بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مذاہبِ اربعہ ائمہ، تلامذہ، فقہی مناہج، اُمہات الکتب ایک مختصر تعارف              (پہلی قسط)

مذاہبِ اربعہ

ائمہ، تلامذہ، فقہی مناہج، اُمہات الکتب

ایک مختصر تعارف              (پہلی قسط)


اجتہاد کا سنہرا دور

    دوسری صدی کے اوائل سے چوتھی صدی کے نصف تک کا دور اجتہاد کا سنہرا دور ہے۔ اُفقِ اجتہاد پر ۱۳ مجتہدین چھائے ہوئے تھے۔ سفیان بن عیینہؒ مکہ میں، مالک بن انسؒ مدینہ میں، حسن بصریؒ بصرہ میں، امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کوفہ میں، امام اوزاعیؒ شام میں، امام شافعیؒ اور لیث بن سعدؒ مصر میں، اسحاق بن راہویہؒ نیشاپور میں، امام ابوثورؒ، امام محمدؒ، امام داؤد ظاہریؒ اور ابن جریر طبریؒ بغداد میں منصبِ اجتہاد پہ فائز تھے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا توں توں ان میں سے اکثر حضرات کے مذاہب بھی متبعین کے چل بسنے سے عملی سانچوں سے نکل کر کتابوں کے پیٹ میں اُترتے چلے گئے۔ چنانچہ آج عالمِ اسلام پہ نمایاں حکمرانی کرنے والے مذاہب چار رہ گئے۔ (۱) ذیل کی تحریر میں ان ہی مذاہبِ اربعہ کے مؤسسین وائمہ اور اُن کے ممتاز تلامذہ، فقہی مناہج اور اُمہات الکتب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے:

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (مؤسسِ فقہ حنفی)

    امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی ولادت ۸۰ھ میں کوفہ میں ہوئی، کوفہ ہی میں آپ کی نشوونما ہوئی۔ ابتداء ً آپ تجارت وصنعت میں مشغول ہوئے۔ جب امام شعبیؒ نے آپ کے ماتھے پہ چمکتا اقبال دیکھا تو آپ کو تحصیلِ علم کا مشورہ دیا، چنانچہ آپ تحصیلِ علم کی راہ میں جت گئے۔ (۲) اکابر مشائخ وفقہاء سے علم حاصل کیا، جن میں عطاء بن ابی رباح، نافع مولی ابن عمر، زید بن علی، محمد الباقر، عبد اللہ بن حسن، جعفر الصادق اور حماد بن ابی سلیمان کا تذکرہ بطور خاص کیا جاتا ہے۔ عراق کے شیخ العصر وامام الزمان حمادؒ کی صحبت میں ۱۸ سال رہے۔ ۱۲۰ ہجری میں اُن کی وفات کے بعد اُن کے منصبِ تدریس وافتاء پر فائز ہوئے۔ (۳)
    آپ کی زندگی کے ۵۲ سال دورِ اُموی اور ۱۸ سال دورِ عباسی میں گزرے۔ (۴)عراق کے گورنر ابن ہبیرہ نے آپ کو منصبِ قضاء سپرد کرنا چاہا، لیکن آپ نے ورع وتقویٰ کی بنیاد پر انکار کردیا۔ اس کے بعد منصور عباسی نے آپ کو بغداد میں عہدۂ قضاء پر فائز کرنا چاہا، لیکن آپ نے حلفیہ انکار کردیا، اس پر انہوں نے آپ کو قید وبند کی صعوبتوں سے گزارا۔ بالآخر صعوبتیں جھیلتے جھیلتے ۱۵۰ھ کو بغداد میں دارِفانی سے چل بسے۔ (۵) آپ کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ۵۰ ہزار یا اس سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ (۶)
    اندازِ گفتگو دل پذیر تھا، پختہ دلیل والے تھے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے ایک ایسے شخص (امام ابوحنیفہؒ) کو دیکھا ہے کہ اگر آپ ان سے اس ستون کے بارے میں بات کریں کہ وہ اس کو سونے کا ثابت کردے تو وہ اس کو حجت سے ثابت کردے گا۔‘‘ امام شافعیؒ کا فرمان ہے: ’’فقہ میں لوگ…امام ابو حنیفہؒ کے محتاج ہیں۔‘‘(۷)
    زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت میں بلند درجہ پہ فائز تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ علم، تقویٰ، زہد اور غلبۂ آخرت کے اس مقام پر فائز ہیں کہ جس تک کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کو کوڑے مارے گئے کہ عہدۂ قضاء کو قبول کرلیں، لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔‘‘ (۸)
    آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے مرتب ومبوَّب انداز سے علمِ فقہ کی بنیاد رکھی۔(۹)
    آپ کی تصانیف میں آپ کے تلامذہ کا جمع کیا ہوا ’’مسند الإمام الأعظم‘‘، ا مام ابویوسفؒ کی آپ سے روایت کردہ چھوٹی کتاب ’’المخارج‘‘، رسالہ ’’الفقہ الأکبر‘‘، (۱۰)عثمان البتیؒ کی جانب لکھاگیا ’’خط‘‘، ’’کتاب الرد علی القدریۃ‘‘ اور ’’کتاب العالم والمتعلم‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔(۱۱)
حضرت مالک بن انسؒ سے منقول ہے: ’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ۶۰ ہزار مسائل کو وضع کیا۔ ابوبکر بن عقیقؒ سے مروی ہے: ’’امام ابوحنیفہؒ نے ۵ لاکھ مسائل کو وضع کیا‘‘ خطیب خوارزمی کا کہنا ہے: ’’امام ابوحنیفہؒ نے ۳ لاکھ مسائل وضع کیے۔ ۳۸ہزار مسائل عبادات میں اور باقی معاملات میں۔‘‘(۱۲) امام ابوحنیفہؒ کے حالات ، خدمات اور کارناموں کا احاطہ اس مختصر وقت اور گنے چنے صفحات میں ناممکن ہے۔ طاش کبری زادہ نے ’’مفتاح السعادۃ‘‘ میں بجا لکھا ہے:
’’والکلام فی مناقب الإمام الأعظم مما لایمکن الاستقصاء فیہا، سیمًا فی ہٰذہ الوریقات، إذ قد کسر علیہا الأئمۃ عدۃ مجلدات، ومع ذٰلک لم یؤدوا عشر أعشار مناقبہٖ وإن أطنبوا فی فصولہ وأبوابہ۔‘‘ (۱۳)

امام ابوحنیفہؒ کے اجلہ تلامذہ

    عظیم استاذ کے شاگرد بھی عظیم ہوتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی یہ امتیازی شان ہے کہ ان کو خدانے ایسے شاگرد عطا کیے جو کسی امام کے حصہ میں نہیں آئے،چنانچہ طاش کبری زادہؒ لکھتے ہیں: 
’’جمع اللّٰہ لأبی حنیفۃؒ ما لم یجمع لإمام من الأصحاب، الذین ہم لب الألباب۔‘‘
امام صاحبؒ کے اجلہ تلامذہ میں سے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام زفرؒ، امام حسن بن زیادؒ، امام وکیعؒ، عبد اللہ بن مبارکؒ، بشر بن غیاث المریسیؒ، عافیہ بن یزیدؒ، داؤد طائیؒ، یوسف بن خالد سمتیؒ، مالک بن معول البجلیؒ، نوح بن ابی مریمؒ، یحییٰ بن ابی زائدہؒ، حفص بن غیاثؒ، حبانؒ، مندیلؒ اور قاسم بن معنؒ کے نام گنے جاتے ہیں۔ امام ابویوسفؒ وامام زفرؒ قیاس میں، یحییٰ بن ابی زائدہؒ، حفص بن غیاثؒ، حبانؒ اور مندیلؒ حفظِ حدیث میں، قاسم بن معنؒ معرفت فقہ وعربیت میں، داؤد طائیؒ وفضل بن عیاضؒ زہد میں اپنی مثال آپ تھے۔ (۱۴)
    فقہ حنفی کی تدوین کچھ اس طرح ہوئی کہ ایک مجلس میں امام صاحبؒ کے پاس اُن کے تلامذہ جمع ہوتے، ایک مسئلہ کو زیرِ بحث لاتے، شورائی گفتگو ہوتی، کبھی یہ گفتگو اور بحث ومباحثہ مہینوں تک چلتا۔  آخر میں اتفاقِ آراء سے طے شدہ مسئلہ کا حکم دفتر میں درج کردیا جاتا۔ یوں شورائی مباحث ومناظرات سے گزر کر ’’فقہ حنفی‘‘ وجود میں آئی۔ (۱۵) شوریٰ کے اراکین میں سے بعض حضرات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
    ۱:-امام ابویوسفؒ، جنہوں نے فقہ حنفی کی تدوینِ اصول اور مذہبِ حنفی کی ترویج واشاعت کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ آپ مجتہدِ مطلق کے درجہ پہ فائز تھے۔ (۱۶) آپ فقیہ، عالم اور حافظ تھے۔ محدثین سے احادیث سن کر حفظ کرتے اور پھر اپنے شاگردوں کو املاء کرواتے تھے۔ ابن الجوزی ؒ نے ’’أخبار الحفاظ‘‘ میں اُن کو ’’الحفظ البالغ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ۱۸۲ھ میں وفات پائی۔ آپ کی کتاب ’’الأمالی‘‘ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ۳۰۰ جلدوں پر مشتمل تھی۔ (۱۷)
    ۲:-امام محمدؒ جو چار سال امام ابو حنیفہؒ کی صحبت میں رہے، امام صاحبؒ کی وفات کے بعد امام ابویوسفؒ سے تعلیم کی تکمیل کی۔ امام مالکؒ کے ساتھ بھی ایک مدت تک رہے۔ بڑے ذہین عالم تھے۔ مجتہدِ مطلق کے درجہ کو پہنچے ہوئے تھے۔ امام ابویوسفؒ کے بعد عراق کے سب سے بڑے فقیہ آپ ہی تھے۔ آپ کی شہرۂ آفاق تصانیف عظیم الشان تصنیفی شاہکار ہیں۔ مذہبِ حنفی کی تدوین کی فضیلت آپ کے حصہ میں آئی۔(۱۸)
    ۳:- امام زفرؒ جن کو امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں ’’أقیس‘‘ کی فضیلت حاصل ہے۔ آپ مجتہدِ مطلق کے درجہ پہ فائز تھے۔ اصبہان میں ۱۱۰ھ کو ولادت اور بصرہ میں ۱۵۸ھ کو وفات ہوئی۔ ابتداء ً آپ پر حدیث کا ذوق غالب تھا، پھر رائے کا غلبہ ہوا اور قیاس میں مشہور ہوئے۔

حنفیہ کا فقہی منہج

    حنفیہ کے فقہی استنباط اور اُصولی منہج کی بنیاد سات اصولوں پر رکھی گئی ہے:
۱:-کتاب اللہ     ۲:-سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم         ۳:-اقوالِ صحابہؓ     ۴:-اجماع
۵:-قیاس     ۶:-استحسان         ۷:-اور عرف
    ان سات اُصولوں کی طرف تین نصوص میں اشارہ ملتا ہے:
۱:-امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: ’’میں پہلے کتاب اللہ کو لوں گا، کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت کو لوںگا، اگر نہ کتاب اللہ میں ملے اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں، تو میں قولِ صحابیؓ کو لوںگا۔ اقوالِ صحابہؓ میں مجھے اختیار ہے، جس کا قول چاہوں تو لوں اور جس کا چاہوں تو چھوڑدوں، اور میں ان کے اقوال کو چھوڑ کر غیر کا قول نہیں لوں گا۔ جب معاملہ ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، حسن، عطاء اور سعید بن المسیب پر آپہنچے تو وہ ایک قوم تھی جس نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کروں گا جیسے کہ انہوں نے اجتہاد کیا۔‘‘(۱۹)
۲:-موفق مکیؒ نقل کرتے ہیں کہ: ’’امام ابوحنیفہؒ کے کلام کا ضابطہ یہ تھا کہ ثقہ ومستند بات کولیتے، ضعیف وکمزور بات سے دور رہتے۔ لوگوں کے معاملات میں غور وفکر کرتے۔ لوگوں کے معاملات کو مدِنظر رکھتے، جن بنیادوں پر لوگوں کے کاموںـ کی اصلاح موقوف ہوتی ان کو ملحوظِ نظر رکھتے۔ معاملات کو قیاس پر پرکھتے، اگر قیاس لوگوں کے معاملات کو درست قرار نہ دیتا تو استحسان پر ان کو جانچتے، اگر استحسان معاملات کو نمٹاتا تو فبہا، اور اگر بات نہ بن پاتی تو تعامل الناس کی طرف رجوع کرتے۔ متفق علیہ ومعروف حدیث کو بنیاد بناتے تھے۔ پھر جب تک اس پر قیاس درست ہوتا قیاس کرتے رہتے اور اگر قیاس درست نہ ہوتا تو استحسان کی طرف جاتے۔ استحسان اور قیاس میں جو بھی اصل کے موافق ہوتا اس کی طرف رجوع کرلیتے۔ سہلؒ فرماتے ہیں کہ: آپ کا عمومی طریقۂ کار یہی تھا۔‘‘
۳:-موفق مکیؒ کی کتاب میں ہے: ’’امام ابوحنیفہؒ ناسخ ومنسوخ کے متعلق جستجو میں بہت محنت کرتے تھے۔ پھر جو حدیث آپ کے ہاں بروایتِ صحابہؓ ثابت ہوتی تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اہلِ کوفہ کی احادیث کو خوب جاننے والے تھے۔(۲۰)
اصولِ فقہ کی کتابوں میں حنفیہ کے مذکورہ سات اصولوں کے علاوہ درج ذیل اصول بھی مذکور ہیں:
۸:-مصالحِ مرسلہ (۲۱)    ۹:-سدِّ ذریعہ (۲۲)     ۱۰:-استصحابِ حال (۲۳)
۱۱:-شرائع من قبلنا (۲۴)
نیز حنفی اُصول کے تحت ’’تعامل‘‘ کا ذکر بطور خاص ملتا ہے۔ (۲۵)

مذہبِ حنفی کی اُمہات الکتب

بنیادی طور پر فقہ حنفی کے مصادر کے تین حصے کیے گئے ہیں: ۱:-ظاہر روایت، ۲:-نوادر، ۳:فتاویٰ اور واقعات۔
ظاہرِ روایت سے مراد امام محمدؒ کی یہ چھ کتابیں ہیں:
۱:-المبسوط        ۲:-الجامع الصغیر        ۳:-الجامع الکبیر        ۴:-السیر الصغیر        ۵:-السیر الکبیر        ۶:-الزیادات
حاکم شہیدؒ نے ان میں سے مکرر مسائل کو حذف کرکے ان کو ’’الکافي في فروع الحنفیۃ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ اسی کی شرح علامہ سرخسیؒ نے ’’المبسوط‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔
ان کے علاوہ امام محمدؒ کی دوسری کتابیں، جیسے: ہارونیات، کیسانیات، رقیات، نیز امام ابویوسفؒ کی کتاب ’’الأمالي‘‘، حسن بن زیادؒ کی کتاب ’’المجرد‘‘اور امام صاحبؒ کے تلامذہ کی دوسری کتابیں ’’نوادر‘‘ کہلاتی ہیں۔
جن مسائل کے بارے میں امام صاحبؒ کی رائے منقول نہیں ہے اور بعد کے مشائخ نے ان کی بابت اجتہاد کیا ہے ان کو ’’فتاویٰ اور واقعات‘‘ کہا جاتاہے۔ اس سلسلہ میں ابو اللیث سمرقندیؒ کی کتاب ’’النوازل‘‘، علامہ ناطفیؒ کی ’’مجمع النوازل والواقعات‘‘ اور صدر شہیدؒ کی ’’الواقعات‘‘ اولین کتابیں ہیں۔ ان کی کتب کے علاوہ فقہ حنفی کی اہم کتابیں یہ ہیں:
۱:مختصر الطحاوي لأبي جعفر الطحاويؒ 
۲:المنتقی فی فروع الحنفیۃ للحاکم الشہیدؒ
۳:مختصر الکرخي للإمام الکرخيؒ
۴:مختصر القدوري لأحمد بن محمد القدوريؒ
۵:المبسوط لشمس الأئمۃ السرخسيؒ 
۶:تحفۃ الفقہاء لعلاء الدین محمد السمرقنديؒ
۷:بدائع الصنائع لأبي بکر الکاسانيؒ 
۸: فتاوی لقاضي خان لفخر الدین الأوزجنديؒ
۹:بدایۃ المبتدي لأبي الحسن علي المرغینانيؒ 
۱۰:الہدایۃ لأبي الحسن المرغینانيؒ
۱۱:وقایۃ الروایۃ لبرہان الشریعۃ محمودؒ 
۱۲:المختار لعبد اللّٰہ الموصليؒ
۱۳:مجمع البحرین لمظفر الدین أحمدؒ 
۱۴:کنز الدقائق لعبد اللّٰہ بن أحمد النسفيؒ
۱۵:الجامع الوجیز لمحمد بن البزاز الکردريؒ 
۱۶:البنایۃ للعلامۃ العینيؒ
۱۷:فتح القدیر لکمال الدین بن ہمامؒ 
۱۸:ملتقی الأبحر لإبراہیم بن محمد الحلبيؒ
۱۹:الفتاوی الہندیۃ تحت إشراف الشیخ نظامؒ 
۲۰:تنویر الأبصار لمحمد التمرتاشيؒ
۲۱:الدر المختار لمحمد علاء الدین الحصکفي ؒ
۲۲: رد المحتار العلامۃ محمد أمین الشاميؒ

(یاد رہے کہ کتابوں کی یہ مذکورہ بالا نمبر وار ترتیب مصنفین کے سن وفات کے اعتبار سے ہے)(۲۶)

امام مالکؒ( مؤسس فقہ مالکی)

امام مالک ؒ کو ’’إمام دار الہجرۃ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت ۹۳ھ اور وفات ۱۷۹ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ علمائے مدینہ سے علم حاصل کیا۔ عبد الرحمن بن ہرمزؒ کی صحبت میں بڑی مدت تک رہے۔ نافع مولی ابن عمرؓ ، ابن شہاب زہریؒ اور ربیعہ الرایؒ سے بھی علم حاصل کیا۔ فقہ وحدیث کے امام تھے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ’’امام مالکؒ میرے استاذ ہیں اور ان ہی سے میں نے علم حاصل کیا، جب علماء کا تذکرہ کیا جائے تو امام مالکؒ ایک روشن ستارہ ہیں۔‘‘ آپ کی زندگی کا کم عرصہ دورِ اموی اور زیادہ عرصہ عصرِ عباسی میں گزرا۔ (۲۷) خلیفہ جعفر کو آپ سے کچھ رنجش تھی، جس کی بنا پر اس نے آپ کو کوڑے لگوائے، کوڑوں سے آپ کا کندھا اُتر گیا۔ آپ دین میں بڑے پختہ تھے۔ خلیفہ رشید عباسی نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ ان کے پاس آکر انہیں حدیث سنائیں۔ آپ نے جانے سے انکار کردیا اور فرمایا:’’العلم یؤتٰی‘‘ کہ ’’علم کے پاس آیا جاتاہے‘‘ جب یہ پیغام رشید کے پاس پہنچا تو انہوں نے آپ کے ٹھکانہ کا قصد کیا اور آکر دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر حدیث سننے کے لیے بیٹھ گئے۔ امام مالکؒ نے فرمایا: ’’اے امیر المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم یہ ہے کہ ان کے علم کی تعظیم کی جائے۔‘‘ یہ سن کر خلیفہ رشید امام مالکؒ کے سامنے سیدھا بیٹھ گئے اور پھر امام مالکؒ نے ان کو حدیث سنائی۔ آپ کی تصانیف ورسائل میں ’’الموطأ‘‘، ’’الوعظ‘‘، ’’المسائل‘‘، ’’الرد علی القدریۃ‘‘، ’’النجوم‘‘ اور’’تفسیر غرائب القرآن‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے۔(۲۸)

امام مالکؒ کے کبار تلامذہ ایک نظر میں

امام مالکؒ سے ’’موطأ‘‘ روایت کرنے والے تلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے۔ البتہ امام مالکؒ کی فقہ کو جمع ومرتب کرنے والے شاگرد دو ہیں:
۱:عبد الرحمن بن قاسم، جن کو ’’خزانۃ مذہب مالکؒ‘‘ کے نام سے پکارا جاتاہے، یعنی ’’مذہب مالک کا خزانہ!‘‘ ، انہوں نے براہِ راست امام مالکؒ سے روایتیں لی۔

۲:عبد الملک بن حبیب اندلسیؒ، جن کی روایت امام مالک ؒ سے براہِ راست نہیں ہے، لیکن انہوں نے امام مالکؒ کے تلامذہ کے اقوال کو ’’الواضحۃ‘‘ نامی کتاب میں جمع کیا۔ پھر عبد الملک اندلسیؒ سے محمد بن احمد عتبیؒ نے علم حاصل کیا جو ’’عتیبۃ‘‘ کے مصنف ہیں، اور اندلس کے مفتی تھے۔ عبد الرحمن بن قاسمؒ سے سحنونؒ نے علم حاصل کیا، جن کا نام عبد السلام بن سعید الحمصی التنوخیؒ ہے۔ ’’المدونۃ‘‘ کے مؤلف ہیں۔ علمائے قیروان کا اعتماد ’’المدونۃ‘‘ ہی پر ہے۔ اس میں ۳۶ ہزار ۲ سو مسائل ہیں۔ امام مالکؒ کے تلامذہ میں اشہب بن عبد العزیز، عبد الرحمن بن قاسم کے ہم پلہ شمار ہوتے ہیں۔ پھر ایک زمانہ میں علم ان چار محمدین میں جمع ہوگیا اور ان ہی پر امام مالکؒ کے مذہب کا مدار تھا:

محمد بن عبدوس (المتوفی ۲۶۰ھ) قیروان میں۔
محمد بن سحنون (المتوفی ۲۵۶ھ) قیروان میں۔ یہ صاحب المدونہ کے فرزند ہیں۔
محمد بن عبد الحکم (المتوفی ۲۶۸ھ) مصر میں۔
محمد بن المواز الاسکندری (المتوفی ۲۶۹ھ) مصر میں۔ یہ مدونہ کے عظیم الشان شارح ہیں۔
پھر ان کے بعد چوتھی صدی میں ابن ابی زید القیروانی (المتوفی ۳۸۶ھ) آئے۔
پانچویں صدی میں ابن عبد البر النمری (المتوفی ۴۳۶) آئے جو شہرۂ آفاق کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسی صدی میں قاضی عیاض مالکیؒ آئے جو مشہور عالم ہیں، بلکہ اپنے زمانہ میں ’’سید المسلمین‘‘ تھے۔ اور اسی کے ساتھ ابوعبد اللہ المازریؒ کی شہرت ہوئی۔
ترمذی کے شارح ’’أحکام القرآن‘‘ اور ’’العواصم من القواصم‘‘ کے مصنف ابوبکر بن العربیؒ بھی کبار علمائے مالکیہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مفسر القرآن امام قرطبیؒ بھی مالکی المذہب تھے۔(۲۹)

مالکیہ کا فقہی منہج

امام مالکؒ نے اپنے مذہب کی بنیاد بیس اُصولوں پر رکھی ہے۔ ان میں سے پانچ کتاب اللہ اور پانچ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں۔کتاب اللہ کے پانچ اصول یہ ہیں:
۱:نص الکتاب، ۲:ظاہر الکتاب یعنی عموم کتاب، ۳:دلیل الکتاب یعنی مفہوم مخالف، ۴:مفہوم الکتاب یعنی مفہوم موافق، ۵:تنبیہ الکتاب یعنی کتاب اللہ کا علت پر تنبیہ کرنا، جیسے: قرآن کریم میں ہے:’’فَإِنَّہٗ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا‘‘ (الأنعام:۱۴۵) 
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ اُصول یہ ہیں:
۱:نص السنۃ، ۲:ظاہر السنۃ، ۳:دلیل السنۃ یعنی مفہوم مخالف، ۴:مفہوم السنۃ یعنی مفہوم موافق ۵:تنبیہ السنۃ ۔یہ ہوگئے کل دس اصول۔ باقی دس اصول مندرجہ ذیل ہیں:
۱:اجماع، ۲:قیاس، ۳:تعاملِ اہل مدینہ، ۴:قولِ صحابیؓ، ۵:استحسان، ۶:سدِ ذریعہ، ۷:مراعاۃ الخلاف، امام مالک ؒ کبھی اختلاف کی رعایت کرتے ہیں۔ ۸:استصحابِ حال، ۹:مصالحِ مرسلہ، ۱۰: شرائع من قبلنا۔
وہ اہم اصول کہ جن سے امام مالکؒ کی شہرت ہوئی، وہ یہ پانچ ہیں:
۱:عمل بالسنۃ، ۲:تعاملِ اہل مدینہ، ۳:مصالحِ مرسلہ، ۴:قولِ صحابیؓ، جب کہ سند صحیح ہو۔ ۵:استحسان۔ (۳۰)

فقہ مالکی کی امہات الکتب:

فقہ مالکی کی اہم کتابوں اور مصنفین کے نام اس طرح ہیں:
الموطأ، امام مالکؒ (م:۱۷۹ھ)
المدونۃ، عبد السلام ابوسعید سحنون تنوخیؒ (م:۲۴۰ھ)
الواضحۃ فی السنن والفقہ(اب تک مخطوطہ ہے) عبد الملک بن حبیبؒ (م:۲۳۸ھ)
المستخرجۃ، محمد العتبی القرطبیؒ(م:۲۵۴ھ) [اس کا نام ’’عتیبۃ‘‘ بھی ہے اور یہ ’’البیان والتحسین‘‘ نامی شرح کے ساتھ طبع ہوچکی ہے]
الموازیۃ(یہ بھی مخطوطہ تھی، حال ہی میں شائع ہوئی) محمد ابراہیم اسکندری معروف بابن مواز (م:۲۶۹ھ) یہ چاروں کتابیں فقہ مالکی میں امہاتِ اربعہ کہلاتی ہیں اور انہیں پر فقہ مالکی کا مدار ہے۔
التفریع ،ابو القاسم عبید اللہ جلابؒ (م:۳۷۸ھ)
رسالۃ ابن أبي زید القیرواني،ابو محمد اللہ زید قیروانیؒ (م:۳۸۹ھ)

کتاب التلقین، قاضی ابومحمد عبد الوہاب بغدادی (م:۴۲۲ھ)

البیان والتحصیل(شرح المستخرجۃ) ابو الولید محمد بن رشد قرطبیؒ (م:۵۲۰ھ)
فتاوی ابن رشد،ابو الولید محمد بن رشد قرطبیؒ (م:۵۲۰ھ)
الجواہر الثمینۃ فی مذہب عالم المدینۃ، ابو محمد عبد اللہ شاسؒ (م:۶۱۰ھ)[یہ فقہ مالکی کا نہایت اہم ماخذ سمجھا جاتاہے]
معین الحکام علی القضایا والحکام،ابواسحاق ابراہیمؒ (م:۷۳۳ھ)[یہ کتاب صرف قضاء سے متعلق نہیں ہے، بلکہ عقود وجنایات پر ہے کہ قضاۃ کو اس سے مدد ملے]
المختصر،شیخ خلیل بن اسحاق مالکیؒ (م:۷۶۷ھ)[مختصر خلیل، متأخرین کے نزدیک نہایت ہی معتمد ومستند کتاب ہے اور اسی لیے علماء مالکی کے ہاں اس کو بڑا قبول اور اعتناء حاصل ہوا ہے]
مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل، ابو عبد اللہ محمد خطاب محمد مکیؒ (م:۹۵۴ھ)
شرح الزرقاني علی مختصر خلیل، عبد الباقی زرقانیؒ(م:۱۰۹۹ھ)
خرشي علی مختصر خلیل، محمد بن عبد اللہ خرشیؒ (م:۱۱۰۱ھ)
الشرح الکبیر علی مختصر خلیل، احمد بن محمد دردیرؒ (م:۱۲۰۱ھ)
حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر، محمد بن احمد دسوقیؒ (م:۱۲۳۰ھ)
المجموع الفقہي فی مذہب الإمام مالکؒ، محمد بن محمد امیرؒ (م:۱۲۳۲ھ) (۳۱)

امام شافعیؒ مؤسسِ فقہ شافعی

آپ کا پورا نام محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع القرشی الہاشمی المطلبی ہے۔ فلسطین کے شہر غزہ میں ۱۵۰ھ کو پیدا ہوئے اور مصر میں ۲۰۴ھ کو وفات پائی۔ غزہ میں ان کے والد کی وفات کے بعد جب کہ ان کی عمر ۲ سال تھی، اُن کی والدہ ان کو اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ لائی۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی تربیت ہوئی۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر قبیلہ ہذیل کے دیہات کی طرف چلے گئے۔ ہذیل عرب کا فصیح ترین قبیلہ تھا، اُن کے عربی اشعار اور قصیدے حفظ کیے، عربیت اور ادب میں خوب کمال حاصل کیا۔مکہ کے مفتی مسلم بن خالد زنگی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ انہوں نے آپ کو افتاء کی اجازت دے دی، جب کہ آپ کی عمر ۱۵ سال تھی، پھر آپ نے مدینہ کی جانب کوچ کیا۔ امام مالکؒ سے فقہ پڑھی اور ان ہی سے ’’موطأ‘‘ کا سماع کیا۔ ’’موطأ‘‘ کو نو دن میں حفظ کیا۔ اسی طرح سفیان بن عیینہ، فضیل بن عیاض اور اپنے چچا محمد بن شافع ؒ سے بھی روایتِ احادیث کی۔ یمن کی طرف بھی آپ کا سفر ہوا۔ ۱۸۳ھ اور ۱۹۵ھ میں بغداد کی طرف اسفار ہوئے۔ ان اسفار میں آپ نے امام محمدؒ سے فقہائے عراق کی کتابیں پڑھیں۔ امام احمدؒ نے ۱۸۷ھ میں مکہ میں اور ۱۹۵ھ کو بغداد میں آپ سے ملاقات کی اور آپ سے فقہ اور اُصولِ فقہ کا علم حاصل کیا۔ بغداد میں آپ نے اپنی قدیم کتاب ’’الحجۃ‘‘ کو تصنیف کیا، جس میں آپ کا مذہب قدیم مذکورہے۔پھر ۲۰۰ھ میں مصر کی طرف کوچ کیا اور وہاں اپنے جدید مذہب کی بنیاد رکھی۔ جمعہ کے دن رجب کے آخر میں ۲۰۴ھ کو مصر ہی میں آپ کی وفات ہوئی اور اسی دن عصر کے بعد ’’قرافۃ‘‘ مقام میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ کی تالیفات میں ’’الرسالۃ‘‘ ہے جو اُصولِ فقہ کے موضوع پر لکھی ہے۔ ’’الأم‘‘ بھی آپ کی مشہور کتاب ہے جس میں آپ کے نئے مذہب کا ذکر ہے۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں: ’’امام شافعیؒ کتاب اللہ اور سنت رسول کو لوگوں میں سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں۔‘‘ طاش کبری زادہ آپ کی توصیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’اتفق العلماء من أہل الفقہ والأصول والحدیث واللغۃ والنحو وغیر ذٰلک علٰی أمانتہٖ وعدالتہٖ وزہدہٖ، وورعہٖ وتقواہ وجودہٖ، وحسن سیرتہٖ، وعلوقدرہٖ، فالمطنب فی وصفہٖ مقصر، والمسہب فی مدحتہٖ مقتصر۔‘‘(۳۲)

امام شافعیؒ کے ممتاز تلامذہ

محمد احمد راشد اپنی کتاب ’’أصول الإفتاء والاجتہاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’ ’امام شافعیؒ جب مصر آئے تو آپ نے اپنے مذہب کو شورائی انداز سے مرتب کیا۔ امام شافعیؒ کے قابل وذہین تلامذہ جمع ہوتے اور ان کے ساتھ مسائل پر بحث ومباحثہ کرتے۔ اس طرح از سرِ نو شورائی مذہب مرتب ہوا۔ اس شوریٰ میں شریک ہونے والے امام شافعیؒ کے شاگرد یہ تھے:
۱:یوسف بن یحییٰ البویطی، (م:۲۳۱ھ) جوکہ مسئلہ خلق قرآن کی پاداش میں جیل میں وفات پاگئے۔
۲:عبد اللہ بن زبیر الحمیدی، جوکہ امام بخاریؒ کے شیخ تھے۔
۳:اسماعیل بن یحییٰ المزنی (م:۲۶۴ھ)، جنہوں نے فقہ شافعیؒ کو ’’المختصر الکبیر المسمی بالمبسوط‘‘ میں جمع کیا۔
۴:محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم (۳۳)ان کے علاوہ آپ کے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۵:ربیع بن سلیمان المرادی (م:۲۷۰ھ)، جوکہ امام شافعیؒ کی کتابوں کے سب سے بڑے راوی ہیں۔ ’’الرسالۃ‘‘ اور ’’الأم‘‘ ان کی روایت سے پہنچی ہیں۔
۶: حرملہ ین یحییٰ (م:۲۶۶ھ)، جنہوں نے امام شافعیؒ سے وہ کتابیں روایت کیں، جن کو ربیع نے روایت نہیں کیا، جیسے تین جلدوں پر مشتمل ’’کتاب الشروط‘‘، دس جلدوں پر مشتمل ’’کتاب السنن‘‘،  ’’کتاب النکاح‘‘ اور ’’کتاب ألوان الابن والغنم وصفاتہا وأسنانہا‘‘ (۳۴)ان کے بعد مذہب شافعی کی تشریحات، تفصیلات اور ترویج کی خدمات انجام دینے والوں میں نمایاں اسمائے گرامی یہ ہیں: ۱:ابن سریج، ۲:ابواسحاق الاسفرائنی، ۳:امام الحرمین الجوینی، ۴:ابوحامد غزالی، ۵:امام نووی، ۶:امام رازی، ۷:امام سبکی، ۸:تقی الدین بن دقیق العید، ۹:عز بن عبد السلام، ۱۰:امام بلقینی، ۱۱:ابن حجر عسقلانیؒ۔(۳۵)

شافعیہ کا فقہی منہج

امام شافعیؒ کے مذہب کی بنیاد چار اُصولوں پر رکھی گئی ہے:
۱:کتاب اللہ ، ۲:سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ۳:اجماع، ۴:قیاس۔(۳۶)
بعض حضرات بطور اصلِ شافعی کے ’’تعاملِ اہلِ مکہ‘‘ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔(۳۷)
امام شافعی ؒ نے ’’اقوالِ صحابہؓ    ‘‘ کو نہیں لیا، اس لیے کہ وہ صحابہؓ کے اجتہادات ہیں جن میں خطا کا احتمال ہے۔ عمل بالاستحسان کو بھی چھوڑدیا جوکہ حنفیہ ومالکیہ کے ہاں ایک مستقل اصول ہے۔ امام شافعیؒ سے منقول ہے: ’’من استحسن فقد شرع‘‘ کہ ’’جس نے استحسان کیا، اس نے شریعت سازی کی‘‘ مصالح مرسلہ کی بھی تردید کی اور تعاملِ اہلِ مدینہ کے قابل استدلال ہونے کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ (۳۸)

حوالہ جات

۱:-الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج:۱،ص:۲۹            

۲:-ابوحنیفۃ لابی زہرۃ، ص:۲۱
۳:-ابوحنیفۃ،ص:۵۸،۶۸            

۴:-ابوحنیفۃ،ص:۳۱
۵:-الاعلام،ج:۸،ص:۳۶            

۶:-مناقب الامام الاعظم،ج:۲،ص:۱۷۲
۷:-الاعلام،ج:۸،ص:۳۶            

۸:-رد المحتار،ج:۱،ص:۶۰
۹:-مناقب الامام الاعظم،ج:۲،ص:۱۳۶        

۱۰:-الاعلام،ج:۸،ص:۳۶
۱۱:-کشف الظنون،ج:۶،ص:۳۸۴            

۱۲:-مفتاح السعادۃ،ج:۲،ص:۱۸۱
۱۳:-مفتاح السعادۃ،ج:۲،ص:۱۷۴            

۱۴:-مفتاح السعادۃ،ج:۲،ص:۱۹۴
۱۵:-اصول الافتاء والاجتہاد،ج:۱،ص:۲۹        

۱۶:-الفقہ الاسلامی،ج:۱،ص:۳۰
۱۷:-فقہ اہل العراق،ص:۴۴            

۱۸:-الفقہ الاسلامی، ج:۱،ص:۳۰
۱۹:-الفقہ الاسلامی،ج:۱،ص:۳۱            

۲۰:-ابوحنیفۃ لابی زہرۃ،ص:۲۰۷،۲۰۸
۲۱:-اصول الفقہ الاسلامی،ج:۲،ص:۷۷۵        

۲۲:-اصول الفقہ،ج:۲،ص:۸۸۸
۲۳:-اصول الفقہ الاسلامی ،ج:۲،ص:۸۶۷        

۲۴:-اصول الفقہ،ج:۲،ص:۸۴۳
۲۵:-ماہنامہ بینات،ص:۳۶، جمادی الاولیٰ ۱۴۴۰ھ
۲۶:-قاموس الفقہ،ج:۱،ص:۳۷۸تا۳۸۴ حنفی فقہ کی کتب مذکورہ کے تفصیلی تعارف کے لیے قاموس الفقہ، ج:۱ کے صفحہ:۳۷۸ سے صفحہ:۳۸۴ تک کا مطالعہ کیجئے۔
۲۷:-الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج:۱،ص:۳۱            

۲۸:- الاعلام، ج:۵، ص:۲۵۷
۲۹:-اصول الافتاء والاجتہاد لمحمد احمد الراشد، ج:۱، ص:۳۲،۳۳
۳۰:-الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج:۱، ص:۳۱،۳۲، فقہ مالکی کے اصولی منہج کے تفصیلی تعارف ومطالعہ کے لیے ابو الولید الباجی المالکی کی کتاب ’’اِحکام الفصول فی اَحکام الاصول‘‘ دیکھئے۔
۳۱:- قاموس الفقہ، ج:۱، ص:۳۸۴-۳۸۶        

۳۲:-الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج:۱،ص:۳۵،۳۶
۳۳:-اصول الافتاء والاجتہاد، ج:۱،ص:۳۱        

۳۴:-الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج:۱، ص:۳۷
۳۵:-اصول الافتاء،ج:۱،ص:۳۲            

۳۶:-الفقہ الاسلامی، ج:۱،ص:۳۶
۳۷:-ماہنامہ بینات،ص:۳۶، جمادی الاولیٰ ۱۴۴۰ھ        

۳۸:-الفقہ الاسلامی،ج:۱،ص:۳۶
                                                                              (جاری ہے)

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین