بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مادیت کا فتنہ اور اُس کا علاج!

مادیت کا فتنہ اور اُس کا علاج!

    آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ’’پیٹ‘‘ کا ہے۔ شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے، ہر شخص کا شوق یہ ہے کہ لقمۂ تراس کی لذتِ کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں، تاجر ہویا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کاپروفیسر، دینی درس گاہ کامدرس ہو یا مسجد کا امام اس آفت میں سبھی مبتلا نظر آتے ہیں، ہاں فرقِ مراتب ضرور ہے۔ زہدوقناعت، ورع وتقویٰ اور اخلاص وایثار جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا پورا عالم سازو سامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآز، طمع ولالچ اور زر طلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کرب واضطراب، بے چینی وبے اطمینانی اور حیرت وپریشانی کا دھواں ہر چہار سمت پھیلا ہوا ہے۔     دراصل اس فتنۂ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے جس کی نشاندہی رحمۃ للعالمین a نے فرمائی، آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قریباً ختم ہوچکا ہے، مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے آج انسانوں کی چھوٹائی بڑائی، عزت وذلت اور بلندی وپستی کی پیمائش’’إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ‘‘ کے پیمانے سے نہیں ہوتی، بلکہ’’پیٹ او رجیب‘‘ کے پیمانے سے ہوتی ہے۔ مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان ویقین رخصت ہوا، پھر انسانی اخلاق ملیا میٹ ہوئے، پھر اسوۂ نبوت سے وابستگی کمزور ہو کر اعمال صالحہ کی فضا ختم ہوئی، پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری، پھر سیاست وتمدن تباہ ہوا اور اَب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ افراتفری اور بے اصولی، آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الا مان والحفیظ۔     الغرض اس ’’پیٹ‘‘ کے فتنے نے ساری دنیا کی کایا پلٹ کر ڈالی۔ دنیا بھر کے عقلاء ’’پیٹ‘‘ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، وہ اس فتنہ کے ہولناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں، مگر صدحیف کہ علاج کے لیے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے۔ درحقیقت انبیاء o ہی انسانیت کے نباض ہیں اور انہی کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لیے کار گر ہوتا ہے۔ حضرت محمدرسول اللہ a نے اس ہولناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرمادی تھی، چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’واللّٰہ لا الفقرأخشٰی علیکم ولکن أخشٰی علیکم أن تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علٰی من کان قبلکم فتنافسوھا کما تنافسوھا فتھلککم کما أھلکتھم۔‘‘      (صحیح البخاری) ’’بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جا ئے، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔‘‘     لیجیے! یہ تھا وہ نقطۂ آغاز جس سے انسانیت کا بگاڑ شروع ہوا، یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ a نے تشخیص پر ہی اِکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخۂ شفاء بھی تجویز فرمایا، جس کا ایک جزء اعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔     اعتقادی جزء یہ کہ اس حقیقت کو ہر موقع پرمستحضررکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں، یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے، یہاں کے لذائذوشہوات آخرت کی بیش بہا نعمتوں اور ابدالآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں، قرآن کریم اس اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے، سورۃ الاعلیٰ میں نہایت بلیغ، مختصر اور جامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا: ’’  بَلْ تُؤْ ثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّأَبْـقٰی‘‘۔                (الاعلیٰ:۱۶،۱۷) ’’کان کھول کر سن لو! (کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر) ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدر جہا بہتر اور لازوال ہے۔‘‘     اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے اور بطور پرہیز کے حرام اور مشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کر ان سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ و شہوات میں انہماک سے کنارہ کشی کی جائے۔ دنیا کا مال واسباب، زن وفرزند، خویش واقرباء اور قبیلہ وبرادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کیے جائیں، ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گزارنے کے لیے اختیار نہ کیا جائے، نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد اور موضوع بنایا جائے۔ آنحضر ت a کا ارشاد گرامی ہے: ’’  إیاک والتنعم، فإن عباداللّٰہ لیسوا بالمتنعِّمین۔‘‘       (مشکوۃ) ’’عیش وتنعم سے پرہیز کرو، کیونکہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔‘‘ عجیب متضاد طرزِ عمل     تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی، گوشت، چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے اور اشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں، لیکن خاتم الا نبیاء a کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں، نبی کریم a اور آپ aکی آل واصحاب s کی زندگی اور معیارِ زندگی کو اول سے آخر تک دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسر جنون ہے۔ ’’صحیح بخاری شریف‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ qکا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بُھنا ہوا گوشت رکھا تھا، انہوںنے حضرت ابوہریرہ qکو کھانے کی دعوت دی، آپؓ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ’’محمدa ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یأکلون، ج:۲، ص:۸۱۵،ط:قدیمی)     مہینوں پر مہینے گزر جاتے، مگر کا شانۂ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا نہ دن کو چولہا گرم ہوتا، پانی اور کھجور پر گزر بسر ہوتی، وہ بھی کبھی میسر آتیں کبھی نہیں، تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے اور اسی حالت میں جہاد وقتال کے معرکے ہوتے، الغرض زہد وقناعت، فقرو فاقہ، بلند ہمتی وجفا کشی اور دنیا کی آسائش سے بے رغبتی اور نفرت وبیزاری سیرتِ طیبہ کا طغرائے امتیازتھی۔ اپنی حالت کا اس ’’پاک زندگی‘‘ سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو شرم آنی چاہئے، ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے اور وہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی، تاکہ آئندہ نسلوں پر خدا کی حجت پوری ہوجائے، ورنہ آپ a چاہتے تو آپ کو منجانب اللہ کیاکچھ نہ دیا جاسکتا؟ مگر دنیا کا یہ سازوسامان جس کے لیے ہم مرکھپ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا، بعض انبیاء o کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی، مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی وبیزاری میں فرق نہیں، ان کے پاس جو کچھ تھا دوسروں کے لیے تھا، اپنے نفس کے لیے کچھ نہ تھا۔     الغرض یہ ہے ’’فتنۂ پیٹ‘‘ کا صحیح علاج جو انبیاء کرام o اور بالخصوص سید کائنات a نے تجویز فرمایا، اور اگر انسان ’’پیٹ کی شہوت‘‘ کے فتنہ سے بچ نکلے تو ان شاء اللہ! ’’شہوتِ فرج‘‘ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا کہ یہ خر مستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے ، بھوکا آدمی اس کی آرزو کب کرے گا۔ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اسلام کی اصطلاح میں ’’تقویٰ‘‘ ہے جس پر بڑی بشارتیں دی گئی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لیے ہلکی پھلکی معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے اور زبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے، تاکہ مطلوبہ اعلیٰ صحت نصیب ہو، بس یہی حیثیت اسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین