بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ماہ نامہ بینات کے سابق مدیر مولانا سعید احمد جلال پوری شہید کی چند نئی کتب!

ماہ نامہ بینات کے سابق مدیر مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدv کی چند نئی کتب!

مولانا سعید احمد جلال پوری v اس دنیا میں زندگی بِتانے کا ’’پچپن سالہ‘‘ وقت لے کر آئے تھے، جس میں اُن کی زندگی کے ابتدائی ’’۲۲ سال‘‘ تعلیم کے حصول میں گزرگئے، جس کو ہم ’’۱۹۵۶ء سے ۱۹۷۷ئ‘‘ تک کا عرصہ شمار کر سکتے ہیں، اور درمیانی ’’۲۳ سال‘‘ کا عرصہ -جو ’’۱۹۷۸ء سے ۲۰۰۰ئ‘‘ تک کا ہے- اُنہوں نے اپنے وقت کے پختہ عالم دین، مایہ ناز قلم کار اور شیخ وقت حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویv کی صحبت میں گزار دیا، گویا ۴۵ سال کا عرصہ علم و عمل کے حصول میں گزر گیا، عملی میدان میں کچھ کردکھانے کا وقت ۲۰۰۰ء میں میسر آیا، جب کہ شیخ وقت شہادت کی خونی رِدا اوڑھ کر سفر آخرت کو روانہ ہوچکے تھے۔ اب بینات کے صفحات منتظر تھے کہ نہیں معلوم علامہ بنوریv اور مولانا محمد یوسف لدھیانویv کی محنت و قربانیوں کی لاج کوئی رکھ سکے گا یا نہیں؟ مولانا جلال پوریؒ نے قلم سنبھالا تو دیکھنے والے اور پڑھنے والے دم بخود رہ گئے کہ صرف نام تبدیل ہوا ہے، کام تو اسی طرح اور اسی انداز کا ہورہا ہے، نام کو اگر ہاتھ سے چھپادیں تو لگتا ہی نہیں کہ علامہ بنوریv اور مولانا لدھیانویv اس دنیا سے چلے گئے، بلکہ یوں ہی لگتا ہے کہ جیسے وہ دونوں موجود ہیں اور قلم ان کے ہاتھ میں سرپٹ دوڑ رہا ہے اور اپنے وقت کی تاریخ مرتب ہوتی چلی جارہی ہے، مسلمانوں کی دینی تربیت ہوتی چلی جارہی ہے، اہلِ ذوق اور پڑھنے لکھنے سے دلچسپی رکھنے والے حظ اُٹھاتے چلے جارہے ہیں۔  یقین کیجیے کہ بینات کے صفحات ہی نہیں، ہفت روزہ ختم نبوت اور جنگ اخبار کے اسلامی صفحہ کا بھی یہی حال تھا کہ دیکھنے والے دیکھتے تو دیکھتے ہی چلے جاتے اور مولانا جلال پوری شہیدؒ کو جی بھر بھر کر دعائیں دیتے، مولانا v نے بلاشبہ بہت محنت کی، وہ ہر ماہ بینات کا کئی صفحات کا اداریہ لکھتے، تعزیتی کالم تحریر فرماتے اور نئی آنے والی مطبوعات پر تبصرہ فرماتے، یہی نہیں بلکہ ہفت روزہ ختم نبوت کا اداریہ بھی لکھتے اور ہر ہفتہ روزنامہ جنگ کا کالم ’’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ بھی تحریر فرماتے، اور یہ تحریریں ایسی نہ ہوتیں کہ پڑھنے والا اُن سے اُکتاجاتا یا پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا کہ کہیں اور سے مواد اُٹھاکر اپنی تحریر کو رنگ دیا گیا ہے، ہرگز نہیں، بلکہ مولانا v از خود لکھتے، حوالوں کے لیے اقتباسات ضرور نقل کرتے، لیکن اس کے بعد ایک سیر حاصل تبصرہ اپنے قلم سے فرماتے، جو کئی صفحات پر محیط ہوتا، اس پر مستزاد یہ کہ اُن کی تحریر علم و ادب سے معمور ہوتی، اور فصاحت و بلاغت سے لبریز ہوتی، اس میں زبان کی چاشنی و حلاوت بھی بکھری نظر آتی۔  واقعہ یہی ہے کہ مولانا v کی تحریر اہل ذوق مزے لے لے کر پڑھتے اور نہ صرف یہی، بلکہ اللہ نے ان کو لکھنے کے شوق اور ذوق کے ساتھ ساتھ ایک تڑپتا دِل بھی عطا فرمایا تھا، جو دل علامہ بنوریؒ اور مولانا لدھیانوی E کے سینہ میں دھڑکتا تھا، یقین کیجیے مولانا جلال پوریؒ کے سینہ میں بھی وہی دل تھا جو کبھی فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر تڑپ اُٹھتا، تو کبھی سانحۂ لال مسجد پر خون کے آنسو روتا اور کبھی جنابِ رسول اللہ a کی عزت و ناموس کے لیے تھرّا اُٹھتا، پھر یہی ہوا جو وہ اکثر کہا اور لکھا کرتے تھے کہ ’’ہم رسول اللہ v کی عزت و ناموس کے لیے جان دے دیں گے، لیکن آپ کے نام پر ’’حرف‘‘ نہیں آنے دیں گے‘‘، چناں چہ ’’شہید ناموسِ رِسالت‘‘ کا تمغہ سینہ پر سجائے شیخؒ کے پہلو میں ابدی نیند سوگئے۔  مولانا v نے اپنی تحریروں کو اپنی زندگی ہی میں بڑوں کی اتباع میں موضوعاتی ترتیب پر کتابی شکل دینا شروع کردیا تھا، جن کے نام بینات مولانا جلال پوریؒ نمبر میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں، ہم اس وقت ان کی تحریروں پر مشتمل تازہ شائع ہونے والی چند کتابوں کا تعارف پیش کرنا چاہتے ہیں: حدیث دِل مولانا v نے ۲۰۰۰ء سے بینات کا اداریہ لکھنا شروع کیا تھا، ان اداریوں کو مولاناؒ نے ’’حدیث دِل‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں اپنی زندگی میں ہی شائع کردیا تھا، ان تین جلدوں کے شائع ہوجانے کے بعد بھی مولانا v نے کافی تعداد میں اداریے لکھے، اِدھر دوسری طرف ۲۰۰۷ء کے بعد سے ہفت روزہ ختم نبوت کا اداریہ بھی مولاناؒ کے ذمے ہوگیا تھا، چناں چہ ان اداریوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی تھی جو بحمد اللہ اب ’’حدیث دِل‘‘ (جلد چہارم) کے نام سے مکتبہ ختم نبوت، پرانی نمائش ایم اے جناح روڈ، کراچی سے کتابی شکل میں شائع ہوگئے ہیں، کتاب کے صفحات ۶۱۶ ہیں، اور کل مضامین کی تعداد ۷۶؍ ہے۔ بلاشبہ یہ تحریریں بڑی معلوماتی، تجزیاتی، علمی، ادبی، اثر انگیز اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے بڑی دلچسپ ہیں، لیکن ان سب کے باوجود اس کتاب کی اصل روح اِسلامی حمیت و غیرت کا درس ہے۔ مولانا v جب کسی دین دشمن پر گرفت کرنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں تو لگتا ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں اُتر گئے ہیں اور یا تو اسلام اور مسلمانوں کو اس کی دین دشمنی سے نجات دلائیں گے یا خود اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر کے سرخ رو ہوجائیں گے، اور نہ صرف یہی بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے والوں کو بھی رعایت دینے کے روادار نہیں ہیں، بلکہ جہاں کہیں کسی لکھنے والے نے تاریخی ریکارڈ خراب کیا تو مولانا v نے بغیر کسی مداہنت کے سنجیدہ اور متین انداز میں اس پر نقد کیا اور تاریخی ریکارڈ ہمیشہ درست رکھا۔ اسی طرح بعض تحریریں اصلاحی نوعیت کی بھی ہیں جن میں ہر ایک مسلمان کے لیے موعظت و بصیرت کا بڑا سامان موجود ہے۔ الغرض یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ پڑھنے والوں کے لیے اس کتاب میں ادب کی چاشنی بھی ہے، علم کا نور بھی ہے، معلومات کا خزانہ بھی ہے، حالاتِ حاضرہ سے آگاہی بھی ہے، وعظ و نصیحت بھی ہے، غرض بے شمار خوبیوں اور فوائد پر مشتمل ’’حدیث دِل‘‘ واقعی دِل کو جلا اور سکون بخشنے والی کتاب ہے۔ بزمِ حسین ’’بزمِ حسین‘‘ مولانا v کے قلم سے نکلے شخصی خاکوں، سوانحی تحریروں اور نیکو کاروں کے تذکروں پر مشتمل مجموعہ کا نام ہے۔ اس مجموعہ کی پہلی دو ۲؍ جلدیں آپؒ کی زندگی ہی میں شائع ہوچکی تھیں۔ اَب آپ کے علمی جانشین مولانا محمد اِعجاز مصطفی زید مجدہٗ کی مساعی سے اس کتاب کی تیسری اور آخری جلد مکتبہ ختم نبوت، ایم اے جناح روڈ، کراچی سے چھپ کر منظر پر آئی ہے، جو ۵۵۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس حسین بزم میں ہمیں علماء بھی نظر آتے ہیں اور صاحبِ دل صوفیاء بھی، مفتی و فقیہ بھی کھڑے نظر آتے ہیں اور اکابر و مشائخ بھی۔ خطباء اور قراء بھی دکھائی دیتے ہیں اور مفسرین و محدثین بھی، مصنفین بھی اپنی تصنیفات کے جلوے بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں اور مؤلفین بھی جلوہ افروز نظر آتے ہیں، نوجوان علماء کے تذکرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں اور بزرگ و مشائخ بھی اپنی طرف متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، عزیز و اقارب کی محبتیں بھی نظر آتی ہیں اور متعلقین کی یادیں بھی، اساتذہ اور طلباء بھی دکھائی دیتے ہیں اور سیاسی قائدین اور مذہبی سربراہان بھی۔ غرض محققین، مرتبین، شہداء اور غازیین سب ہی اس بزم میں سجے اور جڑے دکھائی دیتے ہیں! کتاب کے مطالعہ کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا v ہر طرح کا تذکرہ لکھنے پر عبور رکھتے تھے، مثلاً: وہ کسی شخصیت کا صرف سوانحی خاکہ لکھنا چاہتے ہیں تو اس کی پوری زندگی کا نقشہ چند صفحات میں پیش کردیتے ہیں (ملاحظہ ہو حضرت نفیس الحسینی v پر لکھا گیا دوسرا مضمون)، پھر بعض لوگوں کے سوانحی خاکہ کے ساتھ ان کی دینی خدمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تو بہت ہی خوب صورت اور دل آویز انداز میں اس کی صفات و خدمات لکھ ڈالتے ہیں کہ وہ شخصیت خیالات کی دُنیا میں سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اس کے لیے کتاب میں موجود حضرت مولانا مفتی عبد الستارؒ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ پر لکھے گئے مضامین دیکھے جاسکتے ہیں، بعض شخصیات ایسی بھی ہیں کہ جن پر لکھے مضمون میں مولانا v نے اپنے ساتھ بیتے لمحات کا تذکرہ اپنے منفرد و مخصوص انداز میں کیا ہے، مثلاً حضرت الحاج محمد حسینؒ، مولانا نعیم امجد سلیمیؒ اور جناب الحاج جام محمد نوازؒ کے تذکرے! الغرض! ’’بزمِ حسین‘‘ بھی علامہ سیّد سلمان ندوِیؒ کی ’’یادِ رفتگان‘‘، مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوِیؒ کی ’’پرانے چراغ‘‘، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی ’’شخصیات و تاثرات‘‘ ودیگر تاریخی و سوانحاتی کتب ہی کا ایک تسلسل ہے اور اپنے دور کی تاریخ و سوانح کا ایک بیش قیمت ذخیرہ ہے، جس کے ذریعہ مستقبل کے مؤرّخ کو تاریخ مرتب کرنے میں مدد ملے گی، پڑھنے والوں کو اپنے بڑوں کے کارناموں کا علم ہوگا اور آنے والی نسل اپنے لیے راہِ عمل کا تعین دُرست سمت میں کرسکے گی! نقد و نظر ’’تبصرۂ کتب‘‘ ہر علمی مجلہ کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ جب سے برصغیر پاک و ہند میں اردو صحافت اور رسائل و جرائد کا اجراء ہوا تب سے یہ کالم بھی ہر جریدہ کا لازمی حصہ رہا، (چند ایک رسائل و جرائد اس سے مستثنیٰ بھی رہے ہوں گے)۔ اس کالم کا مقصد بھی دراصل فروغِ علم ہی ہے کہ نئی شائع ہونے والی کتب کا تعارف قارئین کے سامنے پیش کیا جائے، تاکہ تازہ مطبوعات سے شناسائی ہو اور کتاب سے تعلق میں اِضافہ ہو۔ مولانا جلال پوری v جون ۲۰۰۰ء میں ماہ نامہ بینات کے مدیر مقرر کیے گئے تھے اور مارچ ۲۰۱۰ء تک مدیر رہے، اس عرصہ میں آپ نے سینکڑوں نئی کتب پر تبصرے لکھے، آپ کا تبصرہ لکھنے کا انداز یہ تھا کہ جس موضوع پر کتاب ہوتی، اُس موضوع کے حوالہ سے اِبتدا میں ایک مختصر تمہید باندھتے، گو یہ تمہید کبھی کچھ طویل بھی ہوجاتی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا بڑا سامان ہوتا، پھر کتاب کا مختصر تعارف لکھتے، کوئی قابل تنقید بات ہوتی تو بہت ہی شائستگی کے ساتھ لکھ ڈالتے کہ مصنف کو برا بھی محسوس نہ ہو اور غلطی کی نشان دہی بھی ہوجائے، لیکن اگر کوئی ایسی صریح غلطی نظر آتی جس سے عوام میں گمراہی پھیلنے کا خدشہ ہوتا یا کسی تجدد پسند مصنف کی کتاب تبصرہ کے لیے آجاتی تو مولانا کا قلم تیغ براں بن جاتا اور دل میں جو دین کا درد و غم تھا وہ قلم سے جھلکنے لگتا، اور اعتدال و سلامت روی کے ساتھ آپؒ اس کی خلافِ شریعت باتوں پر بھر پور انداز سے تنقید کرتے، بلاشبہ آپ کے تبصرے بھی دلچسپی سے پڑھے گئے، آپؒ نے مجموعی طور پر تقریباً ۳۳۵ کتابوں پر پُرمغز اور جان دار تبصرے لکھے، زیر نظر کتاب میں ان تمام تبصروں کو موضوع وار جمع کیا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب ۴۷۲ صفحات پر مشتمل ہے، جسے مکتبہ ختم نبوت،ایم اے جناح روڈ، کراچی نے شائع کیا ہے، بلاشبہ یہ کتاب بھی علمی اور ادبی لٹریچر میں ایک اہم اضافہ ہے، اہل ذوق اور علم و کتاب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک دلچسپی کی چیز ہے اور نئے لکھنے والوں کو اس کتاب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مولانا محمد اعجاز مصطفی زید مجدہٗ کی مساعی سے عمل میں آئی، اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے! آپ کے مسائل اور اُن کا حل (تین جلدیں) مئی ۱۹۷۸ء میں روزنامہ جنگ کے بانی ایڈیٹر جناب میر شکیل الرحمن صاحب نے روزنامہ جنگ میں ’’اِقرائ‘‘ کے نام سے ہفتہ وار اِسلامی صفحہ شروع کرایا، جس میں مختلف دِینی مضامین کے علاوہ مسلمانوں کی باقاعدہ شرعی و فقہی رہنمائی کے لیے ’’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ کے عنوان سے ایک فقہی کالم بھی شروع کیا، اور اس کے لیے ’’جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن‘‘ کے استاذ الحدیث اور ماہ نامہ بینات کے مدیر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید v کا اِنتخاب عمل میں آیا، اس فقہی کالم کا  باقاعدہ آغاز ۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء سے ہوا اور رِیکارڈ کے مطابق اس سلسلہ کی بدولت آپ ؒ نے ہزاروں مسائل کے تحریری و زبانی جوابات دِئیے۔ ۱۳؍ صفر المظفر ۱۴۲۱ھ مطابق ۱۸؍ مئی ۲۰۰۰ء کو آپ کی شہادت ہوئی، لیکن آپ کے لکھے جوابات موجود تھے جو ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۱ء تک شائع ہوئے۔ اس کے بعد اس فقہی کالم کو چلانے کے لیے ’’جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن‘‘ کے شیخ الحدیث اور شعبۂ تخصص فی الفقہ کے مشرف حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئی شہید نوراللہ مرقدہٗ کا نام سامنے آیا، چناں چہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۱ء سے آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ حضرت شامزئی شہید v کے قلم سے شروع ہوا، لیکن صرف ساڑھے تین سال ہی گزرے تھے کہ ۱۰؍ ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ مطابق ۳۰؍ مئی ۲۰۰۴ء کو مفتی شامزئی صاحبؒ بھی شہادت کی خونی رِدا اوڑھے عقبیٰ کے سفر کو چلے گئے۔ ۹؍ جولائی ۲۰۰۴ء تک مفتی شامزئی v کے تحریر کردہ جوابات جنگ میں شائع ہوتے رہے، بعد ازاں’’آپ کے مسائل اور ان کے حل‘‘ کے لیے ’’جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن‘‘ کے سابق استاذ اور ماہ نامہ بینات کے مدیر حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری v کا انتخاب عمل میں آیا اور ۱۶؍ جولائی ۲۰۰۴ء سے مسلسل چھ سال تک مولانا جلال پوری v فقہی سوالات کے جوابات آسان اور سہل انداز میں دیتے رہے، تاآں کہ ۱۱؍ مارچ ۲۰۱۰ء کو آپ بھی ایک دینی سفر سے واپسی پر جام شہادت نوش کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ ۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء تک حضرت جلال پوری v کے تحریر کردہ جوابات شائع ہوتے رہے، اب یہ کالم مخدوم و مکرم و اُستادِ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر زید مجدہم کے سپرد ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے، اللہ تعالیٰ اس کو جاری رکھے اور اس کے ذریعہ لوگوں کی دینی رہنمائی ہوتی رہے۔ آمین! حضرت لدھیانوی شہید v نے بائیس سال تک جو مسائل تحریر فرمائے، وہ بڑے سائز کی آٹھ جلدوں میں تخریج، حوالہ جات اور عمدہ کمپوزنگ و سیٹنگ کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔حضرت شامزئی v کے ساڑھے تین سالہ تحریر کردہ فقہی جوابات بھی تخریج و حوالہ جات اور عمدہ کمپوزنگ و طباعت کے ساتھ دو جلدوں میں کئی سال پہلے منظر پر آگئے تھے اور وہ بھی بڑی دلچسپی سے لیے گئے۔اب الحمد للہ! حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری v کے چھ سالہ مسائل کے جوابات اور فقہی مقالات پر مشتمل ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ تین بڑے سائز کی جلدوں میں بہترین تخریج و حوالہ جات اور عمدہ کمپوزنگ و سیٹنگ اور شان دار طباعت اور حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفی مدظلہٗ کی ترتیب و تہذیب کے ساتھ منظر نامے پر آگئے ہیں۔ مکتبہ ختم نبوت پرانی نمائش ایم اے جناح روڈ کراچی نے اسے شائع کیا ہے۔ تینوں جلدوں کے صفحات بالترتیب یہ ہیں: صفحات جلد اَوّل: ۴۷۲۔ جلد دوم: ۴۷۴۔ جلد سوم: ۵۱۷۔ اس کتاب میں حضرتؒ نے فقہ اور مسائل و احکام کے زیر عنوان جو کچھ لکھا سب کا سب بہت عمدگی کے ساتھ موضوع وار اور ابواب وار جمع کردیا گیا ہے، بلاشبہ اس میں ایمانیات و عقائد سے لے کر معاملات و معاشرت تک تمام ہی مسائل کے قرآن و سنت کے مطابق جوابات موجود ہیں۔ جدید مسائل پر بھی حضرتؒ نے قلم اٹھایا ہے، چناں چہ دورِ حاضر کے اہم مسائل میں سے اسلامی بینکنگ، انشورنس، ٹی وی پروگراموں میں شرکت اور تصویر کا حکم و دیگر سودی و غیر سودی معاملات پر بھی جمہور اہلسنّت والجماعت کے مؤقف کو واضح فرمایا ہے اور جہاں ضرورت ہوئی وہاں طول طویل تحریریں بھی لکھی ہیں، باطل فرقوں اور مذاہب کے بارے میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں سنجیدگی و اعتدال کے ساتھ لکھا ہے۔ فقہی عمدگی کے ساتھ ساتھ آپ کے جوابات میں حکیمانہ اور ناصحانہ مشورے بھی شامل ہیں۔ الغرض! بہت ہی شان دار و جان دار کتاب ہے، حضرتؒ کے جانشین مولانا محمد اعجاز مصطفی مدظلہٗ، تخریج و حوالہ جات پر محنت کرنے والے مفتیانِ کرام مفتی عبد اللہ حسن زئی اور مفتی محمد زکریا تینوں ہی حضرات مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اہم دینی کام اور ذمہ داری کو پورا کیا ہے۔ یقینا حضرتؒ کی روح خوش ہوئی ہوگی اور جو جو لوگ اس کتاب کو پڑھیں گے اُن کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اُن کے نیک اعمال کے ثواب میں حضرتؒ کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا تینوں حضرات بھی شریک ہوں گے، یہ کیا کوئی کم فائدہ کی بات ہے؟ ہماری رائے ہے کہ مفتیان کرام، علماء عظام، طلبا، اہل ذوق اور عوام الناس سب ہی ضرور اس کتاب کو خرید کر مطالعہ کریں، ان شاء اللہ معلومات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ محسوس ہوگا کہ فقہی ذخیرہ میں ایک نیا اور شان دار اِضافہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، عوام و علماء اس سے مستفید ہوں اور حضرتؒ کے درجات اللہ تعالیٰ بلند فرمائے۔ آمین! ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین