بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مدرسہ کا آغاز وارتقاء ۔۔۔ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا تعلیمی منہج اور کردار۔۔۔۔۔ ایک تحقیقی مطالعہ   (تیسری اور آخری قسط)

مدرسہ کا آغاز وارتقاء ۔۔۔ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

کا تعلیمی منہج اور کردار۔۔۔۔۔ ایک تحقیقی مطالعہ
  (تیسری اور آخری قسط)

جامعہ کا نظامِ تعلیم وتربیت

جامعہ کے نظامِ تعلیم وتربیت کے اہم نکات حسب ذیل ہیں: 


تعلیمی سال کا دورانیہ

تعلیمی سال کادورانیہ شوال المکرم تا شعبان المعظم ہوتاہے، چھ شوال سے جامعہ کے دفتر کھل جاتے ہیں، اور داخلے کی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں، دس شعبان سے پہلے تک سالانہ امتحانات کا انعقاد مکمل ہو جاتا ہے، تقریباً دو مہینے سالانہ تعطیل ہوتی ہے، تاہم اس عرصے میں درجہ حفظ کی پڑھائی اور ہم نصابی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر تقریباً دس دن چھٹی ہوتی ہے، جبکہ عید الفطر کے تقریباً دس ایام جامعہ کے اکثر دفاتر بند رہتے ہیں۔ ہفتہ وار تعطیل جمعۃ المبارک کو ہوتی ہے۔

نظامِ داخلہ

جامعہ کے شعبہ حفظ وناظرہ اور درسِ نظامی مع تخصصات میں صرف شوال کے مہینے میں داخلے ہوتے ہیں، داخلے کے وقت تعلیمی قابلیت کے علاوہ کردار کے حوالے سے خوب جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ نیز ذہنی وفکری رحجان کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ جامعہ میں طلباء کی کثرت کی وجہ سے عملاً تمام درجات میں یا تو داخلہ نہیں دیا جاتا یامحدود داخلہ دیا جاتا ہے۔ رہائشی طلباء کے لیے قیام وطعام اور درسی کتابوں اور علاج معالجے جیسے تمام سہولیات کا انتظام ہوتا ہے۔ دارالاقامہ میں چوبیس گھنٹے کی نگرانی کا نظام ہوتا ہے۔ اخلاقی تربیت کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

اوقات ونظامِ تعلیم

نمازِ فجر کے ساتھ ہی طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ نماز کے بعد طلباء اختیاری طور پر تلاوتِ قرآن مجیداور اورادِمسنونہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ ناشتہ ودیگر ضروریات کے بعد باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ۵۰ منٹ کے دورانیہ پر مشتمل پانچ گھنٹے صبح کے اوقات میں اور ۶۰ منٹ کے دورانیہ پر مشتمل دو گھنٹے ظہر کے بعد ہوتے ہیں۔ درمیان میں کھانے، قیلولہ اور نماز کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔ گرمی کے موسم میں نمازِ عصر کے بعد شام کے کھانے کا وقت ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں عشاء کے بعد۔ عصر تا مغرب کھیل، تفریح اور دیگر معمولات کے لیے طلباء کو فارغ کردیا جاتا ہے۔ مغرب تا رات ۱۱بجے تکرار ومطالعہ کا وقت ہوتا ہے، درمیان میں نماز عشاء کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔ ۱۱بجے سے سونے کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

طریقۂ تعلیم

جامعہ میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے، جبکہ صفوفِ عربیہ میں ذریعۂ تعلیم عربی ہے۔ ابتدائی کتابوں میں اسباق کو زبانی یادکرانے پر زوردیا جاتا ہے اور درمیانی درجات میں کتاب کی عبارت حل کرنے اور تفہیم پر زور دیا جاتا ہے۔ عموماً طالب علم عربی عبارت پڑھتا ہے، استاذ ترجمہ اور تشریح کرتا ہے۔ عبارت خوانی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ روزانہ یا ہفتہ وار سبق سنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

امتحانات کا نظام

سال میں تین امتحانات کا انعقاد کیا جاتا ہے: سہ ماہی ، شش ماہی اور سالانہ۔ اکثر درجات میں سالانہ امتحان وفاق المدارس العربیہ کے تحت منعقد ہوتا ہے، کامیابی کے لیے ۴۰ نمبر حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اول، دوم، سوم پوزیشن حاصل کرنے والے نیز ۹۰ فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء کو انعامات اور تعریفی وتحسینی اسناد دئیے جاتے ہیں، جبکہ ناکام ہونے والے طلباء پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ تمام دینی مدارس کی طرح جامعہ میں امتحانات ہمیشہ بروقت منعقد ہوتے ہیں ،جو ایک انتہائی مثبت پہلو ہے۔

وفاق المدارس العربیہ

جامعہ کے قیام کے اغراض ومقاصد میں دوسری جامعات ، مدارس اور علمی اداروں کے ساتھ روابط پیدا کرنابھی شامل ہے۔ حضرت بنوریؒ کی اسی سوچ کا مظہر وفاق المدارس کا قیام ہے۔ معاصر علماء کرام کی باہمی مشاورت وتعاون سے اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جس کا بنیادی مقصد مدارسِ دینیہ کے لیے یکساں نظامِ امتحانات کا انعقاد ہے، جس میں یہ ادارہ مکمل طور پر کامیاب ہوا ہے۔ تأسیس سے لے کر آج تک جامعہ اس ادارے میں مؤثر نمائندگی رکھتا ہے۔ وفاق المدارس کے نظامِ امتحانات، پیپرز کی تیاری، تقسیم وترسیل وغیرہ تمام مراحل کو عملی شکل دینے کی بنیاد جامعہ کے ناظم تعلیمات واستاذ الحدیث مولانا ادریس میرٹھی v نے رکھی، بعد ازاں ہر دور میں وفاق کے اہم عہدوں میں سے کوئی نہ کوئی عہدہ جامعہ کے پاس رہا۔ اس وقت بھی وفاق المدارس کی صدارت جناب مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم کے سپرد ہے۔ وفاق کے امتحانات میں ہمیشہ جامعہ کے طلباء کی کارکردگی نمایاں وقابلِ ذکر ہوتی ہے۔

ہم نصابی سرگرمیاں

معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے کئی پہلوؤں سے طلباء کی صلاحیتوں اور استعدادات کو نکھارنے کے لیے متعدد ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد جاری رہتا ہے، جن میں اردو وعربی زبان میں خطابت، عربی زبان میں تکلم، خوش نویسی، طلباء کے درمیان مسابقت کا جذبہ بیدار رکھنے کے لیے صرف ونحو میں مقابلے، سالانہ تعطیلات میں مختصر کورسز، دورہ تدریبیہ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دورۂ تدریبیہ میں من جملہ دیگر امور کے کامیاب استاذ بننے اور تدریس کے قدیم وجدید طریقوں کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔
 

تعلیمی وانتظامی نظام کا ڈھانچہ
 

اہتمام: یونیورسٹیز کے وائس چانسلر جیسا منصب ہے، ادارے کا پورا نظام اس منصب کی ماتحتی میں چلتا ہے۔ نائب مہتمم: مہتمم کی نیابت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ نظامتِ تعلیمات: تمام تعلیمی امور کی ذمہ داری اس منصب کے سپرد ہوتی ہے، جو دفترِ اہتمام کی ہدایات ومنظوری سے تعلیمی امور کی تنظیم وتنسیق کرتا ہے۔ نظامتِ دارالاقامہ: دارالاقامہ (ہاسٹل) کی نگرانی اور طلباء کے نظام الاوقات پر عملدر آمد کرانا اس منصب کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، جامعہ میں متعدد دارالاقامہ (ہاسٹلز) ہیں، جامعہ کے مدرسین نظام کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ مجلسِ تعلیمی: یہ مجلس (لجنۃ) تقریباً تمام مدارس میں ہوتی ہے، جامعہ میں آغاز ہی سے یہ مجلس قائم ہے۔ مہتمم، نائب مہتمم اور ناظم تعلیمات بلحاظِ عہدہ اس مجلس کے اراکین ہوتے ہیں، جبکہ بزرگ وسینئراساتذہ کرام بھی اس مجلس کے اراکین ہوتے ہیں۔ مجلس‘ تعلیمی امور وامتحانات کی تنظیم وتنسیق اور نگرانی کرتی ہے۔ مجلسِ شوریٰ: جامعہ میں شورائی نظام ہے، اس لیے مجلسِ شوریٰ کے نام سے یہ کمیٹی ہے، جس میں بنیادی نوعیت کے فیصلے ہوتے ہیں، اور دفترِ اہتمام کی منظوری کے بعد نافذالعمل ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر شعبے کا ایک نگران ہوتا ہے، جو اپنے شعبے کا مسئول ہوتا ہے۔ گیارہ فروع(شاخوں) کے بھی نگران مقرر ہیں، جو متعلقہ شاخ کے تمام امور کی نگرانی ومسئولیت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

شعبہ مالیات

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ جب اوقاف اور مقرر ہ وظائف کا صدیوں پرانا نظام معطل کردیا گیا، تو مدارس کی نشأۃِ ثانیہ کے وقت مسلمان معاشرے نے مدارس ومساجد کے نظام کو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت چلانا شروع کیا اور آج تک یہ سلسلہ قائم ہے۔ جامعہ کی مالیات کا نظام بھی اسی اصول پر قائم ہے۔ مسلمان عوام کی مدد سے جامعہ کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ برملایہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جامعہ کسی بھی حکومتی امداد، خواہ اپنی ملکی حکومت ہو یا بیرونِ ممالک کی حکومتیں ہوں، قبول کرنے کا روادار نہیں۔ شرعی لحاظ سے مسلمانوں کے اموال کی نوعیتیں اورمدات مختلف ہیں، ہر نوع اور ہر مد کے مال کے جداگانہ احکام ہیں، اس لیے اموال قبول کرنے اور مصارف میں خرچ کرنے میں مکمل شرعی احکام کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اس احتیاط کی بدولت مسلمانوں کو مکمل اعتماد ہے کہ ہمارے اموال دیانت دار ہاتھوں میں بالکل صحیح مصارف پر خرچ ہو رہے ہیں، اس لیے وہ اپنے اس اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں کسی طرح بخل اور امساک سے کام نہیں لیتے۔ حضرت بنوریv نے مالیات کا جو نظام قائم کیا تھا، اس میں استغناء، احتیاط اور شرعی احکام کا مکمل لحاظ جیسے اُصول کار فرما ہیں، اس لیے جامعہ نے کبھی بھی چندہ مانگنے اور اموال وصول کرنے کے لیے نمائندہ مقرر نہیں کیا۔ اہل خیرحضرات بنفس نفیس دفترِ حسابات میں رقم جمع کرتے ہیں۔ جامعہ کی طرف سے بعض مواقع، جیسے چرمہائے قربانی جمع کرنے اور صدقۂ فطر وصول کرنے میں دینے والوں کی سہولت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مالیاتی نظام کے حوالے سے آغاز میں حضرت بنوریؒ کو بڑی صبر آزما اور کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، مشقتیں برداشت کیں، لیکن وضع کردہ اصولوں سے سرمو انحراف نہیں کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان عوام کا اعتماد بن گیا، اور جامعہ کی تمام ضروریات آسانی سے پوری ہو جاتی ہیں۔ سالانہ کی بنیاد پر منظور کردہ اداروں اور افراد سے آڈٹ کرایا جاتا ہے اور ملکی قانون کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے۔

تیسری بحث

اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اسلامی شناخت کی بقاء میں جامعہ کا کردار اور اثرات

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے اب تک اسلامی معاشرے کی تشکیل، اسلامی اقدار اور اسلامی ثقافت کے تحفظ میں کیا کردار ادا کیا؟! اور بانیِ جامعہ کے بیان کردہ قیام کے اغراض ومقاصد کس حد تک حاصل ہوئے ہیں؟! اس بحث میں اختصار کے ساتھ اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل، بقاء اور اسلامی شناخت کو برقراررکھنے میں تمام مدارسِ دینیہ کا اہم کردار ہے۔ برصغیر بلکہ مسلمانانِ عالم پر دینی مدارس اور ان کے بانیان وعلماء کرام کا بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے دینی مدارس کے ذریعے علومِ نبوت کی حفاظت کی ، اور ایسے علماء حق پیدا کیے جنہوں نے اُمت کی دینی، ایمانی اور اخلاقی تربیت فرمائی ، اس کی برکت سے آج شعائرِ اسلام زندہ ہیں، معروف ومنکر کا فرق واضح ہے اور دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔ ان اثرات میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ کا وافر حصہ ہے۔ بانیِ جامعہ کی عالمگیر شخصیت کی بدولت جامعہ کے مثبت اثرات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں،جہاں بھی بنی نوع انسان آباد ہیں، بلاواسطہ یا بالواسطہ جامعہ کے دینی اثرات وہاں تک پہنچے ہوئے ہیں۔ آسانی کے لیے اس بحث کو ہم دو عنوانات :۱:- دینی وعلمی خدمات، ۲:- رفاہی خدمات :کے تحت سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ دینی وعلمی خدمات: مدارس کے قیام کااصل مقصد علومِ نبوت کی حفاظت، اشاعت اورتبلیغ ہے، اس کے لیے رجالِ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جامعہ کے قیام کا بھی یہی مقصد تھا،بلکہ جامعہ کی تمام دینی وعلمی خدمات کا نقطۂ آغاز ایسے رجالِ کار کی تیاری ہے، جو ہر قسم کی دینی خدمات سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جامعہ نے جو رجالِ کار تیار کیے، وہ مختلف حیثیتوں سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جس کی قدرے تفصیل حسب ذیل ہے:

دینی علوم کے ماہر مدرسین

جامعہ نے ہزاروں کی تعداد میں ایسے ماہر علماء اور اساتذہ پیدا کیے، جو دینی مدارس میں دینی علوم کی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جامعہ کے تمام مدرسین، جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، تقریباً جامعہ ہی کے فارغ التحصیل ہیں، ملک بھر اور دنیا بھر میں مسندِ حدیث پرفائز شیوخ الحدیث واساتذۂ حدیث، مسندِ تفسیر پرفائز شیوخ التفسیر اور تمام علوم وفنون کے مدرس کی حیثیت سے جامعہ کے سینکڑوں فضلاء دینی خدمات سرانجام دے رہے، اور مسلمان معاشرے کی اس اہم دینی ضرورت کو پورا کررہے ہیں۔

اذان اور امامت وخطابت

مسجد مسلمان معاشرے کی پہچان اور وجود کا مرکزی نقطہ ہے اور مسجد میں امامت وخطابت کا منصب مسجد کی روحانی تعمیر کا مرکزی نقطہ ہے۔ دنیا بھر کی ہزاروں مساجد میں جامعہ کے فضلاء بحسن وخوبی ایک ایسا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، جو اسلامی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور عہدِ رسالت میں پیغمبراسلام a نے اور آپa کے بعد خلفاء راشدینs نے ہمیشہ اس منصب کو بذاتِ خود سنبھالا۔ملکِ عزیز کے اندر اور پوری دنیا کے ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں جامعہ کے فضلاء اذان ، امامت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

مدارس ومکاتب کا قیام

اسلامی معاشرے اور مسلمان کمیونٹی کی معاشرتی ضرورت ہے کہ دینی مدارس اور حفظ وناظرہ کے مکاتب کے قیام کا سلسلہ جاری رہے، ان علاقوں میں اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے جو پسماندہ ہوں اور جہاں دینی تعلیم کا مؤثر انتظام نہ ہو، اور ان ممالک میں تو ضرورت کی حد سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے جہاںمسلمان تعداد کے لحاظ سے کم ہوں اور غیر مسلم اکثریت میں ہوں۔ جامعہ نے اس ضرورت کو پورا کرنے میں کس طرح اپنا حصہ ڈالا؟!اس کی متعدد مثالیں ہیں، تاہم یہاں چند مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے جس سے راقم بذات خود واقف ہے، ملاحظہ ہوں:۔

پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی ترویج، جامعہ اسلامیہ بابوزئی کا قیام

ضلع مردان کے شمال مشرق میں واقع بابوزئی بستی، جو راقم کا آبائی گاؤں ہے، ایک پسماندہ علاقہ ہے تینوں اطراف سے بلند وبالا پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، اس پسماندہ دور افتادہ علاقے میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ناظم تعلیمات برادرم مولانا امداداللہ صاحب کی فعال شخصیت نے علمی ماحول بنا دیا ہے، اس وقت تمام شعبوں میں پڑھنے والے بچوں بچیوں کی تعداد سولہ سو (۱۶۰۰) سے متجاوز ہے، جس میں علاقے کے طلبہ کے ساتھ پورے خیبرپختونخواہ کے طلبہ شامل ہیں۔ تدریسی وغیر تدریسی عملہ کی کل تعداد ۱۵۰ ہے۔(۱) حفظ کے بچوں کے لیے ’’الجامعۃ الاسلامیہ ایجوکیشن سسٹم‘‘ کے نام سے میٹرک تک کا سکول بھی مردان بورڈ سے (رجسٹرڈ) ہے۔ بچے حفظ کے ساتھ ساتھ میٹرک تک سکول کی تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں،گویا جامعہ اسلامیہ علاقے میں دینی وعصری تعلیم کی ترویج واشاعت میں اپنا بھاری بھر کم وزن ڈال رہا ہے۔ اس چشمۂ صافی کے سوتے جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے پھوٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ صرف ضلع مردان کی سطح پر جامعہ کے فضلاء کے قائم کردہ تقریباً دس تعلیمی ادارے ضلع کے بچے اور بچیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں، جن میں ہزاروں بچے بچیاں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ (۲)
اس کے علاوہ متعدد ممالک بالخصوص غیرمسلم ممالک میں جامعہ کے فضلاء نے جامعہ کے طرز پر دینی ادارے قائم کررکھے ہیں، جو صرف دینی تعلیم نہیں، بلکہ دیگر دینی اُمور میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی کا فعال نظام قائم کیے ہوئے ہیں، جن میں افریقی ممالک میں جامعہ اسلامیہ زامبیا،(۳) دارالعلوم زکریا  ساؤتھ افریقہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔ یہ ادارے مساجد کا قیام، حلال اتھارٹیز اور ادارہ برائے تقسیم زکوٰۃ اور تبلیغی سرگرمیوں جیسے شعبے قائم کیے ہوئے ہیں۔یہ تمام ادارے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء چلارہے ہیں، یہ فضلاء جامعہ کے اس احسان کونہیں بھولے،اساتذہ کرام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، اس لیے ان سے مشورے لیتے ہیں اور ان کی راہنمائی میں آگے بڑھتے ہیں۔ گویا افریقی ممالک میں مسلم کمیونٹی کی اسلامی شناخت برقراررکھنے اور مسلمانوں کی دینی ضروریات پورا کرنے کے حوالے سے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کانمایاں اور مؤثر کردار ہے۔

تصنیفی وتالیفی خدمات

اسلامی معاشرے کی تشکیل میں تصنیف وتالیف کی اہمیت مخفی نہیں۔ بانیِ جامعہ کی تصنیفی خدمات کا تذکرہ شروع میں گزر گیا۔ دارالتصنیف کے تعارف کے تحت جامعہ کے فضلاء اور اساتذہ کی معرکۃ الارآء تصنیفات کا بھی ذکر کیا گیا۔ جامعہ کے اساتذہ کرام کی سینکڑوں تصنیفی خدمات ہیں۔ ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق سکندر دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ’’الطریقۃ العصریۃ‘‘ وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے جس کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں بنین اوربنات عربی زبان سیکھتے ہیں۔ مولانا محمد انور بدخشانی کی اب تک کے قریب وقیع علمی کتب عربی، فارسی اور اُردوزبان میں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ آپ کا فارسی ترجمۂ قرآن مدینہ منورہ میں قائم ’’مجمع الملک فھد لطباعۃ القرآن الکریم‘‘ نے فارسی زبان میں لکھے گئے تمام تراجم میں سے منتخب کرکے شائع کیا، اور سعودی حکومت کی طرف سے ان ممالک میں مفت تقسیم ہورہا ہے، جن میں فارسی بولی جاتی ہے۔ یہ پاکستان، دینی مدارس، بالخصوص جامعہ کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ آپ کی ایک تالیف’’ تیسیر أصول الفقہ‘‘ کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ریفرنس بکس کی فہرست نصاب میں شامل کیاگیا ہے۔(۴) مولانا حبیب اللہ مختار صاحب شہید v کی تصنیفات وتراجم وفاق المدارس بنات کے نصاب میں شامل ہیں،صرف و نحو میں اساتذۂ جامعہ کی مشترکہ تصنیفات شامل ہیں۔ جامعہ کے دیگر فضلاء جو اپنے اپنے مقامات پر خدمتِ دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں لکھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
صحافت کے ذریعے اسلامی معاشرے کی تشکیل
نظریات اور تعلیمات کی نشرواشاعت کے لیے ایک اہم شعبہ صحافت کا ہے، آپ کے مسائل اور ان کا حل کے عنوان سے جاری جنگ اخبار کا جمعہ ایڈیشن جامعہ ہی کے اکابر کے قلم سے نکلنے والے دینی مسائل کا مجموعہ ہوتا ہے، جس کو پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ پہلے مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدv عوامی سوالات کے جوابات لکھتے تھے، ان کے بعد حضرت مفتی نظام الدین شامزیv، پھر حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید v اور آج کل جامعہ کے مہتمم ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ العالی یہ جوابات تحریر فرماتے ہیں۔ مولانا لدھیانوی v کے لکھے گئے جوابات کو جنگ اخبار ہی نے کتابی شکل میں ۱۰جلدوں میں چھاپ دیا ہے، بقیہ مسائل بھی کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جامعہ کے فضلاء صحافت کے میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔

سرکاری ملازمتیں

جامعہ کے فضلاء اورمنتسبین کی بہت بڑی تعداد سرکاری مناصب پر فائز ہیں، بالخصوص مذہبی علوم سے متعلق مناصب۔ اسکولز کے اساتذہ، کالج کے لیکچررز، یونیورسٹیوں کے ڈاکٹرز و پروفیسرز، آرمی، بحریہ، ایئرفورس کے ائمہ و آفیسرز میں جامعہ کے فضلاء کی بڑی تعداد شامل ہے، ٹیکنیکل پوسٹوں پر بھی فائز لوگوں میں جامعہ کے فضلاء موجود ہیں، تجارت پیشہ افراد میں جامعہ کے فضلاء کے نمایاں نام ہیں۔ مروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے جامعہ کے دارالافتاء کا مؤقف چونکہ مانعین کی فہرست میں شامل ہے۔ وہ اسلام کی طرف منسوب حالیہ بینکوں کو روایتی بینکوں کا تسلسل اور تشکیلِ نو قرار دیتے ہیں، اس لیے جامعہ نے اس حوالے سے فضلاء کی حوصلہ افزائی نہیں کی کہ وہ اسلامی بینکوں میں جا کر خدمات سرانجام دیں، اس کا اثر یہ ہے کہ جامعہ کے فضلاء اس میدان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ یہ طرزِعمل ایک مثبت رویہ کی نشاندہی کرتا ہے کہ فضلاء جامعہ اپنے اساتذہ اور جامعہ کے مؤقف کا احترام کرتے ہیں اور ان کی آراء ،اقوال اورنصائح کی روشنی میں میدانِ عمل منتخب کرتے ہیں، تاہم چند ایک ایسے فضلاء جامعہ بھی ہیں جنہوںنے تخصص جامعہ کے علاوہ کسی اور ادارے سے کیا اور وہ اسلامی بینکوں میں پالیسی ساز مناصب پر فائز ہیں۔

جدید خیالات و انحرافی نظریات کا تعاقب

اسلامی معاشرے کے توڑ کے لیے اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ میں سب سے مؤثر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ ایسے افکار اور خیالات کی تشہیر کی جائے جو اُمت کی اجتماعی سوچ اور فکر کے خلاف ہوں، اس کو فتنہ سے تعبیر کیا جائے، جیسا کہ علماء اور اہل مدارس کا مؤقف ہے یا کوئی اور نام دیا جائے، بہرحال! اس میں شک نہیں کہ چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری میں نصوص اور اسلامی تعلیمات کی ایسی تشریح و تعبیر کا سلسلہ شروع ہوگیا،تراث میں جس کی نظیرنہیں، یا اگر ہے تو ان فرقوں کے عقائد اور خیالات و نظریات ہیں جن کو امت کی اجتماعی سوچ نے مسترد کیا ہے، اور اسی لیے وہ فرقے اور ان کے خیالات اپنی موت آپ مر گئے ہیں،ایسی جدید اور انوکھی تعبیرات، خیالات اور سوچ اس لائق ہیں کہ اس کو مسترد کیا جائے، لیکن ایسے خیالات اور تعبیرات میں عموماً ایک تو ایسا اجمال وابہام ہوتا ہے جس کو عوام الناس تو کجا، اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بعض علماء بھی نہیں سمجھ پاتے یا ان کو ایسی خوش کن اور پررونق تعبیر میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے تناظر میں ایسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ اچھے خاصے اہلِ علم بھی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہو کر اس کے پیچھے ہو پڑتے ہیں، گو بعد میں ان کے سامنے اصل چہرہ آ جاتا ہے اور جمہور کے موقف کی طرف واپسی اختیار کر جاتے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہمیشہ سے جدید خیالات کے پیچھے حکومتی طاقت، ذرائع اور سرپرستی حاصل ہوتی ہے، یا پھر اس فکر کے حامل لوگ سرمائے اور وسائل کی طاقت سے مالامال ہوتے ہیں۔ جدید خیالات میں غلطی کی نشاندہی کرنے کے لیے عمیق علم کے ساتھ تقویٰ اور للّٰہیت کے اوصاف کا ہونا ضروری ہے، نیز صاحبِ عزیمت لوگ ہی یہ بوجھ اور ذمہ داری اُٹھالیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور ملکِ عزیز پاکستان میں بالخصوص یہ کاروبار آغاز کار سے جاری و ساری ہے۔ علماء نے ہمیشہ ایسے افکار کا تعاقب کیا، اور امت کی درست رہنمائی کی، امت کو جدید اور انوکھے خیالات کے اثراتِ بد سے بچانے اور صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا۔ اس میدان میں بانیِ جامعہ کا نام سرفہرست ہے، جن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جامعہ کے دیگر اہلِ علم نے بھی ہمیشہ جہاد بالقلم کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اس لیے حضرت بنوریؒ نے دینی ادارہ کا قیام جن مقاصد کے پیشِ نظر کیا، ان میں ایک مغربی تہذیب وتمدن کے اثراتِ بد سے مسلمانوں کا بچانا اور الحادو بے دینی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے آگے بند باندھنا بھی تھا، اس وجہ سے کراچی میں مدرسہ قائم کیا، اگر چہ جید وعلماء کرام جیسے مولانا عبدالرحمن کامل پوری v نے ان کو ملک کے کسی وسطی شہر میں مدرسہ بنانے کا مشورہ دیا، تو جواب میں ارشاد فرمایا: کراچی بین الاقوامی جگہ ہے، دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ فتنوں کی آماجگاہ بھی ہے، اس لیے کراچی میں بنانے کا خیال ہے۔ (۵) اسی بنا پر آپ نے ایسے نظریات کا کامیاب تعاقب کیا۔
علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک اور ان کی کتاب ’’التذکرۃ‘‘ ہو، سنت اور حدیث کی حجیت سے انکار پر مشتمل غلام احمد پرویز کے نظریات اور ان کاترجمان رسالہ طلوعِ اسلام ہو، یا پھر ڈاکٹر فضل الرحمن کے جدید خیالات و نظریات اور اس کی پشت پر حکومت کی سرپرستی میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کی صدارت ہو، حضرت بنوریv نے جامعہ کے پلیٹ فارم سے ان تمام متجددانہ و متجھدانہ تحریکوں کا کامیاب تعاقب کیا۔ اس میدان میں حضرت بنوریv نے تساہل سے کام لیا نہ رواداری کوآڑے آنے دیا، یہاں تک کہ سیاست کے میدان میں امام الہند کے لقب کی صحیح حقدار ٹھہرنے والی شخصیت ابو الکلام آزاد v جن کو علماء کا اعتماد بھی حاصل تھا اور شیخ الہندv کے مشن کو عملی جامہ پہنانے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے علامہ عبید اللہ سندھی v- جن کی شخصیت اور کارناموں پر بجا طورپر دیوبندی مکتبِ فکر کو فخر حاصل ہے- کی بعض تعبیرات اور خیالات کو جمہور علماء کے مؤقف سے جداگانہ محسوس کیا تو برملا اس پر نکیر فرمائی، جو اُن کی کتاب ’’یتیمۃ البیان‘‘ میں مذکور ہے۔(۶) ایسے میں مولانا ابو الاعلی مودودی کے حوالے سے ان کا قلم کیوں جوش میں نہ آتا، جن کو علماء کی تائید و حمایت بھی حاصل نہیں تھی، اس لیے ’’الأستاذ المودودي و شیء من حیاتہٖ و أفکارہٖ‘‘ کتاب تصنیف کی،اس کتاب کو عربی زبان میں لکھنے کا داعیہ یوں پیدا ہوا کہ برصغیر میں تو اُن کے نظریات اور عبارات پر کافی لکھا جا چکا تھا، علماء عرب کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کیا جائے، بالخصوص عصمتِ انبیاء ؑاور عدالتِ صحابہؓ کے حوالے سے، ابھی دو ہی اجزاء مکمل ہوئے تھے کہ داعیِ اجل کو لبیک کہی، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو متعدد اجزاء منصہ شہود پر آتے۔ (۷)

فتنۂ قادیانیت کا تعاقب

جس نئی تحریک نے برصغیر پاک و ہند اورپورے عالم اسلام کی اساس کو متزلزل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، وہ ختم نبوت کا قضیہ تھا، جس کی پشت پر قادیانیت کی تحریک تھی، اس تحریک کا راستہ روکنے کی کوششیں تو آغاز ہی سے شروع ہوئی تھیں، جس کے سرخیل مولانا امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا قاسم ناتوتویؒ تھے۔ آپ کے استاذ مولانا کشمیریؒ نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کئی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف فرمائیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے شاگردِ رشید، بانیِ جامعہ نے تحریر و تقریر کے ذریعے فتنے کی سرکوبی کی کوششیں جاری رکھیں۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کے نام خطوط لکھے، کانفرنسوں اور شخصی ملاقاتوں میں اس جماعت کے نظریات اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں سے پردہ اُٹھایا۔ جب تحریک کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کے دن آئے اور ۱۹۷۴ء میں آئینی لحاظ سے قادیانی فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس وقت تحریک کی قیادت بانیِ جامعہ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ اس زمانے میں بیک وقت مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کے امیر اور مجلسِ عمل کے صدر تھے۔ آئینی فیصلے اور دفعات پر مشتمل ایک تحریر اردو زبان میں ’’ملتِ اسلامیہ کا موقف‘‘ کے عنوان سے تیار کی، اپنی نگرانی میں اس کا عربی ترجمہ اپنے شاگرد ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرسے کرایا، ملتان، مصر اور کراچی میں متعدد بار چھپوایا۔(۸) جدید اور منحرف نظریات کے تعاقب کے مشن کو آپ کے جانشینوں نے بھی جاری رکھا۔ ان کوششوں کو تحریری شکل میں شائع کیا گیا۔
ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں دورِ حاضر کے مفکر جاوید احمد غامدی کے نظریات کے بارے میں متعدد قسطوں میں تعاقب کیا گیا۔ صحابہ کرامؓ کی عظمت و تقدس کے حوالے سے اُٹھنے والی تحریکوں میں جامعہ کی طرف سے ہمیشہ یہ موقف اپنایا گیا کہ صحابہ کرامؓ اُمت کی عدول جماعت ہے، جن کا احترام اور تعظیم اُمت پر لازم ہے، ان کی تنقیص، تحقیر اور سب و شتم سے اسلام کی اساس منہدم ہو جائے گی۔
ان علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟! قادیانیت کے حوالے سے تو اُمت کا متفقہ مؤقف آئینی و قانونی حیثیت سے محفوظ ہوگیا، اور اسی کے نتیجے میں آج اس مسئلے پر دو رائے نہیں، دیگر نظریات اور کوششوں کے بارے میں ایک سے زائد موقف ہو سکتے ہیں، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جناب مودودی صاحب کی جن عبارات اور نظریات پر تنقید کی گئی، ان کی جماعت نے کم از کم ان کا دفاع چھوڑ دیا، اور ان کی کتابوں سے ان کی قابلِ اعتراض عبارات خارج کر دی گئیں، جو ایک مثبت اقدام ہے۔

رفاہی خدمات

یہ حقیقت کسی پر مخفی نہیں کہ جامعہ ایک علمی مرکز اور ادارہ ہے، جس کے کام کا دائرہ کار علمی سرگرمیوں تک محدود ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان علمی مراکز میں انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا درس دیا جاتا ہے،جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ اور نبی کریمa کی احادیث میں وارد ہے۔کوئی آسمانی یا زمینی آفت آ جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ مدارس کو اس کا احساس نہ ہو، اور ان کے جذباتِ ہمدردی نہ اُبھریں۔ دوسری طرف آسمانی آفات کے وقت اصحابِ خیر مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ امداد کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے لیے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچنے کا قابلِ عمل حل نہیں ہوتا، ایسے میں وہ چاہتے ہیں کہ معتمد اشخاص اور ذرائع ان کی امداد ان علاقوں میں پہنچا دیں۔ اہلِ مدارس پر عوام الناس کا اعتماد ہوتا ہے، ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے اموال مصیبت زدہ اور مستحق لوگوں تک پہنچ پائیں گے، نیز شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم بھی ہوں گے۔ جب ملکِ عزیز میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں آسمانی آفات کا سلسلہ شروع ہوا، تو اہلِ خیر حضرات کی بڑی تعداد نے جامعہ کا رُخ کیا اور جامعہ کے اربابِ حل و عقد سے درخواست کی کہ آپ ہمارے اموال مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کریں۔ جامعہ نے اپنے فضلاء ، طلباء اور مصیبت زدہ علاقوں کے اہلِ مدارس کے ذریعے امداد پہنچانے کا آغاز کیا۔ مفتی محمد عاصم زکی(مدرسِ جامعہ) اورمولانا امداد اللہ( ناظمِ تعلیماتِ جامعہ) کی نگرانی میں اساتذہ اور طلباء پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے متاثرہ علاقوں میں جا کر سروے کیا، اپنے فضلاء سے رابطہ کیا، فہرستیں مرتب کیں اور نقدی، اشیاء خوردونوش، مکانات کی تعمیر، اجتماعی شادیوں کی صورت میں امداد فراہم کی۔۲۰۰۵ء کے قیامت خیز زلزلے میں متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو امدادفراہم کی گئی، اجتماعی شادیاں کرواکر لوگوں کے گھر آباد کیے گئے۔ سوات اور بونیر کے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا۔ طوفانی بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ مدد کی گئی، مکانات تعمیر کرائے گئے۔

خلاصۂ بحث

۱:-دینی تعلیم کی تدریس و تعلیم کا سلسلہ عہدِ رسالت سے چلا آ رہا ہے جس کا نصاب، طریقہ تدریس، نظامِ تربیت اور درکار ضرورتیں اور سہولتیں مقصد اور روح کے اعتبار سے ایک ہیں۔
۲:-ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد سے قبل مدارس و مکاتب کے نظام چلانے کے لیے وقف کا ادارہ قائم تھا، کچھ اہل خیر حضرات کی طرف سے باقاعدہ وظائف جاری تھے، ۱۸۳۵ء کے قانون کے نتیجے میں یہ نظام یکسر موقوف ہوگیا اور جاری نظامِ مدارس ختم ہوگیا۔
۳:-اصحابِ عزیمت علماء نے مسلمان عوام کی مدد سے ایسے مدارس کے قیام کی کوششیں شروع کیں جن میں خالص دینی علوم کو پڑھایا جا رہا ہو۔
۴:-جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بانی انہی مدارس کے فیض یافتہ تھے اور آپ ایک متبحرعالم کے طورپر ان مدارس سے منسلک رہے۔
۵:-۱۹۵۱ء میں پاکستان منتقل ہوئے اور ۱۹۵۶ء میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی، بعد میں اس ادارے کا نام جامعۃ العلوم الاسلامیہ رکھا گیا جس میں دینی علوم کی تدریس اور اشاعت کے لیے ایک مؤثر نصاب، نظامِ تعلیم اور نظامِ تربیت وضع کیا گیا۔
۶:-انتظام و انصرام کے اعتبار سے جامعہ کے چارادوار ہیں، اس وقت چوتھا دور جاری ہے، قیام سے لے کر اب تک اس تمام عرصے میں جامعہ نے ہر حوالے سے اپنی کارکردگی مزید مؤثر بنائی ہے اور خدمات کو وسعت دی ہے۔
۷:-جامعہ کی خدمات سے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اسلامی شناخت کی بقاء کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہوئے، جامعہ کی خدمات کے اثرات کا دائرہ کار تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک تک وسیع ہے۔

تجاویز

۱:-حکومت وقت کو چاہیے کہ ملکی آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جامعہ اور تمام دیگر مدارس کے موجودہ نظامِ تعلیم و تربیت کو تحفظ فراہم کرے، اس میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور کسی بھی بیرونی یا اندرونی دباؤ کے تحت مدارس کے نصاب اور نظام میں تبدیلی نہ لائے، اور اربابِ مدارس کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی مشکلات کو حل کرے۔
۲:-جامعہ کے اربابِ حل و عقد عصری تقاضوں کے پیشِ نظر فضلاء مدارس کی استعداد اور صلاحیتوں کو مزید نکھاریں۔ اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں ان کی مہارت کو مزید بڑھائیں، تاکہ ان کا کردار معاشرے میں مزیدوسیع اور مؤثر ہو جائے۔
۳:-سرکاری جامعات (یونیورسٹیز) اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن جیسے تمام بڑے مدارس کے درمیان مشترکہ علمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مفاہمتی یادداشتیں تیار کرنے اور مدارس وسرکاری اداروں کے درمیان قائم ہونے والی خلیج کو کم کرنے کے لیے طلباء کو ایک دوسرے کے تجربات اور علمی سرگرمیوں سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کردینا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وفاق المدارس اورایچ۔ ای۔ سی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حواشی وحوالہ جات

۱:- بشکریہ جناب مولانا ڈاکٹر منتظرشاہ صاحب، ناظم دفتر جامعہ اسلامیہ، بابوزئی
۲:- یہ معلومات جناب مولانا ڈاکٹر محمد شعیب ، ناظم تعلیمات جامعہ اسلامیہ بابوزئی نے فراہم کیں، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء 
۳:- جامعہ اسلامیہ، لوساکا،زامبیاکا راقم نے خود بھی مشاہدہ کیا ہے، مولانا امداداللہ صاحب ناظم تعلیمات جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن نے بھی جامعہ اسلامیہ زامبیا کا متعدد بار دورہ کیا اور حالات مشاہدہ کیے۔
۴:- الشیخ محمد انور بدخشانی، فی حوار شامل معہ المجلۃ مجلۃوفاق المدارس، (ربیع الاول ۱۴۳۹ھ -دسمبر ۲۰۱۷ء )صفحات: ۲۴تا۲۷
۵:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )ص:۲۳۵ 
۶:- بنوری، محمد یوسف، العلامہ، یتیمۃ البیان فی علوم القرآن (کراچی)
۷:- مختار، مقدمہ معارف السنن (۱۹۸۱ء)، جلد:۱، ص:۳۰
۸:- مختار، مقدمہ معارف السنن (۱۹۸۱ء )جلد:۱ ، ص:۳۴

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین