بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

لامذہبیت کا فتنہ لادینیت پر جاکر ختم ہوتا ہے!

لامذہبیت کا فتنہ لادینیت پر جاکر ختم ہوتا ہے!

حامداً ومصلیاً ومسلماً: أما بعد: دین کی کچھ باتیں تو ایسی سادہ اور آسان ہوتی ہیںکہ جن کے جاننے میں سب خاص وعام برابر ہیں، جیسے وہ تمام چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے یا مثلاً وہ احکام جن کی فرضیت کو سب جانتے ہیں،چنانچہ ہرایک کو معلوم ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ارکانِ اسلام میں داخل ہیں، لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جو عوام کی سمجھ میں نہیں آتے، اس لیے ان کو علماء سے پوچھنا ضروری ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کو اہل علم قرآن وحدیث میں غور کرنے کے بعد سمجھتے ہیں اور علماء کو بھی ان مسائل کے سمجھنے کے لیے شرعی طور پر ایک خاص علمی استعداد کی ضرورت ہے، جس کا بیان اصولِ فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہے، بغیر اس استعداد کے حاصل ہوئے کسی عالم کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مشکل آیت کی تفسیر کرے، یا کوئی مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالے۔ جس عالم میں یہ استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور پھر وہ اپنی پوری کوشش صرف کرکے قرآن وحدیث سے مسئلہ نکالتا ہے، اس کو مجتہد کہا جاتاہے اور جس شخص میں یہ استعداد نہ ہو وہ عامی ہے، عامی کو یہ حکم ہے کہ ہرمسئلہ میں مجتہد کی طرف رجوع کرے اور مجتہد کا یہ فرض ہے کہ وہ جو مسئلہ بھی بیان کرے کتاب وسنت میں خوب غور کرکے اور اپنی پوری کوشش صرف کرکے اولاً اس مسئلہ کو سمجھے اور پھر اس پر فتویٰ دے۔ اجتہاد وفتوی کا یہ سلسلہ عہدِ نبوی سے لے کر آج تک اُمت میں رائج چلا آرہا ہے۔ آنحضرت a کے زمانہ میں بھی بہت سے ایسے حضرات صحابہ کرامؓ میں تھے جو آنحضرت a کی اجازت سے خود مدینہ شریف میں اور تمام ملکِ عرب میں جہاں اسلام پھیل چکا تھا‘ فتویٰ دیا کرتے تھے اور سب لوگ ان کے فتوی پر عمل کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے بعد تابعینؒکے دور میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہا، بلکہ ہر شہر کے مفتی اور مجتہد جو مسائل بیان کرتے تھے اس شہر کے رہنے والے انہی کے فتاویٰ کے مطابق تمام احکامِ دین پر عمل پیرا ہوتے تھے۔پھر تبع تابعین کے دور میں ائمہ مجتہدین نے کتاب وسنت اور گزشتہ مجتہدین صحابہؓ وتابعینؒ کے فتاویٰ کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر باب میں تفصیل سے احکام مرتب کردیئے۔ ان ائمہ میں اولیت کا شرف امام اعظم ابوحنیفہv کو حاصل ہے، پھر امام مالکؒ اور ان کے بعد امام شافعی  ؒ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین ہیں۔ چونکہ ان ائمہ اربعہw نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر وبیشتر مسائل کو جمع کردیا تھا اور ساتھ ہی وہ اُصول بھی بیان کردیئے تھے کہ جن کی روشنی میں یہ احکام مرتب کیے گئے تھے، اس لیے تمام اسلامی دنیا میں قاضیوں اور مفتیوں نے انہی کے مسائل کے مطابق فیصلہ کرنا اور ان پر فتویٰ دینا شروع کردیا، اس طرح تمام عالم اسلامی میں ان حضرات کے مذاہب مقبول ومعتمد ہوگئے، چنانچہ یہ سلسلہ دوسری صدی سے لے کر آج تک اسی طرح قائم ودائم ہے۔ ہندوستان میں جب انگریز کی عملداری شروع ہوئی تو اس زمانہ میں کچھ لوگوں کے سر میں یہ سودا سمایا کہ ہمیں اگلوں کے فتاویٰ پر چلنے اور ان کی تقلید کرنے کی کیا ضرورت ہے؟! ہمیں تو خود قرآن وحدیث سے مسئلے نکالنے چاہئیں، یہ لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث یا غیر مقلد کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ ان کے عوام تو مسجد کے مولوی ملاؤں سے مسئلے پوچھ پوچھ کر ان پر عمل کرتے ہیں اور یہ خود حدیث کی کچھ کتابوں کو سامنے رکھ کر علمائے شوافع نے جو اُن کا مطلب بیان کیا ہے اس پر چلتے ہیں۔ حدیث کی تصحیح وتضعیف اور راویانِ حدیث کی جرح وتعدیل میں بھی یہ محدثین ہی کے مقلد ہیں، چنانچہ بطور مثال ان کے نزدیک امام بخاریؒ یا امام ترمذیؒ کا کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اس حدیث پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے لیے کافی ہے، حالانکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ حدیث کیوں صحیح ہے؟ یا کیوں ضعیف ہے؟ غرض اس بارے میں یہ بخاریؒ وترمذیؒ کی تقلید کو کافی سمجھتے ہیں اور اس باب میں اجتہاد نہیں کرتے۔ اس عدم تقلید کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہندوستان میں دین ومذہب کے اندر فتنوں کے دروازے کھل گئے، ہرشخص مجتہدبن بیٹھا، چنانچہ سب سے پہلے سرسید احمد خان نے اس راہ میں قدم رکھا، پہلے حنفی مذہب کو خیرباد کہا، تقلید سے منہ موڑا، غیر مقلد ہوئے، پھر ترقی کرتے کرتے نیچریت پر معاملہ جا پہنچا، اور ظاہر ہے کہ جب فقہاء کی تقلید حرام ٹھہری تو تصحیح وتضعیف میں کسی محدث کی کیوںسنی جائے اور بغیر دلیل سمجھے ا س کو کیوں صحیح مان لیاجائے؟! یہی حال غلام احمد قادیانی کا ہوا، وہ مذہب حنفی سے نکلا اور غیر مقلدیت میں بڑھتے بڑھتے معاملہ یہاںآکر ٹھہرا کہ مہدی سے بھی آگے بڑھ کر مسیح موعود کے منصب پر اپنے کو پہنچا دیا۔ دوسری طرف اس انکارِ تقلید نے انکارِ حدیث کی راہ دکھلائی، چنانچہ اسلم جیراج پوری کے دادا حنفی تھے، ان کے باپ مولوی سلامت اللہ غیر مقلد بنے، اسلم جیراج پوری نے باپ دادا سے بھی ایک قدم آگے بڑھایا تو انکارِ حدیث کے داعی بن گئے اور ان کے نام لیوامسٹر پرویز کی زندگی کا مشغلہ ہی حدیث وسنت کا مذاق اُڑانا رہ گیا۔ اسی طرح ملک میں جتنے دوسرے دینی فتنے ہیں، وہ سب انکارِ تقلید کے شاخسانے ہیں۔ پہلے آدمی تقلید سے منکر ہوتا ہے، غیر مقلد بنتاہے اور پھر اس کی خودرائی اسے گمراہی کے گڑھے میں ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب سے مذاہب اربعہ کا رواج ہوا، مسلمانوں میں نئے نئے فرقے پیدا ہونے بند ہوگئے تھے اور جب سے تقلید کا بند ٹوٹا ہے اور لامذہبی کا دور دورہ ہوا ہے، ہر طرف نئے نئے فتنے سر اُٹھانے لگے ہیں۔ آج کل خود کراچی شہر میں ہی دو نئے فتنے زور سے سر اُٹھا رہے ہیں: ایک فتنہ کراچی کے ساحل سے توحید کے نام پر اُٹھ رہا ہے، چنانچہ وہاں سے کتابچے ’’توحید خالص‘‘ کے نام سے شائع ہورہے ہیں، ان میں یہی بتایاجارہاہے کہ حسن بصریv سے لے کر آج تک کوئی توحید کا حامل ہی نہیں رہا اور خاص کر ہندوستان کو تو تصوف نے ایسا تباہ کیا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریv سے لے کر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویv تک ایک بھی مسلمان کہلانے کے لائق نہیں، اس فتنہ کا سربراہ ایک نامسعود شخص تھا جو حال میں فوت ہوگیا۔ دوسرا فتنہ کراچی شہر کی دوسری سمت سے سیدنا عثمان غنیq کے نام سے برپاکیا گیاہے، جس کا مقصد ناصبیت کو زندہ کرنا ہے۔ اس فتنے کا سربراہ یزید اور مروان کا فدائی ہے اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ جس طرح بھی بن پڑے حضرت علیq، حضرات حسنینr اور ائمہ اہل بیتؒ    کو کوسا جائے اور ان کی عظمت کو پامال کیا جائے۔ اس فتنہ کا سربراہ نامحمود عباسی تھا، وہ تو مرگیا، اب اس کے چیلے چانٹے اس فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان دونوں فتنوں کی خرابی اور نقصان کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے یہاں سے اس سلسلہ میں جو کتابچے شائع کیے جاتے ہیں ان کو دیکھ لیا جائے کہ کس قدر گمراہی پھیلارہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین