بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ

قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ

موجودہ زمانے میں قتل وغارت گری ا تنی زیادہ عام ہو چکی ہے کہ سرکارِ دو عالم ا کا وہ ارشاد روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتاہے کہ آں جناب انے ارشاد فرمایا:  ’’والذی نفسی بیدہ! لا تذھب الدنیا حتیٰ یأتي علی الناس یومٌ لا یدری القاتلُ فیم قتَل، ولا المقتولُ فیم قُتِل‘‘۔ فقلتُ: فکیف ذالک؟ قال: ’’الھرج ُ ! القاتل والمقتول فی النار‘‘۔(رواہ مسلم فی صحیحہ،عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ،کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتیٰ یمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: ۲۹۰۸،ص:۱۱۸۲، دارالسلام) ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ آں جناب انے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک ایسا دن آجائے کہ قاتل کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کس وجہ سے قتل کر رہا ہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہو گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟! ‘‘۔ اور پھر اسی پر بَس نہیں، یہ قتل وغارت اتنی بڑھی کہ اس کا رُخ ایک عالمی طاغوتی منصوبہ کے تحت باقاعدہ طور پر عامۃ الناس سے وارثانِ انبیاء ،علماء اور طلباء کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وارثانِ انبیاء تو شہادت جیسے مرتبۂ عظمیٰ پر فائز ہونے والے ہیں، لیکن ان کے قتل کے منصوبے بنانے والے اور اس فعلِ بد میں میں شریک ہونے والوں کی بد بختی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان اہلُ اللہ کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ قربِ قیامت میں علم اٹھا لیا جائے گا ان اہلِ علم شخصیات کا قتلِ عام بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے ،جیسا کہ سرکار دو عالم ا نے ارشاد فرمایا:  ’’إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلمائ، حتیٰ إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وساً جھالاً،فسُئلوا، فأفتوا بغیر علمٍ، فضلوا وأضلوا‘‘۔(رواہ الإمام البخاریؒ فی صحیحہ،عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، رقم الحدیث:۱۰۰، ۱؍۳۲، دار طوق النجاۃ) ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان سے علم کو اس طرح ختم نہیں فرمائیں گے کہ اُسے دفعۃً اٹھا لیں، بلکہ علماء ِ دین کے اٹھانے کی صورت میں علم کو اٹھا لیں گے، یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالمِ( حقیقی) باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، ان جہلاء سے سوال کئے جائیں گے تو یہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ موجودہ حالات میں ایک سنت عمل ان حالات میں کہ جب مسلمانوں پر کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے ، مثلاً: طاعون کی وباء پھیل جائے، یا کفار حملہ کر دیں، یا خود مسلمانوں میں ہی قتل و غارت عام ہو جائے تو ایسے مواقع میں نبی اکرم ا سے ایک خاص عمل کرنا ثابت ہے، جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں۔ حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی اکرم ا نے ایک مہینہ تک نمازِ فجر میں قنوت(نازلہ) پڑھی، جس میں آپ ا نے عرب کے بعض قبیلوں مثلاً: رِعْل، ذکوان، عُصَیَّۃاور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی تھی‘‘۔ ’’عن اَنَس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال : إن نبی اللّٰہا قنت شھراً فی صلاۃ الصبح، یدعوا علیٰ أحیاء العرب علیٰ رِعْلٍ و ذَکْوان و عُصَیَّۃ وبنی لِحیان‘‘۔       (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونۃ ) چنانچہ ! ملک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر صدرِ وفاق المدارس و مہتمم جامعہ فاروقیہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی حضرت شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے متوسلین اور ائمہ مساجد کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنی اپنی مساجد میں قنوتِ نازلہ شروع کردیں تو اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس سے قوی امید ہے کہ حالات میں بہتری پیدا ہو جائے گی اور مسلمانوں کی دلی تسلی کے ساتھ ان قاتل اور بدبخت لوگوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔ اس لئے کہ ایسے حالات میں مصائب وبلیّات اور سختیاں دور کروانے کے لئے، مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست (اور آفات کی دوری)کے لئے بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میںقنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے۔ چنانچہ !خاتمۃ المحققین علامہ شامیؒ نے لکھا ہے : ’’(ولا یقنت لغیرہ إلا) لنازلۃ، فیقنت الإمام فی الجھریۃ۔ وفی حاشیۃ ابن عابدینؒ تحت قولہ:’’إلا لنازلۃ‘‘ قال فی الصحاح: النازلۃ: الشدیدۃ من شدائد الدھر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل……قال أبو جعفر الطحاویؒ:إنما لا یقنت عندنا فی صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ، فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہٖ، فعلہٗ رسول اللّٰہ ا‘‘۔              (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ ، مطلب:فی القنوت للنازلۃ: ۲؍۵۴۲، دار المعرفۃ، بیروت) قنوتِ نازلہ سے متعلق بعض متفرق مسائل چنانچہ! خیال ہوا کہ قنوتِ نازلہ سے متعلقہ مسائل ، طریقہ کار اور اس میں پڑھی جانے والی دعا منظرِ عام پر لائی جائے ، تاکہ ائمہ مساجد کے لئے سہولت و آسانی ہو جائے، ذیل میں وہ مسائل ذکر کئے جاتے ہیں اور اہلِ علم حضرات کے اطمینانِ قلب کے لئے حوالہ جات بھی ذکر کر دئیے گئے ہیں: ٭ تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھنا درست نہیں ہے۔ ’’(فیقنت الإمام فی الجھریۃ) وفی حاشیۃ ابن عابدین تحت قولہ:’’فیقنت الإمام فی الجھریۃ‘‘و ظاھر تقییدھم بالإمام أنہ لا یقنت المنفرد‘‘۔   (حوالہ بالا) ٭ قنوت ِ نازلہ احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے ،البتہ امام شافعی ؒ کے نزدیک قنوت ِ نازلہ کا تمام نمازوں میں پڑھنا درست ہے۔ ’’(وأما القنوت فی الصلوٰت کلھا للنوازل فلم یقل بہٖ إلا الشافعیؒ، وکأنھم حملوا ما روی عنہ علیہ الصلاۃ والسلام أنہ قنت فی الظھر والعشاء کما فی مسلم، وأنہ قنت فی المغرب أیضاً کما فی البخاری علی النسخ لعدم ورود المواظبۃ والتکرار الواردین فی الفجر عنہ علیہ الصلاۃ والسلام، وھو الصریح فی أن قنوتَ النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریۃ‘‘۔             (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ ، مطلب:فی القنوت للنازلۃ: ۲؍۵۴۲، دار المعرفۃ، بیروت)  قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ  ٭ قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ’’سَمِعَ اللّٰہُُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘کہہ کر امام کھڑا ہو جائے ،اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت (جو آگے آ رہی ہے) پڑھے اور مقتدی اُس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر ’’اللہ اکبر ‘‘کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیںاور بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔ ’’وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعیؒ علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالیؒ فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم‘‘۔                             (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ ، مطلب:فی القنوت للنازلۃ: ۲؍۵۴۲، دار المعرفۃ، بیروت) ٭اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے تو امام بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔ ’’وھل المقتدی مثلہ أم لا؟ و ھل القنوت ھنا قبل الرکوع أم بعدہ ؟ لم أرہ۔ والذی یظھر لی أن المقتدی یتابع إمامہ، إلا إذا جھر، فیؤمن‘‘۔                             (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ ، مطلب:فی القنوت للنازلۃ: ۲؍۵۴۲، دار المعرفۃ، بیروت) ٭قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو لٹکایا جائے یا دعا کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اس حالت میںاحتمالاً تین طرح کی صورتیں اپنائی جا سکتی ہیں: ۱:…ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھا جائے ،جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔  ۲:… دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکائے جائیں۔ ۳:… دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اُوپراٹھا لئے جائیں۔ ان تین صورتوں میں سے پہلی دونوں صورتیں درست ہیں،لیکن ان میں سے دوسری صورت (یعنی:ہاتھوں کو لٹکائے رکھنا)بہتر ہے،جب کہ تیسری صورت (یعنی: دعا کی طرح ہاتھوں کو اٹھانا) مناسب نہیں ہے۔  حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی  ؒ نے اپنی کتاب ’’بوادر النوادر‘‘ میں لکھا ہے: ’’مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی: پہلی دو صورتوں کی طرف) گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع(ہاتھ باندھنے) کو ہو۔کما ھو مقتضیٰ مذہب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے اِرسال کو ترجیح دی جاسکتی ہے،کماھومذھب محمد‘‘۔            (بوادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین در قنوتِ نازلہ:۶؍۱۲۲،۱۲۳، ادارہ اسلامیات) ٭ قنوتِ نازلہ کی دعا پڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں ، وہ تکبیر ِ تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی (کیوں کہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے)وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو حسبِ قاعدہ پورا کریں گے۔ ٭ قنوت ِنازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھی جائے؟ اس بارے میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھی جائے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں،بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع ِسنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھا جائے ، جیسا کہ شروع میںذکر کی گئی حدیثِ نبوی ا میں ذکر ہوا۔ ’’قلت و فیہ بیان غایۃ القنوت للنازلۃ أنہ ینبغی أن یقنت أیاماً معلومۃً عن النبیا، وھی قدرُ شھرٍ، کما فی الروایات عن أنسؓ: ’’أنہ ا قنَت شھراً ثم ترک‘‘ فاحفظْہ فھذا غایۃُ اتباع السنۃ النبویۃ ا‘‘۔                                                  (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلۃ: ۶؍۱۱۸، إدارۃ القرآن، کراتشی) قنوتِ نازلہ کی دعا ٭ دعائے قنوتِ نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق علماء ِعصر نے ایک جامع دعا نقل کی ہے: {اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلِلْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃَ،وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَأَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوْا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنََ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَ کَ مِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھُمْ، وَأَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ}۔  ترجمہـ:’’یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائیں، اور ہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کرے۔ اے ہمارے رب! آپ بابرکت ہیںاور بلند و بالا ہیں۔ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں۔ اے اللہ! ہمارے اور مؤمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرما دے، اور اُن کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرمادے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادے، اور اُن کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دے، اور ان کو اپنے رسول ا کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے اُنہیں کہ شکر کریں تیری اس نعمت کا جو تو نے اُنہیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں تیرے اس عہد کو جو تو نے ان سے لیا ہے،اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔ اے اللہ! ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما، اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پرچلتے ہیںاور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں،اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں،بالخصوص علمائ، طلبہ اور عامۃ المسلمین کو۔ اے اللہ ! خود انہیں کے اندر آپس میں اختلاف پیدا فرما، اور ان کی جماعت کو متفرق کر دے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، اور ان کے قدموں کو اُکھاڑ دے،اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے ، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے، جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے‘‘۔ پانچوں نمازوں کے بعد امام و مقتدی سب یہ دعا کریں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے جواہر الفقہ میں لکھا ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد امام اور مقتدی یہ دعا بھی مانگیں ، وہ دعاموجودہ حالات کے پیشِ نظر قدرے تغیرو تبدل کے ساتھ نقل کی جاتی ہے: ’’اَللّٰھَمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمِ الْأَحْزَابَ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ، اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُجَاھِدِیْنَ الَّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِکَ حَقّاً، وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ فِیْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِھَا خَاصَّۃً فِیْ بَاکِسْتَانَ وَأَطْرَافِھَا، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاحْفَظِ الطُّلَّابَ وَالْعُلَمَآئَ خَاصَّۃً وَالْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃً وَکَافَّۃً، وَالْمَدَارِسَ وَالْمَعَاھِدَ الدِّیْنِیَّۃَ کُلَّھَا، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، وَاکْنُفْنَا بِرُکْنِکَ الَّذِیْ لَا یُرَامُ، وَأَعِنَّا وَلَا تُعِنْ عَلَیْنَا، وَانْصُرْنَا وَلَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا، وَامْکُرْلَنَا وَلَا تَمْکُرْبِنَا، وَاھْدِنَا وَیَسِّرِ الْھُدیٰ لَنَا، اَللّٰھُمَّ إِلَیْکَ نَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِنَا، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِنَا، وَھَوَانَنَا عَلیٰ النَّاسِ، إِنَّہٗ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ‘‘۔ ترجمہ:’’اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے! یا للہ! ان طاقتوں کو شکست دیدے، یا اللہ! اسلام ، مسلمان اور ان مجاہدین کی مدد فرما،جو تیرے راستے میں زمین کے مشرق و مغرب میں خاص طور پر پاکستان اور اس کے گردونواح میں جہاد کرتے ہیںاور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ یااللہ! ہماری حفاظت فرما، خاص طور پر طلبہ اور علماء کی اور عام طور پر عام مسلمانوں کی اور مدارس و تمام مراکز دینیہ کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے اور خوف کی چیزوں سے ہم کو امن عطا فرما۔اور ہمیں اپنی اس طاقت کی پناہ میں لے جس کاکسی دشمن کی طرف سے بھی ارادہ نہیں کیا جاسکتا، اور ہماری مدد فرما اور ہمارے مقابل کی مدد نہ فرما اور ہم کو فتح دے، ہمارے مقابل کو فتح نہ دے، اور ہمارے مخالف کی مدد نہ فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما، اور ہمارے لئے ہدایت کو آسان فرما۔ یااللہ! ہم آپ ہی کے سامنے اپنی کمزوری ، بے سامانی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی شکایت پیش کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے عذاب سے نجات و پناہ بجز آپ کے کوئی نہیں دے سکتا‘‘۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین