بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مجموعۂ چہل احادیث

مجموعۂ چہل احادیث

چہل احادیث کے جمع کرنے کا سب سے بڑا محرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: ’’من حفظ علی أمتی أربعین حدیثاً من أمر دینہا بعثہ اﷲ فی زمرۃ الفقہائ‘‘ (۱)۔ یہ حدیث مختلف صحابہ کرامؓ سے منقول ہے، اگرچہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں (۲)۔ لیکن کثرتِ طرق کی بناء پر اس کا ضعف کم ہوگیا(۳)۔ابن عساکرؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ، حضرت انسؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت معاذؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت ابو دردائؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے اور تمام طرق میں کلام ہے (۴)۔ لیکن باوجود ضعف کے کثرتِ روایت کی بناء پر اُسے بالکل رد نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ساتھ علماء کا قبولِ عام بھی اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے (۵)۔ چالیس کے عدد کی اہمیت: چالیس کا عدد ہمیشہ سے قابلِ توجہ رہا ہے، قدیم مصریوں کے یہاں ایک ’’دورِ نجوم‘‘ چالیس برس کا ہوتا ہے (۶)۔ دوسرے ادیان خصوصاً سامی ادیان میں بھی اس کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ تورات وغیرہ میں اس عدد سے ایک خاص برتری منسوب کی گئی ہے (۷)۔ چالیس سال تکمیل جوانی اور پختہ عمر میں داخل ہونے کے مترادف ہیں (۸)۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کو اس عمر میں نبوت ملی (۹)۔ اشعار عرب سے بھی اس عدد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، سحیم شاعر نے کہا: وماذا یدرک الشعراء منی وقد جاوزت حدالأربعین(۱۰) چالیس دن میں تخلیق انسانی میں تبدیلی آتی ہے، خون سے لوتھڑا، پھر گوشت وغیرہ بنتا ہے (۱۱)۔ حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے (۱۲)۔حضرت موسی علیہ السلام تورات لینے کے لئے چالیس دن تک کوہِ طور پر معتکف رہے (۱۳)۔ بنی اسرائیل اپنی غلطی کی سزا میں چالیس سال تک وادئ تیہ میں بھٹکتے رہے (۱۴)۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کیا جانے والا مینڈھا چالیس سال تک جنت میں چرتا رہا(۱۵)۔ احادیث مبارکہ میں بھی چالیس کے عدد کی اہمیت وارد ہوئی ہے، مثلاً: جو چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے گا ،اُسے دو پروانے عطا کئے جائیںگے:۔ ۱…آگ سے نجات، ۲… نفاق سے براء ت (۱۶)۔دوسری حدیث میں ہے فقراء مہاجرین، اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیںگے (۱۷)۔ اگر نمازی کے آگے سے گزرنے کی سزا معلوم ہوجائے تو چالیس سال تک کھڑا رہنا زیادہ آسان ہوگا بنسبت اُس کے آگے سے گزرنے کے (۱۸)۔ جس شخص نے حج کیا ہو، اُس کے لئے جہاد میں جانا چالیس حجوں سے افضل ہے (۱۹)۔ فقہ اسلامی میں بھی اس عدد کو اہمیت ومرکزیت حاصل ہے، مثلاً: زکوٰۃ میں مال کا چالیسواں حصہ ادا کیا جاتا ہے (۲۰)۔ بکریوں میں چالیس بکریوں پر ایک بکری لازم ہوتی ہے (۲۱)۔ چالیس مسنہ میں سے ایک مسنہ لازم ہے (۲۲)۔ گھوڑے کی زکوٰۃ قیمت کی صورت میں ادا کرتے وقت ہر دوسو درہم میں سے پانچ درہم صدقہ کرنا لازم ہے، جو چالیسواں حصہ ہے (۲۳)۔غرض چالیس کے عدد کو اسلام سے پہلے اوراسلام میں بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے، لیکن احادیث مبارکہ کے لئے چہل احادیث کے مجموعے کا سبب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صادر شدہ کلمات ہیں، جن کا ذکر پہلے آچکا۔ چونکہ چہل احادیث کے مجموعوں کا اصل محرک ’’من حفظ علی أمتی أربعین حدیثا فی أمر دینہا‘‘ (۲۴) والی روایت ہے اور اس میں لفظ ’’فی أمر دینہا‘‘ ہے اور بعض میں ’’فیما ینفعہم‘‘ (۲۵) کے الفاظ ہیں، اس لئے علماء کرام نے مختلف اوقات میں چہل حدیث کے مختلف مجموعے لکھے، کیونکہ ہر شخص نے جس چیز کی ضرورت محسوس کی، اسی کے مطابق احادیث کو جمع کیا۔ بعض حضرات نے توحید وصفات کے اثبات میںاوربعض نے احکام کی احادیث ذکر کیں، بعض نے صرف عبادات سے متعلق حدیثیں جمع کیں، بعض کی نظرِ انتخاب مواعظ ورقاق کی احادیث پر پڑی، بعض کے پیش نظر صحتِ سند کا مسئلہ تھا، بعض نے علوِ اسناد کی رعایت کی، بعض نے طویل متن والی احادیث کو جمع کیا، بعض نے اس کے علاوہ دیگر موضوعات کو اختیار کیا (۲۶)۔ مثلاً:ابن طولون نے چالیس صحابہؓ کی چالیس حدیثیں جمع کیں(۲۷)۔ ابن عساکرؒ نے چالیس طویل حدیثیں ، چالیس جہاد کے بارے میں، چالیس خاص شہروں سے متعلق جمع کیں (۲۸)۔ محب الدین طبریؒ نے حج کے بارے میں چالیس حدیثوں کا مجموعہ لکھا (۲۹)۔ ابن الطوسیؒ نے فقراء وصالحین کے مناقب میں چالیس احادیث لکھیں (۳۰)۔ اس کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی ضرورت کے پیشِ نظر مجموعات تیار کئے۔ اربعینات کی تعداد: حتمی اور یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ دنیا میں کل کتنے مجموعے تیار ہوئے، کیونکہ چہل حدیث ایک مختصر سا موضوع ہے، نامعلوم کس قدر حضرات نے یہ مجموعے کتنی تعداد میں لکھے؟! کیونکہ اس وقت مختلف موضوعات کا ایک بہت بڑا حصہ دنیا کے مختلف عام اور ذاتی کتب خانوں میں مخطوطات کی شکل میں موجود ہے اور آئے دن نت نئے مخطوطات سامنے آرہے ہیں۔اور خود اس موضوع پر ایک ایک شخص نے کئی کئی اربعینات بھی لکھیں، مثلاً :ابن عساکرؒ کے بارے میں پہلے گزرچکا کہ انہوں نے جہاد کے بارے میں، خاص بلدانیات کے بارے میں اور طویل احادیث کے اعتبار سے چہل حدیث کے مختلف مجموعے تیار کئے (۳۱)۔اسی طرح ابن طولونؒ نے چالیس صحابہؓ سے چالیس روایات جمع کیں، فضائل قرآن کی چالیس احادیث تالیف کیں (۳۲)۔ علامہ سیوطیؒ متوفی۹۱۱ھ نے جہاد کے فضائل، دعا میں ہاتھ اٹھانے، امام مالکؒ کی مرویات اور مختلف احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا(۳۳)۔ البتہ بعض حضرات نے تتبع اور جستجو کے بعد مختلف زبانوں میں لکھے گئے مجموعات کی تعداد بیان کی ہے، چنانچہ ڈاکٹر قرہ خان استنبولی فرماتے ہیں: ۴۶ مجموعے فارسی میں، ۸۰ مجموعے ترکی میں اور ۲۶۰ مجموعے عربی کے میرے علم میں ہیں اور تیس سے زیادہ اردو وفارسی مجموعے پاکستان میں ہیں (۳۴)۔ لیکن ڈاکٹر ریاض الاسلام صاحب نے فرمایا کہ قرہ خان صاحب نے اپنی دانست کے مطابق بتایاہے، ورنہ قاموس الکتب میں ۹۰ تراجم کا ذکر ہے (۳۵)۔ یہ اختلافِ تعداد بھی اردو وفارسی میں ہے، ورنہ عربی مجموعے بہت زیادہ ہیں، جن سے بحث نہیں کی گئی۔ ملاکاتب چلپیؒ نے لکھا ہے: وقد صنف العلماء فی ہذا الباب مالایحصیٰ من المصنفات‘‘ (۳۶)۔ اور’’ کشف الظنون‘‘ میں تقریباً ۷۱ مجموعوں کا ذکر ہے۔’’ دلیل مؤلفات الحدیث‘‘ میں مکررات وشروحات وغیرہ کے بغیر ۵۰ اور کل ۱۱۳ کتب کا ذکر موجود ہے۔’’ الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند ‘‘میں ہندوستانی علماء کے ۱۷ مجموعے مذکور ہیں۔ غرض اس موضوع پر کتابیں بہت لکھی گئی ہیں، جن میں سے فارسی وترکی زبان کے مجموعوں کے متعلق بینات ۱۳۹۰ھ میں ڈاکٹر قرہ خان استنبولی کا مضمون شائع ہوچکا ہے، یہاں پر صرف چند عربی مجموعات کا تعارف کیا جائے گا۔ ۱…الأربعین: حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ متوفی۱۸۱ھ کی تالیف ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارے علم کے مطابق اربعینات میں سب سے پہلے یہی مجموعہ تیار ہوا‘‘(۳۷)۔ اس کی طباعت وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل نہ ہوسکیں،ممکن ہے کہ مخطوطہ کی صورت میں کسی کتب خانے میں موجود ہو یابعض دیگر کتب کی طرح یہ مجموعہ بھی ضائع ہوچکا ہو۔ ۲…الأربعین للنسویؒ: ابو العباس حسن بن سفیان نسویؒ متوفی۳۰۳ھ کی تالیف ہے، امام نوویؒ متوفی۶۷۶ھ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ تیسرا مجموعۂ چہل احادیث ہے‘‘ (۳۸)۔ دار البشائر الاسلامیۃ بیروت نے ۱۴۱۴ھ میں محمد بن ناصر العجمی کی تحقیق کے ساتھ ۱۰۲ صفحات میں اسے شائع کیا ہے(۳۹)۔ ۳…الأربعین للآجریؒ: ابو بکر محمد بن الحسین الآجری ؒ متوفی۳۶۰ھ کا مجموعہ ہے، المکتب الاسلامی بیروت سے ۱۴۰۹ھ میں ’’الأربعون حدیثا التی حث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی حفظہا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی، اس پر علی حسن، علی عبد الحمید کی تعلیقات اور احادیث کی تخریج ہے، کتاب ۱۴۸ صفحات پر مشتمل ہے (۴۰)۔ ۴…الأربعین للبیہقیؒ:  امام شمس الدین احمد بن الحسین بن علی الشافعیؒ ۴۵۸ھ کی تالیف ہے، اس میں اخلاق سے متعلق حدیثیں جمع کی گئی ہیں، اس میں چالیس ابواب کی سو احادیث جمع ہیں (۴۱)۔ ۵…الأربعین للأصفہانیؒ: ابوبکر محمد بن ابراہیم الاصفہانیؒ کی جمع کردہ احادیث ہیں، جو پانچویں صدی ہجری کے عالم ہیں، ۴۶۶ھ میں ان کا انتقال ہوا (۴۲)۔ ۶…الأربعین الطائیۃ: ابو الفتوح محمد بن محمد بن علی الطائی الہمدانیؒ ۵۵۵ھ کی تالیف ہے، اس میں انہوں نے چالیس صحابہؓ کی چالیس حدیثیں شیوخ سے نقل کی ہیں، جن صحابہؓ سے روایات نقل کی ہیں، اُن میں سے ہرصحابیؓ کا تذکرہ اور فضائل وغیرہ بھی ذکر کئے ہیں اور ہر حدیث کے بعد اس میں موجود بعض فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے مشکل الفاظ کی تشریح کی ہے، اور اس کے بعد عمدہ کلمات ذکر کئے ہیں، اس مجموعہ کا نام ’’الأربعین فی إرشاد السائرین إلی منازل الیقین‘‘ رکھا ہے۔ملاکاتب چلپیؒ فرماتے ہیں: ’’یہ بہترین اور عمدہ ترین کتاب ہے، اس میں حدیث وفقہ، ادب ووعظ کا ایک حصہ جمع کیا گیا ہے، جیساکہ سمعانیؒ اور جمال الدین ابو عبد اللہ محمد بن سعید الدبیثیؒ نے ذکر کیا ہے‘‘۔ (۴۳)۔ ۷…الاربعین البلدانیۃ: اس مجموعے میں وہ چالیس حدیثیں عموماً جمع کی جاتی ہیں جو کسی خاص شہر کے رواۃ سے ہوں، یا چالیس مختلف شہروں کے مختلف علماء کی روایات ہوں، اس طرح کئی مجموعے تیار ہوئے، جن میں سے ایک ابو طاہر احمد بن محمد السلفی الاصفہانیؒ متوفی۵۷۶ھ ہیں، انہوں نے چالیس حدیثیں، چالیس شیوخ سے ، چالیس شہروں میں سنی ہوئی جمع کی ہیں۔ صاحب کشف الظنون فرماتے ہیں کہ:’’ اس مجموعے سے ان کے کثرتِ اسفار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘‘ (۴۴)۔ان کے علاوہ شام کے محدث ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر الدمشقیؒ متوفی۵۷۱ھ نے ان کا طرز اختیار کیا، بلکہ ان سے بھی زیادہ انوکھا انداز اپنایا اور چالیس صحابہؓ کی مرویات جمع کیں، گویا چالیس صحابہؓ کی چالیس حدیثیں، چالیس شیوخ سے، چالیس شہروں میں چالیس ابواب کے متعلق لکھیں، اور ان چالیس ابواب میں سے ہر باب کے ساتھ اگر اس کے مناسب احادیث کو جمع کیا جائے تو الگ الگ کتابیں بن جائیں گی(۴۵)۔ یہ کتاب قاہرہ سے مصطفی عاشور کی تحقیق کے ساتھ ۱۴۰۹ھ میں مکتبۃ القرآن سے ۱۱۱ صفحات میں شائع ہوچکی ہے (۴۶)۔ حضر ت ابن عساکرؒ کے بعد شرف الدین عبد اللہ بن محمد الوافیؒ متوفی۷۴۹ھ نے چالیس شہروں کی احادیث جمع کیں، اسی طرح ابو القاسم حمزہ بن یوسف السہمیؒ نے چالیس شہروں کی احادیث جمع کیں، لیکن یہ مجموعہ صرف حضرت عباسؓ کے فضائل سے متعلق تھا (۴۷)۔ اسی طرح کی چالیس حدیثوں کا مجموعہ ابو العباس احمد بن محمد ابن الظاہری الحلبیؒ نے بھی تیار کیا(۴۸)۔ ۸…الأربعین النوویۃ: محدث شام محی الدین یحی بن شرف النووی الشافعیؒ متوفی۶۷۶ھ کا مجموعہ ہے، امام نوویؒ فرماتے ہیں: ’’بعض علماء نے اصولِ دین سے متعلق حدیثیں جمع کیں، بعض نے فروع، بعض نے جہاد، بعض نے زہد، بعض نے آداب، بعض نے خطب کے متعلق، ہرایک کا مقصد اچھا تھا، لیکن میں نے ایسی حدیثیں جمع کیں جو ان سب کو شامل ہوں، ان میں میں نے صحت کا بھی التزام کیا ہے اورمشکل الفاظ کا ضبط بھی کیا ہے (۴۹)۔ جس طرح ابواب کی احادیث کے مجموعے میں ’’ریاض الصالحین‘‘ کو قبولیت حاصل رہی، اسی طرح اربعینات میں ’’الأربعین النوویۃ‘‘ کو بھی قبولیت حاصل ہوئی، اسی وجہ سے علماء نے اس کی بے حد خدمت کی ہے، علماء کی ایک جماعت نے اس کتاب کی شرح لکھی، جن میں سے بعض چھپ چکی ہیں اور بعض اب تک طبع نہ ہو سکیں۔  مثال کے طور پر یہاں چند شروح ذکر کی جاتی ہیں: ۱…ابن دقیق العید متوفی ۷۰۲ھ نے اس کی شرح لکھی جو قاہرہ سے مکتبۃ القاہرۃ نے طہٰ محمد الزینی کی تحقیق کے ساتھ ۱۳۷۵ھ میں ۱۰۸ صفحات میں شائع کی ہے (۵۰)۔ ۲… محمد بن بیر علی برکلیؒ متوفی ۹۸۱ھ کی تصنیف ’’شرح الأحادیث الأربعین‘‘ہے۔ا ستنبول مطبعہ عثمانیہ سے ۱۳۲۳ھ میں محمد بن مصطفی الآقکرمانی کی تحقیق کے ساتھ ۳۲۰ صفحات میں شائع ہوئی ہے (۵۱)۔ ۳… سعد الدین تفتازانیؒ متوفی۷۹۳ھ نے اربعین النوویؒ کی شرح کی جو تیونس سے ۱۲۹۵ھ میں ۱۳۷ صفحات میں شائع ہوئی (۵۲)۔ اس کے علاوہ دیگر شروحات بھی لکھی گئی ہیں ،جن میں سے کچھ ’’دلیل مؤلفات الحدیث ‘‘میں مذکور ہیں۔ ۹…الأربعون فی الجہاد: جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی ؒ متوفی۹۱۱ھ نے چہل احادیث کے کئی مجموعے بنائے ہیں، ایک مجموعہ دعا میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے، ایک امام مالکؒ کی مرویات کے بارے میں اور ایک مختلف موضوعات سے متعلق ہے، ایک مجموعہ جہاد کی فضیلت کے بارے میں ہے (۵۳)۔ موصوف کے دیگر مجموعات کے شائع ہونے کے بارے میں علم نہیں، البتہ جہاد سے متعلق ان کی چہل احادیث عمان سے محمد ابراہیم زغلیؒ کی تحقیق کے ساتھ ۱۴۱۴ھ میں المکتب الإسلامی نے ۶۴ صفحات میں شائع کی ہے (۵۴)۔ ۱۰… الأحادیث القدسیۃ الأربعینۃ: ملا علی قاری علی بن سلطان محمد الہرویؒ متوفی۱۰۱۴ھ کی تالیف ہے، ملاعلی قاریؒ نے مختلف مجموعے لکھے ہیں، جن میں سے بعض شائع بھی ہوچکے ہیں، چند مجموعے یہ ہیں: ۱…’’أربعون حدیثا فی فضل القرآن المبین‘‘: یہ کتاب ابن عمار مراد بن عبد اللہ کی تحقیق کے ساتھ قاہرہ دار عمار سے ۱۴۱۱ھ میں ۹۹ صفحات میں شائع ہوئی (۵۵)۔ ۲…’’رفع الجناح وخفض الجناح بأربعین حدیثا فی النکاح‘‘ کے نام سے نکاح کے بارے میں چہل حدیث کا رسالہ لکھا جو مکتبہ الصفحات الذہبیۃ ریاض سے ۱۴۰۸ھ میں خالد علی محمد کی تحقیق کے ساتھ ۸۸ صفحات میں شائع ہوئی (۵۶)۔ ۳…’’جوامع الکلم‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ ترکی سے ۱۳۱۷ھ میں شائع ہوا۔ (۵۷)۔ ۴…’’المبین المعین لفہم الأربعین‘‘ مطبعۃ الجمالیۃ قاہرہ سے ۱۳۲۸ھ میں ۲۳۹ صفحات میں یہ مجموعہ شائع ہوا (۵۸)۔ ۵…’’الأحادیث القدسیۃ الأربعینۃ‘‘: اس میں ملا علی قاریؒ نے صرف احادیث ِ قدسیہ کو ذکر کیا ہے، یہ کتاب ابو اسحاق الحوینی الاثریؒ کی تخریج کے ساتھ ۱۴۱۲ھ میں جدہ سے مکتبۃ الصحابہؓ نے ۱۰۳ صفحات میں شائع کی ہے (۵۹)۔ اس کے علاوہ چہل حدیث کے عربی مجموعے اور بھی موجود ہیں، جن میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: ۱:…احمد بن حرب نیشاپوریؒ (۲۳۴ھ) کا مجموعہ۔۲:…محمد بن اسلم طوسیؒ (۲۴۲ھ) کی کتاب الأربعین۔۳:…دارقطنیؒ (۳۸۵ھ) کی اربعین۔۴:…ابوبکر الآجریؒ کی کتاب الاربعین۔ ۵:…ابوبکر الکلاباذیؒ کی کتاب الاربعین۔۶:…ابونعیم الاصبہانیؒ (۴۳۰ھ) کی اربعین۔ ۷:…ابوبکر البیہقیؒ (۴۵۸ھ) کی اربعین۔۸:…ابن عساکرؒ (۵۷۰ھ) کی اربعین۔ ۹:…ابن عربیؒ (۵۹۹ھ) کی اربعین۔۱۰:…امام طبریؒ (۷۹۴ھ) کی اربعین۔ ان مجموعات کے علاوہ اور بھی اربعینات موجود ہیں، جنہیں امتِ مسلمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک پر عمل کرنے کے لئے جمع کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ دینِ اسلام اور تعلیمات اسلامیہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین  مراجع ومصادر ۱-شعب الایمان للبیہقی، باب فی طلب العلم، فصل فی فضل العلم وشرفہ:۲؍۲۷۰،دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ ۲-کشف الخفاء ومزیل الالباس:۲؍۲۴۶،ط:مکتبۃ الغزالی۔ ۳-النکت للزرکشی، معرفۃ الحسن من الحدیث:۱۰۳،ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔    ۴-کشف الخفائ:۲؍۲۴۶۔ ۵-قواعد فی علوم الحدیث، الفصل الثانی: ۶۰،ط:ادارۃ القرآن، کراچی۔        ۶-بینات، ذو الحجہ ۱۳۹۰ھ ص:۱۴ ۔  ۷-ایضاً۔        ۸-التفسیر المظہری، قصص:۱۴،ج:۷؍۱۵۰،ط:ندوۃ المصنفین، دہلی۔ ۹-روح المعانی، مریم:۱۲، ج:۹؍۷۲،ط:امدادیہ، ملتان۔ ۱۰-الإصابہ فی تمییز الصحابہؓ، حرف السین، القسم الثالث:۲؍۱۱۰، ط:مکتبۃ المثنی، بغداد۔ ۱۱-تفسیر ابن کثیر، الحج:۵،ج:۴؍۶۱۴،ط:دار الاندلس۔ ۱۲-ایضاً، الأنبیائ:۸۷، ج:۴؍۵۸۷۔    ۱۳-الأعراف:۱۴۱        ۱۴-المائدہ:۲۶ ۱۵-تفسیر ابن کثیر، صافات:۱۰۷، ج:۶؍۲۶،ط:دار الاندلس۔ ۱۶-سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراہیۃ المرور بین یدی المصلی:۱؍۷۹،ط:المیزان، کراچی۔ ۱۷-شعب الایمان للبیہقی، باب فی حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فصل فی زہدہ وصبرہ:۲؍۱۶۷،دارالکتب العلمیۃ۔ ۱۸-سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراہیۃ المرور بین یدی المصلی:۱؍۷۹،ط:المیزان، کراچی۔ ۱۹-کتاب المراسیل لأبی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الجہاد:۳۷۳،ط:دار الصمیعی، ریاض۔ ۲۰-فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال:۲؍۲۱۵،ط:مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ ۲۱-فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، فصل فی الغنم:۲؍۱۹۰۔        ۲۲-أیضاً، فصل فی البقر:۲؍۱۸۷۔ ۲۳-أیضاً، فصل فی الفیل:۲؍۱۹۲۔    ۲۴-شعب الایمان للبیہقی، باب فی طلب العلم، فصل فی فضل العلم وشرفہ:۲؍۲۷۰، رقم الحدیث: ۱۷۲۶۔ ۲۵-أیضاً، رقم الحدیث:۱۷۲۵۔    ۲۶-کشف الظنون:۱؍۵۲،ط:مکتبۃ المثنی، بغداد۔ ۲۷-أیضاً:۱؍۵۴۔     ۲۸-أیضاً    ۲۹-أیضاً:۱؍۵۵     ۳۰-أیضاً        ۳۱-کشف الظنون:۱؍۵۴  ۳۲-أیضاً         ۳۳-أیضاً:۱؍۵۶    ۳۴-بینات، ذو الحجہ، ۱۳۹۰ھ     ۳۵-حاشیہ بینات، ذو الحجہ ۱۳۹۰ھ ، ص: ۲۴ ۳۶- کشف الظنون:۱؍۵۲۔    ۳۷-متن الأربعین النوویۃ، ص:۴،ط:مصطفی البابی، مصر۔ ۳۸-أیضاً، ص:۵۔         ۳۹-دلیل مؤلفات الحدیث، الأربعون حدیثاً:۶۶۹،ط:دارابن حزم ۴۰-ایضاً،ص:۶۶۰۔     ۴۱-کشف الظنون:۱؍۵۳۔    ۴۲-کشف الظنون:۱؍۵۲۔       ۴۳-أیضاً:۱؍۵۶۔ ۴۴-أیضاً:۱؍۵۴۔    ۴۵- کشف الظنون:۱؍۵۵    ۴۶-دلیل مؤلفات الحدیث:۶۶۲۔ ۴۷-کشف الظنون:۱؍۵۵     ۴۸-أیضاً۔        ۴۹-متن الأربعین النوویۃ:۷،ط:مصطفی البابی مصر۔ ۵۰- دلیل مؤلفات الحدیث:۶۷۱۔    ۵۱-أیضاً۔        ۵۲-أیضاً۔        ۵۳-کشف الظنون:۱؍۵۶۔  ۵۴-دلیل مؤلفات الحدیث:۶۶۴۔        ۵۵-أیضاً:۶۵۹۔        ۵۶-أیضاً:۶۷۱۔ ۵۷-دلیل مؤلفات الحدیث:۶۷۲۔        ۵۸-أیضاً:۶۷۶۔         ۵۹-أیضاً:۶۵۹۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین