بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

لہو لہوبنوری ٹاؤن

لہو لہوبنوری ٹاؤن

    آہ۔۔۔۔۔! جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سپوتوں اور ستونوں کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔۔۔۔ استاذ محترم حضرت اقدس مفتی عبد المجید دین پوریؒ اور استاذ محترم حضرت مولانامفتی صالح محمد ؒ شہید کردیئے گئے۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں شہید لکھتے ہوئے بھی دل لرز رہا ہے اورکانپ رہا ہے۔ بے شک شہادت ان کے لئے تو بہت بڑا عزاز اور بہت اونچا مقام ہے، لیکن ان کی صلبی وروحانی اولاد اور اعزہ و اقارب وحلقۂ احباب کے لئے ان کی جدائی ایک عظیم صدمہ ہے۔یقین نہیں آرہا کہ کیا واقعی استادجی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ یہ بدھ کی رات ہی کی تو بات ہے کہ حضرت دین پوری شہیدؒ سے فون پر بات ہوئی۔ حسبِ عادت حضرتؒ نے مزاح بھی فرمایا اور خوب کھل کر گفتگو فرمائی، لیکن اگلے ہی دن دوپہر کو حضرتؒ کی شہادت کی اطلاع آگئی۔     حضرت دین پوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار کمالات اور خصوصیات سے نوازا تھا۔ اکابر علمائے دیوبند کی جو صفات کتابوں میں پڑھتے تھے ان کا عملی نمونہ حضرتؒ کی شخصیت میں دیکھا۔ شفقت، محبت، عاجزی وانکساری، عبادت وریاضت، للہیت وخشیت، بردباری، کمالِ استغناء اور بے پناہ تفقہ فی الدین آپؒ کے وہ عمومی اوصاف تھے جن کا ہر ایک مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ آہ! حضرتؒ کی ایک ایک ادا یاد آرہی ہے اور دل کو رُلا رہی ہے، کون بھلا پائے گا وہ پیارا منظرکہ حضرتؒ باوجود بڑھاپے کے پوری پابندی کے ساتھ فجر کی اذان کے کچھ ہی لمحوں بعد مسجد تشریف لے آتے، مسجد کی جنوبی جانب سے تشریف لاتے ، جوتا ہاتھ میں لئے باوقار انداز سے چلتے ہوئے مسجد کے شمالی برآمدے کے قریب جوتا رکھتے اور صفِ اوّل میں تشریف فرماہو کر مسلسل تلاوت فرماتے رہتے، نماز سے فراغت کے بعد کچھ وقت ذکر واذکار اور معمولات میں مصروف رہتے اور پھر حضرت بنوری نوّراللہ مرقدہ کی مرقد مبارک پر تشریف لے جاتے اور ان کے لئے ایصالِ ثواب کرتے۔وقت کے بہت پابند تھے، کاؤنٹنگ تسبیح ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں بندھی رہتی اور کام کے ساتھ ساتھ ذکر جاری رہتا، بارہا اس چیز کا مشاہدہ کیا گیا کہ فتویٰ پڑھتے وقت اور دستخط کرتے وقت بھی تسبیح حرکت میں رہتی۔     جامعہ کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ آپ بہت زیادہ معمولات اور ذکر اذکارکے پابندتھے۔ فقہ وفتویٰ کے معاملے میں آپؒ پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازش تھی، مجال ہے کہ کوئی معمولی سی معمولی غلطی آپ کی گرفت سے بچ سکے۔ رات دس بجے تک تنہا دار الافتاء میں بیٹھے دن کے بچے ہوئے فتاویٰ دیکھتے رہتے۔ استغناء کا یہ عالم تھا کہ کوئی مالدار مستفتی تھوڑا سا بھی اکڑ پن دکھاتا تو اس کی شامت آجاتی، حضرتؒ اس کی طبعیت صاف فرمادیتے ۔مسلک میں مضبوطی اور تصلّب کا اندازہ کریں کہ درس نظامی سے فراغت کے بعد فوج میں بطور خطیب تقرری کے تمام مراحل مکمل ہو چکے تھے، صرف کاغذی کارروائی باقی تھی، باقی سب کچھ ہو چکا تھا کہ ایک افسر نے کہہ دیا کہ یہاں مسجد میں بریلوی مسلک کے لوگ بھی ہیں، وہ مروجہ صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں، آپ کو بھی صلوٰۃ وسلام پڑھنا ہوگا، حضرتؒ نے صاف انکار کردیا اور اس نوکری کوٹھکرا کر چلے آئے۔      گزشتہ سال ایک دن جب کہ آپ رات کو دار الافتاء کاکام نمٹاکر گھرتشریف لے جارہے تھے تو چلتے چلتے اچانک آپؒ کے بائیں گھٹنے میں تکلیف شروع ہوگئی جو آخر دم تک موجود رہی، ایک دن کسی نے تکلیف پر دکھ کا اظہار کیا تو حضرتؒ نے کسی بزرگ کا واقعہ سنایا کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تو یہ شعر پڑھا کرتیـ: لطفِ سجن دم بدم

قہرِ سجن گاہ گاہ ایں وی سجن واہ واہ

اُوں وی سجن واہ واہ     شعر پڑھتے ہوئے حضرتؒ کی آنکھیں پُر نم ہوگئیں اور فرمانے لگے: ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں، اگر مالک کی طرف سے تھوڑی سی تکلیف آ گئی تو کیا ہوا؟     حضرت مفتی صالح محمد کاروڑی شہیدؒ دار الافتاء کے فعال ترین اور چست وچابک مفتی تھے، سب سے زیادہ فتاویٰ آ پ ہی کو دیئے جاتے تھے۔ خواتین کے مسائل اور تحکیم کے مسائل کی تقریباََ ساری ذمہ داری آپؒ ہی کے پاس تھی۔ آپؒ کی نشست کے سامنے اکثر لوگوں کا جم گٹھّا لگا رہتا تھا۔ بہت زیرک انسان تھے، حالات پر بہت گہری اورکڑی نظر رکھتے تھے۔ آپؒ کی بہت سی یادیں دل میں بسی ہیں۔ آج حضرتؒ کی ایک عجیب وغریب خوبی ذکرکر کے اجازت چاہوں گا، وہ یہ کہ:حضرتؒ کی دو شادیاں تھیں اور صاحبِ اولاد بھی تھے، کسی نے پوچھا: حضرت! مدرسے کی تنخواہ پر اس مہنگائی کے دور میں کس طرح گزارا ہوتا ہے؟ فرمایا: اللہ کا شکر ہے، بہت اچھا نظام چل رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ حضرتؒ شام کو جامعہ سے واپس جانے کے بعد ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے اور رات ایک بجے گھر جاتے تھے۔۔۔۔ اللہ اکبر کبیرا۔۔۔۔۔ ایسے لوگ دنیا میں خال خال ہی رہ گئے ہیں اور پھر کمال تو یہ کہ ساری زندگی اس چیز کو چھپائے رکھا، کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں، بس شکر ہی شکر اور کام ہی کام۔۔۔۔ یقینا یہی لوگ امت کے مقتداکہلانے کے صحیح معنوں میں مستحق ہیں اور ان کی زندگیاں علماء وطلباء کے لئے نمونۂ عمل ہیں۔     یا اللہ! ہمارے ان پیارے اساتذہ اور ان کے رفیقِ سفر کے درجات بلند فرما، امت کو ان کا نعم البدل عطاء فرما۔ اور اے جبار وقہار مالک! بد بخت قاتلوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار فرما، اور لہو لہو بنوری ٹاؤن کی ہر قسم کے شروروفتن اور مصائب وآفات سے حفاظت فرما، آمین۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین