بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قسطوں پر جانور خریدنے کا حکم!

 

قسطوں پر جانور خریدنے کا حکم!

    کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ:      میرا بھینسوں کا ڈیری فارم ہے، اس ڈیری فارم میں دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے بعض اوقات ہمیں بھینسوں کی خریداری کے لیے سرمایہ دار کی مدد لینی پڑتی ہے۔ اس کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مثلاً: سات لاکھ کی چھ عدد بھینسیں خرید کر سرمایہ دار کو ساڑھے سات لاکھ پانچ یا چھ اقساط میں ادا کیے جاتے ہیں اور یہ سارا معاملہ پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں:     ۱…بعض سرمایہ دار نقد رقم ہمیں ادا کردیتے ہیں اور خریداری ہم اپنے طور پر کرتے ہیں۔     ۲…بعض سرمایہ دار منڈی کے ٹھیکے دار کو رقم آن لائن کے ذریعے ادا کردیتے ہیں، ٹھیکے دار بروکر کو ادا کرتے ہیں اور بروکر بھینسیں خرید کر ہمیں بھجوا دیتے ہیں۔     ۳…بعض سرمایہ دار ہمارے ساتھ منڈی جاکر بھینسیں خرید کر دیتے ہیں۔     ۴…بعض سرمایہ دار منڈی سے اپنے طور پر بھینسیں خرید کر ہمیں بھجوا دیتے ہیں اور خرید کی رقم مکمل خرچے سمیت بتاکر چھ یا سات اقساط میں منافع سمیت رقم واپس لیتے ہیں۔     مہربانی فرماکر راہ نمائی فرمائیں کہ ان میں کونسا طریقہ بہتر اور سود کے شبہ میں نہیں۔ شکریہ                                                                         مستفتی:برکت علی ناگوری الجواب باسمہٖ تعالٰی     صورتِ مسئولہ میں کاروباری معاہدے کی جو صورتیں درج کی گئی ہیں، ان کے احکام مختصراً یہ ہیں:     ۱:…یہ صورت ناجائز ہے، اس میں قرض کے اوپر بلاعوض زیادتی وصول کرنا ہے جو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔(۱)     ۲:…اس صورت میں تفصیل یہ ہے کہ اگر بروکر بھینس سرمایہ دار کی طرف سے خریدکر ڈیری فارم والوں کو کچھ منافع کے ساتھ دیتا ہو تو یہ صورت جائز ہے۔(۲) اس صورت میں ڈیری فارم والوں کے لینے سے پہلے پہلے کا ضمان سرمایہ دار پر ہوگا، یعنی ہلاک ہونے کی صورت میں وہ ذمہ دار ہوگا۔     لیکن اگر سرمایہ دار ڈیری فارم والوں کے کہنے پر ان کی طرف سے رقم ادا کرتا ہے، آگے کا ذمہ دار نہیں ہوتا تویہ صورت بھی سودی لین دین پر مشتمل ہوگی۔ (۱)     ۳:…اس صورت میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر سرمایہ دار بھینس خود خرید کر اپنی ملکیت میں لے کر ڈیری فارم والوں کو دیتا ہے تو درست ہے۔ (۲) اور اگر ڈیری فارم والوں کی طرف سے صرف رقم ادا کرتا ہے، اصل خریدار ڈیری فارم والے ہوتے ہیں تو یہ صورت ناجائز ہے۔ (۱)     ۴:…یہ صورت درست ہے، بشرطیکہ سرمایہ دار کے خریدنے کے بعد ڈیری فارم والوں کو اس کے لینے اور نہ لینے کا اختیار ہو۔ اگر ڈیری فارم والوں کو مذکورہ اختیار حاصل نہ ہو اور وہ سرمایہ دار سے لینے پر مجبور ہوں تو یہ صورت بھی درست نہیں۔ (۳) ۱:-فتاویٰ شامی میں ہے: ’’کل قرض جر نفعاً حرام أی إذا کان مشروطًا‘‘۔ (۵/۱۶۶،ط:سعید) ۲:-فتاویٰ شامی میں ہے: ’’المرابحۃ ۔۔۔ بیع ما ملکہٗ ۔۔۔ بما قام علیہ وبفضل مؤنۃ ۔۔۔ ثم باعہ مرابحۃ علی تلک القیمۃ جاز۔ (باعہٗ مرابحۃ) أی بزیادۃ ربح علی تلک القیمۃ التی قوم بہا الموہوب ونحوہٗ مع ضم المؤنۃ إلیہا لأن کلامہٗ فی ذٰلک بخلاف ماکان اشتراہ بثمن فإنہٗ یرابح علی ثمنہٖ لاعلٰی قیمتہٖ‘‘۔        (۵/۱۳۴،ط:سعید) ۳:-امداد الفتاویٰ میں ہے:     ’’سوال (۳۴) عمرو نے زید سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگا دو، میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کرلوں گا یا جس قدر مدت کے واسطے تم دوگے، اسی حساب سے منافع دوں گا۔ الخ     الجواب: ا س میں دو مقام قابل جواب ہیں: ایک یہ کہ زید وعمرو میںجو گفتگو ہوئی یہ وعدۂ محضہ ہے، کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں۔ اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردے تو زید کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں، پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے، ورنہ حلال۔‘‘ (امداد الفتاویٰ، ج:۳، ص:۴۰، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)                              فقط واللہ اعلم       الجواب صحیح         الجواب صحیح                           کتبہ محمد عبد المجید دین پوری     شعیب عالم                          عبد الحمید                                     دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین