بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محافظِ اسلام و پاکستان کی شہادت

محافظِ اسلام و پاکستان کی شہادت


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

دارالعلوم دیوبند کے سابق اُستاذ ودارالعلوم حقانیہ اَکوڑہ خٹک کے بانی حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہٗ کے فرزند ارجمند، امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہٗ کے تلمیذ ومسترشد، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم واُستاذِ حدیث ، جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر، سابق رکن قومی اسمبلی وسینیٹ، ہزاروں فضلائے حقانیہ ومجاہدینِ افغانستان کے محبوب استاذ، مربی وسرپرست، مولانا حامد الحق ومولانا راشد الحق سلمہما کے والد گرامی‘ حضرت مولانا سمیع الحق کو ۲۳؍ صفر ۱۴۴۰ھ مطابق ۲؍ نومبر ۲۰۱۸ء بروز جمعہ بعد نمازِ عصر اُن کے گھر واقع بحریہ ٹاؤن اسکیم راولپنڈی میں سفاک ودرندہ صفت قاتلوں نے خنجر اور چھری جیسے آلۂ جارحہ کو استعمال کرتے ہوئے بے دردی سے ذبح اور شہید کردیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپ کی شہادت کا عین وہی دن ہے جب سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے سزائے موت پانے والی آسیہ ملعونہ کی سپریم کورٹ سے بریت پر پوری پاکستانی قوم سراپائے احتجاج بنی ہوئی تھی۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدv بھی اپنی شہادت سے ایک دن پہلے ایک احتجاجی مظاہرہ میں شریک ہوئے اور وہاں خطاب اور اس فیصلے پر اپنے غم وغصہ کا اظہار بھی فرمایا تھا۔ شہادت کے دن بھی آپ ایک احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے آپ واپس اپنے گھر تشریف لے آئے۔ آپ کے خادم اور ڈرائیور قریب ہی سودا سلف لانے کے لیے گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو دیکھا کہ حضرتؒ خون میں لت پت ہیں، ہسپتال لے جایا گیا، لیکن آپ کی روحِ مبارک پہلے ہی قفسِ عنصری سے محوپرواز ہوچکی تھی۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی ظالم ۸۳ سالہ بوڑھے، بیمار اور بزرگ ہستی پر اس وحشت ناک اور دردناک انداز میں ہاتھ اُٹھاسکتا ہے۔ حضرت موصوف کی شہادت سے ایک بار پھر مظلومِ مدینہ ، دامادِ رسول، امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان q کی شہادت کا منظر دُہرایا گیا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ! جس طرح حضرت عثمان بن عفان q کے قاتلین اس دنیا میں دیدۂ عبرت بنے اور ذلت کی موت مرے، اسی طرح حضرت مولانا سمیع الحق شہیدv کے قاتلین بھی اس دنیا میں نمونۂ عبرت اور ذلت کی موت مریں گے۔
حضرت مولانا سمیع الحق شہیدv کی پوری زندگی تعلیم وتعلُّم، درس وتدریس، تصنیف وتالیف، قومی، ملی، سیاسی خدمات کے علاوہ اعلائے کلمۃ اللہ اور پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے قادیانیت سمیت تمام فرقِ باطلہ اور اُمتِ مسلمہ کے خلاف عالمی استعمار کی دہشت گردی کے تعاقب میں گزری۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے آپ کی تڑپ، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آپ کی تاریخ ساز جدوجہد، افغان جہاد کی سرپرستی‘ آپ کی حیات کے ایسے لازوال کارنامے ہیں، جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ راہ بن کر مہمیز کا کام دیں گے، ان شاء اللہ!۔
 الغرض موصوف ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں اور فکرونظر کے بہت سے فضائل وخصائص سے نوازا تھا۔
آپ کی پیدائش ۱۲؍ رجب ۱۳۵۵ھ مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۳۶ء کو اکوڑہ خٹک میں ایک علمی خانوادہ میں ہوئی۔ آپ کے شجرۂ نسب میں تقریباً علماء اور دین دار افراد ہی گزرے ہیں۔ آپ کی پانچویں پشت کے حضرت مولانا عبدالرحیم اپنے خاندان کے ہمراہ ۱۱۷۴ھ مطابق ۱۷۶۱ء میں تبلیغِ دین کی غرض سے اکوڑہ خٹک میں آکر آباد ہوئے۔
آپؒ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہٗ سے حاصل کی۔ انجمن تعلیم القرآن اسلامیہ پرائمری اسکول میں پرائمری تک تعلیم مکمل کی۔پھر درسِ نظامی کی مکمل تعلیم دارالعلوم حقانیہ ہی میں رہ کر حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد ماجد کے علاوہ مولانا رسول خان ہزارویؒ اور شیخ التفسیر امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ اسرارہم کے نام نامی نمایاں ہیں۔ آپ نے ۱۹۵۸ء میں دارالعلوم حقانیہ سے دورہ حدیث کیا۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد آپ کے والد ماجد نے دورۂ تفسیر کے لیے حضرت لاہوریؒ کی خدمت میں آپؒ کو لاہور بھیجا۔ آپؒ نے رمضان تا ذوالحجہ وہاں رہ کر مکمل دورۂ تفسیر پڑھا، امتحان میں سونمبر حاصل کیے۔ اور امام الاولیاء حضرت لاہوریv سے آپ نے بیعت کی، حضرت مولانا سمیع الحقv خودلکھتے ہیں:
’’۲۷ مئی نمازِ عشاء سے قبل حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے احقر نے بیعت کی درخواست کی، جس پر آپ نے والد ماجدؒ کی اجازت اور مرضی کی تحقیق کرنے کے بعد پذیرائی بخشی اور نمازِ عشاء کے بعد حضرت لاہوریؒ نے اپنے خصوصی کمرے میںیکسوئی اور تنہائی میں مجھے بیعت کروایا۔ لطیفۂ قلبی کی تعلیم وتلقین کی اور پھر خصوصی شفقت سے لبریز جامع دعا فرمائی۔ مجھے کم از کم ایک ہزار مرتبہ ’’اللّٰہ ہو‘‘ کہنے کا حکم فرمایا اور اشیائے خورد ونوش میں شدید احتیاط برتنے پر زور دیا ۔‘‘                (خود نوشت ڈائری)
آپ نے ۲۲؍ سال کی عمر میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تدریس شروع فرمادی، گویا آپؒ نے ساٹھ سال کے قریب ’’قال اللّٰہ وقال الرسول(a)‘‘ کا درس دیا۔ آپؒ کادرس دل چسپ اور معلومات سے بھرپور ہوتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ آپؒ نے اپنے ادارے سے ایک مجلہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ بھی جاری کیا، جس کے آپ ایک عرصہ تک مدیر رہے اور آپ کے اداریہ کی بڑے بڑے اکابر اور اہلِ قلم صحافی حضرات انتظار، تعریف اور توصیف کیا کرتے تھے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ترجمان ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں ماہنامہ ’’الحق‘‘ پر ان دنوں ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا تھا:
’’اس ماہنامہ کی ترتیب بڑی دلکش اور مضامین ایمان افزا ہوتے ہیں۔ اداریہ میں مسائلِ حاضرہ پر شگفتہ زبان، سنجیدہ اسلوب اور متین اندازِ بیان میں شرعی نقطۂ نظر سے بصیرت افروز تبصرہ، مقالات میں تنوُّع، عالم اسلام کے کوائف، عالمی مسائل اور ان کا صحیح حل اور تازہ مطبوعات پر جاندار تبصرہ اس مجلہ کے خصوصی مشمولات ہوتے ہیں۔‘‘                                    (ذوالحجہ ۱۳۸۶ھ)
آپ کے فیضِ قلم سے درج ذیل کتب منصہ شہود پر آئیں:
۱:-زین المحافل شرح الشمائل للترمذی، ۲:-اسلام کا نظامِ اکل وشرب (ترمذی ابواب الاطعمہ) کی شرح، ۳:-اسلامی معاشرہ کے لازمی خدوخال (ترمذی ابواب البر والصلۃ)کی شرح، ۴:-کاروانِ آخرت، ۵:-شریعت بل کا معرکہ، ۶:-اسلام اور عصر حاضر، ۷:-صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام، ۸:-دعواتِ حق (۲ جلد)، ۹:-مکاتیبِ مشاہیر (۱۰جلد)، ۱۰:-خطباتِ حق، ۱۱:-منبرِ حقانیہ سے خطباتِ مشاہیر (۱۰ جلد)، ۱۲:-قادیانیت: ملتِ اسلامیہ کا موقف، ۱۳:-قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا سمیع الحقؒ نے یوں تو ان مذکورہ بالا کتب کے علاوہ بھی زندگی میں پیش آنے والے ہر اہم واقعہ اور ہر اہم معاملہ پر لکھا اور خوب لکھا، شایدان منتشر مضامین اور تحریروں کو جمع کیا جائے تو مزید کئی کتب منصہ شہود پر آسکتی ہیں، لیکن فی الحال اس بزم میں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے حضرتؒ ہی کے مضامین، انٹرویوز اور تحریرات میں سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں، جو حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہٗ کی تالیف کردہ کتاب ’’مولانا سمیع الحق: حیات وخدمات‘‘ سے لیے گئے ہیں، جس سے محسوس اور معلوم ہوگا کہ آپ کو اُمتِ مسلمہ، خصوصاً پاکستانی قوم کے لیے کتنا فکرمندی اور درد تھا اور کس طرح سلگتے مسائل کے حل کے لیے آپ نے پاکستانی قوم اور حکومت کی راہنمائی فرمائی اور پاکستانی مخالف لابیوں کو کس انداز سے دندان شکن جواب اور دلائل سے چاروں شانے چت کیا۔
۱:… ایک جگہ علمائے کرام کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائضِ منصبی کا احساس دلاتے اور آگاہ کرتے ہوئے آپؒ نے لکھا:
’’علماء حق زمین کا نمک ہیں، جس کی نمکینی کلمۂ حق کہنے اور دین کو ہرچیز پر مقدم رکھنے میں ہے، لیکن اگر نمک اپنی خاصیت کھوبیٹھے تو پھر کون سی چیز ہے جو اُسے نمکین بنادے۔ اگر کسی میں یہ کربناک منظر دیکھنے کی تاب نہیں تو اسے یہ بات ہر وقت مستحضر رکھنی چاہیے کہ علم خدا کی صفت ہے اور عالم اس کا مظہر، اس علم کا تقاضا ہے کہ اسے اونچا رکھا جائے۔ خدا کی صفت ہر حال میں بالادستی کی مستحق ہے، دارورسن ہو یا تلوار کی دھار، خدا کے وصفِ خصوصی کو ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔اس علم کے حامل لوگ اس کی آبرو نہ رکھ سکیں تو ان کے لیے بہترہے کہ عالمانہ بھیس چھوڑ کر چمار اور بھنگی بننا قبول کرلیں۔ ملک وملت سے نصیحت وخیرخواہی کا معاملہ آپ کا فریضہ ہے، اگر کوئی تمہاری رہنمائی طلب کرے تو بصد خلوص بھرپور تعاون کریں، لیکن اگر معاملہ غلام اور خادم جیسا ہو تو یہ آپ کی اپنی تحقیر نہ ہوگی، بلکہ علم اور دین کی آبروریزی ہوگی۔ علماء دین تو ائمہ صدق وعزیمت امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے جانشین ہوتے ہیں۔ دربارِ اکبری کے ابوالفضل اور فیضی اور دربارِ عباسی کے قاضی ابوالبختری کے نقشِ قدم پر چلنے والے نائبِ رسول نہیں، بلکہ اس دھرتی پر خدا کی پھٹکار ہیں۔‘‘        (مولانا سمیع الحقؒ: حیات وخدمات، ص:۱۶۵)
۲:…پاکستانی قوم اور مدارس کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، آپؒ نے جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’مشکلات کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا ٹیررازم کو جس مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے بغیر اس کے کہ وہ ہے کیا چیز؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ کون سی چیز ٹیررازم ہے اور کونسی ٹیررازم نہیں ہے، خواہ اس تعریف ومعیار پر مغربی طاقتیں یا بڑی طاقتیں اُتریں یا کوئی گمنام شخص تو پھر پانی کا پانی اور دودھ کا دودھ سب صاف ہوگا۔ یہ سارا معاملہ تب صحیح ہوگا جب ہم ڈیفینیشن طے کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خود چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کی متعین تعریف ہوجائے۔ اقوام متحدہ یا کسی اور پلیٹ فارم پر اس کا تشخُّص معلوم ہوجائے، حدود متعین کیے جائیں۔ لیکن میں آپ کو آسان الفاظ میں فرق بتاتا ہوں کہ جہاد اور ٹیررازم میں فرق کیا ہے؟ میں آپ کو مثال دیتا ہوں، رات کو ایک بس اس روڈ پر پشاور جارہی ہے اور چند ڈاکو اس کو روک لیں اور اس کے اندر گھس جاتے ہیں اور وہاں لڑکیوں کی بے عزتی وآبروریزی کردیتے ہیں، وہاں سواریوں کوقتل کردیتے ہیں، ان کا سارا سامان لوٹ لیتے ہیں تو اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، یہ ٹیررازم ہے اور ایک شخص گھر میں آرام سے سورہا ہے، چادر اور چاردیواری کا تحفظ ساری دنیا ضروری سمجھتی ہے، رات کے اندھیرے سے یا اپنی طاقت سے دن دھاڑے کوئی شخص بندوق کی نوک سے آکر میرے گھر میں گھس جاتا ہے، میری عزت لوٹتا ہے، میرے گھر کو لوٹتا ہے، میرے سارے گھر کو تباہ وبرباد کرتا ہے، اس وقت اگر میں گھر میں بندوق اُٹھاتا ہوں تو یہ میرے لیے لازمی ہے کہ میں اپنے گھر کا تحفظ کروں، اس گھر میں اگر کوئی اس طریقے سے آتا ہے تو اس کی بقاء کی جنگ جہاد ہے اور جو شخص باہر ڈاکو کی شکل میں آکر لوٹ کھسوٹ کرتا ہے وہ ہے ٹیررازم ، ان دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔‘‘ 
                            (ماہنامہ الحق، اگست ۲۰۰۵ء،بحوالہ مولانا سمیع الحق : حیات وخدمات، ص: ۱۴۰)
۳:…اسلام اور اُمت مسلمہ کی سالمیت کے بارہ میں لکھا کہ:
’’اب کسی ایک قانون، کسی ایک جزئیہ، کسی ایک عنوان یا کسی ایک مشن، کسی ایک مسئلہ اور ملت کے کسی ایک عضو واندام کی حفاظت کی بات نہیں، اب تو اُمت کی سالمیت کا مسئلہ ہے، دشمن پوری قوت سے اُمتِ مسلمہ کو ڈائنا میٹ کردینا چاہتا ہے۔ دنیا کی تمام طاقتیں اس بات پر متحد ہوگئی ہیں کہ اسلام کو بہرحال پنپنے نہیں دینا۔ اُمتِ مسلمہ کو جدید عالمی تبدیلیوں کے بڑے بڑے ہولناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ امریکہ، روس، چین، جاپان، برطانیہ اور پوری دنیائے کفر عالم اسلام کی بیداری کی نئی لہر سے خائف اور لرزاں وترساں ہے۔‘‘                               (مولانا سمیع الحق : حیات وخدمات، ص: ۲۲)
۴:…افتراق وتشتُّت کا سبب بننے والی چیزوں سے احتراز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
’’ہمیں آئندہ ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا ہوگا جو دل آزاری اور افتراق وتشتُّت کا سبب ٹھہرے یا اس سے صحابہ کرامؓ کی شخصیات متأثر ہوں۔ اگر ہم گزرے لوگوں (جنہوںنے ایسا کیا ہو) کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم موجودہ لوگوں کو اتحاد ووحدت کی خاطر یہ اُمور چھوڑنے ہوں گے۔ فرمایا کہ: ’’تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَاکَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّاکَسَبْتُمْ وَلَاتُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔‘‘                                                 (مولانا سمیع الحق : حیات وخدمات، ص: ۳۷۸)
۵:…پاکستانی قوم اور حکومت کو خودداری اور آزادی کا درس دیتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
’’ کسی ملک کی امداد پر رہنا، کسی غیور زندہ قوم اور مسلمان قوم کے لیے مناسب نہیں ہے، ہم ایک آزاد قوم ہیں اور ہم نے بڑی عظیم قربانیوں سے یہ ملک حاصل کیا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک بدقسمتی سے کچھ ایسے جغرافیائی حالات سے دوچار ہے جن سے بعض سپرطاقتیں ناجائز فائدہ اُٹھارہی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اقتصادی امداد کا سلسلہ جاری ہے اور بڑی طاقتیں چھوٹی طاقتوں کی امداد کررہی ہیں، جو کہ درحقیقت مدد نہیں ہوتی، بلکہ سود پر رقم دیتے ہیں، جسے پھر امداد حاصل کرنے والے ممالک سود در سود واپس ادا کرتے ہیں اور یہ سودی نظام ساری دنیا میں رائج ہے۔ اس کو وہ اقتصادی امداد کا نام دے کر طرح طرح کے قومی، ملی اور دینی وسیاسی مفادات سے کھیلتے ہیں۔‘‘       (مولانا سمیع الحق: حیات وخدمات، ص: ۲۵۶)
۶:…ایک انٹرویو میں اُمتِ مسلمہ کی قربانیوں کی بدولت مغربی اقوام کو ملنے والے فوائد اور اس کے بدلہ میں انہوں نے مسلمانوں کو کیا دیا؟ اس سوال کا جواب جب ان سے مانگا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا، آپؒ نے فرمایا:
’’دیکھیے! افغانستان پر روس کا جو قبضہ ہوا تو سب سے بڑی قربانی پاکستان نے دی اور پاکستان کے عوام نے دی۔ کم از کم بیس لاکھ آدمی شہید ہوگئے۔ ۵۰ لاکھ کا بوجھ ہم نے اُٹھایا اور پورے پاکستان کو رسک میں ڈال دیا، ہوسکتا تھا کہ سویت یونین ہمیں بھی تباہ وبرباد کرکے رکھتا، ابھی تک ہم وہ نقصانات بھگت رہے ہیں۔ ۲۰ لاکھ آدمیوں کا قتل، ہزاروں معذور لولے، لنگڑے، کئی لاکھ مہاجر ہمارے ملک میں اب بھی پڑے ہوئے ہیں۔ اس ساری قربانی کے بعد اس کا سارا فائدہ مغربی اقوام نے لیا۔ ایک فائدہ یہ کہ امریکہ واحد سپرپاور بن گیا۔ دوسرا فائدہ یہ کہ آپ کا مشرقی یورپ سارا آزاد ہوگیا۔ تیسرا فائدہ یہ کہ برلن کی ساری دیواریں ٹوٹ گئیں اور تمام دنیا پر صرف مغربی قوتوں کا ہولڈ آگیا۔ یورپی یونین سارا آپس میں متحد ہوگیا۔ یہ سب کچھ ہماری قربانیوں کا پھل تھا، ہمیں کیا ملا؟ اتنی بڑی قربانیوں کے بعد بھی ہمارا افغانستان جہنم کدہ بنا ہوا ہے اور ایسی آگ میں ڈالا گیا جس سے کوئی نہیں نکل سکتا اور پھر پاکستان کی کیا حالت ہے؟ کہ ہم دہشت گرد کہلائے، اب ہم ہر جگہ ٹیرارسٹ ہیں اور دنیا میں بلی بھی ایک چوہے کو پکڑتی ہے تو شور مچتا ہے کہ یہ پاکستان سے ہوا، تو جن لوگوں کی قربانیوں اور سڑگل سے یہ سب کچھ ہوا اور وہ سب کچھ ہم نے آپ کی جھولی میں ڈالا تو آپ ہمارے ساتھ کم از کم یہ نہ کریں کہ کانٹے صرف ہم کو ملیں اور ہمارا سارا دامن ہی کانٹوں سے بھردیا۔ تو اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا، وہ بڑے متأثر ہوئے اور سوچ کر کہا کہ واقعی یہ سوچنے کی بات ہے۔ ‘‘                  (مولانا سمیع الحق : حیات وخدمات، ص: ۱۳۹)
۷:…تجددپسندوں اور مغربی افکار ونظریات کے دل دادہ لوگوںکے عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے حضرت موصوفؒ لکھتے ہیں: 
’’الغرض تجدد واصلاحِ مذہب کے نعرے بلند کرنے والوں کے عزائم اور مقاصد اگر صرف یہی ہوتے تو اختلاف کی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی، مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کو نئے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں، ان کی ذہنی ساخت ، تعلیم وتربیت، ذاتی وسیاسی مصالح، مغربی تہذیب وتمدن میں سرتاپا استغراق اور جن سرچشموں سے ان کے نظریات کی آبیاری ہورہی ہے اور اسلام پر تحقیق وریسرچ کے جو نت نئے نمونے مسلمانوں کے سامنے آرہے ہیں، ان سب چیزوں سے یہ حقیقتِ مسلمہ کھل کر سامنے آچکی ہے کہ دراصل ان لوگوں کا مقصد پورے اسلامی معاشرہ کو مغربی تہذیب وتمدن اور لادینی افکار وخیالات میںڈھالنا اور اسلامی ممالک کو مغربی ممالک کے نقشِ قدم پر چلانا ہے۔ اس راہ میں جو بھی دینی تصورات اور ضوابط، قوانین اور دینی اقدار وروایات حائل ہوسکتے ہوں ان میں ترمیم وتنسیخ کی جائے یا اُسے کھینچ تان کر اسلام کے دائرہ میں لایاجائے۔ اور مختصراً یہ کہ اس طرح حقیقی خدوخال سے محروم ہوکر ملک ومعاشرہ کو ’’مغربیت‘‘ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ یہی وہ المناک صورت حال ہے جس سے تجدد اور اصلاح کے خوشنما نام سے اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمان دوچار ہیں۔ تجدید کے نام پر مغربی تہذیب وافکار کی ہی وہ اندھی تقلید ہے جس کا رونا علامہ اقبالؒ روچکے ہیں:
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اور یہی وہ تشویشناک صورت حال ہے جس نے دینی اقدار وافکار پر مرمٹنے والے علماء اور غیور مسلمانوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ہے اور وہ کسی حال میں بھی اسلام کو یورپ کے اخلاقی اور روحانی اقدار سے عاری نظام کی بھینٹ چڑھانے پر آمادہ نہیںہوسکتے۔ اور اس راہ میں وہ بے خطر ہر میدان میں سنگِ گراں ثابت ہوجاتے ہیں۔ اہلِ تجدد اور مغرب زدہ طبقہ کے ہاں نئے تقاضوں اور حالات کے سامنے اور مذہب کے ترقی پذیر ہونے کا مطلب کھلے الفاظ میں یہ ہے کہ مذہب کو حالات کا تابع بنادیاجائے ، نہ کہ حالات اور زمانہ کو مذہب کے مطابق بنایا جائے۔‘‘       (مولانا سمیع الحقؒ: حیات وخدمات، ص:۳۰۴-۳۰۵)
۸:…ڈاکٹر فضل الرحمن کے فتنہ کے بارہ میں آپ نے لکھا:
’’ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے ادارے ’’اسلامی تحقیقاتی ادارہ‘‘کا مشغلہ ہی آج تک دین کے مسلمات سے تلاعب، تمسخر اور اُسے مشقِ مسخ وتحریف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے مشاغل وعزائم کی کچھ جھلکیاں ہم وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہتے ہیں، ادارے کے بزعم خود شہرۂ آفاق محقق ڈاکٹر فضل الرحمن کا اصل روپ اب مسلمانوں سے مخفی نہیں رہا۔ ان کی مساعی کا نتیجہ سوائے ضیاعِ وقت کے کچھ اور نہیں نکلتا اور ان کی تحقیقات مسلمانوں کی دل شکنی اور نظریۂ پاکستان سے انحراف رہا ، باہمی تفریق وانتشار اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔‘‘                       (الحق، اکتوبر۱۹۶۶ء)
۹:…قادیانیت کے بارہ میں آپ نے لکھا :
’’قادیانیت مسلمانوں کے لیے ایک ایسا شجرۂ خبیثہ ہے، جس کی جڑیں کبھی بھی عقل ودانش کی زمین میں جگہ نہیں پکڑسکیں، لیکن دجل وتلبیس، ملمع سازی اور فریب کے بل بوتے پر اس کی شاخیں کبھی کبھی پھیلنے لگتی ہیں اور خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ دینِ قیم کے صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کے لیے پرخاردار جھاڑیاں اور کانٹے راہِ حق سے بھٹکنے کا ذریعہ نہ بن جائیں۔۔۔۔۔۔۔ گو آج انور شاہ کشمیریؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ہم میں نہیں، مگر مسلمانوں کے منبرومحراب، ہر مدرسہ وخانقاہ،ہر مجلس ومحفل سے ان اکابر کی روح بول رہی ہے اور ہر مسلمان کے دل میں وہ آگ سلگ رہی ہے، جسے ان اکابر نے روشن کیا تھا، یہاں ہم اس دریدہ دہن کی خدمت میں صرف یہ شعر پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ 
مت سوچ ’’بخاری‘‘ نہیں اربابِ وطن میں
یہ دیکھ فضا شعلہ فشاں ہے کہ نہیںہے
جو آگ سلگتی رہی اس شیر دل میں
اس آگ سے ہر روح تپاں ہے کہ نہیں ہے
                                                                            (بادنیٰ تغیر، الحق مارچ ۱۹۶۷ء)
۱۰:…قادیانیت کو غیرمسلم اقلیت قراردینے کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
’’قادیانیت کے بارے میں آئین کی اسلامی دفعات ہیں، اس مسئلے کا فیصلہ نہ تو مولویوں نے کیا ہے اور نہ ہی کسی مدرسے نے، بلکہ پارلیمنٹ نے کیا ہے، انہوں نے پورے چالیس دن بڑے بڑے وکلاء اور اٹارنی جنرل رکھے ہوئے تھے اور وہ دہشت گرد تو کیا پارلیمنٹرین بھی نہیں تھے، بھٹو خود سوشلسٹ، اور روشن خیال تھا، انہوں نے آئین کی روشنی میں فیصلہ کیا۔ اب اس کے بارے میں ہر وقت مسئلہ اُٹھتا ہے کہ آئین سے یہ چیز امریکہ نکال رہا ہے، جو بہت افسوس کی بات ہے، اس کی تلافی کرنی چاہیے، امریکہ کو اپنی براء ت کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے، پارلیمنٹ کسی کو غیرمسلم کہے یا مسلمان کہے، امریکہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی فنڈامینٹل (Fundamental) ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی مخالفت نہیں کی تھی، بلکہ وہ خود کہتے تھے کہ ہمارا نبی الگ ہے، اس کی الگ کتاب ہے، جیسے موسیٰ  ؑ کے بعد عیسیٰ  ؑ آگئے اور عیسیٰ  ؑ کے بعد حضورa ، کوئی بھی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کردے۔ کیا ایسے شخص کو یہودی موسیٰ  ؑ کی طرح اور عیسائی عیسیٰ  ؑ کی طرح نبی ماننے کے لیے تیار ہیں؟ وہ ہرگز تیار نہیں ہوں گے، اگر آپ ہمیں مجبور کرتے ہیں تو پہلے خود اعلان کیجیے کہ عیسائی اور یہودی اب مرزا غلام احمد کے امتی ہیں۔ جب مرزائیوں نے خود کہا کہ ہم علیحدہ ایک امت ہیں، باقاعدہ ان کی کتابوںکے حوالے ہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ ان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ تھے۔ درحقیقت یہ مسلمانوں کے خلاف استعمار اور سامراج کا ایک ففتھ کالم سیاسی گروپ تھا، جس کی سازشیں اور عزائم ہم نے قومی اسمبلی میں مستند حوالوںکے ساتھ پیش کیے۔ پسِ منظر میں ان کی ساری تاریخ مسلمانوں کے خلاف تھی۔ کشمیر میں بھی انہوںنے غداری کی ہے، سارا علاقہ کاٹ دیا، تقسیم ایسی کی گئی کہ ضلع گورداسپور انڈیا کے ساتھ شامل ہوگیا اور کشمیر ہم سے کٹ گیا، یہ بہت بڑی داستان ہے۔قومی اسمبلی میں ہمارے بزرگوں نے جو بحث کی ۱۹۷۴ء کی ، وہاں ہمارے بزرگوں نے مسلمانوں کا موقف پیش کیا کہ ان کو کیوں غیرمسلم سمجھتے ہیں، اس کے بعد اس پر تین سو صفحات کی کتاب مسلمانوں کی طرف سے لکھی گئی تھی، اس میں کافی حصہ میں نے بھی لکھا تھا، میں اس وقت نوجوان تھا، جبکہ پہلا حصہ جسٹس تقی عثمانی صاحب نے لکھا تھا، اس میں سارے دلائل واضح طور پر ذکر کیے گئے تھے۔ اگر امریکہ میں اوبامہ بھی وہ کتاب پڑھتا تو وہ بھی فیصلہ کرلیتا کہ یہ لوگ مسلم نہیںہیں۔ مسئلہ صرف مسلمان اور غیرمسلمان کا نہیں تھا، بلکہ مسئلہ غدار اور غیرغدار کا بھی تھا۔ وہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے تھے ، جیسے آپ امریکہ میں کسی ایسے شخص یا جماعت کو برداشت نہیں کرتے جو غدارِ وطن ودین ہو تو ایسے ہم بھی غدارِ وطن ، غدارِ ملت اور غدارِ دین کو برداشت نہیں کرتے۔‘‘                                (مولانا سمیع الحق : حیات وخدمات، ص: ۳۵۲-۳۵۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم الحروف کی حضرت مولانا سمیع الحقؒ سے سرِراہ تو کئی بار سلام دعا ہوئی، لیکن تفصیلی ملاقات اس وقت ہوئی جب حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی تعزیت کے لیے حضرت مولانا مفتی خالد محمود اور مفتی محمد بن جمیل خان کے ہمراہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک گیا تھا۔ حضرت شہیدؒ بہت ہی شفقت اور محبت سے ملے، کافی دیر باتیں ہوتی رہیں، راقم الحروف سے فرمایا: میں آپ کا اداریہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں پڑھتا ہوں، دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ غائبانہ تو آپ سے تعارف ہے، آج بالمشافہہ ملاقات غالباً پہلی دفعہ ہورہی ہے۔ پھر فرمایا: اور مضامین بھی لکھتے ہیں یا راشد الحق کی طرح صرف اداریہ لکھنے پر اکتفا ہے؟ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ دعا فرمائیں، اللہ تعالیٰ دین کی خدمت لیتے رہیں۔ تقریباً دو گھنٹے سے زیادہ وقت دیا، کھانا اپنے ساتھ بٹھاکر کھلایا اور اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’مکتوباتِ مشاہیر‘‘ مکمل سیٹ بھی ہدیۃً عنایت فرمایا۔ اس موقع پر آپؒ نے فرمایا : آج کل حضرت لاہوریؒ کے افادات پر کام کررہا ہوں، دعا ہے کہ وہ میری زندگی میںمکمل ہوجائے۔ اس پر حضرت مفتی خالد محمود صاحب نے آپ سے کہا: حضرت! آپ سیاست میں اپنے آپ کو نہ اُلجھائیں، بس اسی علمی کام میںاپنے آپ کو ہمہ وقت مصروف رکھیں، اس میں آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
حضرتؒ کی شہادت کی خبر جیسے ہی ملی تو دل پر بہت زیادہ صدمہ ہوا، اور دل میں آیا کہ حضرت کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرکے اپنی بخشش کا سامان کیا جائے۔ دوسرے دن صبح کی فلائٹ میں مولانا مفتی خالد محمود صاحب کی سربراہی ، مولانا ڈاکٹر سعید خان اسکندر اور مولانا محمد ابراہیم سکرگاہی کی ہمراہی اور پشاور سے محترم جناب بھائی زبیر علی صاحب کی قیادت میں آپؒ کے جنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حامد الحق نے پڑھائی، جس میں بلامبالغہ لاکھوں لوگ شریک تھے۔ آپ کی نمازِ جنازہ ساڑھے تین بجے پڑھائی گئی، لیکن ازدحام کی بنا پر مغرب کے بعد تک گاڑیاں اپنی اپنی جگہ پھنسی رہیں، جیسے ہی ہماری گاڑی کو کچھ راستہ ملا، ہم نے دارالعلوم حقانیہ میں مغرب کی نماز ادا کی اور اس کے بعد اپنے رفقائے سفر کے ہمراہ حضرت مولانا حامد الحق سے تعزیت کی۔
چونکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم عذر کی بناپر نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہوسکے تو ۳۰؍صفر مطابق ۹؍نومبر بروز جمعہ آپ اپنے صاحبزادے حضرت ڈاکٹر مولانا سعید خان اسکندر کے ساتھ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے نائب رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری دامت برکاتہم، اساتذۂ جامعہ اور ادارہ بینات حضرت مولانا سمیع الحق شہیدv کے پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیںاور حضرت کی شہادت کے سانحہ کو اپنا سانحہ اور غم تصور کرتے ہیں۔ قارئین بینات سے حضرت موصوف کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا سمیع الحقv کی شہادت کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کے پسماندگان، متعلقین اور آپ کے تلامذہ کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے قاتلین کو دنیا وآخرت میں عبرت کا نشان بنائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین