بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآنی رسم الخط!

قرآنی رسم الخط!

علماء محققین وماہرین نے قرآن کریم کی قراء تِ صحیحہ و غیر صحیحہ کے درمیان فرق اور امتیاز کے لیے جو بنیادی اصول وارکانِ ثلاثہ مقرر کردئیے ہیں، ان میں سے ایک بنیادی رکن مصاحف عثمانی میں سے کسی ایک مصحف کے رسم کے ساتھ موافقت بھی ہے ، اب یہ موافقت ظاہراً ہو یااحتمالاً یا تقدیراً۔سیدنا حضرت عثمان غنی q (شہادت۳۲ہجری)نے جو پانچ (یا سات اور ایک قول پر آٹھ) مصاحف لکھوائے تھے، اُن میں سے کسی ایک مصحف میں وہ قراء ت لکھی ہوئی ہو، چاہے سارے مصاحف میں نہ بھی ہو۔ دوسرے دو اَرکان یہ ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو ۔۲:۔۔۔۔۔ صحیح اور متصل سند سے ثابت ہو ۔ یہاں اصل موضوع کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ صرف ’’خط‘‘ اور ’’رسم الخط‘‘ میں بہت فرق ہے۔ ’’خط‘‘ کے معنیٰ تو یہ ہیں کہ کسی کلمے کو اس کے ان حروف ہجاء سے لکھنا جو اس پر وقف اور ابتداء کے وقت پائے جاتے ہیں، جبکہ ’’رسم الخط‘‘ کے معنی ہوں گے ’’قرآنی کلمات کو حذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر صحابہ کرامs کا اجماع ہے اور وہ پیغمبرa سے بتواتر منقول ہے۔ ’’خط‘‘ اور ’’رسم الخط‘‘ کے فرق کو ذہن نشین کرنے کے لیے ذیل میں دی گئی مثالوں پر غور کریں تو آسانی ہوگی: ۱:۔۔۔ العٰلمینَ        ۲:۔۔۔الرحمٰن           ۳:۔۔۔الصٰلحٰت        ۴:۔۔۔ ہٰؤلآء        ۵:۔۔۔ من نبایِٔ المرسلین  مذکورہ کلمات کا موجودہ خط رسم عثمانی کے موافق ہے، کیونکہ ان میںالف محذ وف الرسم ہے، لکھا ہو ا نہیں ہے، لہٰذا اس میں ’’خط‘‘ اور ’’رسم الخط‘‘ دونوں موجود ہیں، لیکن اگر ان ہی کلمات کو درج ذیل طریقہ پر لکھیں: ۱:۔۔۔ اَلعالمین      ۲:۔۔۔الرحمان      ۳:۔۔۔الصالحات      ۴:۔۔۔ ھآأُلاء       ۵:۔۔۔من نبائِ المرسلین  اب ان میں خط (کتابت)تلفظ کے موافق ہے، مگر رسم عثمانی کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ ان میں الف مرسوم (لکھا ہوا )ہے، لہٰذا یہاں ’’خط‘‘ تو ہے، مگر ’’رسم الخط‘‘ نہیں ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن مجید کا یہ رسم الخط توقیفی وسماعی ہے، یعنی پیغمبرa سے مسموع اور آپ a ہی کے اَمرو املاء سے ثابت و منقول ہے اور لوح محفوظ کی ہیئتِ کتابت اور رسم الخط کے مطابق ’’منزل من اللہ‘‘ ہے جس میں رائے اور قیاس کا ذرا بھی دخل نہیں ہے۔ ’’خطان لایقاسان خط القوافی و خط القرآن‘‘ لہٰذا اس کی اتباع اور موافقت بہرصورت واجب ہے اور مخالفت حرام ہے، محققین علماء کا یہی فیصلہ ہے، چنانچہ علامہ برہان الدین ابو اسحٰق ابراہیم بن عمر الجعبری v(۷۳۲ھ)لکھتے ہیں: ’’رسم المصحف توقیفاً ہو مذہب الأربعۃ۔ ‘‘(شرح العقیلۃ ) کتب تواریخ وتراجم بتاتی ہیں کہ جناب رسالت مآبa کے دور سعادت میں وہ صحابہ کرامs جو معروف بالکتابت تھے اُن کی کل تعداد چھپن تھی، ان کو عموماً پانچ قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱:۔۔۔۔۔ کاتبین نبی ؐ  ، یعنی وہ حضرات صحابہ ؓ جن سے آ نحضرت رسول مقبولa قرآنی آیات اور خطوط نویسی کا کا م لیتے تھے، ایسے حضرات چونتیس شمار کیے گئے ہیں۔ ۲:۔۔۔۔۔ کاتبین جامعین ، یعنی وہ حضرات صحابہ ؓ جو بذات خود قرآن کریم کو بذریعہ تحریر وکتابت جمع فرماتے تھے، یہ چھ ہیں ۔ ۳:۔۔۔۔کاتبین مصاحف ، وہ حضرات صحابہ ؓ جو مصاحف عثمانی کی کتابت میں شریک رہے، یہ تین ہیں۔ ۴:۔۔۔۔کاتبین حدیث ، وہ حضرات صحابہؓ جو وحی خفی یعنی احادیث نبوی کے تحریر کرنے اور کتابت کرنے کا خاصا اہتمام فر ماتے تھے ، ان کی تعداد سات ہے ۔ ۵:۔۔۔۔کاتبین محض، وہ حضرات جو طرز اور تحریر کے اسلوب سے بخوبی آگاہ تھے، ان کی تعداد چھ ہے۔ اس طرح گویا تمام حضرات کاتبین صحابہ ؓ کی کل تعداد چھپن ہے۔ زمانہ اسلام سے بہت پہلے عرب میں علم الانساب اور شعر وشاعری کا بہت چرچا تھا جو قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا، مگر یہ سب محض زبانی وکلامی تھا ، چونکہ عرب قوم کے حافظے بھی عموماً حیرت انگیز طور پر قوی ہوتے تھے ، لہٰذا اسی پر سب کا دارومدار تھا ،تحریر کا رواج نہیں تھا، نہ حرف شناسی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے قبیلہ بنی طلحہ کے تین افراد مرامر بن مرہ، اسلم بن سدرہ، اور عامر بن جدرہ نے کتابت نسخ کی بنیاد ڈالی، انہوں نے قدرتی ذکاوت کی بنیاد پر یکجا ہوکر حروف کی شکل اور وضع قراردی اور حروف تہجی کو سریانی زبان کی ترتیب پر مرتب کیا، جب یہ اس کام سے فارغ ہو چکے اور حروف کے نقوش اور ان کی صورتوں کی باہمی ترتیب پر قدرت حاصل ہوگئی تو پھر حیرہ کے باشندگان نے باضابطہ اس فن کو ان سے سیکھا، انہی حیرہ والوں کا ایک شاگرد بشیر بن ولید (جو دو مۃ الجندل کا رئیس تھا) زیارت کعبہ یا کسی اور غرض سے مکہ مکرمہ آیا تو وہاں حضرت ابوسفیانq کی بہن صہبابنت حرب سے نکاح کرلیا، پھر حضرت ابوسفیان بن حربq (والد حضرت امیر معاویہq) سے ملا، انہوں نے بشیر سے فن کتابت سیکھنے کی درخواست کی، چنانچہ حضرت ابوسفیانؓ اور ابوقیس بن عبد مناف یہ دو شخص مکہ میں بشیر کے شاگردبنے، بعد ازیں انہوں نے اہل طائف کو تحریر سکھائی اور قریش کے دیگر قبائل بھی رفتہ رفتہ اس فن کو سیکھتے گئے، اس طرح فن کتابت کا عرب اور حجاز کے اکثر قبائل میں رواج ہوگیا۔ مدینہ منورہ میں قبل از اسلام تحریر وکتابت رائج ومتعارف ہونا شروع ہو گئی تھی، انصار اپنے قصائد واشعار بذریعہ کتابت قلم بند کرنے لگے تھے ۔ خط عربی (حمیری)نے تبابعہ کے دور میں ترقی پائی ، پھر ان کے ختم ہونے کے بعد آل منذر یعنی سلاطین حیرہ کے ہاں فن کتابت کا رواج ہوا، کیونکہ یہ تبابعہ کے قرابت دار تھے، پھر حیرہ کی شاگردی قریش اور اہل طائف نے اختیا ر کی ۔جب سلطنت عرب کا دامن وسیع ہونے لگا اور بصرہ وکو فہ کو دارالخلافہ ہونے کا شرف حاصل ہوا، تو اب ظاہر ہے کہ والیان حکومت وارکان سلطنت کو فن کتابت کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور ارکانِ دولت کی سرپرستی کی بدولت اس میں مزید چارچاند لگ گئے اور بڑی حد تک اس میں اصلاحات ہوئیں، چنانچہ خط کوفی آج تک مشہور چلا آرہاہے ۔ عرب کی حدودِ سلطنت بڑھتے بڑھتے جب افریقہ اور اندلس تک جاپہنچیں اور وہاں اسلام کا جھنڈا لہرایا اور بنو عباس نے بغداد کی داغ بیل ڈالی، بغداد چونکہ سلطنت عرب کا مرکز اور دارالاسلام تھا، اس وجہ سے فن کتابت نے یہاں بہت نمایاں ترقی کی،غالباً اسی وجہ سے بغدادی رسم الخط بہت معروف رہا، حتیٰ کہ افریقہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ، البتہ اندلس میں بنو امیہ نے اپنے خط کو دیگر صنائع کی طرح بہت ہی ممتاز اور جدا کرلیا۔ پھر جب سلطنتِ اسلامیہ تنزل اور زوال کا شکار ہوئی تو خط وکتابت ہی نہیں تمام علوم وفنون نے اپنا منہ موڑ کر رخ تبدیل کرلیا اور مصر وقاہرہ میں جاکر اس کو عروج حاصل ہوا ۔ کتابت وتدوین قرآن عموماً قرآن کریم کی کتابت وتدوین کونمایاں طور پر تین ادوار میں تقسیم کردیا گیا ہے : ۱:۔۔۔۔۔پہلا دور، دورِ نبوی(l) نزولِ وحی کے وقت جب کوئی آیت یا آیات و سورت نازل ہوتی تھیں تو آنحضرت پاکa اُسے حضرت زید بن ثابت q وغیرہ کو بلا کر لکھوادیتے تھے، یہ حضرات کاتبین وحی اسے کبھی ہڈی پر، کبھی کھجور کی ٹہنی یاچھال پر اور کبھی پتھروں کی ہموار تختی پر لکھ لیا کرتے تھے، اس طرح پورے کا پورا قرآن مجید پیغمبرa کے دور مبارک ہی میں پورا ہوگیا تھا ، تاہم اُس وقت اکثر دارومدار حفظ صدری پر تھا، عموماً صحابہ کرام s بغیر دیکھے صرف سن کر خداداد قوت حافظہ کی بدولت اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے۔ ۲:۔۔۔۔۔ دوسرادور ،دورِ صدیقی پیغمبرaکی وفات کے بعد سلسلہ وحی منقطع ہونے کی بنا پر درمیانی اضافہ جات کی گنجائش باقی نہ رہی ، قرآن کریم جو اَب تک باضابطہ طور پر کتابی شکل میں مجتمع اور یکجا حالت میں نہیں تھا، دور صدیقی میں یکجا کردیا گیا، جس کا مختصر پس منظر یہ تھا کہ سید نا ابوبکرq کے عہد خلافت راشدہ میں یمامہ کے مقام پر حضرت خالد بن ولیدqکی سرکردگی میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں شہدائے اسلام کی کل تعداد بارہ سو تھی اور بہت سے مجروح تھے ،حاشیہ بخاری شریف صفحہ: ۷۴۵ پر مذکور ہے کہ’’کان عدۃ من القرائِ سبع مائۃ‘‘ یعنی اس جنگ میں شہید ہونے والے حفاظ وقراء کی تعداد سات سو تھی، جبکہ ان قراء میں حضرت سالم q بھی تھے جن کی بڑی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہ ان چار جلیل القدر قراء میں دوسرے نمبر پر تھے جن سے پیغمبرa قرآن مجید پڑھنے کا حکم فرما یا کرتے تھے۔ (بخاری شریف، جلد:۲، ص:۷۴۸) نیز یہ کہ حضرت سالم q کے ساتھ جو فوجی دستہ تھا وہ خاص اہل قرآن یعنی قراء وحفاظ کا دستہ سمجھاجاتا تھا، یہ سب حضرات ایسے تھے جن کے پاس قرآن مجید تحریری شکل میں بھی تھا۔ سیدناحضرت  عمر فاروق q کو اس اندوہناک صورت حال سے سخت اندیشہ اور فکر لاحق ہوئی، جبکہ واقعے کی اہمیت کا بھی یہی تقاضا تھا ، اگر بعد میں بھی ایسے جنگوں کے واقعات رونما ہوتے جن میں قراء وحفاظ شہید ہوتے رہتے تو امت مسلمہ کی اس عظیم نعمت ولازوال دولت سے محروم ہو جانے کا قوی اندیشہ تھا، چنانچہ آپ نے سیدنا صدیق اکبرq کی توجہ اس جانب کرائی اور آپ نے قرآن پاک کے تمام حصوں کو یکجا طورپر جمع کرنے کی سعی بلیغ فرمائی۔ (بخاری، ج :۲، ص:۷۴۵) اس سلسلے میں حضرت صدیق اکبر q نے حضرت زید بن ثابتq کو تتبع اور جمع قرآن کا حکم فرمایا، چنانچہ حضرت زیدq کو لکھنے اور حضرت اُبی بن کعب q کو لکھا نے کاحکم فرمایا ۔ انتہائی احتیاط کے پیش نظر ان دونوں حضرات نے یہ طریقہ اخیار کیا کہ جن حضرات صحابہ ؓ کے پاس سے قرآن مجید اکٹھا کر تے، ان سے دو گواہ اس بات کے لیے لیتے کہ انہوں نے یہ آیات مبارکہ یا قرآن کا حصہ پیغمبرa کے بتائے ہوئے رسم الخط پر تحریر کیا تھا، اس طرح انتہائی محتاط انداز میں جمع قرآن کا کام انجام دیا گیا۔ یہ نسخۂ قرآنی سیدنا ابوبکر صدیقq کے پاس آپ کی وفات تک موجود رہا، آپ کی وفات کے بعد امیر المؤمنین سید ناحضرت عمر فاروق q کے پاس تاحیات رہا اور آپ کی شہادت و وفات کے بعد ام المؤمنین حضرت حفصہt کے پاس رہا۔ (النشر،ج:۱، ص:۷) جس حسن انتظام واہتمام کے ساتھ جمع وکتابت قرآن مجید کی یہ عظیم الشان خدمت خلیفہ اولq نے انجام دی اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی سقم یا ادنیٰ فروگزاشت باقی رہی ہوگی!اس مو قع پر حضرت علیq کا وہ مقو لہ نقل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا جس میں انہوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے قرآن کو کتابی صورت میں جمع فرمایا۔‘‘                                                             (البرہان، ج:۱،ص:۲۳۹ )  بہرحال اس عظیم الشان ذمہ داری سے فراغت کے بعد اس کے تصدیق شدہ نسخو ں کی بکثرت نقلیں شائع کی گئیں، چنانچہ کوئی مقام کوئی شہر ایسا نہ رہا جہاں لوگوں کے پاس مصاحف کے نسخے نہ ہوں۔ تیسرا دور ،دورِ فاروقی خلیفۃ المسلمین ہونے کے بعد حضرت عمر فاروقq قرآن کریم کی نشر واشاعت کی طرف بطور خاص متوجہ ہوئے، چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ اپنے فوجی افسران کو خط میں لکھا کہ میرے پاس حفاظِ قرآن بھیجو، اس پر حضرت سعد بن ابی وقاصq نے جو اباً لکھا کہ میری فوج میں تین سو حفاظ ہیں۔ امام ابن حزم اندلسیv کہتے ہیں کہ: آپ کے عہد خلافت میں امت کے پاس ایک لاکھ سے زائد قرآن پاک کے لکھے ہوئے نسخے موجود تھے، اسی کے ساتھ باجماعت نماز تراویح کی بنیاد آپ نے ڈالی اور پوری مملکت میں اسے نافذ فرمایا، حفظ قرآن کی تحریک کو آپ کے اس فرمان سے زبردست تقویت حاصل ہوئی، اُمت مسلمہ پر حضرت عمرq کا یہ بڑا احسان ہے کہ آج اس کے پاس قرآن مجید اسی شکل میں ہے جیسا کہ نزول کے وقت تھا، سیدناحضرت عمر فاروقq کی برکت سے محفوظ طریقہ پر پہنچ گیا۔ چوتھا دور ،دورِ عثمانی جب فتوحاتِ اسلامی کا دائرہ وسیع تر ہوا ، اور جزیرۃ العرب سے باہر مختلف امصار وبلاد کے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے اور لسانِ عرب کے مادری زبان نہ ہونے کے سبب اس کے حروف و الفاظ کے صحیح تلفظ واداء پر قدرت ان میں عموماً نہیں پائی جاتی تھی، باایں ہمہ خود قبائل عرب میں مختلف لب ولہجہ کا اختلاف کثرت سے موجود تھا جس کی وجہ سے ان میں مختلف طریقہ اداء تلاوت کے وقت بھی پایا جاتا تھا ، اگر چہ فی الحقیقت یہ اختلاف خاص عرب قوم یا عربی زبان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ ابن قتیبہv ان اختلافات کا ذکر کر تے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فالھذلی یقرأ: ’’عتٰی عین‘‘ والأسدی یقرأ: ’’تعلمون‘‘ بکسر التاء ، والتیمی ’’یہمز‘‘والقریش ’’لایھمز‘‘۔‘‘           (تبیان فی مباحث القرآن،ص:۴۴، طاہر الجزائری) ’’یعنی قبیلہ ہذیل’’حتی حین‘‘ کو ’’عتی عین‘‘پڑھتے ہیں ،ا ور اسدی لوگ’’تِعلمون‘‘ بکسر التاء پڑھتے ہیں، اسی طرح تمیمی ہمزہ کو بالتحقیق پڑھتے ہیں اور قریش ہمزہ نہیں پڑھتے ہیں۔‘‘ اسی طرح قبیلہ قیس کے لوگ تانیث کے کاف کا تلفظ شین سے اس طرح کرتے ہیں کہ’’قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا‘‘ کو ’’رَبُّشِ تَحْتَشِ سَرِیًّا‘‘ پڑھتے ہیں ،تمیمی’’أَن‘‘کو’’عن‘‘ ادا کر تے ہیں اور یہی تمیمی ’’سین‘‘ کی جگہ ’’ثا‘‘ کا تلفظ کرتے تھے، مثلاً:’’ برب الناث ، ملک الناثِ ‘‘ پڑھتے تھے ۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ جب لب ولہجہ کے اختلاف میں قبائل عرب کا یہ حال تھا، تو اہل عجم کا کیا پوچھنا؟یوں بھی لب ولہجہ اور زبان کا اختلاف آپ کو ہر دور میں ملے گا۔ اب اگر قرآن کریم کی کتابت وطباعت مختلف انداز ،تلفظ اور طرح طرح کے لب و لہجہ کے لحاظ سے ہوتی توآج ہمارا کیا حال ہوتا؟ امت عظیم اختلاف وتفریق کا شکار ہو کر رہ جاتی، اسی کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ عوام الناس معلمین سے قرآن سیکھتے، پڑھتے اور دوسروں کو تعلیم دیتے رہے ، ان معلمین میں بعض تعلیم کے وقت کچھ تشریحی و توضیحی کلمات کا اضافہ بھی کرتے تھے اور متعلمین بعض مر تبہ اسے قرآن کا جزو سمجھ کر محفوظ کرلیتے تھے ، مثلاً:’’ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودq نے اپنے ذاتی نسخہ میں ’’فی مواسمِ الحج‘‘ کے الفاظ لکھے تھے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ایام حج میں تجارت کرکے کچھ مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اب ظاہر بات ہے کہ یہ اضافہ محض توضیح وتشریح کی غرض سے تھا۔ اسی طرح ہر تلفظ کی ادائیگی کے لیے پیغمبرaنے جو اجازت دی تھی، اس میں بھی مبالغہ ہونے لگا اور نوبت سخت قسم کے اختلافات’’کَفَّرَ بعضُہم بعضًا‘‘ تک پہنچنے لگی ۔ چنانچہ عہد عثمانی میں فتح آرمینیہ اور آذربائیجان ۳۰ھ کے وقت شام اور عراق کی فوجیں ایک جگہ جمع تھیں، ان دونوں کی قراء ت میں تشویشناک حد تک اختلاف پایا گیا، ہر شخص اپنی قراء ت کو دوسرے سے افضل قرار دیتا ۔ اس جنگ میں دیگر اصحابؓ کے ساتھ حضرت حذیفہ بن یمان q بھی تھے ، انہوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہیں سخت تشویش ہوئی، پوری تفصیل بخاری شریف صفحہ :۷۴۶ میں موجود ہے ، اسی طرح مشکوۃ، باب فضائل القرآن، صفحہ:۱۹۳ ،اور النشر،جلد:۱ ،صفحہ:۷ میں مذکور ہے ، جبکہ امام شاطبیv نے علامہ دانیv (متوفیٰ: ۴۴۴ھ)کی کتاب ’’المقنع ‘‘کو نظم کرتے ہوئے اپنے قصیدۂ رائیہ کے شعر نمبر:۳۱ سے نمبر:۳۴ تک کے چار اشعار میں اس کو بیان کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ حضرت حذیفہ q کو اس سے بڑا دکھ ہوا اور واپس ہو کر آپ نے خلیفۂ وقت حضرت عثمانq سے یہ واقعہ بیان کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ قراء ت کو رسم الخط کا پابند اور اضافہ جات کو حذف کیا جائے اور جمع شدہ قرآن سب کے روبہ رو لایا جائے۔حضرت عثمان q نے حضرت حذیفہq کی رائے کو پسند فرمایا اور ام المؤمنین حضرت حفصہ t کے پاس سے عہد صدیقی کا جمع کردہ قرآن مجید منگواکر حضرت زید بن ثابتq، حضرت عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشامq کو اس کام پر مقرر فرمایا۔  (بخاری شریف، ج:۲، ص:۷۸۴ ) ان حضرات کو حضرت عثمانq کی طرف سے یہ تاکید کی گئی کہ اس رسم الخط میں تمام قراء ات متواترہ ثابت ہوں، امام سیوطی v‘ الاتقان، جلد:۲ ،صفحہ:۲۸۹ میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک مشہور اور مختلف قراء ت کا تعلق ہے، جیسے:’’أوصٰی اور وصّٰی ، تجری تحتھا اور من تحتھا ، سیقولون اللّٰہ اور سیقولون لِلّٰہِ ، فتبیَّنوا  اور فتثبّتوا ،وغیرہ‘‘ یہ سب قراء تیں حضرت عثمانq کے مصحف میں موجود تھیں  اور چونکہ اس میں نقطے اور اعراب نہیں تھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بعض الفاظ کو جن میں مختلف قراء ات تھیں انہیں کئی طریقے سے پڑھا جاسکتا تھا ۔ قراء اتِ متواترہ کو ثابت اور باقی رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی اجازت خود حدیث مشہور سے ثابت ہے، ارشاد فرمایا نبی کریم a نے’’إِن ھذا القرآن أُنزل علٰی سبعۃ أحرف فاقرؤا ماتیسر منہ۔‘‘ (متفق علیہ ، بخاری،ج:۲، ص:۷۴۷۔ مسلم، ج:۱، ص:۲۷۲ ) دوسری تاکید یہ تھی کہ دورانِ تلاوت جہاں اختلاف ہو اور مشکل پیش آئے وہاں لغت قریش کو ترجیح دیتے ہوئے اسی کے مطابق لکھا جائے، کیونکہ قریش ہی کی لغت میں قرآن نازل ہوا ہے، چنانچہ قراء تِ قرآن کے بارے میں یہی اختلاف ونزاع حضرت عثمانq کے قرآن کریم کو کتا بی صورت میں جمع کر نے وکتابت کا حکم فرمانے کا اساسی وبنیادی سبب تھا۔ اس مہتم بالشان خدمت قرآن کی تکمیل کے بعد مشہور قول کے مطابق قرآن مجید کے پانچ نسخے لکھے گئے۔                (الاتقان،ج:۱،ص:۱۰۴) یہ نسخے مدینہ طیبہ ، مکہ مکرمہ ،شام،بصرہ اور کوفہ روانہ کیے گئے ۔ دراصل سیدنا حضرت عثمانq کا منشأ یہ تھا کہ صرف تحریر کردہ قرآنی نسخو ں ہی پر قناعت نہ کی جائے، بلکہ براہِ راست و با لمشافہ صحابہs کے منہ سے قرآن سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرلیں، اس لیے حضرت عثمانq جب کہیں کوئی قرآنی نسخہ روانہ فرماتے تو اس کے ساتھ ایک معلم وقاری بھی بھیجتے تھے۔ اس لیے مذکورہ پانچوں شہروں کے لیے ممتاز صحابہ کرامs معلم اور نگران مقر ر کیے گئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی تعلیم میں صرف قرآنی نسخے کا پڑھ لینا یا مطالعہ کر لینا کافی نہیں، بلکہ کسی ماہر و مشاق معلم سے بالمشافہ سیکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ میں حضرت زید بن ثابتq کو، مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن سائبq کو، شام میں حضرت مغیرہ بن شہابq کو، بصرہ میں حضرت عامر بن عبد اللہ القیس q  کو، اور کوفہ میں حضرت عبدالرحمن السلمیq کو نگراں مقرر کیا گیا۔ (مناہل العرفان، ج:۱، ص:۳۹۶-۳۹۷) اور ایک نسخہ آپ نے اپنے لیے خاص فرما یا جسے ’’مصحف امام‘‘ کہاجاتاہے ، اس طرح کل تعداد ان مصاحف کی چھ ہو گئی ۔ پھر بعض نے تعداد آٹھ بتائی ہے، اس اعتبا ر سے ساتواں بحرین اور آٹھواں یمن ارسال فرمایا۔ بعض کے نزدیک آپ نے ایک نسخہ مصر بھی روانہ فرمایا۔               (النشر،ج:۱،ص:۷) قرآنیت کے اصول ثلاثہ میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جس قرآن کا رسم الخط مصاحف عثمانی کے مطابق ہو گا وہی قرآن کہا جائے گا، اس کے خلاف جائز نہیں۔ قرآن مجید کو مصحف کا نام سب سے پہلے حضرت ابوبکرq کے دور خلافت میں دیا گیا ، چنانچہ محمد بن عبداللہ بن اشتہ متوفی۳۶۰ھ اپنی کتاب ’’المصاحف‘‘میں بطریق موسیٰ بن عقبہ روایت کر تے ہیں کہ جب قرآن کریم کو جمع کرکے اوراق پر لکھا گیا تو حضرت ابوبکر صدیقq نے فرمایا کہ اس کا کوئی نام مقرر کیا جائے ، بعض حضرات نے ’’السِّفر‘‘(پیغامات)تجویزکیا،آپ نے فرمایا :یہ یہود کا تجویز کردہ نام ہے ،بعض نے حبشہ میں رائج نام یعنی ’’المصحف ‘‘تجویزکیا جس پر اتفاق ہوگیا اور قرآن مجید کو ’’المصحف‘‘ کہا جانے لگا۔ سیدنا حضرت عثمانq نے مذکورہ بالاعلاقوں میں مصاحف روانہ کرکے یہ حکم جاری فرمایا کہ اس کے علاوہ جس کے پاس بھی ذاتی قرآن کے نسخے موجود ہوں وہ حکومت کو بھیج دئیے جائیں ، چنانچہ دوسرے تمام نسخے تلف کردئیے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی تھا ، کیونکہ بعد میں ان نسخوں کا وجود امت میں زبردست افتراق واختلاف کا سبب بن سکتا تھا، عہد رسالت مآبa سے جس قدر دوری ہوتی جاتی، اسی قدر یہ نسخے امت مسلمہ کے لیے زیادہ مضرثابت ہوتے۔ فائدہ مہمہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن کریم کے جن کلمات میں ایک سے زائد قراء تیں متواتر دلیل سے ثابت نہیں تھیں، ان کو ایک ہی طرح سے لکھا جاتا تھا، لیکن جن کلمات قرآنی میں بدلیل تواتر ایک سے زائد قراء تیں تھیںان تمام قراء توں کا اظہار صرف ایک ہی رسم الخط کے ذریعہ ہر جگہ ممکن نہ تھا ، اس لیے کتابت کرنے والے ایسے تمام کلمات کو ایک نسخہ میں ایک متواتر قراء ت کے اظہار کے لیے ایک طرح اور دوسرے نسخہ میں دوسری متواتر قراء ت کے اظہار کے لیے دوسری طرح اور تیسری متواتر قراء ت کے اظہارکے لیے تیسرے نسخے میں تیسری طرح لکھنے پر مجبور تھے ، اس مجبوری میں مصاحف میں تعدد ناگزیر تھا ۔ بہرحال حضرت عثمان q کے اس اقدام کو سب حضرات نے بڑی وقعت اور پسندید گی کی نگاہ سے دیکھا، قرآن کریم کے ذاتی وانفرادی نسخوں کے معدوم کیے جانے کا اقدام آپ ؓ نے صحابہs کے مشوروں کے بعد کیا تھا، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرمایا کرتے تھے کہ:عثمانq کے بارے میں بھلائی کے سوا کچھ نہ کہو، بخدا آپ نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا وہ ہمارے مشورے کے مطابق اور ہماری موجودگی میں کیا ۔ (الاتقان، ج:۱ ،ص:۱۰۳) بعض نے کہا کہ حضرت سوید بن غفلہ q کا بھی یہی قول ہے ۔ بہرحال ان مصاحف عثمانی میں نقطے اور اعراب نہیں تھے جن کا فائدہ یہ تھا کہ مختلف قراء ات پڑھی جاسکتی تھیں ، نیز ان میں آیات اور سورتوں کی بعینہ وہی ترتیب تھی جو کہ موجودہ قرآنی نسخوں میں ہے۔ اس امر میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ قرآن مجید فرقان حمید کے سو ا دنیا کی کسی کتاب کی حفاظت کے لیے وہ اہتمام نہیں کیا گیا جو قرآن کے حصے میں آیا، قرآن کریم کے سوا دنیا میں کوئی کتاب بطریق تواتر انسانوں تک نہیں پہنچی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لَایَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ‘‘ یعنی باطل اس قرآن میں نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے (کسی راہ سے جگہ نہیں پاسکتا) یہ حکمت والے، سزاوارِ حمدوثنا کا نازل کردہ ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کے لفظاً ومعنیً،رسماً وکتابۃً ہر اعتبار سے خود رب العزت ہی محافظ ہیں ، قال تعالٰی:’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ۔‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عثمانq کا امت مسلمہ پر یہ عظیم احسان ہے کہ آپ نے رسم الخط وکتابت کی حد تک قرآن پاک میں وحدت کا رنگ پیدا کردیا ’’فجزاہ اللّٰہ عن أمۃ محمدa خیرالجزائ۔‘‘ دورِ حاضر میں عالم اسلام میں جو مصاحف کہ مروج اور متداول ہیں، ان میں بیشتر کا رسم عموماً مصاحف عثمانیہ کے رسمِ عثمانی کے مطا بق ہے، چاہے وہ مصحف حفص ہو کہ زیادہ تر مصر، شام یا سعودیہ میں رائج ہے، جسے مصحف مشارقہ بھی کہاجاتا ہے ،یا وہ روایت ’’ورش‘‘ اور ’’قالون‘‘ والا مصحف ہو جسے مصحف مغاربہ کہا جاتا ہے،اور مراکش ، الجزائر اور موریطانیہ وغیرہ میں متداول ہے، یا وہ مصحف نستعلیق ہو جو بر صغیر میں مطبوع اور معمول بہ ہے ،’’مجمع ملک فھد‘‘میں بھی اسی نسخہ کو مصحف تاج یا نستعلیق کا نام دیا گیا ہے ۔   مذکورہ تین قسم کے مصاحف ہی عالم اسلام یا بلاد اسلامیہ میں پائے جاتے ہیں۔ ان مصاحف میں خصوصا ًحذف الف اور اثبات الف کے اعتبار سے جو فرق مشاہدے میں آیا ہے، اس کی اصل بنیاد و دلیل در اصل وہ قدیم مصاحف ہیں جن میں اوپر سے یہ اختلاف چلا آتا ہے، جبکہ ائمہ رسم اورمحققین علماء نے بھی بنیاد انہی مصاحف کو بنایا ہے، ان میں امام دانی صاحبv ’’المقنع‘‘ متوفی۴۴۴ھ اور ان کے ارشد تلمیذ امام ابو داؤد بن نجاحv کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں ۔ اب قرآنی کلمات میں الف کے حذف و اثبات میں اختلاف کے پیش نظر پاکستان میں متداول مصحف تاج یا مصحف نستعلیق کے متعلق بعض سطحی نظر رکھنے والے حضرات مسلسل یہ پرو پیگنڈہ کررہے ہیں کہ اس پاکستانی مصحف تاج کا رسم غلط اور بلادلیل ہے، جبکہ حذفِ الف واثباتِ الف کے دونوں منہج درست ہیں ۔ چنانچہ جمع مذکر سالم میں سولہ کلمات، جمع مؤنث سالم میں سات کلمات اور ان کے علاوہ الف سے یاء تک تمام حروف کے بعد آنے والے الف کے مختلف کلمات میں یہی صورتحال ہے کہ حذف الف واثبات الف میں امام دانی vاور امام ابو داؤدv کا مؤقف کہیں ایک ہے، کہیں مختلف ہے ، اس بارے میں تقریباً تین سو کلمات ایسے مذکور ہیں کہ جن میں حذفِ الف واثباتِ الف کی بنیاد ائمہ کے نصوص وروایات اور قدیم مصاحف پر قائم ہے، مصاحف مشارقہ اور مغاربہ میں با لعموم امام ابو داؤدبن نجاحv کی تصریحات کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے، جبکہ بر صغیر کے متداول مصاحف میں امام دانیv کے نصوص و تصریحات پر عمل کیا گیا ہے، لہٰذا بیک جنبشِ قلم اس کی تغلیط نہیں کی جاسکتی، کیونکہ منہج دونوں صحیح ہیں اور کسی میں رسم عثمانی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ ان تمام مناہج کے اصول و ضوابط اور ان کے دلائل امام ابو عمرو دانیv کی ’’المقنع‘‘اور امام ابوداؤد بن نجاح کی ’’التبیین لھجاء التنزیل‘‘ اور امام شاطبی ضریرvکی ’’عقیلۃ أتراب القصائد‘‘ میں موجود ہیں۔ البتہ رسم عثمانی کے جن کلمات میں امام ابو عمرو دانیv اور امام ابو داؤدv میں باہمی اتفاق ہے، وہاں مصحف تاج میں بھی اسی رسم کی پابندی کی گئی ہے، جہاں اختلاف ہے ان میں ا مام دانی vکی تصریحات پر دارو مدار رکھا گیا ہے، کچھ کلمات ایسے بھی ہیں جن میں امام شاطبیv کی نصوص کو مد نظر رکھا گیا ہے اور خاص ان کلمات میں امام شاطبیv کا مؤقف امام ابو عمرو دانیv سے الگ ہے۔ اسی طرح اس مصحف تاج میں تقریباً دس کلمات ایسے ہیں جو اس منہج سے مختلف ہیں، ان میں یا تو امام ابو داؤدv یا کسی دوسرے رسم عثمانی کے امام کے قول کولیا گیا ہے، چند کلمات ایسے بھی ہیں کہ جن میں بعض قراء ات متواترہ کی بنا پر حذفِ الف کو اختیار کیا گیا ہے ، اس مصحف تاج اور دوسرے مصاحف خصوصاً مصحف مدینہ کے مابین موازنہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ کل (۱۷۴۶) کلماتِ رسم میں یہ فرق ہے، جن میںتقریباً۹۸؍ فیصد میں مصحف تاج میں امام ابو عمرو دانیv کے منہج کو لیا گیا ہے اور مصحف مدینہ میں امام ابو داؤد v کا منہج اختیار کیا گیا ہے۔ ا ب چند سالوں سے پاکستان میں ایک مخصوص لابی پاکستانی مصاحف کے رسم اور ضبط  سے متعلق شکوک وشبہات پھیلارہی ہے، چونکہ اس مسئلہ پر کوئی مدلل اور مرتب دستاویز منظر عام پر نہ تھی جس کی وجہ سے عالم عرب کے بعض اسکا لر ز اور ان کی دیکھا دیکھی بعض ہمارے پاکستانی اسکالرز بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ عالم عرب میں متداول اور مروج مصاحف خواہ وہ مصری ہوں یا مدنی وہ تو رسم عثمانی کے عین مطابق ہیں اور پاکستانی مصاحف رسم عثمانی کے خلا ف ہیں، لہٰذا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ رسم قرآنی اور برصغیر پاک وہند کے مروج مصاحف سے مدلل ومرتب دستاویزی ثبو ت کے ساتھ کتاب ترتیب دی جائے، جس میں ساری جزئیات، تفصیلات اور مقامات درج ہوں اور دلائل واضحہ سے اس مسئلہ کو مبرہن کیا جائے، امت مسلمہ کو آگاہی دی جائے اور ان کی آنکھیں کھولی جائیں۔ انہیں معلوم ہوکہ امت مرحومہ نے کبھی بھی کسی گمراہی اور سنگین غلطی پر اتفاق نہیں کیا اور ان شاء اللہ! کبھی کرے گی بھی نہیں ،چہ جائے کہ رسم قرآنی پر پورے برصغیر کے اہل علم ارباب رسم محققین، ائمہ قراء ت ومجودین، ماہرین فن قاطبۃً کتاب اللہ کے رسم پر یکے بعد دیگرے ضلالت و غوایت کاشکار ہو جائیں، کلا وحاشا۔ اس فتنے کا سد باب کر نے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور پاکستان میں طبع ہونے والے تمام مصاحف قرآنی میں اپنے رسم عثمانی کی پوری حفاظت وپابندی کرے، ان میں واقعۃً جو اغلاط ہوں ان کی درستگی کے لیے ماہرین رسم عثمانی اہل علم وفضل کا انتخاب کرے ،اس کا مر بوط ومستحکم نظم قائم کرے، تاکہ قرآنی نسخوں کی طباعت میں رسم عثمانی کی پابندی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ تاج کمپنی ودیگر مطابع، اہل علم محققین علمائے رسم کا ایک بورڈ تشکیل دیں جو اِن اغلاط کی درستگی کا اہتمام کرے جو فی الواقع اصل رسم کی رُو سے قابل اصلاح ہیں اور جن کی نشاندہی مختلف مقالوں میں کردی گئی ہے۔  واللّٰہ الموفق والمعین وبہٖ نستعین آمین بجاہ سید المرسلین a

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین