بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ماہ رمضان کی برکات !

ماہِ رمضان کی برکات!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

اللہ تبارک و تعالیٰ کے انسانیت اور خصوصاً اہلِ اسلام پر بے شمار اور بے انتہا احسانات ہیں، من جملہ ان میں انسان بنانا اور پھر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ a کا امتی بنانا، ہماری ہدایت کے لیے قرآن کریم اُتارنا، اس کی تبیین و توضیح کے لیے رسول کریم a کو معلم بنانا، قرآن و سنت پر پورا پورا عمل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نجومِ ہدایت بنانا۔  اسی طرح اپنی اُلوہیت اور رسولِ خدا(a) کی اطاعت کے لیے کلمۂ شہادت کی صورت میں اقرار کرانا، اپنی عبادت اور اپنے بندوں کی بندگی کے اظہار کے لیے پنج وقتہ نماز فرض کرنا، مال کو پاک و صاف کرنے، اس کی حفاظت اور فقراء و غرباء کی اِعانت کے لیے زکوٰۃ کا حکم دینا، بندوں کے عشق و محبت اور دیوانگی و وارفتگی کے مظاہر کے لیے حج جیسی عبادت عطا کرنا،تقویٰ کے حصول کے لیے ماہِ رمضان میں روزے فرض کرنا، جیسا کہ ارشاد ہے: ’’یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔‘‘                                                                            (البقرۃ:۱۸۳) ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے کہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ اور حدیث مبارکہ میں ہے: ’’بنی الإسلام علٰی خمس: شہادۃ  أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا عبدہٗ ورسولہٗ و إقام الصلوٰۃ وإیتاء الزکوٰۃ والحج وصوم رمضان۔ متفق علیہ۔‘‘     (مشکوٰۃ، ص:۱۲) ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: ۱:… اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور (حضرت) محمد (a) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، ۲:… نماز قائم کرنا، ۳:… زکوٰۃ ادا کرنا، ۴:… حج کرنا اور ۵:… رمضان کے روزے رکھنا۔ ‘‘ ماہِ رمضان کا روزہ ہر مسلمان، عاقل، بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے، بلاعذر روزہ نہ رکھنے والا فاسق اور اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رمضان‘ سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں والا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان جس طرح روزوں کا مہینہ ہے، اسی طرح نیکیوں کے اہتمام اور نیکیوں کو سمیٹنے اور جمع کرنے کا مہینہ بھی ہے۔ ماہِ رمضان صبر، سخاوت، ہمدردی، زکوٰۃ اور صدقہ کا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان فرض نماز کے علاوہ تراویح، تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور صلوٰۃ التسبیح جیسی نمازوں کے اہتمام کا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان دعائوں اور التجاؤں کے علاوہ روٹھے رب کو منانے کا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان نزولِ قرآن، اعتکاف اور شبِ قدر کا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان اعلائے کلمۃ اللہ اور تبتُّل الیٰ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات اور خلاصی کا عشرہ ہے۔ رمضان کا مہینہ آتے ہی آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے، سرکش شیاطین کو مضبوطی سے باندھ دیا جاتا ہے، مومن کا رزق اور نیکیوں کا اجر و ثواب بڑھادیا جاتا ہے، نفل فرض کے برابر اور ایک فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’تسبیحۃ فی رمضان أفضل من ألف تسبیحۃ فی غیرہٖ۔‘‘   (ترمذی، ج:۲، ص:۱۸۵) ’’رمضان میں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہہ لینا غیر رمضان میں ایک ہزار مرتبہ کہہ لینے سے بہتر ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزانہ ایک منادی اعلان کرتا ہے: ’’یا باغی الخیر! أقبل ویا باغی الشر! أقصر۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۱۷۳) ’’اے خیر کے طالب! آگے بڑھ اور اے شر کے طالب! رُک جا۔‘‘ اسی طرح یہ بھی اعلان ہوتا ہے کہ :  ’’ہے کوئی دعا مانگنے والا! میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا! میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی گناہوں سے توبہ کرنے والا! میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کیا ہے کوئی صحت مانگنے والا! میں اس کو صحت وعافیت دوں؟۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس نداء کا نتیجہ ہے کہ اہلِ ایمان کا رجحان و میلان رمضان المبارک میں خیر اور سعادت والے اعمال کی طرف بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ غیر محتاط آزاد منش عام مسلمان بھی رمضان میں اپنی رَوِش بدل لیتے ہیں۔ حضرت ابو اُمامہ q سے روایت ہے کہ میں نے رحمت عالم a سے عرض کیا: مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے نفع دے، آپ a نے ارشاد فرمایا: ’’علیک بالصوم فإنہٗ لامثل لہٗ۔‘‘             (نسائی، ج:۱، ص:۱۴۰)  ’’روزہ کو لازم پکڑو (یعنی روزہ رکھا کرو) اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔‘‘  اسی لیے فرمایا گیا کہ:’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔‘‘یہی وجہ ہے کہ رمضان کے علاوہ بھی شریعت نے مختلف مواقع اور مہینوں میں روزہ رکھنے کا حکم اور ترغیب دی ہے، جیسا کہ قتل خطائ، کفارہ، ظہار، کفارئہ قسم اور روزہ توڑنے کے کفارہ میں۔ اس کے علاوہ محرم میں دو روزوں کی فضیلت، شوال کے چھ روزوں کی ترغیب، ذوالحجہ کے نو روزوں کے اجر و ثواب کا ذکر، اسی طرح نصف شعبان کا روزہ، ایام بیض کے روزے، پیر اور جمعرات کے روزہ کے فضائل، اس کے علاوہ جو نوجوان نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو‘ اس کے لیے حکم ہے کہ وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ قوتِ شہوانیہ کو توڑتا ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ تمام عبادات کا دروازہ روزہ ہے، جو آدمی روزہ رکھتا ہے‘ اُس کا قلب منور ہوجاتا ہے اور اُسے عبادت کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی جب روزہ رکھتا ہے تو اس کی عزت و توقیر بھی بڑھ جاتی ہے، احادیث میں ہے کہ: ’’اس کا سونا عبادت، اس کی خاموشی تسبیح کے درجہ میں، اس کا ہر عمل اَجر و ثواب کے اعتبار سے دُگنا، اس کی دعائیں مقبول اور اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ روزہ آدمی کے لیے جہنم کی آگ اور دنیا کے مصائب وآلام کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے اور یہ ڈھال اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک روزہ دار جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور فحش کلامی سے بچتا رہے۔ روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے۔ روزہ‘ روزہ دار کے جسم کی زکوٰۃ ہے، اور روزے سے جسم صحت مند ہوتا ہے۔ روزہ ایسی عبادت ہے جس میں رِیا نہیں۔ روزہ اور قرآن کریم‘ روزہ دار اور تلاوت کرنے والے کے لیے شفاعت کریں گے اور ان کی سفارش رَد نہیں کی جائے گی۔ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُسے روزہ کا اجروثواب دیا جائے گا۔ روزہ دار کے سامنے جب تک کوئی کھانا کھاتا رہتا ہے فرشتے برابر اُس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ روزہ دار کے لیے جنت میں داخل ہونے کا مخصوص دروازہ ہوگا، جس کا نام ’’رَیَّان‘‘ ہے اور اس دروازے سے روزہ دار کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔ روزہ دار کی روزانہ افطار کے وقت ایک دعا قبول کی جاتی ہے، یا تو وہ چیز اُسے دنیا میں مل جاتی ہے یا آخرت کے لیے ذخیرہ کردی جاتی ہے۔ روزہ دار سے جہنم ستر سال کی مسافت تک دور کردی جاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’ثلاثۃ لایسألون عن نعیم: المطعم، والمشرب، والمتسحر وصاحب الضیف وثلاثۃ لایلامون عن سوء الخُلُق: المریض، والصائم حتی یفطر والإمام العادل۔‘‘                (الدیلمی عن ابی ہریرۃؓ،کنزالعمال،ج:۸،ص:۴۵۶، حدیث نمبر:۲۳۶۳۷)  یعنی ’’تین آدمیوں سے نعمتوں کے بارے میں سوال اورپوچھ گچھ نہیںہوگی: کھانا کھلانے والا، پانی پلانے والا، سحری کرنے والا اور مہمان نواز (میزبان) اور تین آدمیوں کو بدخلقی پر ملامت نہیں کی جائے گی: مریض، روزہ دار جب تک افطار نہ کرلے اور منصف حکمران ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ’’إذا کان یوم القیامۃ یخرج الصوام من قبورہم یعرفون بریح صیامہم، أفواہہم أطیب من ریح المسک یلقون بالموائد والأباریق مختمۃ بالمسک فیقال لہم: کلوا فقد جعتم ، واشربوا فقد عطشتم، ذروا الناس یستریحوا فقد عییتم إذا استراح الناس فیأکلون ویشربون والناس معلقون فی الحساب فی عناء وظمأ۔‘‘     (ابوالشیخ فی الثواب، والدیلمی عن انسؓ، کنزالعمال، ج:۸، ص:۴۵۷، حدیث نمبر: ۲۳۶۴۴) یعنی ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو روزہ دار اپنی قبروں سے اس حال میں نکلیں گے کہ وہ اپنے روزوں کی بُو سے پہچانے جائیں گے، ان کے منہ مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہوں گے، ان کے پاس دسترخوان اور مشک کی مہر لگے ہوئے کوزے لائے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ: کھاؤ! کیونکہ تم بھوکے رہے اور پیو! کیونکہ تم نے پیاس برداشت کی۔ تم لوگوں کو چھوڑدو کہ وہ راحت ڈھونڈتے رہیں، تم نے اس وقت اپنے آپ کو مشقت میں ڈالا جب کہ لوگ راحت وآرام میں (مست) تھے، پس روزہ دار کھائیں گے اور پئیں گے جب لوگ حساب کی مشقت اور پیاس میں پھنسے ہوں گے۔‘‘ جو آدمی روزہ دار کو حلال کمائی سے روزہ افطار کراتا ہے پورا رمضان فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور شبِ قدر میں اس سے حضرت جبرئیل m مصافحہ کرتے ہیں، اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ ایسے شخص کا دل نرم ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ کنزالعمال میں ہے کہ حضور اکرم a نے قسم کھاکر فرمایا کہ: مسلمانوں کے لیے ماہِ رمضان جیسا کوئی بہتر مہینہ نہیں اور منافقین کے لیے اس سے برا کوئی مہینہ نہیں۔ اس رمضان کے داخل ہونے سے پہلے اہل ایمان کا اجروثواب لکھ دیا جاتا ہے اور منافقین کے گناہ اور اُن کی شقاوت لکھ دی جاتی ہے اور یہ اس لیے کہ مؤمن عبادت میں قوت اور یکسوئی کے لیے رمضان سے پہلے اپنا راشن اور دوسری ضروریات کی فکر میں لگ جاتا ہے اور منافق اہل ایمان کی غیبت اور ان کے عیوب کی تفتیش میں لگا ہوتا ہے، پس یہ رمضان اہل ایمان کے لیے غنیمت اور فاجروں کے لیے عذاب بن کر آتا ہے۔ رمضان میں ذکر کرنے والا مغفور ہوتا ہے اور سوال کرنے والا خائب وناکام نہیں ہوتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ: ’’روزے کے تین درجے ہیں: ۱:-عام، ۲:-خاص، ۳:-خاص الخاص۔  عام روزہ تو یہی ہے کہ شکم اور شرم گاہ کے تقاضوں سے پرہیز کرے۔ خاص روزہ یہ ہے کہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے، یہ صالحین کا روزہ ہے، اور اس میں چھ باتوں کا اہتمام لازم ہے: ۱:…آنکھ کی حفاظت کہ آنکھ کو ہر مذموم و مکروہ اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والی چیز سے بچائے، آنحضرت a کا ارشاد ہے کہ:  ’’نظر‘ شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِبد کو ترک کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت (شیرینی) اپنے دِل میں محسوس کرے گا۔‘‘   (رواہ الحاکم ، ج:۴، ص:۳۱۴، وصححہ ) ۲:…زبان کی حفاظت کہ بیہودہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے اُسے محفوظ رکھے، اُسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے، یہ زبان کا روزہ ہے۔ حضرت سفیان ثوریv کا قول ہے کہ: ’’غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ مجاہدvکہتے ہیں کہ: ’’غیبت اور جھوٹ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ اور آنحضرت a کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بیہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اُسے گالی دے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔‘‘            (صحاح) ۳:…کان کی حفاظت کہ حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے، اس کا سننا بھی حرام ہے۔ ۴:…بقیہ اعضاء کی حفاظت کہ ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے، اور اِفطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا۔ ۵:…اِفطار کے وقت حلال کھانا بھی اس قدر نہ کھائے کہ ناک تک آجائے اور جب شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوّت توڑنے کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا؟ ۶:…اِفطار کے وقت اس کی حالت خوف و رَجاء کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود؟ پہلی صورت میں یہ شخص مقربِ بارگاہ بن گیا، اور دُوسری صورت میں مطرود و مردود ہوا، یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ خاص الخاص روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کا روزہ ہو، اور ماسوا اللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے۔ البتہ جو دُنیا کہ دین کے لیے مقصود ہو‘ وہ تو دُنیا ہی نہیں، بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ بہرحال ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت کو چھوڑ کر دیگر اُمور میں قلب کے مشغول ہونے سے یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اربابِ قلوب کا قول ہے کہ دن کے وقت کاروبار کی اس واسطے فکر کرنا کہ شام کو اِفطاری مہیا ہوجائے، یہ بھی ایک درجے کی خطا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رزقِ موعود پر اس شخص کو وثوق اور اعتماد نہیں، یہ انبیاء ؑ، صدیقین اور مقربین کا روزہ ہے۔‘‘  (احیاء العلوم، ج:۲، ص:۱۶۸، ۱۶۹، ملخصاً) حضور اکرم a کا ارشاد ہے کہ: اس ماہ میں چار کام کثرت سے کیے جائیں: ۱:… ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت ، ۲:… استغفار کی کثرت(’’ أستغفر اللّٰہ الذی لاإلٰہ إلا ہو الحی القیوم‘‘ یا صرف ’’استغفر اللّٰہ‘‘)، ۳:… جنت کا سوال(اللّٰہم إنی أسألک الجنۃ)، ۴:… جہنم سے پناہ (اللّٰہم إنی أعوذ بک من النار)۔ ماہِ رمضان کو قیمتی بنانے کے لیے چند باتوں کا اہتمام بطورِ خاص بہت ضروری ہے: ۱:… اس ماہ میں تمام فرائض اور واجبات کی ادائیگی کا خوب اہتمام کریں، اگر قضا نمازیں ذمہ میں ہیں تو ان کی ادائیگی شروع کردیں۔ رمضان کے بعد قضا روزوں کی ادائیگی کا عزم کرلیں۔ سابقہ زندگی کی تمام لغزشوں پر سچی توبہ کریں۔ دل کو گناہوں اور گندے خیالات سے پاک رکھیں۔ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دل ودماغ کا استعمال صرف اور صرف اعمالِ صالحہ میں کریں۔ ۲:… ماہِ رمضان کو روزہ، تراویح، صدقۃ الفطر، اعتکاف اور زکوٰۃ کے مسائل سیکھنے اور سکھانے میں صرف کریں۔ جو لوگ قرآن کریم نہیں پڑھے وہ قرآن کریم سیکھنے میں اور قراء کرام قرآن کریم سکھانے میں اپنے اوقات لگائیں۔ ۳:… اپنے نفس کو تقویٰ کا پابند بنائیں، صلہ رحمی میں جلدی کریں، دل کو نفرت، جذبۂ انتقام اور حسد کی آگ سے دور رکھیں، صدقہ کی عادت ڈالیں، تلاوت کی کثرت کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں، خصوصاً انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ٹی وی جیسی خرافات سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اپنے ملازموں پر کام کاج کا بوجھ ہلکا رکھیں، زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزاریں، چالیس دن تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پابندی کریں، تاکہ آپ کو نفاق اور جہنم سے خلاصی کا تمغہ و اعزاز حاصل ہو، جس کی بشارت آپ a نے اپنی اُمت کو دی ہے۔ ۴:… اس رمضان کو گزشتہ رمضانوں سے بالکل ممتاز کریں، مثلاً : نفلی عبادات کا اہتمام زیادہ ہو، قرآن کریم کی تلاوت زیادہ ہو، قرآن کریم اور سورتیں یاد کرنا شروع کردیں، کسی یتیم کی کفالت شروع کردیں یا جیل میں قید لوگوں کی رہائی کا انتظام کردیں یا پانی کی اشد ضرورت ہو تو ٹیوب ویل، کنواں یا ٹھنڈے پانی کا پلانٹ لگادیں یا مساجد اور مدارس کے ساتھ پرخلوص تعاون کریں یا مستحق طلبہ کے لیے فیسوں اور یونیفارم یا فیس کا انتظام کردیں یا کسی غریب لڑکی کی رخصتی کے اخراجات کا بندوبست کردیں۔اس طرح کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ! آپ کو روزہ اور رمضان کی برکات کا صحیح معنوں میں لطف آئے گا۔ خلاصہ یہ کہ ماہِ رمضان کو اپنی عبادات، حسنات، صدقات، خیرات، قرآن کی تلاوت، دعاؤں، التجاؤں اور توبہ واستغفار کے ذریعہ قیمتی بنائیے، معلوم نہیں کہ آئندہ رمضان ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری تمام عبادات کو قبول فرمائے۔ آمین وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین