے، جب دیکھا کہ پاکستان بننے جارہا ہے اور اس نئی ریاست میں ہمارا کوئی رول اور ذکر نہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل کرانے سے انکار کردیا۔ ظفر اللہ قادیانی نے وزیرخارجہ ہوتے ہوئے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے نام پر جنگ پھر ۱۹۵۲ء میں بلوچستان صوبہ پر قبضہ کا پلان، پھر ۱۹۶۵ء کی جنگ اور ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس کے بعد ایٹمی پروگرام کے رازوں کا امریکہ تک پہنچانا، یہ سب کچھ انہوں نے اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کے خلاف اور اس کو نقصان پہنچانے کا پورا پورا انتظام کیا ۔
۱۹۷۴ء میں ربوہ اسٹیشن پر نشتر کالج ملتان کے طلبہ پر حملہ کے نتیجہ میں ان کے خلاف تحریک چلی، قادیانیت کا مسئلہ قومی اسمبلی میں لے جایا گیا، قادیانیوں نے خود سے درخواست دی کہ اسمبلی کے ارکان کے سامنے ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جائے، ان کا مطالبہ منظور ہوا، ان کو اسمبلی میں بلایا گیا۔ قومی اسمبلی میں قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ دونوں کو موقع دینے، اپنی بات کرنے اور ان کا موقف سننے کے بعد ہی پوری قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ان کو غیرمسلم اقلیت قراردیا، وہ دن اور آج کا دن انہوں نے قومی اسمبلی کے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد ہر موقع، ہر محاذ اور ہر فورم پر انہوںنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ پوری یورپی یونین ہو یا امریکہ ہر معاملہ میں اپنی امداد ہو یا کوئی تجارتی معاہدہ، وہ اس کے ساتھ نتھی کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم ہورہا ہے، خصوصاً قادیانیوں کو ان کا حق نہیں دیاجارہا اور حق کی وضاحت یہ کرتے ہیں کہ ان کو مسلمان کیوں نہیں سمجھا جاتا؟! حالانکہ اقلیت ہونے کے باوجود ہر جگہ اعلیٰ پوسٹوں پر ان کے لوگ براجمان ہیں اور مسلم اکثریت کا حق غصب کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی عبدالشکور نامی ایک قادیانی نے اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیٹا اور کہا:
’’ میرا تعلق احمدیہ مسلم کمیونٹی سے ہے، ۱۹۷۴ء میں ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا، ہمارے گھر بھی لوٹ لیے گئے اور دکانیں بھی، کئی گھروں کو آگ لگادی گئی، تو میں ربوہ آگیا اور سرگودھا میں کتابوں کا کام کرتا تھا، جس پر انہوں نے مجھے سزا دی، پانچ سال قید بامشقت اور چھ لاکھ روپے جرمانہ، سوا تین سال بعد اب میں رہا ہوکر آیا ہوں۔ ہم بڑے پرامن طریقے سے یہاں (امریکہ میں)رہتے ہیں، میں یہاں (امریکہ میں) اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتا ہوں، مگر پاکستان میں نہیں کہہ سکتا۔ ہماری جماعت بڑی پرامن ہے، وہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں، ہمارے گھروں کو آگ لگاتے ہیں۔‘‘   (روزنامہ اسلام، ادارتی صفحہ، ۲۱ جولائی ۲۰۱۹ء)
اس کا مفصل جواب تو حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم نے دیا ہے جو ایک رسالہ میں چھپ گیا ہے، لیکن اجمالاً اتنا بتانا ضروری ہے کہ یہ سب جھوٹی اور من گھڑت داستان ہے۔ یہ ان کتابوں کو فروخت کرتا تھا، جن پر پاکستان میں پابندی ہے، اس پر مقدمہ بنا، تمام ممنوعہ کتب اس سے برآمد ہوئیں، عدالت نے اس کو سزا دی، امریکہ نے پہلے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا، خلافِ قواعد اور ضابطہ اس کی سزا مکمل ہونے سے پہلے خاموشی سے پاکستانی حکومت نے اس کو رہا کراکر امریکہ بھجوادیا اور اس نے وہاں سلمان تاثیر کے بیٹے کی معیت اور ترجمانی میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی اور پاکستان کے خلاف یہ تمام شکایات کیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قادیانی گروہ کتنا پاکستان کے ساتھ مخلص اور پاکستان کے لیے پرامن ہے۔ ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ اور یہ سب کچھ اسی لیے کیا گیا تاکہ پاکستان کے وزیراعظم صاحب امریکی صدر سے ملیں تو وہ سب سے پہلے قادیانیوں کے بارہ میں ان سے بات کریں ۔ یہ پاکستان کی خیرخواہی ہے یا پاکستان دشمنی؟ بہرحال ہمارے وزیراعظم صاحب کو امریکی صدر نے پیش کش کی کہ میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانے کو تیار ہوں، وزیراعظم صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ: اگر آپ یہ مسئلہ حل کرائیں گے تو ڈیڑھ ارب لوگوں کی دعائیں آپ کو ملیں گی۔ اور صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے وزیراعظم نے خود مجھ سے اس مسئلہ میں دل چسپی لینے کا کہا ہے، جب کہ بھارتی وزیراعظم نے اس کا انکار کیااور پھر امریکہ جاکر کہا کہ ہمیں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی ضرورت نہیں اور چند دنوں بعد ۵ اگست ۲۰۱۹ء کو اپنی اسمبلی میں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵‘اے جو کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق تھیں‘ ان کو حذف کرادیا اور نوے ہزار مزید فوج بھیج کر کہہ رہا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر بھارت کے ساتھ ضم ہوگیا اور یہ بھارت کا حصہ بن گیاہے۔ اس دن سے تقریباً ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ کشمیر میں کرفیونافذ ہے، پورا مقبوضہ کشمیر جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ ادھر صورت حال یہ ہے کہ قادیانی گروہ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کی کمیٹی میں پاکستان کے خلاف کیس لے کر گیا ہوا ہے، اس پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم کی جانب سے حکومتی ذمہ داران کو خط لکھا گیا اور ان کو اس خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم و مکرم جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہر شخص اپنی طاقت اور قدرت کے بقدر اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے، آنجناب کو اللہ تعالیٰ نے وہ تمام وسائل، اختیارات اور صلاحیتیں عطا کررکھی ہیں، جس کے ذریعہ آپ اسلام، پیغمبر اسلام، مسلمانوں اور پاکستانی قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ یقینا آپ کے علم میں یہ بات ہوگی کہ قادیانیت نے اپنے آغاز ہی سے اسلام اور پاکستان کے خلاف منظم سازشیں کیں۔ علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے فرمادیا تھا کہ :’’قادیانی گروہ: ملک اور ملت دونوں کا غدار ہے۔‘‘
۱۹۷۴ء میں پاکستانی پارلیمنٹ نے بڑی بحث و تمحیص اور قادیانیوں کے دونوں گروہوں کا موقف سننے کے بعد ان کے معاشرتی اسٹیٹس کی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا اور ان کے وہی حقوق متعین کیے جو ایک اقلیت کے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلہ کو نہ مان کر قادیانی جماعت آج تک آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کا ارتکاب کررہی ہے، بلکہ بیرون ملک مختلف لابیوں، سیاست دانوں، حکومتی ذمہ داران اور این جی اوز کے ذریعہ جھوٹی رپورٹوں کا سہارا لیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرکے نہ صرف یہ کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیج کو خراب اور اس کے لیے مشکلات کھڑی کررہے ہیں، بلکہ پاکستان دشمنی کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔
حال ہی میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس نامی ایک این جی اوز نے قادیانیوں کے حالات پر مرتب کردہ اپنی رپورٹ کا خلاصہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو ارسال کیا ہے (جسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور تمام مسلمان مسالک کی مذہبی اور دینی تنظیموں نے یکسر مسترد کیا ہے) جسے مذکورہ کونسل نے ۴۱ ویں سیشن میں ایجنڈا آئٹم کے طور پر منتخب کیا ہے۔ 
یاد رہے کہ اگست ۱۹۸۸ء میں بھی قادیانی اقوام متحدہ میںا س کیس کو لے کر گئے تھے۔ اس وقت کی حکومت کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ نے ایک حکومتی وفد سرکاری طورپر تشکیل دے کر اسے اس کیس کی پیروی کے لیے بھیجا تھا اور الحمدللہ! اس نے اس کونسل کے تمام ممبران سے خصوصی ملاقاتیں کرکے ان کو پاکستانی موقف سمجھایا اور ان کو اس کے حق میں آمادہ کیا۔
آنجناب سے التماس ہے کہ اس بار بھی اس طرح کا ایک وفد مکمل تیاری کے ساتھ وہاں بھیجنے کے لیے محض اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی، اسلام ، پاکستان اور مسلمانوں کی خیرخواہی کے لیے ہر قسم کی تدبیر و حکمت اور عزم و حزم کے ساتھ حکومت کو قائل اور معاونت فرمائیں۔ بلاشبہ یہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عظیم الشان خدمت اور اللہ و رسول کی رضا مندی کا موجب ہوگی۔ اس کے ذریعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقار کو مزید بحال اور سربلند کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد و نصرت فرمائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘ وأجرکم علی اللّٰہ
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            (مولانا) ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان‘‘
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ قادیانیوں کی ان کارستانیوں کی بناپر ان کے عزائم کو سمجھا جائے اور پاکستان کی اکثریت کے اس دیرینہ مطالبہ پر توجہ دی جائے کہ جو قادیانی پاکستان کی اہم پوسٹوں پر ہیں ان کو ان پوسٹوں سے علیحدہ کیا جائے، مسئلہ کشمیر سے متعلق تمام تر معاملات سے ان کو دور رکھا جائے، اس لیے کہ ستر سال سے جو یہ مسئلہ الجھا ہوا ہے، وہ صرف اور صرف ان قادیانیوں ہی کی کارستانیوں کی وجہ سے اُلجھا ہوا ہے، ورنہ یہ مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ مزید یہ کہ ان کو پاکستان کے آئین وقانون کا پابند بنایا جائے اور جو قادیانی بیرونِ ملک جاکر پاکستان کے خلاف باتیں اور سازشیں کرتے ہیں، ان پر بغاوت کا مقدمہ چلاکر ان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ رہا کشمیر کا مسئلہ تو بھارت کے ان اقدامات کی بناپر اب کشمیر اس وقت تک آزاد نہیں ہوگا جب تک کہ پاکستان جہاد کا اعلان کرتے ہوئے پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم نہیں دیتا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام غزوات میں فتح جہاد ہی کے ذریعہ حاصل کی تھی اور مدینہ منورہ کی معیشت بھی اس وقت تک کوئی مستحکم پوزیشن میں نہیں تھی، جس کا بہانہ آج پاکستان بنارہا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں نے جب بھی جابر، ظالم اور جارح کفریہ طاقتوں کو شکست دی تو وہ صرف اور صرف جہاد ہی کے ذریعہ دی۔ مودی حکومت ، آر ایس ایس اور شیوسینا کے ہزاروں غنڈے اور درندے مظلوم کشمیریوں کو خطرناک تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ لاکھوں کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم ملی اور شرعی حکم جہاد کا نفاذ کرتے ہوئے ان کی مدد کو پہنچیں۔ محمد بن قاسمؒ تو محض ایک بہن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں میل دور سے اس کی مدد کو آگیا تھا اور ہم اپنے ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہوسکے۔ 
وزیراعظم صاحب! کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، جسے بھارت کاٹنے کے درپے ہے اور ہم محض دکھاوے کی یک جہتی، یہودیوں کی تقلید میں گھنٹے بجاکر اور خاموش رہ کر کررہے ہیں۔ یہ وقت نہ محض نمائشی یک جہتی، سائرن بجانے اور خاموش رہنے کا ہے، بلکہ یہ وقت ظالم، جابر، جارح اور دہشت گرد ہندوستان کو سبق سکھانے کا ہے، ورنہ تایخ میں لکھا جائے گا: کشمیرجل رہا تھا اور پاکستانی حکمران کھڑے ہوکر سائرن بجارہے تھے۔
یہ جو کہاجاتا ہے کہ ’’جنگ مسئلہ کا حل نہیں۔‘‘ یہ بالکل غلط بات ہے، مسائل جنگ سے ہی حل ہوتے ہیں، اور جنگ ہی سے فریق مخالف مجبور ہوکر میز پر آتا ہے، جیسا کہ طالبان اور امریکہ کی مثال سب کے سامنے ہے کہ افغانستان کے طالبان جہاد ہی کی برکت سے آج امریکی اور نیٹو کے تسلُّط سے اپنی شرائط پر آزادی حاصل کررہے ہیں، جب کہ ہم ۷۲ سال سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر تکیہ کرنے کی بناپر غلامی میں جارہے ہیں، ولافعل اللّٰہ ذٰلک۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب فرمائے، ہمارے ملک پاکستان کو تمام آزمائشوں اور پریشانیوں سے محفوظ فرمائے اور پاکستان کو معاشی واقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال فرمائے، آمین

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین