بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مروجہ تکافل کاشرعی حکم

مروجہ تکافل کاشرعی حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: آج کل مروجہ انشورنس کے جائز متبادل کے طور پر مختلف تکافل کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ ہمارے ملک میں تکافل کی بنیاد وقف پر قائم ہے، جس کا طریقۂ کار(تکافل کمپنیوں کے مطابق) یہ ہے کہ پہلے کمپنی کے شیئر ہولڈرز اپنے طور پر کچھ نقدی وغیرہ کو شرعی ضوابط کے مطابق باقاعدہ وقف کرتے ہیں، اس رقم سے ایک وقف پُول قائم کیا جاتا ہے۔ ان شیئر ہولڈرز کی حیثیت واقف کی ہوتی ہے۔ یہ واقفین اس وقف فنڈ میں کچھ شرائط طے کرتے ہیں، جن میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ جو شخص اس وقف فنڈ کو عطیہ دے گا، وہ اس وقف فنڈ سے شرائط کے مطابق فوائد کا مستحق ہوگا۔ اس وقف فنڈ سے معطین کا تعلق محض عقدِ تبرع کا ہوتا ہے۔اس تکافل سسٹم میں وقف کرنے والا، وقف کے مصالح کے پیشِ نظر وقف کے دائرۂ کار کو مخصوص افراد تک محدود کرنے اور وقف فنڈ سے استفادہ کرنے کی مخصوص شرائط مقرر کرتا ہے۔ لوگ اس فنڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اس فنڈ کو، تکافل کمپنی کے واسطے سے ایک خاص مقدار میں حسبِ شرائطِ وقف نامہ، عطیات دیتے ہیں اور جن شرکاء کو کبھی کوئی نقصان پہنچے تو وہ وقف فنڈ سے فوائد کے حصول کے مستحق ہوتے ہیں۔ جو عطیات اس فنڈ میں آتے ہیں وہ بذاتِ خود وقف نہیں ہوتے، بلکہ مملوکِ وقف ہوتے ہیں، اس لئے وقف فنڈ ان عطیات کو قواعد وضوابط کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ مذکورہ وقف فنڈ کو شرعی طریقے کے مطابق کاروبار میں بھی لگایاجاتا ہے اور اس سے حاصل شدہ نفع کا مالک یہی وقف فنڈ ہوتا ہے۔ تکافل نظام میں کمپنی کی حیثیت تکافل نظام میں کمپنی کی ایک حیثیت وکیل یا مینیجر کی ہوتی ہے۔ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال کے لئے ’’وکالہ فیس‘‘ وصول کرتی ہے۔ یہ فیس وقف فنڈ کے لئے دیئے گئے عطیات سے وصول کی جاتی ہے۔ نیز کمپنی وقف فنڈ میں موجود رقم کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری میں لگاتی ہے، اس حیثیت سے کمپنی چونکہ مضارب ہوتی ہے اور فنڈ‘ رب المال ہوتا ہے، لہٰذا کمپنی مضاربہ کے نفع میں سے متعین حصہ وصول کرتی ہے۔ اس وقف فنڈسے شرکاء کو جو فوائد دیئے جاتے ہیں، وہ فوائد ان معطین (فنڈ جمع کرانے والے شرکائ)کی طرف سے دیئے گئے عطیات کی بنیاد پر نہیں ہوتے، بلکہ عطاء مستقل ہوتے ہیں، اسی لئے یہ ضروری نہیں کہ وقف فنڈ ہر پالیسی ہولڈر کے ہر نقصان کو پورا کرے، چنانچہ اگر اس وقف فنڈ میں رقوم کم ہوں اور نقصانات زیادہ ہوجائیں تو وقف فنڈ اپنے پاس موجود رقم کے بقدر نقصانات کی تلافی کرکے بقیہ پالیسی ہولڈرز سے معذرت کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ پالیسی ہولڈرز کے دیئے گئے عطیات میں ایک حصہ سرمایہ کاری کے لئے بھی رکھا جاتا ہے، مثلاً مضاربہ کے لئے، تکافل کمپنی اس کے انتظامات بحیثیت مضارب کے سنبھالتی ہے، جبکہ پالیسی ہولڈرز سرمایہ میں آپس میں شریک ہوتے ہیں۔ تکافل کے تحت دی جانے والی سہولیات میں ایک سہولت فیملی تکافل کی بھی ہے، جو لائف انشورنس کا متبادل طریقہ ہے۔ سوالات: ۱…کیا وقف کی بنیاد پر تکافل کا مروّجہ طریقہ شرعاً درست ہے؟ ۲…تکافل کے تحت دی جانے والی سہولیات مثلاً میڈیکل تکافل، گروپ تکافل اور جنرل تکافل وغیرہ استعمال کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ۲…اگر کوئی کمپنی اپنے ملازمین کے فائدے کے لئے میڈیکل گروپ تکافل کی پالیسی لے، جس کی صورت یہ بنتی ہے کہ کمپنی پالیسی ہولڈر ہوتی ہے اور وہ تکافل کمپنی کے واسطے سے وقف فنڈ کو عطیہ دیتی ہے ،جس کے نتیجہ میں اس کے ملازمین کو وقف فنڈ کے قواعد کے مطابق علاج معالجہ کی سہولت ملتی ہے۔ اس میں ایک منفرد بات یہ ہے کہ جو عطیہ دیتا ہے (یعنی کمپنی)وہ فائدہ اٹھانے والا نہیں اور جس کو فائدہ دیا جاتا ہے ’’ملازمین‘‘ وہ عطیہ دینے والا نہیں ہے، کیا یہ صورت شرعاً درست ہے؟ ۴…اگر شرعاً یہ جائز نہیں تو کیا بد امنی اور دہشت گردی کے موجودہ بدترین حالات میں مجبوری کی وجہ سے تکافل کرانے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ جامعہ کی ویب سائٹ پر تکافل کے سلسلے میں کئی مختصر فتاویٰ موجود ہیں، جن میں مفصل اور مدلل فتوے کے لئے دار الافتاء سے رجوع کرنے کی ہدایت ہے، لہٰذا براہِ کرم اس معاملے میں مفصل ومدلل فتویٰ جاری فرماکر ممنون فرمائیں،والسلام۔               مستفتی:اظفر اقبال رشید،بہادر آباد، کراچی الجواب حامداً ومصلیاً واضح رہے کہ انشورنس کے متبادل تکافل یا اسلامی انشورنس کے نام سے جو نظام رائج ہے، جس کا طریقہ ان کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق یہ ہے کہ اسلامی انشورنس کمپنی اپنے کچھ سرمایہ سے ایک وقف فنڈ قائم کرتی ہے۔ اس فنڈ کے شرائط میں سے ہے کہ جن ممبران کا کسی حادثہ میں نقصان ہوجائے، اس فنڈ کے منافع میں سے ان کے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔ فنڈ کا ممبر بننے کے لئے اس میں ایک خاص مقدار میں چندہ دینا ہوگا جو ہر نوعِ انشورنس کے مطابق ہوگا۔ اسلامی انشورنس کمپنی اپنے سرمایہ سے ایک تو وقف فنڈ کا انتظام کرتی ہے اور اس سے متعلقہ تمام خدمات کو اجرت پر سرانجام دیتی ہے، وقف فنڈ کی وقف شدہ اور مملوکہ رقموں پر کمپنی مضارب کے طور پر کام کرتی ہے اور نفع سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ مذکورہ نظامِ تکافل کی بنیاد وقف کے قواعد پر ہے، لیکن اس نظام میں ان قواعد کی رعایت نہیں کی جاتی ہے، کیونکہ مروجہ نظام تکافل میں ابتداء ً وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں، اور اپنی ہی وضع کردہ شرائط وقف کے ماتحت اپنے ہی موقوفہ مال کے فوائد سے نفع اٹھاتے ہیں، جبکہ وقف میں نقود کا وقف بذاتِ خود محل نظر ہے، اگر شاذ قول کے مطابق درست بھی کہا جائے تو نقود کا وقف کرنے والے خود اپنی وقف کردہ منقولی شئے(نقود وغیرہ) سے منتفع نہیں ہوسکتے، یعنی منقولی اشیاء میں وقف علی النفس درست نہیں، شریعت میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے: ’’منہا (أی من شرائط الجواز للوقف)أن یکون مما لاینتقل ولایحول کالعقار فلایجوز وقف المنقول مقصوداً لما ذکرنا أن التائید شرط جوازہ ووقف المنقول لایتأبد لکونہ علی شرف الہلاک فلایجوز وقفہ مقصوداً‘‘۔    (ج:۵، ص:۳۲۹،کتاب الوقف والصدقۃ ،فصل فی شرائط الجواز للوقف۔ط:دار احیاء التراث العربی) ’’فتاویٰ تنقیح الحامدیہ‘‘ میں ہے: ’’وفی موضع آخر من فتاویٰ الشلبی المذکور مانصہ:فإذا کان وقف حکم بصحۃ وقف الدراہم علی النفس ہل ینفذ حکمہ… فنقول النفاذ مبنی بصحۃ الحکم الملفَّق وبیان التلفیق أن الوقف علی النفس لایقول بہ إلا أبویوسفؒ وہو لایری وقف الدراہم ووقف الدراہم لایقول بہ إلا زفرؒ وہو لایری الوقف علی النفس فکان الحکم بجواز وقف الدراہم حکما ملفّقا من قولین کما تری وقد مشیٰ شیخنا العلامۃ زین الدین قاسم فی دیباجۃ تصحیح القدوری علی عدم نفاذہ ونقل فیہا عن کتاب توفیق الحکام فی غوامض الأحکام أن الحکم الملفّق باطل بإجماع المسلمین‘‘۔         (ج:۱،ص:۱۱۱، المکتبۃ الحقانیۃ) ’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے: ’’وظاہر ما مر فی مسئلۃ البقرۃ اعتبار العرف الحادث فلایلزم کونہ من عہد الصحابۃؓ وکذا ظاہر ما قدمنا آنفاً من زیادۃ بعض المشائخ جری التعامل فیہا وعلی ہذا اعتبار العرف فی الموضع أو الزمان الذی اشتہر فیہ دون غیرہ فوفق الدراہم متعارف فی بلاد الروم دون بلادنا ووقف الناس والقدوم کان متعارفا فی زمن المتقدمین ولم نسمع بہ فی زماننا فالظاہر أنہ لایصح الآن ولکن وجد نادراً لایعتبر لما علمنا أن التعامل ہو الأکثر استعمالاً‘‘۔                       (ج:۴،ص:۳۶۴، کتاب الوقف،مطلب فی التعامل والعرف) ۲…دوسری خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ عاقدین کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے، جبکہ یہاں پر عقد کی نسبت کمپنی (شخص قانونی) کی طرف ہوتی ہے، جوکہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سراسر غلط ہے۔ ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے: ’’شرائط الانعقاد فأنواع… أما الذی یرجع إلی العاقد فنوعان، أحدہما: أن یکون عاقلا فلاینعقد بیع المجنون والصبی الذی لایعقل لأن أہلیۃ المتصرف شرط انعقاد التصرف، والأہلیۃ لایثبت بدون العقل فلایثبت الانعقاد بدونہ… والثانی: العدد فی العاقد فلایصلح الواحد عاقدا من الجانبین فی باب البیع إلا الأب‘‘۔              (ج:۵،ص:۵۳۳/۵۳۷،ط:دار الکتب العلمیۃ) اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ عاقدین کا عاقل، نفع ونقصان کو جاننے والا، صاحب بصیرت ہونا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا جانا ناممکن ہے، جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں ڈائریکٹر ہی سرانجام دیتے ہیں، چنانچہ وہ ڈائریکٹرز جب ایک شخص قانونی کو رب المال اور دوسرے شخص قانونی کو مضارب بناتے ہیں (اس حال میں کہ ان دونوں کے متولی وہ خود ہوتے ہیں) تو نفس الامر میں وہ خود عقد کے دونوں پہلو رب المال اور مضارب بنتے ہیں، اس لئے کہ ڈائریکٹرز حضرات ہی کمپنی اور وقف فنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں، گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ (وقف فنڈ کی طرف سے) ہم مال مضاربت کے لئے دیتے ہیں اور( کمپنی کی طرف سے) ہم مال مضاربت کے لئے وصول کرتے ہیں۔ دوسری طرف عام طور پر ان ڈائریکٹرز کو ہی کمپنی بھی کہا جاتا ہے، نتیجتاً ایک ہی فرد (حقیقی) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب، جس کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے۔ ۳…تیسری خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ چندے کی رقم وقف کی ملکیت ہے اور شریعت کی رو سے اس رقم کا مالک کو واپس کرنا جائز نہیں، نہ کل کی، نہ جز کی، اس رقم کو وقف رقم کی طرح صرف وقف کے مصالح اور مقاصد میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ ایسی کوئی صورت نہیں کہ متولی وقف کی ملکیت مالک کو واپس کردے یا چند ہ دہندہ اس کو واپس لے لے۔’’البحر الرائق‘‘ میں ہے: ’’قولہ أولا یملک (الوقف) بإجماع الفقہاء کما نقلہ فی فتح القدیر ولقولہ علیہ السلام لعمرؓ تصدق بأصلہا لاتباع ولا تورث ولأنہ باللزوم خرج عن ملک الواقف وبلاملک لایتمکن من البیع أفاد بمنع تملیکہٖ وتملکہٖ مَنْعَ رہنِہٖ فلایجوز للمتولی رہنہ‘‘۔                     (ج:۵،ص:۲۰۵،ط:سعید)  اور تکافل میں چندے کی رقم چندہ دہندہ کو مختلف ناموں سے واپس کی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ ۴…چوتھی خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ اسلام کے نظامِ کفالتِ عامہ کی بنیاد خالص تبرع پر ہے، جیسا کہ مختلف رفاہی وخیراتی ادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں،جبکہ مروّجہ تکافل میں پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان ہونے والا معاملہ عقد معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے، جوکہ درست نہیں ہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں سوال نامے کے مشمولات کے مختصر جوابات ملاحظہ ہوں: (۱) صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا مفاسد کی بنا پر تکافل کا مروجہ طریقہ شرعاً درست نہیں۔ (۲)تکافل کے تحت دی جانے والی سہولیات اور پالیسیوں کا لینا اور استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں۔ (۳،۴) اگر کوئی کمپنی اپنے طور پر ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی نہ کرے تو ایسی صورت میں اس سہولت سے ملازمین کے لئے فائدہ اٹھانا شرعاً جائز ہے اور اگر ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی وجہ سے ان کو سہولیات دی جاتی ہیں تو اس صورت میں اس سے فائدہ اُٹھانا درست نہیں۔ واضح رہے کہ ملازمین کو علاج ومعالجہ کی سہولت میسر کرنا کمپنی کی ذمہ داری ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ عطیہ دینے والا فائدہ اٹھانے والا نہیں اور جس کو فائدہ دیا جاتا ہے وہ عطیہ دینے والا نہیں، یہ بات درست نہیں، بلکہ حقیقت کے سراسر خلاف ہے۔ نیز اس تکافل والے نظام میں بہت ہی زیادہ تناقض بھی ہے، جیسا کہ خود سائل کے مندرجہ ذیل الفاظ سے واضح ہے:’’ اس فنڈ سے شرکاء کو جو فوائد دیئے جاتے ہیں، وہ فوائد ان معطین (فنڈ جمع کرانے والوں) کی طرف سے دیئے گئے عطیات کی بنیاد پر نہیں ہوتے، بلکہ عطاء مستقل ہوتے ہیں… اس لئے یہ ضروری نہیں کہ وقف فنڈ، ہر پالیسی ہولڈر کے ہر نقصان کو پورا کرے، چنانچہ اگر اس وقف فنڈ میں رقوم کم ہوں اور نقصانات زیادہ ہوجائیں تو وقف فنڈ اپنے پاس موجود رقم کے بقدر نقصانات کی تلافی کرکے بقیہ پالیسی ہولڈرز سے معذرت کرنے کا حق بھی رکھتا ہے‘‘۔ اس عبارت پر غور کرنے سے یہ تناقض واضح طور پر سمجھ میں آئے گا کہ اگر یہ فوائد عطیات کی بنیاد پر نہیں ہوتے، بلکہ عطاء مستقل ہوتے ہیں، تو بقیہ پالیسی ہولڈرز سے معذرت کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ وغیرہ۔فقط واللہ اعلم         الجواب صحیح               الجواب صحیح                     کتبہ      محمد عبد المجید دین پوری      محمد انعام الحق          محمد مدثر عبد الرزاق                              متخصصِ فقہِ اسلامی                  جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین