بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مردوزن کے قرآنی حدود اوراسلام کے نظامِ عفت کا اِجمالی خاکہ

مردوزن کے قرآنی حدود!

اوراسلام کے نظامِ عفت کا اِجمالی خاکہ


اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مرد وزن کے باہمی اختلاط سے نسلِ انسانی کو پیدا فرمایا اور دونوں کے لیے خصوصی احکام نازل فرمائے اور اس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ ہرایک (مرد ہو یا عورت) اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر مصروف عمل ہو، تاکہ معاشرہ پاکیزہ رہے، کسی کو بھی اپنے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی۔
موجودہ دور کی معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ مرد وعورت میں سے ہرایک نے اسلام کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرکے خالص حیوانی زندگی کو اپنا نصب العین بنالیا، اگر اسلام کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا خیال رکھا جاتا تو ایسا خوشگوار ماحول اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا جس میں ہر ایک کو سکون واطمینان کی زندگی نصیب ہوتی، گویا دنیا نمونۂ جنت بن جاتی۔ فسق وفجور اور معاصی وجرائم کی کثرت اور روز افزوں ترقی میں مرد وزن کے آزادانہ اختلاط کا بہت حد تک دخل ہے۔ اسلام نے واضح ہدایات کے ذریعہ فواحش ومنکرات اور بے حیائی تک پہنچانے والے تمام راستے حسنِ تدبیر سے مسدود کردیئے۔ بدکاری تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلا قدم نگاہِ بد ہے، اسلام نے اولاً اس پر پابندی عائد کردی، ارشادِ خداوندی ہے:
’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔‘‘             (النور:۳۰)
 ’’ایمان والوں سے کہہ دیجئے! اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں۔‘‘
’’وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضَْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ۔‘‘                        (النور:۳۱)
’’مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں، مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔‘‘
اگر غضِ بصر پر عمل ہو تو اگلا قدم معصیت کی طرف نہیں اُٹھ سکتا، لیکن غضِ بصر کے باوجود ممکن تھا کہ بے حجابی کی صورت میں اس حکم پر عمل نہ ہوسکے تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا:
’’یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ۔‘‘                                                        (الاحزاب:۵۹)
 یعنی جب کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر سے سر اور چہرہ بھی چھپالیا جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان عورتیں، بدن اور چہرہ اس طرح چھپاکر نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ عورت گھر کی چہار دیواری سے بجز حجاب وپردہ کے قدم باہر نہ نکالے۔ اس کے بعد ممکن تھا کہ حجاب کی صورت میں عورت کے زیورات کی آواز اجنبی مرد کو معصیت کی طرف متوجہ کردے، اس کا سدِ باب اس طرح کیاگیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَایَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ۔‘‘   (النور:۳۱)
’’اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔‘‘
الغرض عورت کی رفتار ایسی نہ ہو جس سے مخفی زیورات کی چھن چھن مریض القلب انسان کو بے قابو بنادے، بایں ہمہ امکان تھا کہ عورت حجاب میں نرم رفتار سے جارہی ہے، لیکن ا س کی دلکش آواز مرد کو متوجہ کرسکتی ہے، اس کا انسداد بھی اللہ نے فرمادیا، چنانچہ ارشاد ہے:
’’فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔‘‘ (الاحزاب:۳۲)
’’تو تم (نامحرم مردسے) بولنے میں (جبکہ ضرورتاً بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (ایسا نہ ہو) کہ ایک ایسا شخص جس کے دل میں خرابی ہو کچھ طمع کرنے لگے اور تم قاعدۂ (عفت) کے موافق بات کیا کرو۔‘‘
اس آیت میں اگرچہ خطاب ازواج مطہراتu کو ہے، لیکن اُمت کی عورتیں بطریقِ اَولیٰ اس ہدایت کی محتاج ہیں۔ سابقہ آیات پر غور کرنے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عورت کی عصمت اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کس قدر اہتمام فرمایا، ہر وہ راستہ جس سے عصمت دری کا اندیشہ ہوسکتا تھا، اس کو بند کرکے آخر میں ارشاد فرمایا:
’’وَلَاتَقْرَبُوْا الزِّنٰی إِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَائَ سَبِیْلاً۔ ‘‘ (بنی اسرائیل:۳۲)
’’اور تم زنا کے قریب ہی نہ جاؤ، وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔‘‘
ان واضح ہدایت کے باوجود اگر کوئی بندہ ہواء وہوس کی تمام پابندیوں کو توڑتا ہوا بدکاری کا ارتکاب کرے تو اس کے لیے اسلام نے عبرت ناک سزا مقرر فرمائی، چنانچہ فرمایا:
’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۔‘‘(النور:۲)
’’ زانیہ اور زانی (عورت ومرد) ہرایک کو سو درّے مارو۔‘‘؟؟؟
اسلام نے عورت کو درِ مکنون قرار دیا جو ہاتھ لگانے سے میلا ہوجاتا ہے اور ظاہر کرنے سے تو اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے، اسلام نے عورت کے لیے جو صفات بیان کی ہیں، مندرجہ ذیل آیات پر غور کرنے سے ان کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، جنت کی عورتوں (حورِعین) کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’فِیْہِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ إِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَاجَانٌّ۔‘‘           (الرحمن:۵۶)
’’ان میں نیچی نگاہ والیاں ہوں گی کہ ان لوگوں سے پہلے نہ تو کسی آدمی نے ان پر تصرف کیا اور نہ کسی جن نے۔‘‘
جنت میں معصیت تو کجا تصورِ معصیت بھی نہیں آسکتا تو جب حورِ عین جنت میں بجز اپنے شوہروں کے اور کسی کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائیں گی، بلکہ ان کی نگاہ صرف اپنے شوہروں تک محدودہوگی تو اس دنیا میں جہاں قدم قدم پر دعوتِ گناہ موجود ہو کس طرح غیروں کو دیکھنے کی اجازت ہوگی؟ اس سے معلوم ہوا کہ اس عالمِ شر وفساد میں عورت کے لیے نگاہ پست رکھنا لازم ہے۔ دوسری صفت حورِ عین کی یہ بیان فرمائی کہ اس سے قبل کسی جن وانس نے ان کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت ایسی عفیفہ پاک دامن ہو کہ شوہر کے علاوہ کسی کا دستِ معصیت اس کے جسم پرنہ لگاہو، حور کے متعلق ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا:’’حُوْرٌ مَّقْصُوْرَاتٌ فِیْ الْخِیَامِ۔‘‘۔۔۔۔۔’’حورِ عین خیموں میں محفوظ ہوں گی۔‘‘  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی خوبی گھر میں رہنے سے ہے۔‘‘
جب جنت جیسے پاکیزہ ماحول میں حوریں اپنے محلات میں ہی رہیں گی، سیر وتفریح نہیں کریں گی، تو کیا یہاں پر عورت کے لیے گھر کی چہار دیواری سے بے حجاب نکل کر بازاروں اور سڑکوں پر دعوتِ نظارہ دینے کی اجازت ہوگی؟! الحاصل ان آیاتِ کریمہ سے عورت کی تین صفات معلوم ہوئیں: ۱…نگاہ پست رکھے، ۲…عفیفہ پاک دامن ہو، ۳…زینتِ خانہ ہو، سڑکوں اور بازاروں میں نہ گھومے اور شیطان کو تانک کا موقع نہ دے۔
اسلام نے جب عورت کو گھر میں رہنے کی تاکید کی تو اس کے لیے معمولاتِ خانہ بھی بتادیئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی وِأَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَأٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَأَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ۔‘‘                                      (الاحزاب:۳۳)
’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانو۔‘‘
اسلام سے پہلے عورتیں بے پردہ پھرتیں اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا علانیہ مظاہرہ کرتی تھیں، اس بداخلاقی اور بے حیائی کو مقدس اسلام کب برداشت کرسکتا ہے؟! اس نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا۔ آیتِ مذکورہ کا حکم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حق میں چونکہ زیادہ تاکید کے لیے تھا، اس لیے خطاب ان کو کیا گیا، ورنہ تمام عورتیں اس حکم میں داخل ہیں، اس کے بعد ارشاد فرمایا:
’’وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ أٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ۔‘‘        (الاحزاب:۳۴)
’’اور تم ان آیات کو اور اس علم کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے۔‘‘
یعنی گھروں کو تلاوتِ کلام پاک اور حدیثِ نبوی کے ذکر سے آباد رکھیں۔ سبحان اللہ! کیسی پاکیزہ ہدایات دی جارہی ہیں، اگر ان پر عورت عمل کرے تو گھر اللہ کی رحمت سے معمور ہوگا اور شوہر کو حقیقی سکونِ قلب میسر آئے گا۔
اسلام نے عورت کے تستُّر اور حجاب کے متعلق جو مسائل بیان فرمائے، ان سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اس عالم کا سکون عورت کو یاقوت ومرجان کی طرح پردہ میں رکھنے سے ہے۔
مسئلہ :۱… حج جیسی مقدس ترین عبادت میں محرم مرد کے لیے سر اور چہرہ کھلا رکھنا ضروری قرار دیاگیا اور طواف میں رمل کا حکم بھی موجود ہے، لیکن عورت کے لیے نہ کوئی مستقل لباسِ احرام تجویز کیاگیا، نہ سر کھولنے کی اجازت دی اور نہ رمل کرنے کا حکم دیا، تاکہ عورت کے تستُّر میں فرق نہ آنے پائے۔
مسئلہ:۲… نماز میں نیت کرتے وقت مرد کانوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے، لیکن عورت صرف کندھے تک ہاتھ اُٹھاتی ہے اور سجدہ کی حالت میں مرد کے لیے تمام اعضاء کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا ضروری ہے، لیکن عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ اس طرح زمین کے ساتھ مل جائے کہ جسم کا کوئی حصہ کھلنے نہ پائے۔
جب عبادات میں عورت کے جسم کو اس قدر مستور رکھنے کی تاکید ہے تو غیر عبادات میں پردہ کا اہتمام کرنا اور اعضاء کو نہ کھلنے دینا کس قدر ضروری ہوگا۔
مسئلہ :۳… عورت کی میت کو قبر میں اُتارتے وقت بجز محارم کے اور کسی مرد کو وہاں پر کھڑے ہوکر دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مرنے کے بعد عورت کی لاش کو اس قدر پردہ میں رکھاگیا کہ اجنبی مرد کی نگاہ سے محفوظ رہے، تو زندگی میں عورت کے جسم کو چھپانے اور اغیار کی نظروں سے بچانے کی کس قدر اہمیت ہوگی۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین