بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجیدکیا ہے؟ (چوتھی قسط)

قرآن مجیدکیا ہے؟                (۴)

    علم سے متعلق سورۂ بقرۃ -آیۃ الکرسی قرآن کی عظیم ترین آیتوں میں سے ایک آیت- میں ارشاد ہے: ’’وَلاَیُحِیْطُوْنَ بِشَئٍْ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلاَّ بِمَا شَائَ ‘‘ ۔                                  (البقرۃ:۵۵) ترجمہ:۔’’اوروہ اس اللہ کے علم کی کسی بھی چیز پر احاطہ نہیں کرسکتے بجز اس کے جو وہ خود (بتلانا) چاہے‘‘۔     اسی ’’بِمَا شَائَ‘‘ کا مصداق قرآن مجید اور علوم وحی ہیں، یعنی قرآن مجید خود بھی ایک کتاب مبین ہے، مگر وہ بڑی کتاب -ام الکتاب- کا ایک حصہ ہے۔معلوماتِ الٰہیہ سے متعلق سورۂ لقمان میں ارشادہے: ’’وَلَوْ أَنَّ مَا فِیْ الأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ أَقْلاَمٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اﷲِ إِنَّ اﷲَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘۔                                    (لقمان:۲۷) ترجمہ:۔’’اوراگر( بالفرض ) زمین میں جتنے درخت ہیں (ان کے) قلم ہوں اور سمندر اور اس کے بعد اس میں اضافہ ہو (اسی جیسے) سات سمندروں کا (سیاہی ہوں) اور ان لاتعداد قلموں اور سیاہی سے لکھے جائیں تب بھی اللہ کے کلمات (معلومات) نہیں ختم ہوںگے۔ بے شک اللہ بہت زبردست (علم کا مالک) حکمتوں والا ہے‘‘۔     یہ معلومات الٰہیہ کی ‘‘لامتناہی‘‘ فراوانی کا اجمالی بیان ہے۔ اس کی کسی قدر تفصیل سورۂ انعام کی آیت ذیل میں بیان فرمائی ہے: ’’وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَیَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ‘‘۔                                  (الانعام:۵۹) ترجمہ:۔‘‘اور اللہ کے پاس غیب (کے خزانوں) کی کنجیاں ہیں، جن کو اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور جو کچھ بھی بر وبحر -خشکی اور تری- میں ہے سب کو وہ جانتا ہے اور (کسی بھی درخت کا) جو کوئی پتاجھڑتا ہے ا س کو بھی وہ جانتا ہے اور نہیں ہے زمین کی تاریک-آنکھوں سے اوجھل- تہوں میں کوئی بھی دانہ او رنہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز، مگر وہ سب واضح (اور مفصل) کتاب میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔     اس آیت کریمہ میں ’’کتاب مبین‘‘ -واضح اور مفصل کتاب -لوح محفوظ ہی کا دوسرا نام ہے، جو تمام کائنات کے اس علم تفصیلی اور معلوماتِ خداوندی پر محیط ہے، جس کو اس نے بقدر ضرورت ومصلحت بصورتِ کتاب منضبط کیا ہے اور اسی کتاب کا ایک حصہ قرآن مجید ہے۔’’ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘ -لوح محفوظ میں- اور’’فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ‘‘- ام کتاب میں- کی ظرفیت کا یہی مطلب ہے۔ قرآن مجید اللہ کا ازلی، ابدی اور قدیم کلام ہے     اللہ کا کلام بھی اللہ جل وعلیٰ کی ذات کی دیگر صفات کی طرح ازلی، ابدی اور قدیم ہے اور زمانی حدود وقیود -ماضی وحال ومستقبل- سے بالاتر اور وراء الوراء ہے۔ اللہ کی ذات اور جملہ صفات کی طرح اس اعلیٰ وارفع کا کلام بھی عقل انسانی کی دسترس سے قطعاً باہر ہے، نہ ہی حدوث وتجدد اور تغیر وتبدل اس میں راہ پاسکتے ہیں۔ چنانچہ اسی مذکورہ بالا آیت کریمہ کا تیسرا فقرہ ’’وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ الخ‘‘ اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ ’’حوادثِ متجدّدہ‘‘ یعنی دنیا میں نو بنو اور روز بروز پیش آنے والے واقعات وحالات -آج کل کی اصطلاح میں کہئے جدید حالات- کا بھی حق جل وعلیٰ کو روزِ ازل سے ہی علم ہے، یعنی اس کے علم کے اعتبار سے کوئی بھی چیز ’’نئی‘‘ نہیں ہے، جس کی بنا پر اس کے بنائے ہوئے قانون الٰہی میں کسی ترمیم واصلاح یا تغیر وتبدل کا سوال پیدا ہو، اسی لئے سورۃ الکہف میں ارشاد ہے: ’’وَاتْلُ مَا أُوْحِیَ إِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَداً‘‘۔                                                (الکہف:۲۷) ترجمہ:۔’’اور (اے نبی!) جو تیرے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ تیرے پاس بھیجی گئی ہے، اس کی بے دھڑک لوگوں کے سامنے) تلاوت کرو (پڑھ کر سناؤ) اس کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں اور تو اس کے سوا کوئی بھی پناہ کی جگہ نہ پائے گا‘‘۔     اس آیت کریمہ میں تو مُبَدِّل -تبدیلی کرنے والے- کی قطعی نفی کی گئی ہے اور سورۂ یونس میں ’’تبدیلی‘‘ کے امکان کی قطعی نفی کی گئی ہے، ارشاد ہے:     ’’لاَتَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ‘‘ (یونس)یعنی’’ اللہ کی باتوں کے بدلنے کا امکان نہیں‘‘۔     اور سورۃ الفتح کی آیت کریمہ ذیل میں اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کلام اللہ -اللہ کی کسی بات یا حکم- کو بدلنا چاہتے ہیں، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ’’یُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلاَمَ اﷲِ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰالِکُمْ قَالَ اﷲُ مِنْ قَبْلُ‘‘۔  (الفتح:۱۵) ترجمہ:۔’’وہ (پیچھے رہنے والے منافق) چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام( حکم) کو بدل دیں تو (ان سے) کہہ دو: تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں چلوگے، اسی طرح تمہارے متعلق کہہ دیا ہے اللہ نے پہلے سے‘‘۔     اور تو اور خود صاحبِ الہام نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے، کسی اور کی تو مجال کیا ہے کہ اللہ کے کلام-قرآن- اور احکامِ الٰہیہ میں تغیر وتبدل اور ترمیم وتصرف کا نام لے۔ سورۂ یونس میں ارشاد ہے: ’’وَإِذَا ُتتْلٰی عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لاَیَرْجُوْنَ لِقَائَ نَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ہٰذَا أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ إِنْ اتَّبِعْ إِلاَّ مَا یُوْحٰی إِلَیَّ إِنِّیْ أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ‘‘۔       (یونس:۱۵) ترجمہ۔’’اور جب ان (منکروں) کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جن کو ہم سے ملنے کا اندیشہ نہیں ہے، کہتے ہیں: ’’اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی کو بدل دو‘‘ تم کہہ دو ! میری مجال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل دوں، میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو وحی میرے پاس بھیجی گئی ہے، میں تو اگر اس کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن (روز قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘۔  قرآن میں تغیر وتبدل کرنا بہت بڑا ظلم ہے     بہرحال اللہ جل وعلیٰ کی صفات’’ علم‘‘ اور’’ قدرت‘‘ وغیرہ کی طرح ’’کلام‘‘ بھی ازلی ، ابدی اور قدیم ہے۔ اس میں تغیر وتبدل اور اصلاح وترمیم نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں، بلکہ بندوں کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔ سورۂ ’’ق‘‘ میں ارشاد ہے: ’’مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ‘‘۔                                    (ق:۲۹) ترجمہ:۔’’میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں (اپنے) بندوں کے حق میں ناانصاف مطلق نہیں ہوں‘‘۔     اس آیت کریمہ میں ’’لدیّ‘‘  -میرے ہاں- خاص طور پر قابل غور ہے، یعنی جب اللہ جل وعلیٰ کا کلام -احکام اور فیصلے سب کے سب -لامحدود علم وحکمت اور کامل قدرتِ تدبیر وتصرف یعنی انصاف پر مبنی ہیں تو ایسی صورت میں بفرضِ محال جو بھی تغیر وتبدل ، ترمیم واصلاح کی جائے گی یقینا وہ علم وحکمت کے خلاف اور بندوں کے ساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم ہوگی، اس لئے کہ اللہ جل شانہٗ کا کلمہ -فیصلہ- سچائی اور عدل وانصاف پر مبنی ہے، اس کا خلاف یقینا جھوٹ اور ظلم ہوگا، سورۂ انعام میں ارشاد ہے: ’’وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقاً وَّعَدْلاً لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔                                                                                            (الأنعام:۱۱۵) ترجمہ:۔’’تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل (وانصاف) کے اعتبار سے پورا (اور کامل) ہوچکا (اب) اس کے کلمات میں کوئی بھی تبدیلی کرنے والا نہیں (ہوسکتا) بے شک وہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے‘‘۔     بہر صورت قرآن کریم کی تصریحات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن مجید، لوح محفوظ اور ام الکتاب سے بیت المعمور-آسمانی کعبہ- کے ایک حصہ میں جس کانام بیت العزت ہے، ایک کتاب کی صورت میں اللہ جل وعلیٰ نے منتقل فرمایا، سورۂ طور میں ارشاد ہے: ’’وَالطُّوْرِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّالَہٗ مِنْ دَافِعٍ‘‘۔           (الطور:۱تا۸) ترجمہ:۔’’قسم ہے (کوہ) طور کی اور (وصلی کے) طویل وعریض ورقوں میں لکھی ہوئی کتاب کی اور سدا آباد گھر کی اور (زمین کی) بلند چھت (آسمان اول) کی اور طوفان خیز سمندر کی کہ تیرے پردرگار کا عذاب ضرور واقع ہوگا اور کوئی بھی اس کو روک نہیں سکتا‘‘۔     اس آیت کریمہ میں اللہ جل وعلیٰ نے پانچ عظیم مظاہر قدرت الٰہیہ کی قسم کھائی ہے، جن کی تشریح یہ ہے:     ’’الطور‘‘ کوہ طور ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ پردہ کے پیچھے سے کلام فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اس کلام کا تفصیلی بیان متعدد سورتوں میں مفصل مذکور ہے۔ اسی کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست ’’رَبِّ أَرِنِیْ أَنْظُرْ إِلَیْکَ‘‘-اے میرے رب! تو خود کو مجھے دکھلادے ،میں تیری طرف دیکھوں گا- کے جواب میں حق جل وعلیٰ نے رؤیت (دیدار) کے بجائے اپنی ایک تجلی- جلوہ- کا اسی کوہِ طور پر اظہارفرمایا ہے، جس کے نتیجہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہوکر گر پڑے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مشتاقانہ اصرار سے توبہ کی ہے، تفصیل کے لئے سورۂ اعراف ملاحظہ فرمایئے۔اللہ جل وعلیٰ کی رؤیت کی طرح اُس سے کلام بھی براہِ راست اوررودرروکسی مادی مخلوق کے لئے ناقابل برداشت ہے، چنانچہ سورۂ حشر کے رکوع: ۳ میں ارشاد ہے: ’’لَوْأَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اﷲِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘۔               (الحشر:۲۱) ترجمہ:۔’’اگر (بالفرض) ہم اس قرآن کو پہاڑ پر اتاردیتے توتو دیکھ لیتا کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ جاتا اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ (حقائق الٰہیہ کو) سوچیں اور سمجھیں‘‘۔     اور یہی ہے اس قرآن کا وہ لاہوتی ثقل- گرانی اور شدت- جس سے اللہ جل وعلیٰ نے نزولِ قرآن شروع ہونے کے بعد کی دوسری ہی سورت سورۂ مزمل میں اپنے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی اور آپ ا کی امت کو بھی آگاہ اور خبردار کیا ہے کہ وہ نزول قرآن کے وقت قرآن کے خارق العادۃ -خلاف عادت اور غیر معمولی- حال سے بے حال کردینے والی گرانی سے گھبرانہ جائیں یا اس کیفیت کو کوئی مرض- مرگی کا دورہ، وغیرہ- نہ سمجھ بیٹھیں، ارشاد ہے: ’’إِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیلْاً‘‘۔                                                        (المزمل:۵) ترجمہ:۔’’بے شک ہم تجھ پر (فرشتہ کے واسطے سے) ایک بھاری کلام القاء کریں گے‘‘۔     ’’کتاب مسطور‘‘ قرآن مجید ہے جو وصلی- باریک جھلی- کے کشادہ اور طویل وعریض اوراق میں لکھا گیا ہے۔     ’’البیت المعمور‘‘ -آباد گھر- وہ آسمانی کعبہ ہے جو زمینی کعبہ کی بالکل محاذات میں ہے اور ہروقت طواف کرنے والے فرشتوں سے بھراہوا اور آباد رہتا ہے۔     ’’السقف المرفوع‘‘ -بلند چھت- پہلا آسمان ہے جو ہر سمت سے اس روئے زمین کی چھت کے مانند ہے، جیساکہ ہم عرض کر چکے ہیں۔ روایات اور احادیث سے اس اجمال کی تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ سقفِ مرفوع -آسمان اول- پر ہی بیت المعمور ہے اور اسی کے کسی حصہ میں یا اس کے آس پاس بیت العزت ہے، جس میں پورا کا پورا لکھا ہوا قرآن رکھا گیا ہے۔ ’’ان لکھنے والوں کا‘‘ اور اس ’’قلم الٰہی‘‘ کا جس سے ام الکتاب- لوح محفوظ- اور قرآن لکھا گیا ہے اور ’’لکھنے‘‘ کا ذکر سورۂ قلم میں اور سورۂ عبس میں موجود ہے۔ سورۃ القلم میں ارشاد ہے: ’’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘۔         (القلم:۱،۲) ترجمہ:۔’’قسم ہے قلم کی اور (فرشتوں کے) لکھنے کی کہ تو اپنے رب کے فضل وانعام سے پاگل ہرگز نہیں ہے‘‘۔     سورۂ عبس میں ارشاد ہے: ’’کَلاَّ إِنَّہَا تَذْکِــرَۃٌ فَمَنْ شَائَ ذَکَرَہٗ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ بِأَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ‘‘۔                             (عبس:۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶) ترجمہ:۔’’ایسا نہیں ہے (کہ تم لوگوں کے پیچھے پڑو) بے شک یہ تو ایک نصیحت (کی کتاب) ہے، پس جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرلے، لائق احترام بلند وبرتر پاک پاکیزہ صحیفوں میں (لکھی ہوئی) بڑے رتبے والے نیک طینت لکھنے والوں کے ہاتھوں سے‘‘۔     ’’صحف مکرمۃ‘‘ سے مراد قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتیں ہیں۔اسی طرح سورۃ البینۃ میں حسبِ ذیل الفاظ میں خبر دی ہے: ’’رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ یَتْلُوْا صُحُفاً مُّطَہَّرَۃً فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ‘‘۔                (البینۃ:۲،۳) ترجمہ:۔’’اللہ کا رسول جو پڑھ کر سناتا ہے، (باطل سے) پاک وپاکیزہ صحیفے جن میں محکم لکھے ہوئے مقیاس ہیں‘‘۔     اس لئے کہ ہرسورت ایک مستقل صحیفہ -آسمانی کتاب- ہے اور یہ تمام صحیفے -سورتیں- خدائے پاک وبرتر کا کلام ہونے کی بنا پر ’’لائق احترام‘‘ اور رفعتِ مکان کے اعتبار سے ’’بلند وبرتر‘‘ اور باطل کی آمیزش سے ’’پاک وپاکیزہ‘‘ ہیں۔ ان کے لکھنے والے فرشتے بھی ملکوتی اور نوری مخلوق ہونے کی بنا پر ’’بڑے رتبے والے‘‘ اور ’’نیک طینت‘‘ ہیں، ان سے ذرہ برابر حکم الٰہی کی تعمیل لکھنے میں غلطی یا کوتاہی کا امکان ہے ہی نہیں۔ آسمان پر پورا قرآن کس تاریخ کو اترا؟     قرآن مجید حق جل وعلیٰ نے کتابی شکل میں لوح محفوظ سے آسمان اول پر ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب لیلۃ القدر میں اتارا ہے، ارشاد ہے: ۱…’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘۔          (البقرۃ:۱۸۵) ترجمہ:۔’’رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کی ہدایت کے لئے‘‘۔ ۲…’’إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘‘۔                                                         (القدر:۱)     ترجمہ:۔’’ بے شک ہم ہی نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا‘‘۔ ۳:…’’إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ‘‘۔                       (الدخان:۳) ترجمہ:۔’’ بے شک ہم ہی نے اس (قرآن) کو اتارا ہے ایک برکت والی رات (لیلۃ القدر) میں، اس لئے کہ ہم (اپنے بندوں کو) خبردار کردینے والے ہیں‘‘۔ محققین مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے لیلۃ القدر ہی مراد ہے، جیساکہ سورۂ لیلۃ القدر میں تصریح ہے۔                                        (جاری ہے)

قرآن مجیدکیا ہے؟                (۴)

    علم سے متعلق سورۂ بقرۃ -آیۃ الکرسی قرآن کی عظیم ترین آیتوں میں سے ایک آیت- میں ارشاد ہے: ’’وَلاَیُحِیْطُوْنَ بِشَئٍْ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلاَّ بِمَا شَائَ ‘‘ ۔                                  (البقرۃ:۵۵) ترجمہ:۔’’اوروہ اس اللہ کے علم کی کسی بھی چیز پر احاطہ نہیں کرسکتے بجز اس کے جو وہ خود (بتلانا) چاہے‘‘۔     اسی ’’بِمَا شَائَ‘‘ کا مصداق قرآن مجید اور علوم وحی ہیں، یعنی قرآن مجید خود بھی ایک کتاب مبین ہے، مگر وہ بڑی کتاب -ام الکتاب- کا ایک حصہ ہے۔معلوماتِ الٰہیہ سے متعلق سورۂ لقمان میں ارشادہے: ’’وَلَوْ أَنَّ مَا فِیْ الأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ أَقْلاَمٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اﷲِ إِنَّ اﷲَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘۔                                    (لقمان:۲۷) ترجمہ:۔’’اوراگر( بالفرض ) زمین میں جتنے درخت ہیں (ان کے) قلم ہوں اور سمندر اور اس کے بعد اس میں اضافہ ہو (اسی جیسے) سات سمندروں کا (سیاہی ہوں) اور ان لاتعداد قلموں اور سیاہی سے لکھے جائیں تب بھی اللہ کے کلمات (معلومات) نہیں ختم ہوںگے۔ بے شک اللہ بہت زبردست (علم کا مالک) حکمتوں والا ہے‘‘۔     یہ معلومات الٰہیہ کی ‘‘لامتناہی‘‘ فراوانی کا اجمالی بیان ہے۔ اس کی کسی قدر تفصیل سورۂ انعام کی آیت ذیل میں بیان فرمائی ہے: ’’وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَیَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ‘‘۔                                  (الانعام:۵۹) ترجمہ:۔‘‘اور اللہ کے پاس غیب (کے خزانوں) کی کنجیاں ہیں، جن کو اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور جو کچھ بھی بر وبحر -خشکی اور تری- میں ہے سب کو وہ جانتا ہے اور (کسی بھی درخت کا) جو کوئی پتاجھڑتا ہے ا س کو بھی وہ جانتا ہے اور نہیں ہے زمین کی تاریک-آنکھوں سے اوجھل- تہوں میں کوئی بھی دانہ او رنہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز، مگر وہ سب واضح (اور مفصل) کتاب میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔     اس آیت کریمہ میں ’’کتاب مبین‘‘ -واضح اور مفصل کتاب -لوح محفوظ ہی کا دوسرا نام ہے، جو تمام کائنات کے اس علم تفصیلی اور معلوماتِ خداوندی پر محیط ہے، جس کو اس نے بقدر ضرورت ومصلحت بصورتِ کتاب منضبط کیا ہے اور اسی کتاب کا ایک حصہ قرآن مجید ہے۔’’ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘ -لوح محفوظ میں- اور’’فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ‘‘- ام کتاب میں- کی ظرفیت کا یہی مطلب ہے۔ قرآن مجید اللہ کا ازلی، ابدی اور قدیم کلام ہے     اللہ کا کلام بھی اللہ جل وعلیٰ کی ذات کی دیگر صفات کی طرح ازلی، ابدی اور قدیم ہے اور زمانی حدود وقیود -ماضی وحال ومستقبل- سے بالاتر اور وراء الوراء ہے۔ اللہ کی ذات اور جملہ صفات کی طرح اس اعلیٰ وارفع کا کلام بھی عقل انسانی کی دسترس سے قطعاً باہر ہے، نہ ہی حدوث وتجدد اور تغیر وتبدل اس میں راہ پاسکتے ہیں۔ چنانچہ اسی مذکورہ بالا آیت کریمہ کا تیسرا فقرہ ’’وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ الخ‘‘ اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ ’’حوادثِ متجدّدہ‘‘ یعنی دنیا میں نو بنو اور روز بروز پیش آنے والے واقعات وحالات -آج کل کی اصطلاح میں کہئے جدید حالات- کا بھی حق جل وعلیٰ کو روزِ ازل سے ہی علم ہے، یعنی اس کے علم کے اعتبار سے کوئی بھی چیز ’’نئی‘‘ نہیں ہے، جس کی بنا پر اس کے بنائے ہوئے قانون الٰہی میں کسی ترمیم واصلاح یا تغیر وتبدل کا سوال پیدا ہو، اسی لئے سورۃ الکہف میں ارشاد ہے: ’’وَاتْلُ مَا أُوْحِیَ إِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَداً‘‘۔                                                (الکہف:۲۷) ترجمہ:۔’’اور (اے نبی!) جو تیرے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ تیرے پاس بھیجی گئی ہے، اس کی بے دھڑک لوگوں کے سامنے) تلاوت کرو (پڑھ کر سناؤ) اس کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں اور تو اس کے سوا کوئی بھی پناہ کی جگہ نہ پائے گا‘‘۔     اس آیت کریمہ میں تو مُبَدِّل -تبدیلی کرنے والے- کی قطعی نفی کی گئی ہے اور سورۂ یونس میں ’’تبدیلی‘‘ کے امکان کی قطعی نفی کی گئی ہے، ارشاد ہے:     ’’لاَتَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اﷲِ‘‘ (یونس)یعنی’’ اللہ کی باتوں کے بدلنے کا امکان نہیں‘‘۔     اور سورۃ الفتح کی آیت کریمہ ذیل میں اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کلام اللہ -اللہ کی کسی بات یا حکم- کو بدلنا چاہتے ہیں، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ’’یُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلاَمَ اﷲِ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰالِکُمْ قَالَ اﷲُ مِنْ قَبْلُ‘‘۔  (الفتح:۱۵) ترجمہ:۔’’وہ (پیچھے رہنے والے منافق) چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام( حکم) کو بدل دیں تو (ان سے) کہہ دو: تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں چلوگے، اسی طرح تمہارے متعلق کہہ دیا ہے اللہ نے پہلے سے‘‘۔     اور تو اور خود صاحبِ الہام نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے، کسی اور کی تو مجال کیا ہے کہ اللہ کے کلام-قرآن- اور احکامِ الٰہیہ میں تغیر وتبدل اور ترمیم وتصرف کا نام لے۔ سورۂ یونس میں ارشاد ہے: ’’وَإِذَا ُتتْلٰی عَلَیْہِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لاَیَرْجُوْنَ لِقَائَ نَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ہٰذَا أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ إِنْ اتَّبِعْ إِلاَّ مَا یُوْحٰی إِلَیَّ إِنِّیْ أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ‘‘۔       (یونس:۱۵) ترجمہ۔’’اور جب ان (منکروں) کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جن کو ہم سے ملنے کا اندیشہ نہیں ہے، کہتے ہیں: ’’اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی کو بدل دو‘‘ تم کہہ دو ! میری مجال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل دوں، میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو وحی میرے پاس بھیجی گئی ہے، میں تو اگر اس کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن (روز قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘۔  قرآن میں تغیر وتبدل کرنا بہت بڑا ظلم ہے     بہرحال اللہ جل وعلیٰ کی صفات’’ علم‘‘ اور’’ قدرت‘‘ وغیرہ کی طرح ’’کلام‘‘ بھی ازلی ، ابدی اور قدیم ہے۔ اس میں تغیر وتبدل اور اصلاح وترمیم نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں، بلکہ بندوں کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔ سورۂ ’’ق‘‘ میں ارشاد ہے: ’’مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ‘‘۔                                    (ق:۲۹) ترجمہ:۔’’میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں (اپنے) بندوں کے حق میں ناانصاف مطلق نہیں ہوں‘‘۔     اس آیت کریمہ میں ’’لدیّ‘‘  -میرے ہاں- خاص طور پر قابل غور ہے، یعنی جب اللہ جل وعلیٰ کا کلام -احکام اور فیصلے سب کے سب -لامحدود علم وحکمت اور کامل قدرتِ تدبیر وتصرف یعنی انصاف پر مبنی ہیں تو ایسی صورت میں بفرضِ محال جو بھی تغیر وتبدل ، ترمیم واصلاح کی جائے گی یقینا وہ علم وحکمت کے خلاف اور بندوں کے ساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم ہوگی، اس لئے کہ اللہ جل شانہٗ کا کلمہ -فیصلہ- سچائی اور عدل وانصاف پر مبنی ہے، اس کا خلاف یقینا جھوٹ اور ظلم ہوگا، سورۂ انعام میں ارشاد ہے: ’’وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقاً وَّعَدْلاً لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔                                                                                            (الأنعام:۱۱۵) ترجمہ:۔’’تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل (وانصاف) کے اعتبار سے پورا (اور کامل) ہوچکا (اب) اس کے کلمات میں کوئی بھی تبدیلی کرنے والا نہیں (ہوسکتا) بے شک وہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے‘‘۔     بہر صورت قرآن کریم کی تصریحات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن مجید، لوح محفوظ اور ام الکتاب سے بیت المعمور-آسمانی کعبہ- کے ایک حصہ میں جس کانام بیت العزت ہے، ایک کتاب کی صورت میں اللہ جل وعلیٰ نے منتقل فرمایا، سورۂ طور میں ارشاد ہے: ’’وَالطُّوْرِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّالَہٗ مِنْ دَافِعٍ‘‘۔           (الطور:۱تا۸) ترجمہ:۔’’قسم ہے (کوہ) طور کی اور (وصلی کے) طویل وعریض ورقوں میں لکھی ہوئی کتاب کی اور سدا آباد گھر کی اور (زمین کی) بلند چھت (آسمان اول) کی اور طوفان خیز سمندر کی کہ تیرے پردرگار کا عذاب ضرور واقع ہوگا اور کوئی بھی اس کو روک نہیں سکتا‘‘۔     اس آیت کریمہ میں اللہ جل وعلیٰ نے پانچ عظیم مظاہر قدرت الٰہیہ کی قسم کھائی ہے، جن کی تشریح یہ ہے:     ’’الطور‘‘ کوہ طور ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ پردہ کے پیچھے سے کلام فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اس کلام کا تفصیلی بیان متعدد سورتوں میں مفصل مذکور ہے۔ اسی کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست ’’رَبِّ أَرِنِیْ أَنْظُرْ إِلَیْکَ‘‘-اے میرے رب! تو خود کو مجھے دکھلادے ،میں تیری طرف دیکھوں گا- کے جواب میں حق جل وعلیٰ نے رؤیت (دیدار) کے بجائے اپنی ایک تجلی- جلوہ- کا اسی کوہِ طور پر اظہارفرمایا ہے، جس کے نتیجہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہوکر گر پڑے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مشتاقانہ اصرار سے توبہ کی ہے، تفصیل کے لئے سورۂ اعراف ملاحظہ فرمایئے۔اللہ جل وعلیٰ کی رؤیت کی طرح اُس سے کلام بھی براہِ راست اوررودرروکسی مادی مخلوق کے لئے ناقابل برداشت ہے، چنانچہ سورۂ حشر کے رکوع: ۳ میں ارشاد ہے: ’’لَوْأَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اﷲِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘۔               (الحشر:۲۱) ترجمہ:۔’’اگر (بالفرض) ہم اس قرآن کو پہاڑ پر اتاردیتے توتو دیکھ لیتا کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ جاتا اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ (حقائق الٰہیہ کو) سوچیں اور سمجھیں‘‘۔     اور یہی ہے اس قرآن کا وہ لاہوتی ثقل- گرانی اور شدت- جس سے اللہ جل وعلیٰ نے نزولِ قرآن شروع ہونے کے بعد کی دوسری ہی سورت سورۂ مزمل میں اپنے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی اور آپ ا کی امت کو بھی آگاہ اور خبردار کیا ہے کہ وہ نزول قرآن کے وقت قرآن کے خارق العادۃ -خلاف عادت اور غیر معمولی- حال سے بے حال کردینے والی گرانی سے گھبرانہ جائیں یا اس کیفیت کو کوئی مرض- مرگی کا دورہ، وغیرہ- نہ سمجھ بیٹھیں، ارشاد ہے: ’’إِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیلْاً‘‘۔                                                        (المزمل:۵) ترجمہ:۔’’بے شک ہم تجھ پر (فرشتہ کے واسطے سے) ایک بھاری کلام القاء کریں گے‘‘۔     ’’کتاب مسطور‘‘ قرآن مجید ہے جو وصلی- باریک جھلی- کے کشادہ اور طویل وعریض اوراق میں لکھا گیا ہے۔     ’’البیت المعمور‘‘ -آباد گھر- وہ آسمانی کعبہ ہے جو زمینی کعبہ کی بالکل محاذات میں ہے اور ہروقت طواف کرنے والے فرشتوں سے بھراہوا اور آباد رہتا ہے۔     ’’السقف المرفوع‘‘ -بلند چھت- پہلا آسمان ہے جو ہر سمت سے اس روئے زمین کی چھت کے مانند ہے، جیساکہ ہم عرض کر چکے ہیں۔ روایات اور احادیث سے اس اجمال کی تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ سقفِ مرفوع -آسمان اول- پر ہی بیت المعمور ہے اور اسی کے کسی حصہ میں یا اس کے آس پاس بیت العزت ہے، جس میں پورا کا پورا لکھا ہوا قرآن رکھا گیا ہے۔ ’’ان لکھنے والوں کا‘‘ اور اس ’’قلم الٰہی‘‘ کا جس سے ام الکتاب- لوح محفوظ- اور قرآن لکھا گیا ہے اور ’’لکھنے‘‘ کا ذکر سورۂ قلم میں اور سورۂ عبس میں موجود ہے۔ سورۃ القلم میں ارشاد ہے: ’’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘۔         (القلم:۱،۲) ترجمہ:۔’’قسم ہے قلم کی اور (فرشتوں کے) لکھنے کی کہ تو اپنے رب کے فضل وانعام سے پاگل ہرگز نہیں ہے‘‘۔     سورۂ عبس میں ارشاد ہے: ’’کَلاَّ إِنَّہَا تَذْکِــرَۃٌ فَمَنْ شَائَ ذَکَرَہٗ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ بِأَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ‘‘۔                             (عبس:۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶) ترجمہ:۔’’ایسا نہیں ہے (کہ تم لوگوں کے پیچھے پڑو) بے شک یہ تو ایک نصیحت (کی کتاب) ہے، پس جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرلے، لائق احترام بلند وبرتر پاک پاکیزہ صحیفوں میں (لکھی ہوئی) بڑے رتبے والے نیک طینت لکھنے والوں کے ہاتھوں سے‘‘۔     ’’صحف مکرمۃ‘‘ سے مراد قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتیں ہیں۔اسی طرح سورۃ البینۃ میں حسبِ ذیل الفاظ میں خبر دی ہے: ’’رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ یَتْلُوْا صُحُفاً مُّطَہَّرَۃً فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ‘‘۔                (البینۃ:۲،۳) ترجمہ:۔’’اللہ کا رسول جو پڑھ کر سناتا ہے، (باطل سے) پاک وپاکیزہ صحیفے جن میں محکم لکھے ہوئے مقیاس ہیں‘‘۔     اس لئے کہ ہرسورت ایک مستقل صحیفہ -آسمانی کتاب- ہے اور یہ تمام صحیفے -سورتیں- خدائے پاک وبرتر کا کلام ہونے کی بنا پر ’’لائق احترام‘‘ اور رفعتِ مکان کے اعتبار سے ’’بلند وبرتر‘‘ اور باطل کی آمیزش سے ’’پاک وپاکیزہ‘‘ ہیں۔ ان کے لکھنے والے فرشتے بھی ملکوتی اور نوری مخلوق ہونے کی بنا پر ’’بڑے رتبے والے‘‘ اور ’’نیک طینت‘‘ ہیں، ان سے ذرہ برابر حکم الٰہی کی تعمیل لکھنے میں غلطی یا کوتاہی کا امکان ہے ہی نہیں۔ آسمان پر پورا قرآن کس تاریخ کو اترا؟     قرآن مجید حق جل وعلیٰ نے کتابی شکل میں لوح محفوظ سے آسمان اول پر ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب لیلۃ القدر میں اتارا ہے، ارشاد ہے: ۱…’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘۔          (البقرۃ:۱۸۵) ترجمہ:۔’’رمضان کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کی ہدایت کے لئے‘‘۔ ۲…’’إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘‘۔                                                         (القدر:۱)     ترجمہ:۔’’ بے شک ہم ہی نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا‘‘۔ ۳:…’’إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ‘‘۔                       (الدخان:۳) ترجمہ:۔’’ بے شک ہم ہی نے اس (قرآن) کو اتارا ہے ایک برکت والی رات (لیلۃ القدر) میں، اس لئے کہ ہم (اپنے بندوں کو) خبردار کردینے والے ہیں‘‘۔ محققین مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے لیلۃ القدر ہی مراد ہے، جیساکہ سورۂ لیلۃ القدر میں تصریح ہے۔                                        (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین