بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مادرِ علمی کے نام

مادرِ علمی کے نام

    اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ، کراچی کے حالات دیکھ کر دل غم سے پگھلتا اور درد سے کراہتا ہے، ’’مرکزِ علمی‘‘ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کے ’’صدر مفتی‘‘ حضرت مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ اور ’’معاون مفتی‘‘ مفتی صالح محمد کاروڑیؒ گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ آہ! لوگوں کو کیا پتہ کہ ’’مفتی‘‘ کون ہوتا ہے؟ ایک حقیقی اور جید مفتی بننے کے لئے کم از کم پچیس سال کی کمر توڑ محنت درکار ہوتی ہے، مگر جانوروں سے بدتر قاتلوں کے لئے ’’مفتی‘‘ بس ایک آسان شکار۔دین کی سمجھ رکھنے والے علماء کرام کی تعداد پہلے ہی کافی کم ہے ، مدرسہ سے فاضل ہونے والا ہر شخص ’’عالم دین‘‘ نہیں ہوتا۔ علم ایک اونچی اور مشکل منزل ہے، اس تک خاص لوگ ہی پہنچتے ہیں، بہت محنتی، مستقل مزاج، مخلص اور اللہ کا خوف رکھنے والے۔ علم کا کوئی ایک چراغ بجھتا ہے تو دور دور تک تاریکی محسوس ہوتی ہے اور تمام مخلوقات اس کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتی ہیں۔ ’’القول الجمیل‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ نے ، ’’عالمِ ربانی‘‘ کے لئے پانچ شرطیں لکھی ہیں، فرماتے ہیں: جو ان پانچ امور کا مکمل التزام کرتا ہو، وہی عالم ربانی ہے اور ایسے ہی علماء حضرات انبیاء ؑاور رسولوںؑ کے وارث ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق ان کے لئے دعاء کرتی ہے، حتیٰ کہ سمندر کی تہہ میں مچھلیاں بھی، ایسے اہلِ علم کا وجود اور ان کی صحبت ’’الکبریت الأحمر‘‘ ہے، یعنی مٹی کو سونا اور لوہے کو ہیرا بنانے والی۔      ’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ‘‘ روئے زمین کے چند بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہ ادارہ ایک اللہ والے کے اخلاص اور جان توڑ محنت کا ثمرہ ہے۔ عام دینی مدرسے ابتدائی کتابوں کی تعلیم سے شروع ہوتے ہیں، یہ شاید دنیا کا واحد علمی ادارہ ہے جس کا آغاز تخصص سے ہوا، یعنی آخری تکمیلی درجے سے، کل دو اساتذہ تھے اور دس طلبہ۔ رہائش کے لئے کوئی کمرہ، نہ آسانی کے لئے کوئی انتظام، بس ایک مسجد تھی، اس میں نہ غسل خانہ، نہ بیت الخلائ، صرف وضو کے لئے چند عارضی ٹونٹیاں تھیں، اور بس! طلبہ مسجد ہی میں رہتے، وہیں پڑھتے اور وہیں سوتے، جو تھوڑا بہت سامان تھا ،وہ بھی مسجد میں رکھتے، اور یہ سامان بھی بسا اوقات چوری ہوجاتا تھا۔ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا لطف اللہ پشاوریؒ یہ دو اساتذہ بھی طلبہ کے ساتھ رہتے، اور بلند دینی وجاہت اور غیر معمولی علمی مقام کے باوجود، نہ کوئی رہائش اور نہ بچوں کو ساتھ رکھنے کا انتظام۔ دن بھر طلبہ کے ساتھ رہتے اور رات کو ایک دوست کے گھر عارضی قیام، اور دن کو بھی وضو وغیرہ کی حاجت کے لئے اسی دوست کے گھر جانا پڑتا، آپ سوچتے ہوںگے کہ شاید ان دو اساتذہ کو پڑھانے کے لئے کوئی اچھی جگہ نہیں ملی ہوگی تو مجبوراً یہ سب کچھ جھیلتے ہوںگے۔ نہیں جناب!حضرت بنوریؒ کے لئے ہر طرف سے دعوتیں اور بلاوے تھے، حتیٰ کہ ڈابھیل جیسے عالمی شہرت یافتہ جامعہ کا شیخ الحدیث کا منصب، بھاری تنخواہ، اور پر آسائش رہائش گاہ کی پیشکش موجود تھی، مگر بڑے کام بڑی آزمائشوں سے ہی وجود میں آتے ہیں، اور جنت کو فتح کرنے کے لئے ’’مکروہات‘‘یعنی مشکلات کے خاردار جنگل میں قدم لہو لہو کرانے پڑتے ہیں۔ حضرت بنوریؒ ایک عجیب جملہ ارشاد فرمایا کرتے تھے:’’بھائی! اگر دینی مدرسہ دنیا کے لئے بنانا ہے تو یہ آخرت کا سب سے بڑا عذاب ہے اور اگر آخرت کے لئے بنانا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے‘‘۔     حضرت بنوریؒ آخرت کی کامیابی کے لئے، اپنی دنیا کو کڑوا بناتے رہے۔ تھوڑا سا سوچیں، خود کراچی میں تھے اور گھر والے، بچے ٹنڈو الٰہیار میں، گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تھا، صرف عورتیں اور بچے، ایک جان پہچان والے عالمِ دین نے خدمت کا اجر کمایا، وہ گھر کا سودا سلف پہنچادیتے، اور خود حضرتؒ مہینہ میں ایک بار تشریف لے جاتے۔اس وقت پہلے کراچی سے حیدر آباد جانا پڑتا، پھر وہاں سے دوسری ٹرین پر ٹنڈو الٰہیار۔ اس سفر میں جو مشقتیں اس عالمِ جلیل نے دیکھیں، ان کو صرف لکھنا اور پڑھنا آسان ہے، مگر جھیلنا ہر کسی کے بس میں نہیں، ایک رات اسٹیشن پر بجلی نہ تھی، کوئی قلی بھی نہ ملا، ادھر سردی، بارش اور اندھیرا، معارف السنن کا مصنف اپنے سر پر ایک من وزن کا سامان اٹھائے، ٹھوکریں کھاتا ہوا گھر کی طرف پیدل جا رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسی رات کو آزمائش کی آخری گھڑی بنادیا، فقیر کے ہاتھ اُٹھے اور غنی کی طرف سے رحمت ٹوٹ برسی، اور کراچی میں رہائش کا بندوبست ہوگیا۔ لوگ کیا جانیں! عرب وعجم کے علماء حضرت بنوریؒ کی زیارت کو ترستے تھے، ایک بار ہمارے سامنے امام کعبہ حضرت شیخ عبد اللہ بن سبیلؒنے حضرت بنوریؒ کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ عالمِ دین علمِ حدیث کے پہاڑ تھے۔ آج عرب دنیا سے چھپنے والی کتنی ہی کتابوں میں حضرت بنوریؒ کی معارف السنن کا حوالہ ملتا ہے، اور آپؒ کے شاگرد، اور ان شاگردوں کے شاگرد پورے عالم اسلام میں علم وجہاد کی خدمت میںہمہ تن مشغول ہیں، اور خود جامعۃ العلوم الاسلامیہ جس کے آغاز میں ایک کمرہ بھی نہ تھا، پھر ٹین کی چھت کا کمرہ بنا،آج وہ اور اس کی شاخوں کی عمارتیں، کئی کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں، حضرت بنوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیٹیاں عطائی فرمائی تھیں، اور بیٹے صرف دو، ان دو میں سے بھی ایک کی پیدائش آپ کی وفات سے صرف تین سال پہلے ہوئی۔ بات یہ بتانی ہے کہ آپ کی لاڈلی صاحبزادی ’’فاطمہ‘‘ کی بینائی بھی انہی آزمائشوں کی نذر ہوگئی، حضرتؒ کراچی میں تھے اور بیٹی ٹنڈو الٰہیار میں، آنکھوں کی تکلیف شروع ہوئی، مگر کون علاج کراتا؟ جب کراچی میں علاج کی سہولت ملی تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ حضرتؒ کو اسی بیٹی سے بہت محبت تھی، دعاء میں رورو کر فرماتے تھے:اس دینی مدرسہ کے لئے ہم نے اپنی عزیزہ لخت جگر کو بھی قربان کردیا، اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرمائے، اور جس عظیم مقصد کے لئے ہم نے اپنے آپ کو، اہل وعیال کو قربان کیا ہے، اپنی رحمت سے اس مقصد میں ہمیں کامیاب فرمائے۔ حضرتؒ کی دعاء بھی قبول ہوئی اور قربانی بھی، جامعہ نے اتنی تیزی سے حیرت انگیز ترقی کی کہ اسے نہ الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے اور نہ کسی مشین پر پرکھا جا سکتا ہے۔ وہ مدرسہ جو قرض پر شروع ہوا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرح کے اسباب ووسائل سے مالا مال ہوگیا اور جو اس کا مقصد تھا: علم دین کی حفاظت، فروغ اور ترویج اس میں اسے کراماتی کامیابی ملی۔ آج تک الحمد للہ! یہ جامعہ پورے ملک کے مدارس میں تعلیمی معیار، طلبہ کے رجوع اور دین کے ہر شعبے کی خدمت کے لحاظ سے، تمام مدارس میں پہلے نمبر پر ہے۔      حضرت بنوریؒ کے بعد ان کے اس دینی، علمی اور روحانی مرکز کی قیادت، حضرتؒ کے داماد، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ نے سنبھالی۔ وہ اپنے استاذ اور شیخ حضرت بنوریؒ کی محبت اور اطاعت میں فنا تھے، ان کے بارے میں یہاں تک مشہور تھا کہ انہیں حضرت بنوریؒ سے اس قدر محبت اور موافقت حاصل ہے کہ اگر حضرتؒ دن کو رات فرمائیں تو مفتی احمد الرحمنؒ کو اس میں شک نہیں ہوگا۔ حضرت مولانا مفتی احمدالرحمنؒ نے اپنی جوانی اور زندگی ایک شمع کی طرح گھلا اور پگھلا کر حضرت بنوریؒ کے دینی کام اور مرکز کی خدمت کی۔ انہوں نے اپنی ذات کو ہمیشہ پیچھے رکھا اور حضرتؒ کے کام کو مقدم رکھ کر، جان توڑ محنت فرمائی۔ حضرت مفتی احمد الرحمنؒ کا دورِ اہتمام، جامعہ کے مثالی عروج کا زمانہ تھا۔ سبحان اللہ! جامعہ کا کیا رعب تھا اور کیا مقام، کیا دبدبہ تھا اور کیا معیار، دین کے ہر شعبے کی قیادت گویا کہ جامعہ کی گود میں تھی، اور عزیمتوں کے پُر خطر راستے پر جامعہ کامیابی کے ساتھ گامزن تھا، پھر اچانک مفتی صاحبؒ امام غزالیؒ جتنی عمر پاکر رفیقِ اعلیٰ کو چلے گئے۔ ان کے کچھ عرصے بعد جامعہ طرح طرح کی آزمائشوں سے دو چار ہوگیا۔ جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختارؒ اور حضرت مفتی عبد السمیعؒ شہید کردیئے گئے، پھر حضرت لدھیانویؒ، پھر حضرت شامزئیؒ، پھر حضرت مفتی جمیلؒ، حضرت جلال پوریؒ اور اب حضرت مفتی دین پوریؒ۔جامعہ لہو لہو، جامعہ زخموں سے چور چور، اور جامعہ اشکبار، مگر یقین ہے کہ، اخلاص وتقویٰ پر جس عمارت کی بنیاد ہو وہ کبھی نہیں گرتی، کبھی نہیں جھکتی، دل چاہتا ہے اپنے غم زدہ جامعہ کی چوکھٹ کا ایک بوسہ لوں، تعزیت کروں اور جامعہ کے دشمنوں کو بتاؤں کہ یہ سمندر بہت گہرا ہے، تم ذلّتوں میں فنا ہو جاؤگے، اور جامعہ کے بلند میناروں سے سدا، ’’اللہ اکبر‘‘ کی اذان بلند ہوتی رہے گی۔ اے محبوب مادرِ علمی!، تجھے عقیدت بھرا سلام۔     ہم حضرت مفتی محمد عبد المجید دین پوریؒ اور مفتی صالح محمدؒ کے ورثائ، تلامذہ اور جملہ متعلقین سے قلبی طور پر تعزیت کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین