بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات ( پہلی قسط )

 

قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات

                            (پہلی قسط)

بعض غذائی مصنوعات جو کسی غیرمسلم ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں، ان میں کوئی بنیادی یا اضافی ایسا جزء یاعنصر بھی شامل ہوتا ہے جو شرعاً ممنوع ہوتا ہے، مگر وہ جزء اتنا معمولی اور مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے میں اس کی نسبت بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، مثلاً: ہزار لیٹر محلول میں ایک لیٹر الکحل ہو تو اس کی نسبت ہزارواں حصہ بنتی ہے، گویا کہ ہزار قطروں میں ایک قطرہ اور ہزار دانوں میں ایک دانہ حرام کا ہے۔ مجموعے کے مقابلے میں اس قلیل تناسب کی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مصنوعات کا خوردنی استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ یہی اس تحریر کا موضوع ہے۔ دو متضاد نقطہ ہائے نظر اگر مقدار کی اس کمی کو مدنظر رکھیں اور اس کے ساتھ کچھ اور عقلی و نقلی دلائل کا اضافہ کرلیں تو بنظر ظاہر ایسے پروڈکٹ کا خوردنی استعمال جائز ہونا چاہیے، مثلاً: ۱:۔۔۔۔۔ شراب جب بدل کر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق وہ حلال ہوجاتی ہے، حالانکہ ماہرین کے بقول اس میں پھر بھی دو فیصد شراب کے اجزاء باقی رہتے ہیں، مگر شریعت اس مقدار کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس کو حلال تصور کرتی ہے، لہٰذا کوئی پروڈکٹ قلیل حرام پر مشتمل ہو تو اُسے حلال ہونا چاہیے، جیسا کہ سرکہ حلال ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ اگر کسی پروڈکٹ میں کسی جائز یا ناجائز عنصر کی آمیزش بہت کم مقدار میں ہو تو علاوہ صانع کے کسی اور کے لیے اس کا علم بہت مشکل قریباً ناممکن ہے، اس لیے صارف اپنی لاعلمی کی وجہ سے معذور ہے اور بعض صورتوں میں مجبور بھی ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔ صانع کو اس قلیل عنصر کے اظہار پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کسی پروڈکٹ میں کسی عنصر کی مقدار دو فیصد یا اس سے کم ہے تو لیبل پر اس کا اظہار ضروری نہیں۔ ۴:۔۔۔۔۔ جس چیز کو صارف حرام سمجھتا ہو‘ ضروری نہیں کہ وہ شریعت میں بھی حرام ہو، مثلاً: الکحل اگر چار حرام شرابوں میں کسی ایک سے کشید نہیں کیا گیا ہے اور اتنی کم مقدار میں شامل کیا گیا ہے کہ نشہ کی حد تک نہیں پہنچتا تو شرعاً اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ امریکہ میں بھی ایک حلال تصدیقی ادارے ’’افانکا‘‘ نے کسی پروڈکٹ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد الکحل کی اجازت دی ہے۔ ۵:۔۔۔۔۔ صارفین کا عمومی رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ کھوج کرید، چھان پھٹک اور گہرائی میں جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، خصوصاً تحریر کو تو بہت ہی کم ملاحظہ کرتے ہیں۔ بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں پر متعلقہ محکموں نے ضروری قوانین درج کیے ہوتے ہیں، جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ضروری ہدایات پر مشتمل پرچہ ساتھ ہوتا ہے، مگر لاکھوں میں شاید گنتی کے چند ہی اس کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی استثنائی مثال ایسی ہو کہ کوئی صارف احتیاط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس کے لیے حقیقت تک رسائی مشکل ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ابھی صارفین کے حقوق کے لیے یہ قانون نافذ نہیں ہوا ہے کہ پروڈکٹ پر اجزاء کا اندراج لازم ہے، اس لیے متعلقہ قانون کی عدم موجودگی یا اس کی عدم تعمیل کا یہ اثر ہے کہ کمپنیاں مبہم اور مجمل قسم کے الفاظ پروڈکٹ پر درج کردیتی ہیں، مثلاً: فلیور یا مصنوعی رنگ بھی شامل ہے، مگر وہ فلیور اور رنگ کس چیز سے بنا ہے؟ کمپنی اس کو ابہام کے دبیز پردوں میں چھپالیتی ہے۔ اگر کسی پروڈکٹ پر تمام اجزائے ترکیبی درست انداز میں درج ہوں تو خود صارف کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہے اور جب مینوفیکچرر کسی قلیل حرام جزء کے اظہار کا پابند ہی نہیں تو صارف کے لیے باوجود خواہش و جستجو کے اصل حقیقت کا جاننا متعذر ہوجاتا ہے۔  بالفرض اگر وہ تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرلے تو ایک جزء کئی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ اجزاء جس سے ایک جزء مرکب ہے، کیا ہیں؟ اس کی تحقیق ایک حلال تصدیقی ادارے کے لیے تو ممکن ہے، مگر صارف کے لیے نہیں اور حلال تصدیقی ادارے بھی ابھی اپنے سن طفولیت اور عہد ِآغاز میں ہیں، چنانچہ کسی پروڈکٹ کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق معلومات ابھی اتنی آسان نہیں جتنی اور مسائل کے متعلق آسان ہیں۔ حلال تصدیقی ادارے بھی پروڈکٹ کے اضافی مشمولات کے متعلق یا تو اپنی سابقہ معلومات اور تجربات کی بنا پر یا پھر اصل صانعین سے براہِ راست رابطہ کرکے جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اصل صانعین یورپی ممالک ہیں۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، ہالینڈ وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو بڑے پیمانے پر اجزائے ترکیبی اور اضافی غذائی مشمولات تیار کرتے اور برآمد کرتے ہیں اور وہی جانتے ہیں کہ کون سی شئے کن اشیاء سے مرکب ہے۔ ہمارے جوڑیا بازار کا تاجر ہزاروں غذائی اجزاء درآمد ضرور کرتا ہے، مگر پنساری کی طرح ہر ایک کے خواص اور حقیقت اسے بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ۶:۔۔۔۔۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی پروڈکٹ کے تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرنا چاہے تو ایسا اس پروڈکٹ کے کیمیائی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں اور کیمیائی تجزیہ وتحلیل صارف تو درکنار کسی حلال سرٹیفیکیشن باڈی کے لیے بھی ایک مستقل نظم کے طور پر ممکن نہیں، کیونکہ مصنوعات کی کثرت، وسائل کی قلت اور مطلوبہ آلات کی عدم دستیابی سمیت بے شمار وجوہات ایسی ہیں کہ کسی حلال اتھارٹی کے لیے بھی اس معیار پر پروڈکٹ کا جانچنا ممکن نہیں۔ اسلامی ممالک میں سے ملائیشیاکے متعلق شنید ہے کہ اس نے مشکوک پروڈکٹ کے ڈین اے ٹیسٹ کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اقدام شرعی لحاظ سے کیا حکم رکھتا ہے اور اس کے اثرات ومضمرات کیا ہوں گے؟ اگر ہم گفتگو کا رخ اس جانب موڑ دیں تو موضوع سے دور جانکلیں گے۔ سردست مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اس رخ سے دیکھیں سرکہ میں قلیل الکحل ہوتا ہے، مگر اس کا استعمال جائز ہے، نیز جو چیز قلیل مقدار میں شامل کی گئی ہو تو اس کا ظاہر کرنا ضروری نہیں ۔مزید یہ کہ صارف کے لیے ازخود تحقیق بہت ہی مشکل ہے اور عام علماء اوراہل افتاء کو ابھی فقہ الحلال میں اتنی ممارست نہیں کہ پوچھتے ہی چھوٹتے جواب دے دیں۔ اس کے علاوہ شریعت میں قلیل ومغلوب معاف ہوتا ہے اور شریعت کا عمومی مزاج بھی یسر وسہولت کا ہے۔ ان پہلوؤں پر سوچنے سے ذہن یہ بنتا ہے کہ کسی چیز میں حرام جزء بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر استعمال کیا گیا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر: عدم جواز کا پہلو ۱:۔۔۔۔۔ اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ایسی مصنوعات کا استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حرام حرام ہے، اگر چہ مقدار میں کم ہواور تھوڑا حرام بقیہ حلال کو بھی حرام بنادیتا ہے، جیساکہ سو قطرے گلاب کو ایک بوند پیشاب کا ناپاک کردیتا ہے یا درسی زبان میں یوں کہہ لیں کہ نتیجہ  اخص واَرذل کے تابع ہوتا ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ ہم ایسی مصنوعات کے استعمال پر مجبور بھی نہیں ہیں۔ حرام کا شیوع ضرور ہے، مگر حلال بھی دنیا سے معدوم نہیں ہوا ہے اور اگر مجبور ہوئے تو شریعت کا قانونِ ضرورت موجود ہے۔ قانونِ ضرورت کے تحت مجبور حضرات کو تو گنجائش مل سکتی ہے، مگر عام لوگوں کو اجازت نہیں ہوسکتی۔ ۳:۔۔۔۔۔ قلت و کثرت اور غالب و مغلوب کی دلیل بھی زیادہ معقول نہیں، کیونکہ مدار قلت اور کثرت پر نہیں بلکہ اہمیت اور ضرورت پر ہونا چاہیے۔ بسا اوقات کوئی چیز مقدار میں کم مگر کردار میں بہت اہم ہوتی ہے، جیسا کہ نمک کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر ذائقے کا مدار اس پر ہوتا ہے اور کبھی کوئی جزء قلیل ہوتا ہے، مگر وہی اہم عنصر، پروڈکٹ کی جان اور استعمال سے مطلوب ہوتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں بھی اس فلسفے پر عمل کیاجائے گا کہ جس جزء کا تناسب بہت کم ہو اس کے استعمال کی اجازت ہے؟ جواز کی حقیقی علت ان اختلافی دلائل اور متضاد پہلوؤں کے بعد ہم حل کی طرف بڑھتے ہیں۔ اگر ہم غالب اور مغلوب کے اصول کو لیں اور یوں کہیں کہ جب حلال کو غلبہ اور اکثریت حاصل ہو تو غالب اور اکثر کا اعتبار کرتے ہو ئے پروڈکٹ کو حلال ہونا چاہیے تو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، کیونکہ جب حلال اور حرام جمع ہوتے ہیں تو غلبہ حرام کو حاصل ہوتا ہے: ’’إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘ مشہور قاعدہ ہے۔ لہٰذا غالب اور مغلوب کا قاعدہ اس بحث میں مفید نہیں ہوسکتا، البتہ ایک دوسرے پہلو سے ایسی مصنوعات کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کا عمومی مزاج یسر اور سہولت کا ہے۔ جب تنگی اور مشقت عمومی نوعیت کی ہو اور اس میں ابتلاء عام اور بچنا مشکل ہو تو پھر شریعت بڑی وسعت اور سخاوت کے ساتھ اور بہت فیاضی اور کشادہ دلی سے گنجائش پر گنجائش دیتی ہے۔ اس کے ساتھ شریعت کایہ بھی قاعدہ ہے کہ: ’’القلیل مغتفر‘‘ یعنی ’’قلیل مقدار معاف ہے۔‘‘(۱) متذکرہ قاعدہ کے ہم معنی یہ قواعد بھی ہیں: ’’ القلیل کالمعدوم‘‘ یعنی ’’تھوڑا گویا نہ ہونا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’الیسیر تجری المسامحۃ فیہ‘‘ یعنی ’’تھوڑے سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور اِغماض برتا جاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’الیسیر معفو عنہ‘‘ یعنی ’’تھوڑا نظر انداز کردیا جاتا ہے۔‘‘ ان ملتے جلتے قواعد کے علاوہ مختلف فقہی ابواب میں بھی شریعت قلیل مقدار کو نظر انداز کردیتی ہے، مثلاً: ۱:- کپڑوں پر سوئے کے ناکے کے برابر پیشاب کی چھینٹیں لگی ہوں تو وہ معاف ہیں۔ ۲:- نماز کے دوران قبلہ سے معمولی انحراف ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے۔ ۳:- دورانِ نماز ستر معمولی طور پر کھل جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ۴:- معمولی تاخیر سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔ ۵:- عمل قلیل نماز میں معاف ہے۔ ۶:- روزے میں اگر بہت معمولی چیز حلق میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹتا نہیں۔ ۷:- زکوٰۃ میں دو نصابوں کے درمیان کی مقدار معاف ہوتی ہے۔ ۸:- بیع میں اگر ایجاب اور قبول میں معمولی وقفہ ہو تو شریعت پھر بھی ایجاب کا قبول کے ساتھ اتصال مانتی ہے۔ ۹:- یمین سے استثنا کرتے وقت اگر کھانسی وغیرہ کے عذر سے معمولی تاخیر ہوجائے تو شریعت اس تاخیر کو تاخیر نہیں سمجھتی۔ ۱۰:- مبیع ،ثمن اور مدت میں معمولی جہالت معاف ہے۔ ۱۱:- اجارہ میں اگر مدتِ اجارہ کے اندر معمولی جہالت ہو اور عام طور پر گوارہ کرلی جاتی ہو تو اس سے عقد ِاجارہ فاسد نہیں ہوتا۔ ۱۲:- مبیع میں اگر معمولی عیب ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔ ۱۳:- غبن یسیر اور غررِ یسیر بھی معاف ہے۔ ۱۴:- قربانی کے جانور میں معمولی عیب معاف ہوتا ہے۔ ۱۵:- مردوں کے لیے ریشم کی قلیل مقدار کا استعمال جائز ہے۔ ۱۶:- جانور ذبح کرتے وقت اگر تسمیہ اور ذبح میں معمولی فصل آجائے تو اس سے جانور مردار نہیں ہوتا۔ ۱۷:- وقف جائیداد کو اجرتِ مثل پر دینا ضروری ہے، لیکن اجرتِ مثل سے معمولی کمی جائز ہے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ قلیل مقدار معاف کردیتی ہے، اس لیے غذائی مصنوعات میں اگر بہت قلیل مقدار میں غیر شرعی عنصر شامل ہو تو اُسے معاف ہونا چاہیے۔ قلیل سے متعلق ضروری تنقیحات ۱:۔۔۔۔۔اگر اس نظریے کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ مصنوعات میں قلیل مقدار حرام کی شمولیت معاف ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ قلیل سے مراد کیا ہے اور کس قدر قلیل معاف ہے؟ کیونکہ قلیل کا کوئی لگا بندھا اور طے شدہ معیار نہیں۔ معاملات میں قلیل کچھ ہے تو ماکولات و مشروبات میں کچھ اور۔ فعل اور عمل کے لیے قلیل کی جو کسوٹی ہے وہ قدر اور مقدار کے لیے نہیں۔ حقوق العباد میں قلیل کا معیار جتنا سخت اور کڑا ہے، حقوق اللہ میں اتنا ہی نرم اور لچک دار ہے۔ پھرایک ہی مقدار ایک معاملہ میں قلیل سمجھ کر نظر انداز کی جاتی ہے تو دوسرے معاملے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاتی، مثلاً: لوہے اور مٹی وغیرہ کے لین دین کے وقت کلو اور من کو بھی کم سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے، لیکن سونے کی خرید و فروخت ہو تو رَتی رَتی کا حساب کیا جاتا ہے، خود شریعت نے کسی جگہ چوتھائی اور کبھی تہائی اور بعض اوقات نصف سے کم کو قلیل کہا ہے۔جب قلیل کا کوئی ایسا متعین اور لگا بندھا معیار نہیں جو تما م ہی مسائل میں اصل اور بنیاد کا کام دے سکے تو سب سے پہلے ہمیں غذائی مواد کے سلسلے میں قلیل کا معیار طے کرنا چاہیے۔ ۲:۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ شریعت کسی چیز کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے۔ عین ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے کہ ایک ہی شئے کا خوردنی اور داخلی استعمال تو ناجائز ہو، مگراس کا بیرونی اور خارجی استعمال جائز اور حلال ہو، جیسا کہ حشرات الارض سمیت ایسی اشیاء جو پاک ہوں مگر حلال نہ ہوں تو ان کا خوردنی استعمال ناجائز اور خارجی استعمال جائز ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں داخلی اور خارجی استعمال کافرق بھی روا رکھنا ہوگا۔ ۳:۔۔۔۔۔ یہ سوال کہ حرام کے امتزاج اور آمیزش کے بعد کسی چیز کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ صرف اور صرف صارف کے نقطہ نظر سے ہے۔ صانع کے پہلو سے مسئلے کی مختلف صورتیں ہوں گی جن کے احکام علیحدہ ہوں گے، البتہ ایک عمومی اصول کے طور پر حرام کی قصداً آمیزش جائز نہیں۔ ۴:۔۔۔۔۔  یہ تمام بحث اس بنیاد پر ہے کہ کسی چیز میں حرام موجود ہو، لیکن بہت کم مقدار میں ہو، لیکن اگر حرام‘حرام نہ رہے، بلکہ بدل کر حلال ہوجائے، جیسا کہ انقلابِ ماہیت کی صورت میں ہوتا ہے تو قلیل وکثیر کی ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کیمیائی عمل کے نتیجے میں غذائی مواد کے ماہرین اور اہل فتویٰ حضرات قرار دیں کہ قلب ماہیت کے باعث مصنوع میں شامل کوئی حرام جزء بدل گیا ہے تو وہ پورا پروڈکٹ حلال کہلائے گا۔ ۵:۔۔۔۔۔ آخری نکتہ جو آگے بڑھنے سے پہلے ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت کے قانونِ ضرورت کے تحت اگر کسی مجبور یا بیمار شخص کو حرام استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ صورت ہماری گفتگو سے خارج ہے، کیونکہ ضرورت کے اصول کچھ اور ہیں۔ حواشی ومراجع ۱:…’’القلیل مغتفر ‘‘ کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے:’’التطبیقات الفقہیۃ لقاعدۃ الیسیر مغتفر فی البیوع‘‘ مؤلف ھاکی بن محمد کانوریتش۔ موضوع کے متعلق مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: مفتی سفیر الدین ثاقب صاحب کا مقالہ:’’وہ مصنوعات جن میں قلیل مقدار میں حرام شامل ہو‘‘ متذکرہ مقالہ راقم کے پیش نظر رہا ہے اور اس سے بھرپور استفادہ کیا ہے ،جس پر احقر اس کے مؤلف کا شکر گزار ہے۔                                                                                                                         (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین