بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن اور دورِ حاضر

قرآن اور دورِ حاضر

    بلاشبہ ہر زمانہ کی ہر قوم میں نوجوان مستقبل کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ آج نوجوانوں کے سامنے سب سے اہم سوال اپنے مقصدِ زندگی کے تعین کا ہے، چناں چہ اس سلسلہ میں تعلیم قرآن کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات میں آگاہی بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو اپنی جگہ ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے۔ اور بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ معرفت الٰہیہ یعنی اپنے خالق و مالک کی پہچان ہماری زندگی کا مقصدو محور ہے، اس لیے ہمیں رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ معرفتِ الٰہیہ کے حصول کی بھی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ اسی سے ہم اپنے مقصدِحیات کو پاسکتے ہیں۔ فارسی کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے: روحِ پدرم شاد کہ او گفتہ بہ استاد

فرزند مارا عشق بیاموز ودیگر ہیچ! ’’ میرے باپ کی روح شاد رہے کہ اس نے میرے استاذ سے کہا تھا، میرے فرزند کو بس عشق سکھا دیں اور کچھ نہیں!۔‘‘     اب معرفتِ الٰہیہ کا حصول کیسے ہو؟ اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام کی صورت میں ایک شان دار تحفہ عطافرمایا ہوا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے پاس اور جتنی بھی دیگر نعمتیں ہیں، مثلاً ہماری یہ زمین، آسمان، چاند ستارے اور خود ہمارا اپنا وجود، یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں،جبکہ قرآن کریم وہ نعمت ہے جو جمہور امت کے نزدیک اللہ کی مخلوق نہیں، بلکہ خود اس کی ذات و صفات کاایک حصہ اور مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں قرآن کریم کو ’’حبل اللّٰہ المتین‘‘ یعنی اللہ کی ایک مضبوط رسی سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا‘‘ میں بھی’’حبل اللّٰہ‘‘ کی تفسیر مفسرین نے ’’کلام اللہ ‘‘ سے ہی کی ہے۔ اب اگر کوئی شخص آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہونا اور معرفتِ الٰہیہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا ذریعہ قرآن کریم ہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ قرآن سے وابستہ ہوگا،اتنی ہی وابستگی اُسے اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوجائے گی۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ لازوال ابدی و آفاقی کلام ہے جو ہر دور کے انسان کی جملہ روحانی ومادی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کچھ نعمتیں ایسی ہیں جن کی اہمیت و افادیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی، مثلاً پانی کو ہی لے لیجئے،حضرت انسان نے اپنے ذوق کی تسکین کے لیے طرح طرح کی مشروبات بنائی ہوئی ہیں، لیکن پانی کی ضرورت و افادیت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح آج سے ہزاروں سال پہلے تھی۔ اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ آکسیجن ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی کے باوجود کوئی چیز آکسیجن کی متبادل نہیں بن سکتی۔ بالکل اسی طرح قرآن کریم بھی انسان کی روحانی زندگی کی وہ ضرورت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے اور کسی بھی دور میں اس کی اہمیت و فادیت کم نہیں ہوسکتی۔ آج کوئی بھی شخص صبح اُٹھ کر جب قرآن کریم کی تلاوت اور اس میں تدبرکرتا ہے تو اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کلام آج ہی اس کے آج کے مسائل کے حل کے لیے اُترا ہے۔      آج کا دور عالمگیریت کا دور کہلاتا ہے، جبکہ قرآن کریم کا پیغام بھی عالم گیر و آفاقی ہے۔ قرآن انسانیت کو ’’اے لوگو!‘‘ اور’’ اے بنی آدم!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے جس میں ہر خطے، ہر زبان اور ہر رنگ کے لوگ شامل ہیں۔ قرآن ہر دور کی کتاب ہے۔افلاطون‘ الٰہیات،فلکیات اور تخلیق کائنات سے متعلق اپنے جن شہرہ آفاق نظریات و خیالات کی وجہ سے ’’افلاطون‘‘ کہلاتا ہے اور ارسطو کو جن باتوں کی وجہ سے’’ ارسطو‘‘ کہا جاتا ہے، وہ نظریات اور باتیں آج اگر میٹرک کے کسی بچے کے سامنے بھی بیان کی جائیں تو وہ ان میں سے بیشتر باتوں کو جھٹلادے گا اور ان پر ہنسے گا، کیونکہ سائنس کے ارتقاء نے ان باتوں کو کلی اور حتمی طور پر غلط ثابت کردیا ہے، مگر قرآن کریم نے انہی مشکل ترین موضوعات سے متعلق جو حقائق آج سے چودہ سو سال قبل بیان کیے تھے،وہ آج بھی نہ صرف اپنی حقانیت کو منوارہے ہیں، بلکہ انسانیت کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔      ’’قرآن اور سائنس‘‘ ایک مستقل موضوع ہے جس پر بات کرنا یہاں مقصود نہیں ہے،ہرنئے سائنسی نظریے کے لیے قرآن سے موافقت تلاش کرنے کے علمی طرزِ عمل پر کلام بھی کیا جاسکتا ہے، مگرمیں صرف ایک بات کی طرف توجہ مبذول کرواناچاہتا ہوں کہ تخلیقِ کائنات سے متعلق سائنس کا جو تازہ ترین اور مقبول ترین نظریہ ہے،جسے ’’Big Bang‘‘کا نظریہ کہا جاتا ہے،اس سے آگاہی رکھنے والاسائنس کا طالب علم جب قرآن پڑھتا ہے تواُسے اس نظریے کی قرآن کریم کی اس آیت سے حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے کہ:’’ کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین ’’منہ بند‘‘ تھے، پھر ہم نے ان کوکھول دیا!‘‘ (الانبیائ:۹۷) گویا کہ آج کی سائنس نے صدیوں کے ارتقاء کا سفر طے کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے،اس کی طرف قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے رہنمائی کی تھی۔ بات صرف سائنس تک محدود نہیں ہے‘ سیاست،معیشت، معاشرت اور سماجیات سے متعلق چند باتیں ایسی ہیں جو آج بین الاقوامی سطح پر’’ مسلمہ ‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں، مثلاً: انسانیت‘ تاریخ کے تلخ ترین تجربات اور ہر طرح کی بادشاہتوں، آمریتوں اور شخصی و گروہی حکمرانیوں کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد اس بات پر اتفاق کر چکی ہے کہ ملکوں اور قوموں کے فیصلے’’ اجتماعی دانش‘‘ سے کرنا ہی بہترین سیاسی نظام ہے۔ اسے جمہوریت کہہ لیں یا کچھ اور نام دیں، تعبیر اور تشریح میں فرق ہوسکتا ہے، مگردنیا کی بیشتر قوموں نے اسے ہی ایک بہتر سیاسی نظام قرار دے کر اپنایا ہوا ہے۔ قرآن کریم آج سے چودہ سو سال پہلے صرف تین لفظوں میں اس مسئلے کو حل کرچکا ہے کہ’’وَأَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘‘(الشوریٰ) یعنی’’ مسلمانوں کا’’امر‘‘ باہمی مشاور ت سے طے ہوتا ہے۔‘‘ عربی زبان جاننے والے واقف ہیں کہ عربی محاور ے میں’’ امر‘‘ عام طور پر نظم مملکت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح آج کی دنیا کا ایک مسلمہ یہ ہے کہ دنیا میں نسلی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ رنگ، نسل، زبان کی بنیاد پر کسی انسان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم نے صدیوں پہلے ہر قسم کے نسلی امتیاز کا قلع قمع کردیا تھا، سورۂ حجرات(آیت نمبر:۱۳) میں فرمایا گیا کہ:’’ اے آدمیو!ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے، تاکہ تمہارے آپس کی پہچان ہو، تحقیق عزت اللہ کے ہاں اس کی بڑی ہے جس میں تقویٰ زیادہ ہو،یقینا اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘     آج کی دنیا میں ایک بات یہ بھی زور دے کرکہی جاتی ہے کہ انسانوں کے درمیان صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہیے، یعنی مردوں اور عورتوں میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ صنفی مساوات کے مفہوم اور مقصد سے متعلق جو خلطِ مبحث کیا جاتا ہے،اور خاص طور پر مغرب نے آزادیِ نسواں کا جوتصورپیش کیا ہے،وہ بجائے خود حیرتوں اور تضادات کا ایک باب ہے، مگر اسلام نے مرد اور عورت کے دائرۂ کارکو الگ الگ رکھتے ہوئے دونوں کو اپنی ا پنی جگہ پر برابر حقوق دیے ہیں۔ سورۃ النحل آیت نمبر:۷۹میں واضح ارشاد ہے:   ’’جس نے کیا نیک کام مرد ہو یا عورت ہو اور وہ ایمان پر ہے تو اس کو ہم دیں گے ایک اچھی زندگی اوربدلے میں دیں گے حق ان کو بہتر کاموں پر جو وہ کرتے تھے۔‘‘     یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا،احادیث میں آتا ہے کہ اسی زمانے میں کچھ مسلمان خواتین نے یہ سوال اٹھایا تھا( خواتین اپنے حقوق کے بارے میں ہمیشہ سے حساس واقع ہوئی ہیں) کہ قرآن کریم میں مذکر کے صیغے سے مردوں کو مخاطب کیا جاتا ہے،ہم عورتوں کا ذکر نہیں آتا، حالانکہ اُصولاً یہ سوال بنتا نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں ہر طرح کے حکم نامے مذکر کے صیغوں میں ہی جاری کیے جاتے ہیں اور عورتیں اس میں شامل ہی ہوتی ہیں، مگر قرآن کریم نے قیامت تک آنے والی خواتین کو اس ’’اشکال‘‘ سے بچانے کے لیے ایک لمبی آیت نازل کی، جس میں مومنین کے ساتھ مومنات، مسلمین کے ساتھ مسلمات، صالحین کے ساتھ صالحات، صابرین کے ساتھ صابرات و غیرہ کا تذکرہ کرکے دونوں کے لیے برابر کے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال و اخلاق کی میزان میں دونوں کے کردار کو برابر کا درجہ حاصل ہے۔     اسی طرح آج دنیا سرمایہ داریت اور سودی معیشت سے تنگ آچکی ہے، جبکہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے سود ی معیشت کو انسانیت کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ہر دور کی طرح دورِ حاضر کی بھی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جتنی جلد انسانیت اس حقیقت کو پالے گی، امن و سکون بھی حاصل کرسکے گی۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین